Please Wait
کا
7022
7022
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2011/04/27
سوال کا خلاصہ
کیا وجود ابدی کے بارے میں ایک سے زیادہ کا فرض کیا جاسکتا ہے؟
سوال
مہربانی کرکے مختلف دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیے کہ وجود ابدی ایک سے زیادہ کیوں نہیں ھوسکتا ہے؟ ﴿ یعنی کئی ابدی ھستیاں اور لایزال ھوں﴾
ایک مختصر
خداوند متعال کے علاوہ کائنات کی تمام مخلوقات، اپنے ابتدائی وجود کے سلسلہ میں خداوند متعال کے محتاج ھونے کے علاوہ اپنی حیات کی بقا اور اسے جاری رکھنے میں بھی محتاج اور نیازمند ہیں۔ توحید واحدی میں ثابت ھوتا ہے کہ صرف ایک موجود آزاد و بے نیاز موجود ہے، جو کائنات کی تمام موجودات و مخلوقات کا علت تامہ ہے، کیونکہ قانون علیت کے مطابق اور دور و تسلسل کے محال ھونے کی وجہ سے، ہر مخلوق کے لئے علت کی ضرورت ہے یہاں تک کہ ایک علت پر ختم ھو جائے اور وہ علت مستقل اور بے نیاز ھو، پس کئی ابدی ھستیوں اور لایزال کا وجود، اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک مستقل ھو، محال ہے۔ البتہ قرآن مجید کی آیات اور روایات کے مطابق خداوند متعال کے علاوہ بھی ابدی اور لایزال موجودات ہیں، لیکن وہ اپنے وجود میں خداوند متعال سے وابستہ ہیں۔
تفصیلی جوابات
دنیا کی موجودات دو حصوں میں تقسیم ھوتی ہیں، ایک طرف ایک ایسا وجود ہے، جو قائم بہ ذات ہے اور اپنے وجود میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہے، اس قسم کے موجود کو مستقل اور آزاد وجود کہتے ہیں کہ وہی واجب الوجود ہے۔ دوسری جانب، ایسی موجودات ہیں، جو اپنی ذات میں کسی قسم کا استقلال نہیں رکھتی ہیں اور اپنے علاوہ کسی اور موجود کے محتاج ہیں، اس قسم کی موجودات کو اصطلاح میں“ ممکن الوجود” کہا جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، جب ہم ذات ماھوی موجود کو مد نظر رکھتے ہیں، اس ذات کے وجود وعدم سے نسبت یکساں ہے اور اس حالت سے خارج ھونے کے لئے اپنے علاوہ ایک علت کا محتاج ہے، ذات واجب الوجود متعال کے برعکس کہ اس کے لئے وجود ضروری ہے اور اپنے علاوہ کسی کا محتاج و نیازمند نہیں ہے۔[1]
یہ کہ، اولین وجود اور تمام موجودات کی علت العلل کون ہے؟ اس کے جواب میں قابل بیان ہے کہ: بیشک علت العلل، خداوند متعال ہے، پس جو موجود ازل سے تھا، وہ خداوند متعال کی مقدس ذات ہے، دوسری جانب یہی ذات مقدس، قرآن مجید کی آیات کے مطابق اور عقل کے حکم سے، جس طرح ازل ہے، اسی طرح ابدی اور لایزال بھی ہے، کیونکہ ایک ایسا وجود، تمام موجودات کی علت تامہ ھوسکتا ہے، جس میں کسی قسم کا نقص موجود نہ ھو، کیونکہ نقصان کا لازمہ، احتیاج ہے اور محتاج موجود اپنے سے کامل تر موجود کا معلول ھوتا ہے، اس صورت میں اگر ہم یہ کہیں کہ واجب الوجود ابدی نہیں ہے اور مقدم ھوتا ہے، تو ہم نے اس کے معلول ھونے کو بھی قبول کیا ہے اور یہ خداوند متعال کی ذات کے بر خلاف ہے۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ کیا خداوند متعال کی ذات کے علاوہ بھی کوئی موجود ابدی اور لایزال ھوسکتا ہے؟
