Please Wait
23624
١- رومانٹیک عشق: جب کوئی شخص ، کسی شخص ( غیر جنسی طورپر ) کو دوسروں سے زیاده چاهتا هو-
٢- شهوانی عشق: یعنی جب انسان کسی شخص کے بارے میں شدید جنسی محبت پیدا کر ے-
٣- وابستگی : جب ایک انسان احساس وابستگی کے لحاظ سے کسی شخص کے ساتھـ زندگی گزارنا چاهتا هے اور خاندان تشکیل دینا چاهتا هے – اس قسم کا عشق زیاده تر عمر رسیده انسانوں میں پایاجاتا هے جنهوں نے سالها سال قبل ازدواج کیا هو-
کیا کوئی جانتا هے که ان میں سے کونسا عشق اسلام کی نظر میں صحیح هے اور کیا عشق کی مذکوره پهلی دوقسمیں خداوند متعال کی طرف سے صرف امتحان هے؟
فلاسفه اور عارفوں نے عشق کو گوناگون قسموں میں تقسیم کیا هے – لیکن ایک کلی تقسیم بندی میں کها گیا هے که عشق کی دوقسمیں هیں :
١- حقیقی عشق : یه وهی خداوند متعال اور اس کی صفات و افعال کا عشق هے-
٢- مجازی عشق : اس عشق کا دامن وسیع هے که کها جاسکتا هے که : مجازی عشق انسان کا انسان کے ساتھـ عشق تک محدود نهیں هے ، بلکه خداوند متعال کی ذات کے علاوه هر قسم کے معشوق سے عشق کر نے کا نام مجاز هے-
یه سوال که عشق کا حکم کیا هے؟ اس سلسله میں قابل بیان چیز یه هے که : عشق اگر حقیقی قسم کا او اس کے مجازی اقسام میں سے بعض ، جیسے، عقلانی عشق اور روحانی عشق هو، تو نه صرف اس کی مذمت نهیں کی گئی هے، بلکه ممکن هے کمالات میں شمار هو جائے – لیکن اگر اس کی پست ترین قسم یعنی حیوانی عشق هو تو، عشق کی یه قسم اگر عفت و تقوی کے همراه هو اورعفت کے حدود سے نه گزرے ، تو اس میں بھی کوئی حرج نهیں هے-
اس قسم کا عشق ناپائدار هو تا هے اور جلدی هی وجود میں آنے کے بعد نابود هوتا هے ، یه عشق قابل اعتماد وسفارش نهیں هے – یه فضلیت کو ضرر پهنچاتا هے- انسان صرف عفت و تقوی کی مدد سے اور اس عشق کے سامنے هتهیار نه ڈال کر، اس قسم کے عشق سے استفاده کر سکتا هے- یعنی ایک طرف سے فراق و عدم دستیابی اور دوسری طرف سے پاکی و عفت ، سوز وگداز، دباٶ، سختی جو عاشق کی روح پر رونما هوتی هے، کے نتیجه میں اس کے نیک آثار اور فوائد حاصل هوتے هیں-
عرفا اس سلسله میں کهتے هیں : مجازی عشق ، حقیقی عشق میں ، یعنی ذات باری تعالی کے عشق میں تبدیل هوتا هے اور انسان اس سے استفاده کر سکتا هے- اس کے علاوه اس کے کچھـ آثار و فوائد بھی هیں : جیسے: عشق، انسان کو توانائی ، قدرت اور چالاکی عطا کرتا هے ، ترس کو انسان کے وجود سے دور کرتا هے اور انسان کو شجاعت و جرات بخشتاهے – عشق، بخیل انسان کو سخی بنا دیتا هے ، عشق نفس کو مکمل کرتا هے اور انسان کی باطنی اور حیرت انگیز استعدادوں کو ظاهر کرتا هے-
عشق تصفیه کرنے والا هے اور انسان کی روح کو آلود گیوں سے پاک کر تا هے – اس لئے عشق اگر حقیقی هو تو قطعاً پسندیده هے اور اس کی مجازی قسم اگر عفت وتقوی کے همراه هو، تو قابل مذ مت نهیں هے-
