Please Wait
10844
قدیم الایام سے سعادت ، کمال ، خیر اور انسانی لذات کی بحث فلاسفہ، خصوصا اخلاق اور سیاست کے فلاسفہ کے درمیان گفتگو کا مرکز رہی ہیں، اس سلسلے میں بہت سے نظریات بیان ہوئے ہیں جن کے درمیان حکمت متعالیہ کے بانی صدر الدین شیرازی کے نظریات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
ملا صدرا کی نظر میں "وجود" صرف خیر (خیر محض) اور حقیقی سعادت "وجود" کو درک کرنے میں ہے، حکمت متعالیہ میں، سعادت ، کمال ، لذت اور خیر کے معنی میں استعمال کئے گئے ہیں اور ان کو حاصل کرنا "وجودی کمال" شمار ہوتا ہے، اور ان تک پہنچنے کی راہ، وجود کے باطن اور عینی حقیقت کا سمجھنا اور ادراک ہے۔ جو قوت ادراک سے موافق ہے۔ ادراک بھی مدرَکات اور قوت ادراک کے لحاظ سے مختلف ہوتاہے، پس ہر قوت اپنے ادراک کے تناسب سے خاص لذت اور سعادت رکھتی ہے ، نتیجہ میں لذت اور سعادت کی انتہا اس قوت سے متعلق ہے جو ادراک ، مدرَک، مدرِک کے لحاظ سے سب سے طاقتور ، شدید، دائم اور کثیر ہو اور یہ قوت عاقلہ کے سوا اور کوئی قوت نہیں ہے، پس انسان کی حقیقی سعادت کے نظریہ کی تعریف یوں ہے: عقلی کمالات اور صورتوں کا ادراک۔ لیکن عقل عملی کے پہلو میں نفس کا مستقل ہونا اور نفسانی اعتدلال پیدا ہونا اور افراط و تفریط سے پرہیز ، حقیقی سعادت کے معیار سمجھے جاتے ہیں۔
قدیم الایام سے ، سعادت ، کمال ، خیر اور انسانی لذات کی بحث فلاسفہ ، خصوصا اخلاق اور سیاست کے فلاسفہ کے درمیان جاری ہے، سعادت کے وسیع مفہوم کا استعمال اس سلسلے میں مختلف نظریات کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔ ان نظریات کے درمیان فلسفہ حکمت متعالیہ کے بانی صدر الدین شیرازی کا نظریہ کافی اھمیت کا حامل ہے، اس کے بارے میں ملا صدرا کے بیانات اتنے وسیع ہیں کہ اس مختصر مقالہ میں اس کے بارے میں مفصل بحث کرنا ممکن نہیں ہے، لہذا اختصار کو مد نظر رکھ کر صرف اسی مسئلہ کی وضاحت کی جائے گی اور سوال کا جواب واضح ہونے کیلئے پہلے ملا صدرا کی نظر میں سعادت کی تعریف کو بیان کیا جائے گا ۔
ملا صدرا کی نظر میں حقیقی سعادت "وجود" اورر "وجود کا ادراک" ہے، لیکن چونکہ وجود اپنے مراتب میں کمال اور نقص کے لحاط سے مختلف ہے، لہذا سعادت بھی اپنے مراتب میں مختلف ہے، جو سعادت وجود اتم اور کامل میں موجود ہے وہ اتم اور کامل ہے اور جتنا وجود ناقص ہوتا جائے گا (اتنی ہی سعادت کم ہوتی جائے گی) چونکہ وہ شر اور شقاوت سے ملا ہوا ہے تو سعادت اور خیر بھی اس میں کم ہوگی، ملا صدرا کی نظر میں اتم موجودات ، خداوند متعال کا وجود ہے، اس کے بعد عقول مفارق، پھر نفوس کا وجود جو عقول کے بعد والے مرتبہ میں ہیں، یہاں تک ھیولیٰ[1] اولی تک پہنچ جاتا ہے اور زمان اور حرکت اور جسمی صورت اور طبایع۔۔۔[2]
