Please Wait
13002
قرآن مجید کے ظاہری معنی کے علاوہ ممکن ہے اس کے بہت سے باطنی معنی بھی ہوں۔ مثال کے طور پر سورہ "تین" کی پہلی اور دوسری آیت میں خداوندمتعال نے تین و زیتون کی قسم کھائی ہے، ان کے ظاہری معنی وہی انجیر اور زیتون ہو سکتے ہیں، جن کو سب لوگ جانتے ہیں، یعنی انجیر اور زیتون کے میوے جو انجیر اور زیتون کے درخت کی پیداوار ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس کے باطنی معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک وہی معنی ہیں، جن کے بارے میں سوال میں اشارہ کی گئی حدیث میں بیان کیا گیا ہے، یعنی امام حسن اور امام حسین{ع} جو درخت ولایت کے میوے ہیں[1]۔
اسی طرح ان کے دوسرے معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ تین سے مراد مدینۃ الرسول اور زیتون سے مراد مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ہے[2]۔
اس کے علاوہ تفسیر قمی میں آیا ہے کہ انجیر، رسول خدا{ص} اور زیتون امیرالمومنین، طور سینین، حسن و حسین{ع} اور ھذا البلد الامین سے مراد ائمہ اطہار{ع} ہیں[3]۔
اس بنا پر جو حدیث "تفسیر فرات" میں نقل کی گئی ہے، وہ ان ہی مذکورہ احادیث میں سے ایک ہے جو مثال کے طور پر بیان کی گئیں۔
[1]. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 24، ص 105،ِ مؤسسة الوفاء، بیروت، 1409ق،"عَنْ ابْنِ دَرَّاجٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) يَقُولُ قَوْلُهُ تَعَالَى وَ التِّينِ وَ الزَّيْتُونِ التِّينُ الْحَسَنُ وَ الزَّيْتُونُ الْحُسَيْنُ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا".
[2].حر عاملی، وسائل الشیعة، ج 14، ص 361، ح 19389،مؤسسه آل البیت علیهمالسلام، قم، 1409 ق."عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّ اللَّهَ اخْتَارَ مِنَ الْبُلْدَانِ أَرْبَعَةً فَقَالَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ التِّينِ وَ الزَّيْتُونِ وَ طُورِ سِينِينَ وَ هذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ التِّينُ الْمَدِينَةُ وَ الزَّيْتُونُ بَيْتُ الْمَقْدِسِ وَ طُورُ سِينِينَ الْكُوفَةُ وَ هَذَا الْبَلَدُ الْأَمِينُ مَكَّةُ".
[3]قمی، علی بن ابراهیم، تفسيرالقمي،ج 2،ص 429، دارالکتب، قم، 1367ھ ش، "وَالتِّينِوَالزَّيْتُونِوَطُورِسِينِينَوَهذَاالْبَلَدِالْأَمِينِ،قَالَالتِّينِ رَسُولُاللَّهِ(ص)وَالزَّيْتُونِأَمِيرُالْمُؤْمِنِينَ(ع)وَطُورِسِينِينَالْحَسَنُوَالْحُسَيْنُوَهذَاالْبَلَدِالْأَمِينِالْأَئِمَّةُ(ع)".