لفظ" عشق" کی عرفانی اور فلسفی لغت میں یوں تعریف کی گئی هے:
عشق، کسی چیز کی نسبت حد سے زیاده شوق اور شدید دلچسپی ، حد سے زیاده محبت اور دوستی کے معنی میں هے، یه لفظ "عشقه" کا مشتق هے اور یه ایک گھاس هے جو هر درخت سے جب چپکتی هے تو اسے خشک کر ڈالتی هے اور خود سرسبز باقی رهتی هے – پس هر جسم پر لگنے والا عشق، محبوب کر خشک کرتا هے اور اسے محو کر دیتا هے اور اس جسم کو کمزور کر کے اس کی روح ودل کو منور کر دیتا هے[1]-
عشق و محبت ، عارف انسان کی ایک اهم اور بلند ترین حالت هے اور یه عرفانی اصول کی ایک اهم بنیاد شمار هوتی هے – عرفان کے مطابق ، عشق، ایک عطیه الهی اور خداوند متعال کی عنایت هے[2]، نه انسان کا کوئی ماحصل ، اگر چه عشق کو حاصل کر نے کے مقد مات اکتسابی هو سکتے هیں –
شیخ الرئیس ابن سینا، عشق کو تمام مخلوقات کی تخلیق کی علت جانتے هیں اور اعتقاد رکھتے هیں که، عشق ایک عطیه هے جو صرف انسان سے مخصوص نهیں هے بلکه تمام مخلوقات میں کسی نه کسی طرح پایا جاتا هے[3]-
ملاصدرا بهی عشق کو ایک ایسی حقیقت جانتے هیں جو تمام مخلوقات میں پائی جاتی هے اور اعتقاد رکهتا هے کوئی ایسی مخلوق نهیں هے جوعشق کے نور سے بهره مند نه هو[4]-
عرفا اور فلاسفه نے عشق کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا هے- لیکن مجموعی طور پر ایک کلی تقسیم بندی کے مطابق عشق کو مندرجه ذیل دو حصوں میں تقسیم کیاگیا هے:
الف : حقیقی عشق: حقیقی عشق، وهی خداوند متعال ، اس کی صفات اور افعال کا عشق هے- خدا کا خالص اور حقیقی عشق، اس وقت عشق محسوب هو تا هے، جب یه عشق بهشت کی لالچ اور جهنم کے خوف سے نه هو، بلکه عشق صرف خداوند متعال کے جمال و کمال کے تصور میں هو- خداوند متعال سے کمال عشق یه هے که تمام دل اس سے متعلق بن جائے اور انسان کی جان غیر خدا سے مکمل طورپر پاک هو جائے-
ب: مجازی عشق: مجازی عشق کا دامن بهت وسیع هے ، کها جاسکتا هے که: مجازی عشق انسان کا انسان سے عشق تک محدود نهیں هے ، بلکه خداوند متعال کی ذات کے علاوه هرچیز سے عشق کر نا، مجازی عشق کهلاتا هے- اس لئے مجازی عشق کے اقسام معشوق کے انواع پر منحصر هے – جیسے : قدرتی مناظر سے انسان کا عشق، اپنے بال بچوں سے عشق، مال ودولت سے عشق، حسن وجمال سے عشق، شهرت و محبوبیت سے عشق--- وغیره- پس مجازی عشق انسانی عشق کی اقسام میں سے هے ، یعنی عاشق همیشه انسان هے ، لیکن معشوق کا هر موقع پر انسان کا هونا ضروری نهیں هے-
یهاں پر هم ذیل میں مجازی عشق کی اقسام کا ایک خلاصه بیان کرتے هیں :