جیسا کہ بیان ہوا چونکہ موجودات مختلف ہیں ، سعادت جو کہ وجود کا ادراک ہے وہ بھی مختلف ہے اور جیسا کہ قوات عقلیہ کا وجود، قوات حیوانی سے کامل اور طاقتور ہے ان کی سعادت بھی کامل اور ان کا لذت اور عشق بھی کامل ہے ، ملا صدرا "وجود" کو "خیر محض" جانتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ، خیر کے معنی وہ ہے جو عقلاء کے پاس موثر ہے اور اشیاء اس کے مشتاق ہیں ، اور موجودات اس کو طلب کرتے ہیں ، اور اس کے گرد گھومتے ہیں ، (وجود سے ) ملا صدرا کی مراد اس کی اصل اور باطن ہے نہ کہ اس کاذھنی مفہوم۔[3] دوسری جگہ ملاصدرا لذت کو مدرِک کا خاص کمال جانتے ہیں جیسا کہ درد اور رنج کو مدرِک کے ساتھ تضاد میں جانتے ہیں۔
بہ الفاظ دیگر، لذت کو ملائم احساس جانتا ہے،[4] ملا صدرا اس بات کے قائل ہیں کہ جب ہمارے نفوس کمال پاتے ہیں اور طاقتور ہوتے ہیں تو وہ اپنے بدن کے ساتھ روابط اور علائق سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ اپنی حقیقی ذات کی طرف لوٹتے ہیں اور اس صورت میں اسے ایک ایسی لذت اور سعادت حاصل ہوتی ہے جوغیر قابل وصف اور حسی لذت کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے کیونکہ لذت کے اسباب اور عقلی ادراک ، حسی ادراک کے لوازم اور اسباب سے کامل تر اور طاقتور ہوتے ہیں۔ [5]
اس بناء پر حکمت متعالیہ میں سعادت، کمال لذت اور خیر کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اور ان کو حاصل کرنا کمال وجودی کے معنی میں ہے اور ان تک پہنچنے کا طریقہ وجود کی گہرائی کا ادراک اور اس کی حقیقت ہے جو ادراکی قوت سے سازگار ہو۔
جیسا کہ ہم سعادت کی تعریف سے سمجھ گئے ، سعادت ادراک کی اقسام میں سے ہے، ادراک بھی قوات اور مدرَکات کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ پس ہر قوت اپنے ادراک کے تناسب سے ، ایک خاص لذت اور سعادت رکھتی ہے، نتیجہ کے طور پر لذت اور سعادت کی بلندی اس قوت سے متعلق ہے کہ جو ادراک ، مدرِک اور مدرَک کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ، شدید ، دائمی اورکثیر ہو، جس قوت میں یہ خصوصیات ہوں تو اسے بہترین سعادت اور کمال ، سب سے زیادہ لذت اور بلندترین خیر حاصل ہوگا اور وہ سب سے طاقتور وجود ہوگا۔ اور وہ قوت، "قوت عاقلہ" کے علاوہ کوئی اور قوت نہیں ہے۔
پس حقیقی سعادت ، عقلی ادراک ہے، نفس اپنے نظریاتی پہلو میں اشیاء کے حقایق کا بعینہ علم حاصل کرتا ہے اور عقلی اور نورانی ذاتوں کا مشاھدہ کرتاہے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے عقلی قوت ادراکی قوات اور حسی اعضاء سے اعلی اور شریف تر ہے، پس سعادت اور عقلی لذت اتم ہے[6] لھذا نظری پہلو میں سعادت حقیقی ، صورتوں کے ادراک اور عقلی کمالات سے عبارت ہے،اور عقل عملی کے پہلو میں نفس کا استقلال اوراس کا معتدل ہونا، افراط و تفریط سے دوری کرنا حقیقی سعادت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی ادنی خواہشات کے قید سے آزاد ہوجائے اور اپنے اندروںی خواہشات کے درمیان اعتدال پیدا کرے۔ اور شایستہ اور پسندیدہ سلوک کی طرف قدم بڑھائے اور اخلاقی فضائل کو اپنے وجود میں میں نفسانی عادات کی حد تک پرورش دے ۔ تو اس صورت میں وہ اپنی باطنی آزادی اور عدالت تک پہنچ سکتا ہے اور یہ عملی پہلو میں انسان کی حقیقی سعادت کے حدود و صغور ہیں۔ پس اگر انسان نظری پہلو میں ، صورتوں کو اچھی طرح درک کرسکے ، اور عملی پہلو میں گناہ نہ کرے ، اور پرھیزگار بنے اور باطن کے عملی پہلو میں اخلاق اور پسندیدہ ملکات کی پرورش کرے تو وہ اپنے اندر نشاط اور باطنی آرام تک پہنچ جائے گا۔ کیونکہ نفس ان معقولات اورملکات کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور ان کے ساتھ متحد رہتا ہے۔تو اس طرح انسان دنیا اور آخرت میں سعادت مند ہوگا۔[7]حکمت متعالیہ میں ملاصدرا کا یہ نظریہ اصالت وجود کے مانند ، اور وجود کے مراتب مشکک[8] ہونے کے مانند ، وجود کے خیریت اور اتحاد عاقل و معقول پر استوار ہے۔ اختصار کے پیش نظرہم ان مفاھیم کی وضاحت سے صرف نظر کرتے ہیں۔
صدر المتاھلین نے سعادت کے مراتب کو ، نفس کی حرکت جوھری اور عقل نظری کے مراتب کے لحاظ بیان کیا ہے
اور وہ فرماتے ہیں:
اولا: انسانی نفس اپنی خلقت کی آغاز میں قدرتی طور پر عقلی معانی کو درک کرنے اور فعلیت تک پہنچنے کی استعداد )طاقت( رکھتا ہے۔ لیکن بدیھی اور نظری معقولات سے فاقد ہوتا ہے ، بہ الفاظ دیگر نفس "محض استعداد " ہے اور ہر طرح کی عقلی صورت کا فاقد ہے۔ نفس کے اس مرتبہ کو "عقل ھیولایی" کہتے ہیں۔
ثانیا: جب نفس کے وہ معقولات جو سب آدمیوں کے درمیان مشترک ہیں حاصل ہوجائیں، جیسے کہ اجتماع نقیضین کا محال ہونا ، کل کا جزء سے بڑا ہونا وغیرہ ۔ تو قدرتی طور پر اس کے ساتھ نفس میں غور و فکر کرنے کی طاقت بھی حاصل ہوگی، اس مرتبہ کو "عقل بالملکہ" کہتے ہیں۔ ملا صدرا کے نظریہ کے مطابق انسان کی سعادت کا آغاز یہیں ہی سے ہوتا ہے کیونکہ انسان اپنی فعلی حیات میں مادہ سے تکیہ کئے بغیر فعلیت تک پہنچ چکا ہے۔[9] اس کے بعد جب نفس نظری معقولات کو استدلال اور تعریف سے حاصل کرتا ہے تو وہ " عقل بالفعل " بنتا ہے۔ اور جب نفس ان معقولات کو مبدا فعال ) عقل فعال( سے متصل ہوکر حاصل کرتا ہے تو وہ "عقل مستفاد" بن جاتا ہے۔
پس ملاصدرا عالم مادہ کی انتھاء کو انسانی تخلیق جانتے ہیں اور انسانی وجود کا مقصد عقل مستفاد تک پہنچنا ہے جو خداوند متعال کی معرفت اور پہچان ہے۔[10] اور نتیجہ کے طور پر ملا صدرا کی نظر میں حقیقی سعادت، معقولات کا نظری ادراک ہے جس کی بلندترین حد ، عقل مستفاد اور خداوند متعال کی شناخت اور پہچان ہے۔
[1] فلسفی اصطلاح میں ھیولی اس موجود کو کہتے ہیں جو سب سے ناقص ،موجود ہے اور عدم سے نزدیک تر ہوتا ہے (مترجم)
[2] صدر المتالھین ، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، ج ۹ ص ۱۲۱ ، طبع سوم ، دار احیاء الثرات ، بیروت ، ۱۹۸۱ھ۔
[3] ایضا ج ۱ ص ۳۴۱
[4] ایضا ج ۴ ص ۱۳۳۔
[5] ایضا ، ج ۹ ص ۱۳۲
[6] ایضا ج ۹ ، ص ۱۳۶
[7] صدر المتاھلین ، المبدا و المعاد ، آشتیانی ، سید جلال الدین ، ص ۳۷۷، ۳۷۸، انجمن حکمت و فلسفہ، ایران، تھران، ۱۳۵۴ ش۔
[8] وجود کے مراتب کے مشکک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وجود ، ایک روشنی کی طرح ہے جو کم اور زیادہ ہوتا ہے جیسے سورج کی روشنی ، بجلی کے بلب کی روشنی ، شمع کی روشنی ،
[9] المبداء و المعاد، ص ۲۷۱
[10] المبداء و المعاد ، ص ۳۷۳ - ۳۷۴