Please Wait
11369
هردین میں اس کی معنویت کی قدر ومنزلت کے معیار کا براه راست رابطه خود اس دین کی قدر ومنزلت اور اعتبار سے هوتا هے- عیسائیت کی دینی کتابوں میں خلاف عقل تعلیمات پائی جاتی هیں ، یهاں تک که خود عیسائی بهی اس کا اعتراف کرتے هیں – جو معنویت اس قسم کی کتابوں سے نشات پاتی هو وه گمراهیوں پر مشتمل هوتی هے – اسلام اور عیسائیت کی معنویت میں یه بنیادی فرق هے ، یعنی معنویت اس کی سنت کے معنی میں ، عیسائیت کی کتابوں کی قدر وقیمت کے پیش نظر قابل قبول نهیں هے بلکه عقل کے خلاف بهی هے اور یه معنویت کمال کے طالب کو منزل مقصود تک نهیں پهنچا سکتی هے – دوسری جانب سے عصر حاضر کی مغربی تهذیب کی معنویت ، وحی کے ساتھـ اس قسم کے کمزور رابطه سے بهی محروم هے- لیکن اسلام میں معنویت کا سر چشمه وحی کی تعلیمات هیں- اسلامی تهذیب میں اس طرح نهیں هے که یه کها جائے که آپ کی زندگی کا ایک حصه مادی هے اور ایک حصه معنوی هے بلکه زندگی کے تمام ابعاد ، ازدواج سے لے کر کار وروز گار اور تعلیم وتر بیت حتی تفریح اور آرام کر نے تک اگر انبیاء علیهم السلام کے توسط سے لائی گئی زندگی کے اصلی معنی سے مرتبط هوتو سب معنویت کے مالک بن سکتے هیں-
معنویت ،معنوی کے مصدر اور معنوی هو نے کے معنی میں هے- دهخدا کی لغت میں معنوی کے یوں معنی کئےگئے هیں : حقیقی ، سچ اصلی،ذاتی، مطلق، باطنی وروحانی- وه معنی جوصرف دل کے ذریعه پهچانے جاتے هیں اور زبان کا اس میں مجال نهیں هے[1]- بعض اوقات کها جاتا هے- معنویت کی اصطلاح کا سر چشمه معنی هے، جو ظاهری حس کے مقابله میں ایک میٹا فیزکس کا مفهوم هے، جو ظاهری حقیقت کے مقابلے میں ذهنی وجود کی ایک حقیقت هے- اس ساده زبان شناسی کی بناپر معنویت کی تعبیر کو روح سے منسوب جاناجاسکتا هے که سنتی لحاظ سے بهی اسے باطنی حقیقت کے عنوان سے یاد کیا جاتا هے- البته توجه کرنی چاهئے که یه تعریف معنویت اور روحانیت کے درمیان بنیادی فرق پر مبنی هے اور اس کا اصلی سر چشمه حقیقت میں اس مسئله سے مربوط هے که حقیقت کی چند تهیں هوتی هیں اور اس کے دو پهلو ، یعنی ظاهری و باطنی پهلوهیں که دوسرے پهلو ( روحانی پهلو) کے متعدد مراتب هیں ، یهاں تک که سر انجام اصلی حقیقت کو پایا جاتا هے[2]-
بهر حال چونکه لفظ معنویت مختلف صورتوں میں استعمال هو تا هے، اس لئے اس کی تعریف مشکل هے – عیسائیت میں معنویت ایک معروف اصطلاح هے، جو روح القدس میں زندگی کے محقق هو نے یا مرید وشاگرد کے محقق هو نے کے نظریه پر مبنی هے!ایسا لگتا هے که آج کل معنویت کے استفاده سے دو مطلب ذهن میں پیدا هوتے هیں : ایک طرف سے یه لفظ روحانیت اور تقدس کی طرف اشاره کرتا هے، تو دوسری طرف معنی بخشنے خاص کر زندگی کو معنی بخشنے کی طرف اشاره کرتا هے[3]-