١- عقلی(عقلانی) عشق: فلاسفه کی اصطلاح میں عقلی عشق، وه عشق هے، جس کا مبداء ، سرچشمه اور توجه خداوند متعال کی ذات اقدس اور اس کی بار گاه کے مخصوص مقربین هو- عقلی عشق عالم ملکوت میں جبروت کے مشاهده کے مقررات کے تحت عقل کل کے نفس ناطقه کے جوار میں پیدا هوتا هے – عقلی عشق کمال اور معنوی حسن سے متعلق هے ( اولیائے خدا اور ان کے فضا ئل جو عالم جبروت اور اس سے بالاتر متصل هوتے هیں ) اس عشق کا سر چشمه کمال مطلق اور اس کی تجلیات کی زیبائی هوتا هے اور اس کی جگه قلب ودل هوتی هے – یه عشق اولیائے خدا اور اهل معرفت سے مربوط هوتا هے اور لافانی هے[5]-
٢- روحانی عشق : یه عشق مطلق زیبائی (من جمله مصنوعی و ظاهری طور پر دیکهنے اور سننے ) سے مربوط هے اور اس کا سرچشمه کمال و زیبائی سے محبت کر ناهے جو عقلانی لذت کے ساتھـ هوتا هے- یهاں پر عاشق معشوق کی خوبصورتی اور کمال کی وجه سےاسے چاهتا هے ، نه اپنے فائدے کے لئے – اس قسم کا عشق بھی خواص اور خصوصی افراد سے مربوط هوتا هے-
٣- فطری اور نفسانی عشق: یه عشق محبوب کی ظاهری صورت کی زیبائی ( شهوانی پهلو کے قطع نظر) اور اس زیبائی کے حسن تر کیب و تالیف سے متعلق هو تا هے –
شیخ الرئیس، ابن سینا کهتے هیں : " یه عشق، انسان سے مخصوص هے اور حیوانات میں نهیں پایا جاتا هے-" وه کهتے هیں :" ظاهری زیبا ئیوں، من جمله خوبصورتی کی طرف نفس کا رجحان دو مختلف جهات سے قابل حصول هے ، اول: حیوانی طریقه سے ، دوم: عقلانی طریقه سے- فطری وعقلانی (نفسانی) عشق کے بارے میں شیخ الرئیس کهتے هیں : " عاشق اپنے معشوق کو، صرف عقلی اعتبار سے اس کے نظام کے اعتدال کے موزون هو نے کے لحاظ سے اس کی خوبصورتی کی بنا پر محبت کرتا هے اور عاشق کا یه طریقه ، جو حیوانیت سے پاک هے ، بلندی اور ترقی کا ایک درجه شمار هو تا هے [6]–"اس قسم کے عشق کا سر چشمه انسان کی خوبصورت فطرت ودوستی هے اور یه انسان کے نفس و جذبات کے قوه ادراک سے مربوط هے – اس قسم کے عشق میں ، عاشق کے لئے معشوق کی ظاهری شکل وصورت مطلوب هو تی هے-
نراقی، اپنی کتاب "معراج السعادت" میں کهتے هیں : " عشق و محبت ، اسباب میں سے کسی سبب کے بغیر حاصل نهیں هوتی هے اور چونکه (عشق ومحبت کے لئے) مختلف اور گوناگون اسباب هیں ، اس لئے عشق و محبت بھی مختلف قسموں میں تقسیم هوتی هے": ان کی نظر میں محبت کی قسموں میں سے ایک، حسن و جمال کے چهروں سے محبت کر نا هے –وه کهتے هیں : یه خیال نه کر نا که خوبصورت چهروں سے محبت کر نا صرف جنسی لذتوں کے لئے قابل تصور هے، بلکه جمال وزیبائی کے بارے میں نفس کا ادراک ، اس کی ذات کی وجه سے اور دوسرے مسائل کو مد نظر رکهے بغیر ایک روحانی لذت هے جو خودبخود محبوب هے- اسی لئے انسان سبزی اور بهتے پانی سے محبت کرتا هے، نه اس لئے که سبزی کو کهائے اور پانی کو پی لے ، یاد یکهنے کے بعد لطف اندوز هونے کے علاوه کوئی اور فائده اٹهائے- وه کهتے هیں : " پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم سبزی اور پانی کو دیکهتے وقت نشاط ومسرت کا احساس کرتے تھے – هر فطرت اور قلب سلیم گل وغنچه اور لاله اور شگوفه کو دیکھـ کر لذت کا احساس کرتا هے اور انهیں پسند کرتا هے ، بلکه بعض اوقات اپنے غم واندوه کو ان کے ذریعه تسلّی دیتا هے[7]-"