جو کچھ اس سلسلہ میں قرآن مجید اور روایتوں میں آیا ہے، اس میں یوں تصریح کی گئی ہے کہ انسان مرنے کے بعد نابود نہیں ھوتا ہے، بلکہ اس دنیائے فانی سے باقی رہنے والی دنیا میں چلا جاتا ہے اور اپنے پروردگار سے رزق کھاتا ہے۔[2]
اس کے علاوہ، قرآن مجید میں لفظ“ خالدون” زیادہ استعمال کیا گیا ہے، جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہنے والوں کے لئے بھی “خالدون” کہا گیا ہے۔[3] اور بہشت میں جاودانہ[4] ابدی زندگی بسر کرنے والوں کے لئے بھی لفظ“ خالدون” استعمال ھوا ہے۔
پس قرآن مجید کی صراحت کے مطابق، کچھ دوسری موجودات بھی ابدی ہیں، لیکن جو چیز خداوند متعال کی ابدیت کے دوسری چیزوں کی ابدیت سے جدا ھونے کا سبب بنتی ہے، وہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی ذات ہے، کہ ایک کی ذات اپنے سے علاوہ کسی علت کی محتاج و نیازمند ہے اور دوسرے کی ات مستغنی اور بے نیاز ہے، یعنی اگر یہ کہا جائے کہ ممکن الوجود بھی ابدی ھوسکتا ہے، تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کا ابدی ھونا مستقل اور غیر کی محتاجی کے بغیر ہے، بلکہ ممکن الوجود ہمیشہ علت کا محتاج ھوگا اور اس کا ابدی ھونا ایک مستقل ذات سے وابستہ ہے، جو وہی خداوند متعال ہے۔
خداوند متعال کی ذات کے بے نیاز ھونے یا اس کے واجب الوجود ھونے سے اس کا تمام موجودات کا سرچشمہ اور علت تام ھونا، ثابت ھوتا ہے، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ممکن الوجود، حدوث میں علت کا محتاج ھونے کے علاوہ اپنی بقاء کے لئے بھی علت کا محتاج ہے یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر، ضرورت بالغیر کیوں ہمیشہ ممکن الوجود کے ہمراہ ہے؟
اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ معلول کے لئے علت کا محتاج ھونے کا معیار کیا ہے؟ اگر ہم ثابت کرسکیں کہ علت کی محتاجی کا معیار ایک ایسا امر ہے جو اس ممکن موجود کا ذاتی ہے، تو خود بخود ثابت ھوگا کہ ممکن موجود جب تک موجود ہے، علت کی نیاز مندی بھی اس میں موجود ہے، کیونکہ ایک چیز کی ذات کبھی اس سے جدا نہیں ھوتی ہے۔ اس سوال کے جواب کے لئے چند نظریات پائے جاتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو بیان کرنے اور نقد و نظر کے لئے ایک الگ بحث کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں مطلوب نظریہ، وہی ملاصدا کا نظریہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ معلول کے علت کا محتاج ھونے کا معیار اس کا امکان ہے نہ حدوث، اس نظریہ کو ثابت کرنے سے بقاء کے لئے بھی معلول کے علت کا محتاج ھونا واضح ھوگا۔ اس کے مقابلے میں بعض فلاسفہ نے معلول کے علت کی محتاجی کا سبب اس کا حدوث جانا ہے، اس معنی میں کہ معلول کا حدوث، معلول کے علت کی محتاجی کا معیار ہے اور وہ موجود ذاتی طور پر واجب اور مستقل ہے، جو قدیم ھو۔ یہ لوگ اس فرض سے قائل ھوئے ہیں کہ معلول کو صرف حدوث کے سلسلہ میں علت کی محتاجی ھوتی ہے اور بقاء کے سلسلہ میں کسی علت کا احتیاج نہیں ھوتا ہے، یعنی وجود ابدی مستقل خدا کے بغیر بھی وجود رکھتا ہے۔[5]