واضح هے که اس قسم کی معنویت ، انسان کی عالم هستی کے بارے اعتقاد وباور کی ایک مستقل حقیقت نهیں هے – اس لحاظ سے اسلام اور عیسائیت کے درمیان معنویت کا موازنه ، ان دو ادیان کے تصور کائنات اور آئیڈ یا لوجی کے درمیان موازنه پر منحصر هے ، جس کا کهاکه یه دو ادیان اپنے پیرٶں کے سامنے کهینچتےهیں-
دوسرے الفاظ میں ،هر دین میں اس کی معنویت کی قدر وقیمت اور معیار کا ، خود اس دین کی قدروقیمت اور معیار کے در میان ایک براه راست رابطه هے – اس لئے ابتداء میں ضروری هے که ان دو ادیان کی تعلیمات کا آپس میں موازنه کر کے ان کی مقدس کتابوں کے در میان بهی موازنه کیا جائے تاکه اس موازنه کی روشنی میں ان کی معنویتوں کے درمیان بھی فرق معلوم هو جائے-
" اسلامی سنت میں معنویت ، دین اسلام کے گوهر اور باطن کو بیان کر نے کے لئے ایک لفظ هے که اس کی تاریخ پیدائش کو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے قلب مبارک پر قرآن مجید کے نازل هو نے کے ابتدائی لمحات بیان کی جاسکتی هے-
قرآن مجید، نازل هو نے کے وقت سے آج تک ، اپنے مخاطبین کی عقل وقلب کے لئے معنویت عطا کر نے کا اصلی منبع و مرجع رها هے – قرآن مجید میں روحانیت و تقدس کے معنی میں بهی معنویت هے اور مسلمانوں کی زندگی کو معنی اور معنویت بخشنے کے معنی میں بهی معنویت هے[4]- اور یه اس حالت میں هے که عیسائیوں کی مقدس کتاب یعنی عهد قدیم (تورات) وعهد جدید (انجیل) جو مجموعاً ٧٣ کتابوں پر مشتمل هیں ، پوری تاریخ میں قابل توجه تحریفات سے دو چار هوئی هے اور خلاف عقل مسائل اور تعلیمات سے بهری هے- انجیل کی سند اس کے محتوی کے مانند متزلزل اور فاقد اعتبار هے- عیسائی خود چار انجیلوں کے قائل هیں ، جنهیں حواریوں نے حضرت عیسی علیه السلام کے سالها سال بعد تالیف کیا هے- ٹامس میشل جو خود ایک عیسائی پادری هیں اس سلسله لکهتے هیں :
" ابتدائی برسوں میں ، عیسائی یهودیوں کی کتاب کے علاوه اپنی کوئی مقدس کتاب نهیں رکهتے تهے، رفته رفته پولس اور انجیلوں کے چار مٶلفین اور بطرس ویهودا اور دوسرے افراد، حضرت عیسی(ع) کے توسط سے خدا کے بهیجے هوئے ان کے طریقه ایمان کو تالیف کر نے میں مشغول هوئے[5]-" وه ایک دوسری جگه پر اعتراف کرتا هے که : " میں عهد جدید (انجیل) کے تمام مٶلفین کو نهیں جانتا هوں[6]" - اور اپنی کتاب" کلام مسیحی" ،جس میں دین مسحیت کی معرفی اور اس کی تبلیغ کے بارے میں لکهتا هے، اور اس میں قرآن وکتاب مقدس (انجیل) کا مسلمانوں اور عیسائیوں کی نظر میں یوں موازنه کرتا هے :
مسیحیت | اسلام |
عهد عتیق وعهد جدید(تورات و انجیل) | قرآن |