٤- حیوانی اور فطری عشق : حیوانی (پست)عشق، عفیف وپاک عشق کے مقابل میں هے اور اس کا اصلی مقصد شهوانی خواهشات کو پورا کرنا هوتا هے[8]- اس قسم کے عشق کے بارے میں شیخ الرئیس ابن سینا کهتے هیں : " اس عشق میں که خوبصورتی کو حیوانی(جنسی) لذت کے لئے محبت کرتے هوں، یه عشق نفس ناطقه کے لئے مضر هے ، کیونکه نفس ناطقه کا اقتضا کلیات کو مد نظر رکهتا هے اور کلیات کی شان بھی ابدیت اور حاوی هو نا هے – لهذا اس قسم کا عشق قابل مذمت اور سرزنش هے[9]-"
اس قسم کے عشق کے بارے میں استاد شهید مطهری کهتے هیں :" اس قسم کا عشق فوری وجود میں آتا اور فوری نابود هوتا هے، یه قابل اعتماد و سفارش نهیں هے- اس قسم کا عشق فضیلت کو ختم کرتا هے- انسان صرف عفت، تقوی اور اس عشق کے سامنے تسلیم نه هونے کی صورت میں اس سے استفاده کرسکتا هے[10]- " یعنی ایک طرف سے فراق وعدم دستیابی اور دوسری طرف سے پاکی وعفت ، سوز وگداز، دباٶ، سختی، جوعاشق کی روح پر رونما هوتی هے ، کے نتیجه میں اس کے نیک اور سود مند آثار اورنتائج حاصل هوتے هیں-
اس سلسله میں عرفا کهتے هیں :" مجازی عشق، حقیقی عشق میں ، یعنی ذات باری تعالے کے عشق میں تبدیل هوتا هے[11]"حیوانی عشق، مختلف لذتوں،جیسے: اشیائے خوردنی اور شادی بیاه سے مربوط هے- اس قسم کے عشق کا سر چشمه حیوانی جبلتیںاور رجحانات هے اورانسان کے نفس اماره سے مربوط هے-اس عشق میں ، عاشق اپنے محبوب کی لذت اور اپنے فائده کے لئے محبت کرتا هے – اس قسم کے عشق کے حکم کے بارے میں فلاسفه کے درمیان اختلاف پایاجاتا هے که کیا یه عشق اچها اور قابل ستائش هے یا برا اور نا پسند هے؟ چنانچه بعض نے اس کی مذمت کی هے اور بعض نے اسے اچها جاناهے – ملاصدرا کهتے هیں: " اس قسم کا عشق که جس کا نتیجه خوبصورتوں سے لذت حاصل کر نا هے اور ان کے بارے میں حد سے زیاده محبت هے ، اکثر اقوام میں پایاجاتا هے اور الهی حالات کے تحت خاص مصلحتوں اور حکم کا حامل هوتا هے اور اس لحاظ سے نیک اور قابل ستائش هے- اس عشق کا سر چشمه اکثر فنون لطیفه هے-" وه کهتے هیں : " خوبصورتوں کے عشق کا سرچشمه نکاح، ازدواج اور بالاخر بقائے نوع بشر هے-"
اس بناپر،فطری وحیوانی عشق، جوعشق کا پست ترین درجه هےاور اس کا اصلی مقصد شهوانی خواهشات کو پوراکرناهے، اگرچه بعض عارفوں اور فلاسفه کی طرف سے اس کی مذمت وسرزنش کی گئی هے ، لیکن اگر یه عشق عفت وتقوی کے همراه هو،تو انسان اس سے استفاده کرسکتا هے اور اگر شرعی حدود سے تجاوز نه کرے تو یه سود مند هوسکتا هے ، کیونکه ملاصدرا کے مطابق، نکاح کا سر چشمه نوع بشر کی بقا اور تولید نسل هے-
ملاصدرا ان فلاسفروں اور عرفا میں سے هیں جو عشق کو تین حصوں میں تقسیم کرتے هیں اور کهتے هیں: عشق یا حقیقی هے یا مجازی هے- حقیقی عشق خدا اور اس کے صفات اور افعال کی محبت هے اور مجازی عشق یا نفسانی هے یا حیوانی-
وه اعتقاد رکهتے هیں که ،تمام مخلوقات عشق حقیقی کے لحاظ سے حق کے عاشق هیں اور اس سے ملحق هو نے کے مشتاق هیں اور خداوند متعال نے تمام مخلوقات عالم کی جبلّت میں ایک خاص قسم کا عشق قراردیا هے[12]-
عشق کے عام آثار :
حقیقی عشق کےبهت سے بلند آثار وبرکات هیں جن کا مجازی عشق کے آثار و فوائد سے کافی فرق هے، لیکن عشق کی مختلف قسموں میں بعض آثارو خصوصیتیں مشترک هیں، یعنی عشق، جس قسم کابھی هو ، حقیقی هو یا مجازی اور مجازی بھی، مجازی نفسانی هو یا مجازی حیوانی ، اور قطع نظر اس کے که معشوق کیا اور کون هے، اس میں ایک قسم کے آثار ونتائج موجود هوتے هیں ، جوعشق کی مذکوره تمام قسموں میں مشترک هیں ،جیسے :
١- عاشق سے خودبینی ، خود پرستی اور غرور کو دور کر نا-
٢- توانائی ، طاقت اور چالاکی پیدا کر نا-
٣- معشوق کے عیوب سے چشم پوشی کر نا اور انهیں زیبا دیکهنا-
٤- عاشق کے وجود سے ترس کو دور کر نا اور اس میں شجاعت اور جرات پیدا کر نا-
٥- بخیل انسان میں سخاوت اور بذل و بخشش کا جذب پیدا کر نا-
٦- عشق کے ذریعه نفس کو مکمل کر نا اور حیرت انگیز حد تک باطنی اور اندرونی استعدادوں کو اجاگر کر نا-
نتیجه :
مسئله عشق کے سلسله میں جو کچھـ فلاسفه اور عارفوں کے بیانات سے معلوم هو تا هے ، وه یه هے که عاشق اگر حقیقی اور بعض مجازی اقسام میں سے هو، جیسے: عقلانی عشق اور روحانی عشق تو نه صرف قابل مذمت نهیں هے، بلکه ممکن هے کمال شمار هو جائے – لیکن اگر عشق حیوانی قسم کا هو ، جو عشق کی پست ترین قسم هے ، اس قسم کا عشق بھی اگر عفت و تقوی کے ساتھـ هو اور عفت کے حدود سے خارج نه هو جائے تو بھی اس میں کوئی حرج نهیں هے -
[1] - التها نوی محمد اعلی بن علی، کشاف اصطلاحات الغنون ،ج٢ص ١٠١٢; سجادی ،سید جعفر،فرهنگ اصطلاحات وتعبیرات عرفانی، وازه عشق; همو،فرهنگ علوم عقلی،ص٣٥٧-
[2] - عطار نیشابوری ،تذکرۃ الاولیاء ،ص٣٢٨-
[3] - ابن سینا ،الرسائل ،ص٣٧٥-
[4] - ملاصدرا ،الحکمۃ المتعالیه ،ج٧،ص١٤٩-
[5] - رحیمیان ،سعید ،حب ومقام محبت در حکمت وعرفان نظری ،ص١٥٢-
[6] - ابنسینا ،رساله عشق، ،نقل از حب ومقام محبت در حکمت وعرفان نظری ،ص١٣٩و ١٤٠-
[7] - نراقی ، ملااحمد، معراج السعادۃ ،ص٥٢٩-
[8] - سجادی ،سید جعفر ،فرهنگ علوم عقلی ،ص١٣٩- ١٤٠-
[9] - ابنسینا ،رساله عشق، نقل از حب ومقم و محبت در حکمت وعر فان نظری ،ص١٤٠-و١٤١-
[10] - مطهری ،مرتضی ، مجموعه آثار،ج١٦- ،ص٢٥١-
[11] - اۃصآً-
[12] - سجادی، سید جعفر ،مصطلحات فلسفی صدرالدین شیرازی ،ص١٥٣-١٥٥-