ملاصدرا نے معلول کی علت کی نیازمندی کے معیار کو دوصورتوں میں بیان کیا ہے:
پہلی صورت، ماھوی امکان پر مبنی ہے۔ امکان ماھوی میں ماہیت کی وصف کا امکان من حیث ھی ہے، کیونکہ ماہیت اس لحاظ سے، وجود وعدم کی بہ نسبت مساوی ہے، اور امکان بھی وجود و عدم سے ماہیت کی نسبت کا مساوی ھونے کے معنی میں ہے۔
دوسری صورت، امکان فقری کی بنیاد پر استوار ہے۔ امکان فقری یا وجودی یہ ہے کہ: معلول کی ھویت، علت سے عین ربط و تعلق ہے۔ اس بنا پر معلول کا وجود، خواہ حادث زمانی ھو یا قدیم زمانی، عین علت کا محتاج ہے۔ اور نیازمندی کے بغیر وجود ممکن کا فرض تناقض آمیز ہے۔[6] کیونکہ اگر ممکن محتاج نہ ھو، پس اسے بے نیاز و مستقل ھونا چاہئیے، حالانکہ جو علت کا محتاج نہ ھو، وہ واجب الوجود ہے۔ پس ایک چیز واجب بھی ھوئئ اور ممکن بھی! یہی دلیل کافی ہے کہ جو لوگ علت کی محتاجی کے معیار کو اس کا حدوث ممکن جانتے ہیں جب اس موجود ممکن کے بقاء کی کیفیت پر پہنچتے ہیں تو اس کے قائل ھوتے ہیں کہ یہ موجود ممکن اپنی بقاء کے سلسلہ میں علت کی محتاج نہیں ہے، یہاں پر وہ دو نقیض کو جمع کرتے ہیں، جبکہ اجتماع نقیضین محال ہے، کیونکہ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ موجود ممکن کو علت کی ضرورت و احتیاج نہیں ہے، ورنہ اگر ممکن ، ایک لمحہ تک علت کی محتاجی سے بے نیاز ھوجائے، تو اسے واجب ھونا چاہئیے، حالانہ وہ اسی لمحہ میں ممکن بھی ہے اور یہ محال ہے ۔ دوسری جانب، دو ابدی موجودات کا وجود جبکہ دونوں ایک دوسرے سے مستقل ھوں، بھی محال ہے، کیونکہ یہ فرض، اس مطلب سے منافات رکھتا ہے، جو وحدت واجب الوجود کی بحث میں خداوند متعال کے وحدہ لاشریک ھونے کو ثابت کرتا ہے، وہاں پر ثابت ھوا کہ دو واجب الوجود کا موجود ھونا محال ہے، کیونکہ دو ھونا اس وقت ممکن ہے کہ دو موجودات آپس میں مشترک وجوہ رکھنے کے علاوہ ایک دوسرے کی بہ نسبت کچھ امتازات بھی رکھتے ھوں، بہ الفاظ دیگر، ان دو واجب الوجود میں سے ہر ایک مابہ ا لاشترک و ما بہ الامتیاز کا مرکب بن جاتا ہے، حالانکہ موجود مرکب، محتاج ھوتا ہے اور محتاج ھونا، واجب الوجود ھونے سے منافات رکھتا ہے۔[7]
اس بنا پر، جب امکان فقری، وجود کے لئے ثابت ھوا، یہ امکان، وصف وجود بن جاتا ہے، امکان فقری بالکل وہی احتیاج و فقر ہے جو معلول کی ذات میں موجود ھوتا ہے اور فقر و احتیاج ممکن کی ذاتیات شمار ھوتے ہیں، جب ایک چیز ایک وجود کے لئے ذاتی بن گئی، جب تک وہ وجود موجود ہے، یہ چیز اس سے جدا نہیں ھوتی ہے اور ہمیشہ اس کے ہمراہ ھوتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر معلول جب تک موجود ہے، اس کی علت کی محتاجی باقی ہے۔ جب ہم اس عقلی نتیجہ کو ان روایات کے ساتھ رکھتے ہیں، جو انسان کے ابدی ھونے کی دلالت پیش کرتی ہیں، تو ثابت ھوتا ہے کہ خدا کے علاوہ بھی وجود ابدی ھوسکتا ہے، لیکن وہ خداوند متعال سے وابستہ اور اس کا محتاج ھوگا۔