مقدس کتابوں کا ایک مجموعه | ایک مقدس کتاب |
عبرانی، آرامی اور یونانی زبانوں میں | عربی زبان میں |
ان کا مٶلف خدا اور بشر هے | اس کا مٶلف خداهے |
بشری مٶلف ، الهی پیغام کو اپنے خاص طریقه اور تفکر کے مطابق نقل کرتا هے- | پیغمبر اسلام نے، خداسے جوکچھـ سناهےاسےنقل کرتےهیں |
کئی صدیوں کے دوران فراهم هوئی هیںـ | ٢٣ سال کے دوران وحی هوئی هے |
الهی، ازلی اور وسیع پیغام هے | الهی ازلی اور وسیع پیغام هے |
بهرحال ایسا لگتا هے که انجیل کا اعتبار اور وحی الهی کے هونے کے سلسله میں اس کا استناد موجوده تورات سے بهی ضعیف تر هے، کیونکه اس کا چار انجیلوں میں تقسیم هونا ، باوجودیکه اصل انجیل ایک سے زیاده نهیں تهی ، انسان کو اس کے بارے میں زیاده شک وشبهه میں ڈالتا هے ، کلیسا نے اختلاف کے دامن کو کم کر نے کے لئے ، تقریباً اسّی انجیلوں میں سے صرف چار کتابوں کو قبول کیا هے جو متیّ ، یوحناّ، مرقس اور لوقا کی انجیلوں پر مشتمل هیں[7]-
لیکن تمام دانشور قبول کرتے هیں که متن آسمانی کا حامل دین، صرف دین اسلام هے – فرض کریں که هم قرآن مجید کے بجائے ، تاریخ طبری یا سیره ابن هشام جیسی کتابو، کے مالک هوتے، تو اس وقت هماری حالت بهی عیسائیوں کے مانند هوتی- اس فرق کے ساتھـ که ابن هشام ایک حقیقت کی رپورٹ پیش کرتا هے، لیکن ان کی انجیل کا مصنف ، اپنے مکا شفات کی رپورٹ پیش کرتا هے[8]-
دوسری جانب سے عیسائی تثلیث کے قائل هیں اور خداوند متعال کے بارے میں اقانیم ثلاثه کے قائل هیں اور حضرت عیسی علیه السلام کو روئے زمین پر خداوند متعال کا تجلّی وتجسم جانتے هیں – یه مسئله عقل کے اس قدر خلاف هے که بعض عیسائی دانشوروں نے بهی اس کے خلاف عقل هو نے کا اعتراف کیا هے، یهاں تک که بعض عیسائی علماء کهتے هیں : " تجسم کا قضیه ، ایک ایسا قضیه هے جوعقل ، منطق، حس ماده اور فلسفی اصطلاحات سے تناقض رکهتا هے، لیکن هم تصدیق کرتے هیں اور ایمان رکهتے هیں که ممکن هے اگر چه معقول نه هو[9]-
گناه کا ذاتی هونے کا اعتقاد اور " فداء" کی تعلیم ، عیسائیت کے باطل اور خرافات پر مبنی اعتقادات کا ایک دوسرا روپ هے- " اس اعتقاد کے مطابق ، انسانی نسل آدم کےگناهوں کی وارث هے اور انسان نه صرف اپنے برے اعمال کی وجه سے بلکه صرف اس لئے که آدم کی اولاد هیں ،ذاتی طور پر گناهگار دنیا میں آتے هیں اور ذاتی گناه کا مراد یه هے که انسان خداسے ڈرے بغیراور اس پر بهروسه کئے بغیر شهوانی خواهشا ت کے ساتھـ پیدا هوتے هیں [10]-
اس سلسله میں ٹامس آکونیاس یوں کهتا هے :" جس گناه کے ساتھـ هم پیدا هوئےهیں ،وه هم پر تین اثرات ڈالتا هے : اول هماری روح کو آلوده کرتا هے ، هم خداوند متعال سے بهاگنے کا فطری رجحان رکهتے هیں اور کوشش کرتے هیں تاکه که خلاف عقل طریقوں سے قانون الهی سے امتناع کریں – دوسرایه که هم شیطان کے اسیر کے طورپر پیداهوئے هیں [11]---"
یه اس حالت میں هے که اسلام کے نظریه کے مطابق انسان ذاتی طور پر پاک اور فطرت الهی پر پیداهوا هے ، اس کی خلقت اس طرح هے که وه خدا کی معرفت اور اس کی پرستش کا رجحان رکهتا هے- انسان ، اپنی فطرت الهی کی مدد سے اور انبیاء وکتب آسمانی کی هدایت سے وه توانائی حاصل کرتے هیں که جس سے وه هدایت الهی کی راه کی تشخیص دیتے هیں اور نفسانی وشیطانی خواهشات پر غلبه حاصل کر کے کمال و مقصود تک پهنچتے هیں[12]-
دین مسیحیت میں موجود بدعتیں اور گمراهیاں ، که جن میں سے بعض کی طرف اشاره کیاگیا ، اهل بیت علیهم السلام[13] کی روایات کے مطابق وه تحریفات هیں جو پولس نامی ایک شخص کے توسط سے سچے مسیحی دین میں ایجاد کی گئی هیں-
" پولس کو دین مسیحیت کا دوسرا بانی جانتے هیں ، وه ایک زمانه مین حضرت عیسی علیه السلام کا مخالف تها اور حضرت عیسی (ع) کے ابتدائی شاگردوں اورپیرٶں کو اذیت وآزار پهنچانے کی کوشش کرتا تها ، اس نے اچانک مکاشفه کا دعوی کرکےتوبه کیا اور دین مسیحیت کی تبلیغ کر نے لگا- لیکن جس مسیحیت کی وه تبلیغ کرتا تها، وه ایک نیا اور ملاوٹی دین تھا جسے خود پولس نے مختلف یونانی ، یهودی اور مصری وغیره افکار کی ملاوٹ سے ایجاد کیا تھا[14]-"
اگرچه کتاب "کلام مسیحی" کے مٶلف نے پولس کا دفاع اور اسے منزه ثابت کر نے کی کوشش کی هے ، لیکن جو کچھـ اس نے اس سلسله میں لکها هے ، وه پولس کو بلند مقام بخشنے سے زیاده تر ، غیر شعوری طور پر ضمناً حقیقت اور همارے دعوی کو ثابت کرچکا هے، کیونکه اس نے پولس کے دفاع میں حضرت عیسی علیه السلام کے حواریوں کو حقیر بنانے کی کوشش کی هے اور بدون اس کے که پولس حواریوں میں سے هوتا ، اسے حواریوں کی به نسبت برتری بخشی هے اور وه اس سلسله میں یوں رقمطراز هے :" عیسائیوں کے عقیده کے مطابق پولس عهد جدید کا عظیم ترین الهیات شناس هے- تعجب آور بات هے که اس نے اپنی پوری زندگی میں حضرت مسیح (علیه السلام ) سے ملاقات نهیں کی هے ، حضرت عیسی کی زندگی اور ان کی کار کردگی کے سب سے اهم مفسر کے طور پر معرفی کیا گیا هے--- وه ایک ایسا دانشور تها که جس نے یهودیوں کی مقدس کتا بوں کو پڑها تها اور ان کی شریعت میں مهارت رکهتا تها ، لیکن حضرت عیسی(ع) کے باره حواری اور تمام شاگرد ساده ماهی گیر تهے- اس کے علاوه پولس شهر میں پلا تها، جس کے نتیجه میں وه یه توانائی رکهتا تها که حضرت عیسی کے پیغام کو سلاطین روم کے بڑے شهروں کے لوگوں کے فهم وادراک کی سطح پر نقل کر سکے[15]-"
جو معنویت ان منابع سے نشات پاناچاهتی هو وه بهت سے انحرافات سے دوچار هوسکتی هے – اسلام اور مسیحیت کی معنویت میں یه بنیادی فرق هے یعنی معنویت اس کے سنتی معنی میں ، مسیحیت کے منابع کی قدر وقیمت کے پیش نظر ، قابل قبول نهیں هےبلکه عقل کے خلاف هے اور یه معنویت کمال کے طالب کو اس کی منزل مقصود تک نهیں پهنچاسکتی هے- ایک دانشور کے قول کے مطابق : " میں یه نهیں جانتا که معنویت کیسے عقل کے دائرے سے خارج یا عقل کے خلاف هوسکتی هے یعنی ایک معنویت هو اور وه عقل کے خلاف هو!---کیا جو معنویت عقل کی دشمن هے اور عقل سے تناقض رکهتی هے ، اسے معنویت کها جاسکتا هے؟ میں اس قسم کی معنویت کو نهیں جانتا هوں[16]-"
ترک دنیا اور گوشه نشینی جیسے مباحث ، جو معنویت کے بارے میں انسان کی تعبیریں هیں، گمراهیوں کے علاوه کچھـ نهیں هیں اور ان کا سر چشمه بهی یهی هے-
لیکن توجه رکهنی چاهئے که ان سب( گمراهیوں اور بدعتوں) کا، اس دین کے بعض پیرٶں کی نجات کے ساتھـ منافات نهیں هے ، بشرطیکه ان کا انتخاب جهل کی وجه سے هو اور اس سلسله میں مقصر نه هوں (جاهل قاصر هوں) – یه جو دین مسیحیت کے بعض پیرو ، مسلمانوں کے مانند کمال ، روحانی حیات اور قرب الهی کے طالب هیں ، اس حقیقت کو ان کے کردار اور طرز عمل میں مشاهده کیا جاسکتا هے-
قابل ذکر بات هے که، آجکل جس چیز کی معنویت کے نام پر مغربی دنیا میں تبلیغ کی جاتی هے اس کا حضرت مسیح کی تعلیمات سے دور کا بهی واسطه نهیں هے اور یه کها جاسکتا هے مغربی دنیا کی آجکل کی معنویت وحی کے ساتھـ مذکوره ضعیف رابطه سے بهی محروم هے-
اس سلسله میں استاد رحیم پور ازغدی کے کچھـ بیانات قابل توجه هیں- وه کهتے هیں : " جس چیز کو مغربی دنیا میں ماڈرن معنویت کا نام دیاگیا هے ، وه انیسویں صدی کے بعد حالیه ڈیڑھـ سو سال کی ایجاد هے – چونکه مسیحی دینی معنویت نے قدیم زمانه سے مغربی ممالک میں جڑ پکڑی هے ، اس لئے اس کی جگه پر ایک سیکولر معنویت ایجاد کی گئی تاکه صنعتی انسان کے لئے ایک کام انجام دیں اور بغیر اس کے که اس کی عقلی گهرائیوں اور قانونی پهلو کی طرف توجه کریں، یعنی اس طرح ایک طرف سے معنویت کا عقل سے رابطه کٹ گیا هے اور دوسری طرف سے عدل وانصاف سے اس کا رابطه منقطع هو گیا هے اور ایک جهوٹی اور جعلی معنویت وجود میں آگئی هے- حقیقت میں یه معنویت ایک صنعت میں تبدیل هوئی هے ، یعنی ٹیکنا لوجی معنویت کی صنعت- اور اس کا فریضه ان افراد کو آرام بخشنا اور ان کے اعصاب کو نشه کے عالم میں مفلوج کر کے رکهنا هے ، جو زندگی بسر کر نے کے لئے کوئی توجه نهیں دیتے اور زندگی کے لئے کوئی معنی نهیں سمجھتے هیں اور زندگی کے لئے معنی ایجاد کر نے کا اراده رکهتے هیں-
مغربی دنیا کی ماڈرن معنویت کی توجیه، دنیا پرستی کے حق میں ایک مالیخو لیائی اور پاگل پن توجیه هے ، در حقیقت یه مغرب کی ماڈرن تهذیب میں سر مایه داری کے سور کو نگل لینے کے بعد میٹهی ڈش کهانے کے مانند هے – آج مغربی دنیا میں رائج ایک مکتب فکر، جس کو ماڈرن معنویت یا سیکو لر معنویت کها جاتا هے، روح گیرائی یا نام نهاد معنا گرائی (spiritualism ( کے نام پر ایک رجحان هے که ایک طرف سے اس کی معرفت کی جڑیں اکهاڑ کر رکهدی گئی هیں اور اس کے بعد انسان کی شدید فطری ضرورتوں کی تلافی کر نے کے لئے ایک نئی معنویت کو جعل کر نے میں لگ گئے هیں ، حقیقت میں جھوٹی اور جعلی معنویت یعنی دنیوی معنویت کی ایجاد کر نے میں لگ گئے هیں – جیسا که میں نے عرض کی که حقیقت میں اس وقت یه حالت هے که سیکولر سر مایه داری کی ثقافت میں ، اس طرح معنویت کا آڈر دیا جاتا هے ، جیسے(کسی هوٹل میں ) پیتزا کا آڈر دیا جاتا هے-
مغربی دنیا میں پیدا هوا یه spiritualism)) یا معنویت کا رجحان ، توحیدی اور انبیاء علیهم السلام کی معنویت کے خلاف ایک جعلی اور نقلی معنویت هے- هندومت وبدهـ مت سے تهوڑا سا لیتے هیں اور مسیحیت کے ایک حصه کے ساتھـ اسے مخلوط کرتے هیں اور الحادی مبانی کے سطحی positiveismکو اٹهاکر اس پر Existantialismکا سمینٹ اور اینٹیں لگا کراس سے ایک نئی چیز کو جعل کرتے هیں که لوگوں سے کام کا مطالبه کئے بغیر انهیں آرام بخسے، بغیر اس کے که اس میں کسی قسم کا قانون ، اخلاق اور قدر و منزلت هو اوربغیر اس کے که ان میں سے کسی چیز کے عقیده کا مطالبه کیاجائے- حقیقت میں یه ایک ایسی معنویت هے جس پر کوئی معنوی خرچه نه آئے – اب ذرا آپ اس معنویت کا پیغمبراکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه معصومین علیهم السلام کے اقوال میں پائی جانے والی معنویت سے موازنه کیجئے – مغرب کی جعلی معنویت جو حالیه دوصدیوں کے دوران توحیدی عرفان اور انبیاء علیهم السلام کی معنویت کی جگه لینا چاهتی تهی، تعطل کا شکار هوچکی هے – مغرب والوں نے اس بات کا اعتراف کیا هے که جس معنویت کو انهوں نے جعل کیا هے وه ایک انسان کے ذهن کی پیدوار هے- ایک subjactiveامر هے – حقیقت سے اس کا کوئی ربط نهیں هے- یه لوگ خود اس موضوع کا اعتراف کرتے هیں ، اور پهر بهی اس معنویت سے آرام کے طالب هیں – معلوم نهیں هے که جس معنویت کا کوئی objactiveنه هو، عقلمندی اور حقوق انسان سے کوئی رابطه بهی نهیں رکهتی هو، کسی بهی چیز کی تکلیف کو معلوم نهیں کرتی هو، نه حقیقت کی تکلیف اور نه فضیلتوں اورعدل وانصاف کی تکلیف کو واضح کرتی هو، کس طرح انسان کو آرام بخش سکتی هے؟- قدرتی بات هے که یه آرام پیدا نهیں هوگا ، اس لئے آج نشه آور چیزوں ، جیسےLSD، افیون اور چرس وغیره کے ذریعه آرام و معنویت کو حاصل کرنا چاهتے هیں-
حقیقت میں جب آپنے غور وفکر کے عالم معنویت کی فطرت سے دوری اختیار کی ، عالم معنویت سے رابطه کاٹ دیا، انسان کے ذهن وعقل اور جان وحیات اور یهاں تک که انسان کی فطرت سے، اور هرچیز سے معنویت کو جدا کر کے رکهدیا اور هرچیز کی سیکولر تفسیر کرتے هیں اور انسان و حیوان میں فرق کو صرف فیزیالوجی کے لحاظ سے فرق کے قائل هو، که اخیراً مغرب میں علم نباتات اور علم نفسیات کی نئی ایجادات نے انسان اور حیوان کے درمیان اس فرق کو بهی هٹا دیاهے اور کها هے که انسان اور حیوان کی انا ٹومی Anatomyمیں کوئی فرق نهین هے ، جب آپنے کها که ان میں کوئی فرق نهیں هے، جب روح وفطرت سے انکار کیا، جب معاد و مبداء سے انکارکیا، توآپ کیسےاور کسی طرحانسان کو آرام بخش سکتے هو؟
اب ذر اس جهوٹی معنویت کو قرآنی عرفان و معنویت سے موازنه کیجئے، قرآن مجید،،جوایک طرف سے معنویت کی دعوت دیتے هوئے ارشاد فر ماتا هے که سجده کرو اور قریب آجا اور انسان کی زندگی کے خلوت ترین ابعاد میں مداخلت کرتا هے، یهی قرآن ارشاد فر ماتا هے که معاشرے کے دولت مند افراد ،جومحرومین کا حق ادا نهیں کرتے هیں، کوخدا کی طرف سے عذاب کا وعده سنادو- اسلامی معنویت دکهاوے کی معنویت نهیں هے، اسلامی معنویت صرف بیکار انسانوں سے مخصوص نهیں هے که وه بیکار هوں تاکه معنوی بن جائیں ، اسلامی معنویت ایک شغل نهیں هے، همارے پاس کوئی ایسا مقدس شغل نهیں هے جس میں کچھـ لوگ غیر عرفانی زندگی بسر کریں اور باقی بیکار هوں تاکه معنوی بن جائیں اسلامی معنویت ایک مشغله نهیں هے، ایک هنر کا مقدس هونا نهیں هے که بعض لوگ ایک هنر کے عارف ومقدس بن جائیں اور باقی لوگ حیوانی زندگی بسر کریں - پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام نے جس عرفان و معنویت کو لایا هے، اس کے مختلف مراتب هیں ، لیکن یه معنویت زندگی کے عادی اور نچلے طبقه میں بهی پائی جاتی هے –اسلامی معنویت میں هنر مند عارف نهیں پائے جاتے هیں – عرفان ایک مشغله نهیں هے اسلام میں کوئی مقدس هنر نهیں هے که بعض لوگ غیر عرفانی زندگی بسر کر رهے هوں اور باقی بیکار هوں تاکه عارف بن سکیں – معنویت مادیات سے الگ نهیں هے، اس لئے اسلامی تهذیب میں اس طرح نهیں کها جاسکتا هے که آپ کی زندگی کا ایک حصه مادی هے اور ایک حصه معنوی، بلکه زندگی کے تمام ابعاد من جمله ، درس پڑهنا، حتی سیر وسیاحت پر جانا اور سونا اورآرام کرنابهی، انبیاء علیهم السلام کے لائے هوئے دین کے معنی میں هو تو سب معنویت کے مالک بن سکتے هیں – اگر آپ ان کی کتابوں کا مطالعه کریں گے تو معلوم هو گا که یه لوگ معنویت کو اس نظر سے دیکهتے هیں که سیکولر معنویت اور ماڈرن معنویت ان لوگوں کے کام آتی هے، جنهوں نے دنیا کو نچوڑ دیا هو اور بعد میں یوگا کو انجام دیتے هیں تاکه تهکاوٹ دور هو جائے اور ان کی تناول کی هوئی غذا هضم هو جائے اور دوباره سر مایه داری کے دستر خوان پر بیٹھـ جائیں اور پهر کهائیں – اس معنویت کے اس دنیا میں اسی طرح معنی کئے جاتے هیں اور اس لئے وه لوگ کهتے هیں که معنویت کے حق یا باطل هونے کی بات نه کرنا، بلکه کهنا چاهئے که معنویت کی کار کاردگی کیا هے ، معنویت کا مادی فائده کیا هے؟
لیکن اسلامی تهذیب میں ، جس کے بارے میں آج میں کچھـ بولنا چاهتا هوں ، معنوی مقاصد کو غیر معنوی طریقوں سے حاصل نهیں کیا جاسکتا هے- همارے معاشرے میں بهی ایسے لوگ پائے جاتے هیں جومعنویت کو لیبریل ڈیمو کریسی اور سرمایه دارانه اقتصادی نظام کے ساتھـ ملانا چاهتےهیں ، البته ایسے لوگوں میں سے بعض اقتدار پر بهی هیں، هم ان لوگوں سے عرض کرنا چاهتے هیں که جس معنویت کا آپ دم بهرتے هیں وه بودهائیوں کی معنویت یاسرخ فاموں یا مسیحی سپریچول ازم (spiritualism) کاعرفان هوسکتاهے، لیکن قرآن مجید کی معنویت نهیں هوسکتی هے- اسلامی معنویت کو اس طرح ادراک کرنا چاهئے،جوعقل،سماجی انصا ف واقتصاد کے ساتھـ هم آهنگ هو اور آپس میں مربوط هوں اور ایک دوسرے کے اٹوٹ هوں- اسلامی معنویت،بادلوں کے پیچهے چهپی هوئی معنویت نهیں هے، بناوٹی اور ناقابل عمل معنویت نهیں هے اور کسی خاص طبقه یافرد سےمخصوص معنویت بهی نهیں هے[17]-"
اس سلسله میں مزید معلومات حاصل کر نے کے لئے ملاحظه هو: سوال نمبر ١٥٩٣( سائٹ : ١٥٨٨) عنوان" ارتباط دین بامعنویت"
[1] - دهخدا،علی اکبر ،لغت نامه لفظ معنوی-
[2] - افق حقیقت،برداشت صحیح ازمعنویت ،خبرگزاری مهر،گروه دین واندیشه-
[3] - ایضاً-
[4] - حسین عصمتی پایگی ،گفتمان معنویت،روزنامه جام جم-
[5] - ٹومس میشل ،کلام مسیحی،ترجمه حسین توفیقی-
[6] - ایضاً١١٦-
[7] - "نگرش اسلام به سایر ادیان وملل "،سید محمد موسوی زاده،ص١١٧-
[8] - "عرفان و نیازبه معنویت در جامعه امروز" ،کتاب نقد شماره ٤٠،سید یحیی یثربی ،ص٣٢٣-
[9] - " اسلام آئین برگزیده "،احمد مسجد جامعی ،ص١٣٨-
[10] - " آموزه نجات ازدید گاه علامه طباطبائی بادید گاه رائج مسیحیت " ،مصطفی آزادیان،ص١٩-
[11] - عقل و اعتقاد دینی ،مایلک پترسون،ص٤٦٩-
[12] - "آموزه نجات "،مصطفی آزادیان ،ص٣٢٨-
[13] - بحار الا انوار ،ج٨،ص٣١١-
[14] - فصلنامه پزوهشی صباح،ص٥-
[15] - کلام مسیحی،توماس میشل ،ص٥٥-
[16] عقلا نیت و معنویت در اسلام ،دکتر ابراهیم دنیانی،ص١٠-
[17] سایٹ آئنده روشن، حسن رحیم پور ازغدی ،کد مطلب :٧٦٠١-