یہ کہ، اولین وجود اور تمام موجودات کی علت العلل کون ہے؟ اس کے جواب میں قابل بیان ہے کہ: بیشک علت العلل، خداوند متعال ہے، پس جو موجود ازل سے تھا، وہ خداوند متعال کی مقدس ذات ہے، دوسری جانب یہی ذات مقدس، قرآن مجید کی آیات کے مطابق اور عقل کے حکم سے، جس طرح ازل ہے، اسی طرح ابدی اور لایزال بھی ہے، کیونکہ ایک ایسا وجود، تمام موجودات کی علت تامہ ھوسکتا ہے، جس میں کسی قسم کا نقص موجود نہ ھو، کیونکہ نقصان کا لازمہ، احتیاج ہے اور محتاج موجود اپنے سے کامل تر موجود کا معلول ھوتا ہے، اس صورت میں اگر ہم یہ کہیں کہ واجب الوجود ابدی نہیں ہے اور مقدم ھوتا ہے، تو ہم نے اس کے معلول ھونے کو بھی قبول کیا ہے اور یہ خداوند متعال کی ذات کے بر خلاف ہے۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ کیا خداوند متعال کی ذات کے علاوہ بھی کوئی موجود ابدی اور لایزال ھوسکتا ہے؟
جو کچھ اس سلسلہ میں قرآن مجید اور روایتوں میں آیا ہے، اس میں یوں تصریح کی گئی ہے کہ انسان مرنے کے بعد نابود نہیں ھوتا ہے، بلکہ اس دنیائے فانی سے باقی رہنے والی دنیا میں چلا جاتا ہے اور اپنے پروردگار سے رزق کھاتا ہے۔[2]
اس کے علاوہ، قرآن مجید میں لفظ“ خالدون” زیادہ استعمال کیا گیا ہے، جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہنے والوں کے لئے بھی “خالدون” کہا گیا ہے۔[3] اور بہشت میں جاودانہ[4] ابدی زندگی بسر کرنے والوں کے لئے بھی لفظ“ خالدون” استعمال ھوا ہے۔
پس قرآن مجید کی صراحت کے مطابق، کچھ دوسری موجودات بھی ابدی ہیں، لیکن جو چیز خداوند متعال کی ابدیت کے دوسری چیزوں کی ابدیت سے جدا ھونے کا سبب بنتی ہے، وہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی ذات ہے، کہ ایک کی ذات اپنے سے علاوہ کسی علت کی محتاج و نیازمند ہے اور دوسرے کی ات مستغنی اور بے نیاز ہے، یعنی اگر یہ کہا جائے کہ ممکن الوجود بھی ابدی ھوسکتا ہے، تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کا ابدی ھونا مستقل اور غیر کی محتاجی کے بغیر ہے، بلکہ ممکن الوجود ہمیشہ علت کا محتاج ھوگا اور اس کا ابدی ھونا ایک مستقل ذات سے وابستہ ہے، جو وہی خداوند متعال ہے۔
خداوند متعال کی ذات کے بے نیاز ھونے یا اس کے واجب الوجود ھونے سے اس کا تمام موجودات کا سرچشمہ اور علت تام ھونا، ثابت ھوتا ہے، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ممکن الوجود، حدوث میں علت کا محتاج ھونے کے علاوہ اپنی بقاء کے لئے بھی علت کا محتاج ہے یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر، ضرورت بالغیر کیوں ہمیشہ ممکن الوجود کے ہمراہ ہے؟
اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ معلول کے لئے علت کا محتاج ھونے کا معیار کیا ہے؟ اگر ہم ثابت کرسکیں کہ علت کی محتاجی کا معیار ایک ایسا امر ہے جو اس ممکن موجود کا ذاتی ہے، تو خود بخود ثابت ھوگا کہ ممکن موجود جب تک موجود ہے، علت کی نیاز مندی بھی اس میں موجود ہے، کیونکہ ایک چیز کی ذات کبھی اس سے جدا نہیں ھوتی ہے۔ اس سوال کے جواب کے لئے چند نظریات پائے جاتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو بیان کرنے اور نقد و نظر کے لئے ایک الگ بحث کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں مطلوب نظریہ، وہی ملاصدا کا نظریہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ معلول کے علت کا محتاج ھونے کا معیار اس کا امکان ہے نہ حدوث، اس نظریہ کو ثابت کرنے سے بقاء کے لئے بھی معلول کے علت کا محتاج ھونا واضح ھوگا۔ اس کے مقابلے میں بعض فلاسفہ نے معلول کے علت کی محتاجی کا سبب اس کا حدوث جانا ہے، اس معنی میں کہ معلول کا حدوث، معلول کے علت کی محتاجی کا معیار ہے اور وہ موجود ذاتی طور پر واجب اور مستقل ہے، جو قدیم ھو۔ یہ لوگ اس فرض سے قائل ھوئے ہیں کہ معلول کو صرف حدوث کے سلسلہ میں علت کی محتاجی ھوتی ہے اور بقاء کے سلسلہ میں کسی علت کا احتیاج نہیں ھوتا ہے، یعنی وجود ابدی مستقل خدا کے بغیر بھی وجود رکھتا ہے۔[5]
ملاصدرا نے معلول کی علت کی نیازمندی کے معیار کو دوصورتوں میں بیان کیا ہے:
پہلی صورت، ماھوی امکان پر مبنی ہے۔ امکان ماھوی میں ماہیت کی وصف کا امکان من حیث ھی ہے، کیونکہ ماہیت اس لحاظ سے، وجود وعدم کی بہ نسبت مساوی ہے، اور امکان بھی وجود و عدم سے ماہیت کی نسبت کا مساوی ھونے کے معنی میں ہے۔
دوسری صورت، امکان فقری کی بنیاد پر استوار ہے۔ امکان فقری یا وجودی یہ ہے کہ: معلول کی ھویت، علت سے عین ربط و تعلق ہے۔ اس بنا پر معلول کا وجود، خواہ حادث زمانی ھو یا قدیم زمانی، عین علت کا محتاج ہے۔ اور نیازمندی کے بغیر وجود ممکن کا فرض تناقض آمیز ہے۔[6] کیونکہ اگر ممکن محتاج نہ ھو، پس اسے بے نیاز و مستقل ھونا چاہئیے، حالانکہ جو علت کا محتاج نہ ھو، وہ واجب الوجود ہے۔ پس ایک چیز واجب بھی ھوئئ اور ممکن بھی! یہی دلیل کافی ہے کہ جو لوگ علت کی محتاجی کے معیار کو اس کا حدوث ممکن جانتے ہیں جب اس موجود ممکن کے بقاء کی کیفیت پر پہنچتے ہیں تو اس کے قائل ھوتے ہیں کہ یہ موجود ممکن اپنی بقاء کے سلسلہ میں علت کی محتاج نہیں ہے، یہاں پر وہ دو نقیض کو جمع کرتے ہیں، جبکہ اجتماع نقیضین محال ہے، کیونکہ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ موجود ممکن کو علت کی ضرورت و احتیاج نہیں ہے، ورنہ اگر ممکن ، ایک لمحہ تک علت کی محتاجی سے بے نیاز ھوجائے، تو اسے واجب ھونا چاہئیے، حالانہ وہ اسی لمحہ میں ممکن بھی ہے اور یہ محال ہے ۔ دوسری جانب، دو ابدی موجودات کا وجود جبکہ دونوں ایک دوسرے سے مستقل ھوں، بھی محال ہے، کیونکہ یہ فرض، اس مطلب سے منافات رکھتا ہے، جو وحدت واجب الوجود کی بحث میں خداوند متعال کے وحدہ لاشریک ھونے کو ثابت کرتا ہے، وہاں پر ثابت ھوا کہ دو واجب الوجود کا موجود ھونا محال ہے، کیونکہ دو ھونا اس وقت ممکن ہے کہ دو موجودات آپس میں مشترک وجوہ رکھنے کے علاوہ ایک دوسرے کی بہ نسبت کچھ امتازات بھی رکھتے ھوں، بہ الفاظ دیگر، ان دو واجب الوجود میں سے ہر ایک مابہ ا لاشترک و ما بہ الامتیاز کا مرکب بن جاتا ہے، حالانکہ موجود مرکب، محتاج ھوتا ہے اور محتاج ھونا، واجب الوجود ھونے سے منافات رکھتا ہے۔[7]
اس بنا پر، جب امکان فقری، وجود کے لئے ثابت ھوا، یہ امکان، وصف وجود بن جاتا ہے، امکان فقری بالکل وہی احتیاج و فقر ہے جو معلول کی ذات میں موجود ھوتا ہے اور فقر و احتیاج ممکن کی ذاتیات شمار ھوتے ہیں، جب ایک چیز ایک وجود کے لئے ذاتی بن گئی، جب تک وہ وجود موجود ہے، یہ چیز اس سے جدا نہیں ھوتی ہے اور ہمیشہ اس کے ہمراہ ھوتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر معلول جب تک موجود ہے، اس کی علت کی محتاجی باقی ہے۔ جب ہم اس عقلی نتیجہ کو ان روایات کے ساتھ رکھتے ہیں، جو انسان کے ابدی ھونے کی دلالت پیش کرتی ہیں، تو ثابت ھوتا ہے کہ خدا کے علاوہ بھی وجود ابدی ھوسکتا ہے، لیکن وہ خداوند متعال سے وابستہ اور اس کا محتاج ھوگا۔
[1] ۔ملاحظہ ھو عنوان: امتناع تعدد واجب الوجود، 9504 (سایت: 9463).
[2] ۔"وَ لَا تحَْسَبنََّ الَّذِینَ قُتِلُواْ فىِ سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتَا بَلْ أَحْیاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ یرْزَقُون"، آل عمران، 169.
[3] ۔"وَ الَّذِینَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِآیاتِنا أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِیها خالِدُونَ"، بقره، 39.
[4] ۔"وَ بَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ كُلَّما رُزِقُوا مِنْها مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقاً قالُوا هذَا الَّذِی رُزِقْنا مِنْ قَبْلُ وَ أُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً وَ لَهُمْ فِیها أَزْواجٌ مُطَهَّرَةٌ وَ هُمْ فِیها خالِدُونَ"، بقره، 25.
[5] ۔ حدوث یہ ہے کہ: ضرورت وجود ماہیت کا اس کے عدم پر مرتب ھونا یا عدم ماہیت کی ضروت کا اس کے وجود پر مرتب ھونا۔ علت کی محتاجی وصف ضرورت سے سازگاری نہیں رکھتی ہے۔ ضرورت علت سے بے نیازی کا معیار ہے نہ نیاز مندی کا معیار۔ اس بنا پر حدوث کو ممکن کی نیازمندی کا معیار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، نہ تمام معیار کے عنوان سے اور نہ معیار کے ایک حصہ کے عنان سے یا اس کی شرط کے عنوان سے۔ لہذا یہ ممکن کے علت کی نیاز مندی کا معیار، امکان ہے، کیونکہ امکان، وجود وعدم کی ماہیت کی ضرورت کا سلب ہے نتیجہ یہ کہ وہ چیز ممکن کی علت کی نیاز مندی کا معیار بن سکتی ہے جو عین ضرورت یا اس لا لازم و ملزوم نہ ھو، اور چونکہ حدوث، ضرورت وجود یا عدم کا لازم و ملزوم ہے، اس لئے ممکن کی علت کی نیازمندی کا معیار نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن امکان جو وجود وعدم کی ضرورت کا سلب ہے، ممکن کی علت کی نیازمندی کا معیار بن سکتا ہے۔ ربانی گلپایگانی، علی، ایضاح الحكمة فی شرح بدایة الحكمة، ص 193، انتشارات مركز جهانی علوم اسلامی، قم.
[6] ۔ ربانی گلپایگانی، ایضاً، ص 195.
[7] ۔ ملاحظہ ھو، عنوان: امتناع تعدد واجب الوجود، 9504 (سایٹ: 9463).
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے