Please Wait
9773
سوال کے پهلے حصه کے جواب میں کها جاسکتا هے :یه جو آیه تطهیر ایک آیت کے بیچ میں قرار پایی هے ،بالاخر جس چیز کا اقتضا کرتی هے،وه یه هے که اپنے قبل و بعد والے مطالب کے ساته هم سیاق هے اور اگر پیغمبر(ص)کی بیویوں سے کویی اختصاص بھی نه رکھتى هو کم از کم عام طور پر ان پر بهی مشتمل هے .لیکن توجه کر نے کی ضرورت هے که اولا:اس قسم کے مطلب کو قبول کر نے کے فرض پر،ایک سیاقی اظھار سے زیاده نهیں هے اور اظھار سیاقی محکم ادله کے سامنےکارآمد نهیں هے ،اس لیے هم ناچار هیں که اس سلسله میں دوسرے بهت سے قراین پایے جانے کی وجه سے اس قرینه سے اجتناب کریں .ثانیا :آیت کا سیاق اس قسم کا اقتضا نهیں کر تا هے که آیه تطهیر پیغمبر(ص) کی بیویوں پر مشتمل هو.
پهلانکته:تقریر وتحریر میں مهر بانی اور جمله معترضه کا استعمال کر نا ،اگر چه اس بیان و تحریر کے سیاق واحد اور شباهت کو ضرر پهنچاتا هے ،لیکن اگر قرینه کے ساته هو تو ،نه صرف فصاحت و بلاغت کے خلاف هے بلکه کلام کی زیبایی کا سبب بن جاتا هے .اس لیے اس کی ضرورت نهیں هے که آیه تطهیر میں،چونکه یه آیت چند آیات کے بیچ میں واقع هے ،اس لیے کها جایے که پیغمبر(ص) کی بیویوں سے خطاب هوا هے اور یه پیغمبر(ص)کی بیویوں پر بهی شامل هے ،کیونکه ممکن هے مهر بانی یا جمله معترضه کے خاص طور پر خاص افراد "اصحاب کساء"کی طرف اشاره هو اور ان پر منحصر هو اور بهت سے قراین اس دعوی کی تایید کرتے هیںمثلا:
١.بعض روایات کے مطابق،آیه تطهیر براه راست نازل هویی هےاور پیغمبر اکرم(ص) نے
اس توهم کو دور کر نے کے لیے اس آیت کو یهاں پر قرار دینے کا حکم دیا هے ،که اهل بیت(ع) کا حساب پیغمبر (ص) کی بیویوں سے جدا هے ،تاکه کویی یه خیال نه کرے که اهل بیت بهی ممکن هے پیغمبر(ص) کی بیویوں کے مانند دنیا کی حقیر زندگی کو پیغمبر (ص) پر تر جیح دیںاور...
٢.اس آیت میں خداوند متعال کے کلام کا لهجه بدل جاتا هے اور بهت سے ضمایر جمع مٶنث کے استعمال، یعنی پیغمبر(ص) کی بیویوں سے خطاب کے بعد ضمیر جمع مذکر"کم"سے استفاده کیاجاتا هے.
٣.اهل لغت کے مطابق،عربی زبان میں "اهل"بیوی پر اطلاق نهیں هو تا هے ،مگر مجاز کے طور پر، اسی لیے ام سلمه نے آیت کے نزول کے بعد پیغمبر(ص) سے درخواست کی که اسے بهی اهل بیت میں شمار کریں .اس دعوی کا شاهد یه هے که زید بن ارقم کهتے هیں :اهل بیت کا عنوان عورتوں پر صادق نهیں آتا هے .
٤. پیغمبر(ص)کی بیویوں میں سے کسی ایک نے یه دعوی نهیں کیا هے که آیه تطهیر ان پر نازل هوئی هے ، جبکه حضرت عایشه کو جنگ جمل میں اپنی تایید میں اس قسم کے ادله کی ضرورت تهی .
٥.سوره احزاب کی آیت نمبر ٢٩میں لفظ"تردن"اس بات کی حکایت کر تا هے که خدا وند متعال ،پیغمبر اکرم(ص)کی بیویوں کے بارے میں کویی غیر معمولی اراده نهیں رکھتا هے ،لیکن اهل بیت کے بارے میں ایک تکوینی اور ناقابل انکار اراده رکھتا هے که انھیں ناپاکی اور آلودگی سے دور رکهے .
٦.لفظ"اهل البیت"میں "الف ولام"عهد خارجی کے لیے هے اور معروف و مشهور واقعه اصحاب کساء کی طرف اشاره هے لهذا لفظ "اهل البیت"،آل عباء،اصحاب کساء اور یوم الدار کے مانند اشارے کا عنوان هے.
لیکن دوسرا نکته :ان آیات میں پیغمبر(ص) مخاطب قرار پایے هیں که اپنی بیویوں سے یوں کهے :"یا ایها النبی قل لا زواجک..."
اس کو جاری رکهتے هویے خدا وند متعال نے خطاب کو بیت رسالت اور مقام نبوت سے متوجه کیا هے.تاکه اس نکته کو سمجهایے که پیغمبر(ص) کی بیویوں کو اتنے امر ونهی کر نے کی وجه یه هے که اس طرف سے بهی اهل بیت میں پلیدی داخل نه هو جایے ،کیونکه خدا وند متعال نے اراده کیا هے که اهل بیت سے پلیدی کو دور کرے،پس سیاق بهی آیه تطهیر کے اصحاب کساء میں حصر هو نے کے منافی نهیں هے.
لیکن سوال کے دوسرے حصه کا جواب:مذ کوره بیان کے بعد شاید اب پهر سے جواب دینے کی ضرورت نه هو صرف اس نکته پر تاکید کر نا کافی هے که متعدد روایتوں میں بیان هوا هے که اهل بیت سے مراد پیغمبر(ص)،امام علی (ع)،حضرت فاطمه(ع)،امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)هیں اور دوسرے ایمه بهی آیه تطهیر کے حکم اور تاویل کے لحاظ سے ان میں شامل هوتے هیں .
جس چیز سے سوال میں استناد کیا گیا هے ،وه وهى چیز هے جو بعض لو گوں کے کلام میں آئی هے که چونکه آیه تطهیر ،پیغمبر اکرم(ص) کی بیویوں سے متعلق آیات کے ضمن میں قرار پایی هے،اگر پیغمبر(ص) کی بیویوں سے مخصوص نه هو ،تو کم از کم انهیں بهی عام طور پر احاطه کرتی هے ،لیکن یه بے دلیل دعوی هے اس کے علاوه اس کے بر خلاف کافی دلیلیں پائی جاتی ھیں.
مندرجه ذیل نکات پر توجه کر نے سے همیں حقیقت تک پهنچنے میں مدد ملے گی:
١.اگر چه همارا اعتقاد هے که قرآن مجید کا نظم وتر تیب پیغمبر اکرم(ص) کے زمانه میں اور آپ(ص) کے توسط سے انجام پایا هے ،لیکن اس بات کو مد نظر رکھنا چاهیے که بعض روایات کے مطابق آیه تطهیر مستقل طور پر نازل هویی هے حتی که ایک بھی روایت میں نهیں آیا هے که یه آیت پیغمبر (ص)کی بیویوں سے متعلق آیات کے ضمن میں نازل هویی هے.اس کی دلیل یه هے که اگر اس آیت کو یهاں سے اٹها لیا جایے تو باقی آیات کے ڈھانچے میں کویی خلل واقع نهیں هوتا هے.[1]
اس آیت کو یهاں پر رکهنے سے مراد یه هے که قرآن مجید پیغمبر(ص) کے خاندان کے تمام افراد کی طرف اشاره کرے اور انھیں دوحصوں میں تقسیم کرے،ایک حصه پیغمبر (ص)کی بیویاں اور دوسرا حصه پیغمبر(ص)کے اهل بیت،اور یه سمجهایے که پیغمبر (ص) کے تمام اقارب اور رشته دار ایک هی تار و پود سے نهیں هیں ،بلکه ان کے در میان چند خاص افراد هیں جن کے لیے خدا کی خاص عنایت شامل حال هے اور ناپاکیوں سے پاک کیے گیے هیں,
دوسرے الفاظ میں،اگر هم یه بهی قبول کریں که آیه تطهیر کے ماقبل و مابعد پیغمبر(ص) کی بیویوں سے خطاب هوا هے تو هم مزید دو طریقوں سے ثابت کر سکتے هیں که اهل بیت سے مراد صرف اصحاب کساء هیں ،یعنی پیغمبر (ص)،علی (ع)،فاطمه(ع)،حسن(ع) اور حسین(ع).
الف،توجه:توجه ،بیان کا ایک طریقه هے جو تقریر و تحریر کی زیبایی کا سبب بن جاتا هے ،جیسا که سوره حمد میں آیا هے که وهاں پرغایب (الحمدالله)خطاب سے حاضر (ایاک نعبد)میں تبدیل هوا هے اور آیه تطهیر میں بهی تو جه اس نکته کو سمجهانے کے لیے هے که اهل بیت سے پلیدی کو دور کر نا، حد درجه اھمیت رکھتا ھے یھاں تک که پیغمبر(ص) کی بیویوں کو بھی اس طرح امر ونهی هوا هے که ان کی طرف سے بهی اهل بیت تک کوئی عیب و اعتراض نه پهنچے.[2] ب،اعتراض: کلام میں جمله معترضه کو لانااهل فصاحت و بلاغت کے لئے رسم و رواج میں ھے اور وه ایسا کام اس لئے انجام دیتے هیں که مطلب بهتر صورت میں ذهن نشین هو جائے اور یه طریقه قرآن مجید میں کیی بار دهرایا گیا هے.[3] زیر نظر آیت میں ،اس لیے یه جمله معترضه آیا هے ،که کوئی تصور نه کرے که اهل بیت عصمت و طهارت پیغمبر(ص)کی بیویوں کے برابر هیں ،یعنی جهاں پر پیغمبر(ص)کی بیویوں کےلیے گناه اور ناپسند کام کے ممکن هو نے کی بات کی جاتی هے ،وھاں یه بھی ممکن هے کھ یه احتمال اهل بیت اطهار کے حق میں بهی دیا جایے ،جبکه وه ان چیزوں سے پاک هیں.اس لیے جمله معترضه میں ذکر کردیا گیا هےکه:"انما یریدالله لیذهب..."[4]
٢.ان آیات میں جمع مونث کے٢٠ ضمائر استعمال هو نے کے بعد خداوند متعال کا لهجه بدل گیا ھے اور ان ضمائر کی جگه پر ضمیر جمع مذکر لائی گئی هے اور یه سب سے بڑا قرینه هے که دعوی شده اظھار سیاق سے اجتناب کیا جانا چاهیے اور آیه تطهیر کو پیغمبر(ص) کی بیویوں سے خطاب نهیں جاننا چاهیے.
٣.اهل لغت قایل هیں که لفظ"اهل"کا بیوی پر اطلاق نهیں هوتاهے ،مگر مجاز[5] کی صورت میں ھوسکتا ھے اور سوره هود کی آیت نمبر ٧٣میں اگر چه "اهل بیت"کا بیوی پر اطلاق هوا هے،لیکن استعمال حقیقت سے اعم هے اور قرینه کے موجود ھونے کے فرض پر،معنی مجازی کا اراده کر نے میں کویی حرج نهیں هے اور مذکوره آیت میں اس قسم کے استعمال کےلئے قرینه موجود هے ،لیکن آیه تطهیر میں نه صرف اس مجاز کے لئےکوئی قرینه موجود نهیں هے ،بلکه اس کے برعکس قرینه موجود هے ،اسی لیے ام سلمه پیغمبر اکرم(ص) سے آیه تطهیر کے نازل هو نے کے بعد سوال کرتی هیں که کیا وه بهی اهل بیت میں سے هیں؟یا پیغمبر(ص)سےدرخواست کر تى هیںکه اسے اهل بیت میں شامل کریں[6] جبکه اگر لفظ"اهل"پیغمبر(ص)کی بیویوں پر بهی مشتمل هو تاتو ام سلمه کا سوال یا درخواست کر نا بے جا تها.
اسى لیے زید بن ارقم کهتے هیں :اهل بیت کا عنوان بیویوں پر صادق نهیں آتاهے.[7]
٤.اهل سنت سے نقل کی گیی روایتوں کے مطابق ،عایشه وام سلمه واضح الفاظ میں اعلان کرتی تهیںکه آیه تطهیر ان کی شان میں نازل نهیں هویی هے.[8] اور علامه امینی کے فر مانے کے مطابق اگر یه آیت پیغمبر(ص)کی بیویوں پر بهی مشتمل هو تی تو عایشه ضرور اسے جنگ جمل میں اپنی اونٹنی کے ماتهے پر لکهتیں .لیکن انھوں نے یه کام نهیں کیا باوجودیکه اس قسم کے دلایل کی محتاج تھیں.[9]
اس کے باوجود ،دو طایفوں نے دعوی کیا هے آیه تطهیر پیغمبر(ص) کی بیویوں پر نازل هویی هے .پهلا طایفه ،بعض راویوں جیسے:عکرمه ،مقاتل بن سلیمان اور عروه بن زبیر پر مشتمل هے که کلى طور پر انهوں نے اپنا ذاتی نظریه پیش کیا هے اور جهاں پر انهوں نے اس روایت کو ابن عباس سے نقل کیا هے ،جهوٹ بولنے کے متهم هویے هیں.[10]
دوسرا طائفه بعض اهل سنت مفسرین هیں جنهوں نے سیاق واحد کے استناد پر ،اس قسم کے مطلب کا دعوی کیا هے .لیکن وحدت سیاق کو ،قبول کر نے کے فرض پر بهی ،مذکوره محکم دلیلوں کے سامنے اس کی کوئی اهمیت باقی نهیں رهتی -
٥.سوره احزاب کی آیت نمبر٢٩ میں لفظ"تردن"اس نکته کی حکایت کر تا هے که پروردگار عالم کی ذات نے ،پیغمبر(ص)کی بیویوں کے بارے میں غیر معمولی مشیت کا مظاهره نهیں کیا هے ،یعنی انهیں مختار فر ماکر ذکر کیا هے که اگر پیغمبر اکرم(ص)کی بیویاں هو نے کا فخر حاصل کر نا چاهتی هیں تو انهیں صالحین کے نقش قدم پر چلنا هوگا.
لیکن آیه تطهیر میں "انما یرید الله "کا حصه ایک ایسے خاندان کی حکایت کر تا هے جو هر قسم کی پلیدی سے پاک هے اور حق تعالی کی مشیت اور تکوینی[11] اراده سے پیدا هوا هے.
وضاحت یه که آیه تطهیر میں ایک طرف "انما"آیا هے جو پلیدی کو دور کر نے کے اور تطهیر کے حصر کی حکایت کر تا هے اور دوسری طرف "اهل بیت"پر "عنکم"مقدم قرار پایا هے اور لفظ"اهل"بهی حصر واختصاص کے طور پر آیا هے اور یه دونوں رجس کے دور هو نے اور ان اهل بیت کے پاک هو نے کے حصر هیں جو"عنکم"میں مخاطب قرار پایے هیں اور اسی کی دلالت کر تے هیں،یعنی خدا وند متعال نے اراده کیا هے که صرف آپ اهل بیت سے پلیدی کو دور کرے.
اس لئے،اهل بیت ایک اهم خصوصیت کے حامل هیں اور "یرید"خدا کی طرف سے اراده کی دلیل هے جو اس خاندان سے پلیدی کو دور کر نے سے متعلق هے اور یه عنایت و توفیق هر ایک کو حاصل نهیں هوتى هے ،بلکه وه لوگ ان خاص عنایتوں سے بهره مند هو تے هیں ،جو اپنے اختیار اوراراده سے اس کے لئے مناسب ماحول فراهم کرتے هیں.
یه اراده ناقابل تغیر هے اور پیغمبر(ص) کی بیویوں سے متعلق نهیں هو سکتا هے چونکه آیه تطهیر سے قبل والی آیات میں صراحت سے بیان هوا هے که ممکن هے تم عورتیں دنیا کی پست زندگی کی طرف میلان پیدا کروگی تو اس صورت میں پیغمبر(ص)کی بیویاں هو نے کے فخر سے محروم هو جاؤ گے.[12]
٦.لفظ اهل بیت میں ،الف و"لام"عهد کے لئےهے اور رونما ھونے والے واقعه کی طرف اشاره کر تا هے .یعنی لفظ "اهل البیت"مانند "یوم الدار"ے جو ایک مشخص عنوان هے،اس دن کے لیے جب پیغمبر اسلام (ص)نے کچهـ لوگوں کو حضرت ابو طالب کے گهر میں جمع کر کے اپنی نبوت کا اعلان فر مایا تها ،یه عنوان ایک اشاره هے[13] اور ان لوگوں کی حکایت کر تا هے جوایک خاص گهر میں(روایات کے مطابق یه گهر ام سلمه کا گهر تها)ایک خاص دن میں پیغمبر (ص)کی عبا کے نیچے جمع تهے اور وه افراد عبارت هیں :پیغمبر(ص)،علی(ع)،فاطمه(ع)،حسن(ع)اور حسین(ع)،[14] یعنی اهل بیت کے عنوان کا آل عبا اور اصحاب کساء کے عنوان سے کوئی فرق نهیں هے.
منطقی لحاظ سے یه ایک قضیه خارجی هے نه کھ حقیقی اور خارجی قضایا بعض اوقات ایسے هو تے هیں که ایک عنوان موضوع کا اشاره قرار پاتا هے ،مثال کے طور پر اگر کها جایے که ان دو عالموں کا احترام کرو،یعنی ان دو اشخاص کا جو خارج میں موجود هیں،اور یه بدیهی هے که خارجی قضایا میں حکم غیر موضوع پر مشتمل نهیں هو تا هے .لیکن شواهد:
١لف:"بیت"کی ماقبل اور مابعد آیات میں جمع کى صورت میں عورتوں پر اضافه هوا هے که عورتوں کے کمرے کے معنی میں هے.پس "البیت"بھی ایک مخصوص کمره هو نا چاهیے.
ب:روایات کے مطابق آیت شخص پیغمبر(ص)پر بهی مشتمل هے کیا اس میں پیغمبر(ص) کے شامل هو نے کے لیے اس تفسیر کے علاوه کویی اور راه هے؟
ج:سوره هود کی آیت نمبر ٧٣ میں لفظ"اهل بیت"،الف و لام سے آیا هے اور وهاں پر مراد "اهل خانه"یعنی حضرت ابراهیم (ع)اورساره هیں اور یقیناوهاں پر مراد،اهل قبله ،ابراهیم(ع)کی بیویاں یا ابراهیم (ع) کے رشته دار نهیں هیں اور یه همیں آیه تطهیر میں لفظ"اهل البیت"کے معنى کو سمجهنے میں مدد کر سکتا هے.[15]
٧.ان آیات اور آیه تطهیر میں غور کر نے سے وثوق کے ساته کها جاسکتا هے که آیت کا سیاق نه صرف آیه تطهیر کے پیغمبر(ص)کی بیویوں پر مشتمل هو نے کی دلیل نهیں هے (خواه خصوصی طور پر که صرف پیغمبر(ص)کی بیویاں شامل هوں یا عمومی طور پر که پیغمبر(ص) کی بیویاں اور دوسرے لوگ شامل هوں)بلکه اس نظریه کے موافق هے که آیت اصحاب کساء کی شان میں نازل هویی هے.
ان آیات میں ،پیغمبر(ص)کے لئے خطاب هو تا هے :"یا ایها النبی قل لازواجک..."
یعنی خدا وند متعال نے پیغمبر (ص)کو حکم دیا که اپنی بیویوں کو خدا ورسول(ص)اور دنیا کی زندگی میں مختار بنا دے.اس کے علاوه فر مایا :"یا نساء النبی من یات منکن بفاحشه مبینه یضاعف لها العذاب و..."اور یه خطاب عورتوں کے لیے اور خدا کے حکم کے استمرار میں پیغمبر(ص)کے لیے هے تا که اپنی بیویوں تک اس حکم کو پهنچادیں یا تذکره اور توجه کے طور پر هے که خدا وند متعال براه راست پیغمبر(ص)کی بیویوں سے خطاب کر تا هے .
اس آیت میں تَذَکُّر اور توجه کا فلسفه یه هے که پیغمبر(ص)کی بیویاں پیغمبر(ص) سے منسوب هیں اور مقام نبوت اور بیت رسالت کا احترام بر قرار رکھنے کے لیے خدا نے ان سے خطاب کیا هے اور فر مایا هے :اگر تم میں سے کسی نے کهلم کهلا برے کام کا ارتکاب کیا تو اس پر دوگنا عذاب کیا جایےگا اور اس کو جاری رکهتے هویے خداوند متعال نبوت کے مقام اور رسالت کے گهر سے مخاطب هوا هے تاکه اس نکته کو سمجهایے که پیغمبر(ص)کی بیویوں کا ذکر کرنے اور ان اوامر و نواهی کے صادر کر نے کا سبب اس گهر سے هر قسم کی پلیدی کو دور کر نا اور اسے پاک و پاکیزه بنانا هے.
"انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس..."یعنی خدا وند متعال نے پیغمبر(ص) کی بیویوں سے تشریعی اراده کے ذریعه چاها تاکه یه کام انجام دیں ،یه اس لئے هے که آپ اهل بیت اور پیغمبر(ص) کے مقام اور بیت نبوت سے پلیدی کو دور کرے اور اس سلسله میں همارا استدلال یه هے که آیت نے فر مایا :"لیذهب عنکم الرجس"اور یه نه فر مایا :"الاذهاب الرجس"اور لام تعلیل کے لیے هے،پس خدا وند متعال نے اراده کیا هے که پیغمبر(ص) کی بیویوں پر کچهـ تکا لیف عاید کرے.اس اراده کی وجه اهل بیت سے پلیدی کو دور کر نا هے ،تاکه اس جهت سے بهی،اهل بیت رسول اکرم(ص)کو کسی قسم کی پلیدی اور ضرر نه پهنچ پایے.
یه امر ،اهل بیت سے پلیدی کو دور کر نے کے تکوینی اراده کی حکایت کر تا هے اور یه اصل و بنیاد هے اور یه اصل اس قدر اهمیت کی حامل هے که حقیقت میں خدا وند متعال ھر گز نھیں چاھتا هے که اس گهر سے منسوب افراد کے ذریعه بهی اهل بیت کو کسی قسم کا نقصان پهنچے .اس لیے تشریعی امر ونهی کے ذریعه پیغمبر(ص) کی بیویوں کے لئے برایی کے مرتکب هونے کی صورت میں دوگنی سزا مقرر کی هے.[16] نتیجه یه که :
١.آیه تطهیر کا اصحاب کساء پر منحصر هو نا سیاق سے منافی نهیں هے اور اگر توجه اور جمله معترضه کے لحاظ سے کسی سیاق سے منافات هو،تو اس میں موجود قراین کے پیش نظر معلوم هو تا هے که آیت منحصر به اصحاب کساء هے.
٢.اهل بیت سے مراد ،پیغمبر(ص) ،علی(ع) ،فاطمه(ع)،حسن(ع)اور حسین(ع)هیں،یا اس لحاظ سے که یه لفظ قرآن مجید میں ایک خاص لفظ هے[17] یا یه که اهل بیت اشاره شده عنوان هے.[18]
آخر پر اس سوال پر بحث کی جانی چاهیے که اگر ایسا هے تو ائمه اطهار(ع) نے لفظ اهل بیت کو اپنے سے کیا مطابق جانا هے؟[19]
اس سوال کے جواب میں کهنا چاهئیے که: اس تفسیر کے پیش نظر که آیت میں نبوت کے گهر،اور مقام رسالت سے مخاطب کیا گیا هے اور اس گهر کی وسعت اور تنگی کے حدود قراین اور روایات کے ذریعه مشخص هو تے هیں اور اس میں موجود قراین اس نکته کی حکایت کرتے هیں که آیه تطهیر نے مسلمانوں کی رهبری اور سربراھی کو اهل بیت کے ذمه رکهنا چاها هے.
لیکن شواهد:
الف:حضرت علی (ع)،مهاجر و انصار کے اجتماع میں ،مسلمانوں کی قیادت کے سلسله میں اپنی اولیت کےلئے اهل بیت سے هو نے سے استدلال کرتے هیں.[20]
ب:حضرت علی(ع)،حضرت عمر کی چهـ افراد پر مشتمل شوری میں ،اپنی قابلیت کے ثبوت میں آیه تطهیر سے استدلال کرتے هیں.[21]
ج:امام حسن(ع) نے بهی،خلافت پر پهنچنے کے موقع پر ،امت اسلامیه کی رهبری کے لئے اپنی لیاقت کے ثبوت میں آیه تطهیر سے استناد کیا ھے .[22]
د:امام حسین(ع) نے بهی اس سلسله میں اپنی صلاحیت کے ثبوت میں آیه تطهیر سے استناد کیا هے.[23]
٥.پیغمبراسلام(ع)،چھـ مهینے یا اس سے زیاده مدت تک ،هر روز صبح مسجد النبی (ص)میں نماز کے لیے جاتے هویے ،حضرت فاطمه زهراء(ع)کے گهر کے دروازه پر کهڑے هو کر فر ماتے تهے:انما یرید الله لیذ هب.[24]
کیا اس عمل سےپیغمبراکرم(ص) کا اس کے علاوه کویی اور مقصد تها که لوگوں میں اعلان کریں که آپ (ص)کے بعد کسی اور کے گهر کی طرف رجوع نه کریں.؟!
اس لیے یه عنوان اهل بیت اطهار سے متعلق هے ،کیونکه وه امت اسلامیه کے حقیقی رهبر اور قاید هیں.
یه مطلب ، حتی که "الف ولام"کو عهد خارجی اور اهل بیت کے عنوان کو عنوان اشاره تفسیر کر نے کے مطابق بھی صادق آتا هے ،کیو نکه اس نظریه کے مطابق لفظ اهل بیت دو لحاظ سے ملحوظ نظر قرار پاتا هے :
١.یه لفظ نزول کی مناسبت سے ملحوظ نظر قرار پایا هے.
٢.یه عنوان اس سے متعلق حکم کی مناسبت ،یعنی پلیدی کو دور کر نے اور طهارت کے ثبوت سےملحوظ نظر قرار پایا هے.
پهلے لحاظ کے مطابق صرف اهل بیت آل کساء هیں ،یعنی وهی پنجتن پاک جو ایک خاص دن میں عبا کے نیچے قرار پایے.
لیکن دوسرے لحاظ سے چونکه دوسرے ایمه اطهار(ع) آیه تطهیر کے مفهوم میں پنجتن آل عبا کے شریک و یکساں هیں،لهذا یه عنوان ان پر بهی صادق آتا هے اور شاید اسى وجه سے پیغمبر اکرم(ص) نے فر مایا هے :سلمان ،هم اهل بیت میں سے هے.[25]
امام صادق (ع) نے ابن کثیر کے جواب میں فر مایا:اهل بیت وهی پنجتن هیں،لیکن دوسرے ایمه قرآن مجید کی ایک دوسری آیت ،یعنی:"اولواالارحام بعضهم اولی بعض فی کتاب الله " کے استناد سے اس خاص عنایت میں شامل هیں.[26] یعنی آیت کی تفسیر نے،دوسرے ائمه کو بھی پلیدی کے دور هو نے کی عنا یت میں شامل قرار دیا هے .آیه "تطهیر" کی تفسیر آیه "اولواالارحام "ے جو ثابت کرتی هے که آیه تطهیر ایمه اطهار(ع) پر بھی مشتمل هے.[27] لیکن لفظ کے ذریعه نھیں بلکه شرح وتفسیر کے ذریعه.
[1] طباطبایی،المیزان،ج١٦،ص٣١١.٣١٢.
[2] کر کی ،نفحات اللاهوت،ص٨٥:مظفر،محمد حسین،دلایل الصدق،سید جعفر مرتضی عاملى،"اهل بیت در آیه تطهیر "،ص٥٨.٦١.
[3] یوسف/٢٨و٢٩،نمل/٣٤و٣٥:بقره/٧٥.٧٣،واقعه /٧٦،لقمان/١٦و١٣.
[4] ملاحظه هو:"اهل بیت در آیه تطهیر "،ص٦٢.٦٠،اشراقی ،شهاب الدین وفاضل لنکرانی ،"اهل بیت"،ص٥٣.٨١.
[5] اهل لغت نے "اهل رجل"اور "اهل بیت"میں فرق کیا هے اور عورتوں پر اهل بیت کے استعمال کو مجاز اور مسامحه گویی جانتے هیں.ملاحظه هو:تاج العروس ،ج١،ص٢١٧،لسان العرب ،ج١ ص٣٨،مفردات راغب،ص٢٩.لهذا پیغمبر (ص)کی بعض روایات کے مفهوم کے مطابق اگر چه ام سلمه کو اپنے اهل اور بیویوں میں سے جانتے هیں لیکن آپ(ص)نے یه قبول نهیں فر مایا هے که وه اهل بیت سے هیں .ملاحظه هو:سیوطی ،الدر المنثور ،ج٥،ص١٩٨،مشکل الآثارطحاوی ،ج١،ص٣٣٤،محمد بن جریر ،طبری جامع البیان ،ج٢٢،ص٧،نفحات الاهوت ،ص٨٤،مصطفی بن اسماعیل دمشقی،مرقه الوصول ،ص١٠٦،بحار الانوار ،ج٣٥،ص٢١٧و٢٢٨.ملاحظه هو:تفسیر ابن کثیر،ج٣،ص٤٨٥و٤٨٤،،بحرانی سید هاشم ،غایه المرام.
[7] ابن تیمیه ،منهاج السنه ،ج٤،ص٢١،صحیح مسلم ،ج٧،ص١٢٣،بحار الانوار ،ج٣٥،ص٢٣٠وج٢٣،ص١١٧،ابن حجر عسقلانی ،الصواعق المحرقه ،ص١٤٧،بحرانی،سید هاشم ،البرهان فی تفسیر القرآن ،ج٣،ص٣٢٤،،بیاضی عاملی ،الصراط المستقیم ،ج١،ص١٨٥،شوستری،قاضی نورالله ،احقاق الحق وابطال الباطل ،ملحقات آیت الله مرعشی نجفی ،ج٩،ص٣٢٣،اهل بیت در آیه تطهیر،ص١١٩.
[8] بدران،عبدالقادر ،تهذیب تاریخ دمشق،ج٤،ص٩٠٨،مجمع البیان ،ج٨،ص٣٥٦،قندوزی ،ینابیع الموده،ص٢٤٩،ابن حجر عسقلانی ،الصواعق المحرقه ،ص١٤١و...اهل بیت در آیه تطهیر،ص٢٨.٢٠،،طباطبایی،المیزان ،ج١٦،ص٣١٦.٣٢٤.
[9] به نقل از "کتاب اهل بیت "آیه تطهیر،ص٧٨.
[10] ملاحظه هو:اهل بیت در آیه تطهیر ،ص٢٢،اشراقی و فاضل لنکرانی،اهل بیت ،ص٥.٥٣،موسوی ،علامه شرف الدین، الکلمه الغراء فی تفصیل الزهراء،قا موس الرجال،شرح حال عروه،دلایل الصدق ،ج٢،ص٩٥،شوستری،قاضی نورالله ،احقاق الحق و ابطا ل الباطل،ج٢،ص٥٠٢.
[11] تکوینی اراده وه اراده هے جو مرید کے فعل یعنی تکوینی اور اس کے ایجاد سے متعلق هے اور یه اراده خدا کے لیے بهی هے اور انسان کے لیے بھی ،لیکن انسان کا تکوینی اراده همیشه انجام پانے والا نهیں هے بلکه اراده ازل کے تابع هے .لیکن اراده تشریعی ایک ایسا اراده هے جو دوسرے فعل سے متعلق هے اس لحاظ سے که وه اسے اپنے اختیار سے انجام دے.اور یه وهی خدا کا امر و نهی هے که مکلف کی طرف سے اسے انجام دینا یا انجام نه دینا ممکن هے .
[12] ملاحظه هو:اشراقی و فاضل لنکرانی ،اهل بیت ،ص٨١.٩٢.
[13] یعنی وه عنوان جس میں خارج کی طرف اشاره هواور موضوعیت رکهنے والی چیز خارج هے نه عنوان.
[14] عروسی حویزی ،عبد علی بن جمعه ،تفسیر نور الثقلین ،ج٤،ص٢٧٦و٢٧٧.
[15] ملا حظه هو:اشراقی و فاضل لنکرانی ،اهل بیت ،ص١١٢.١٤٢.
[16] ملاحظه هو:اهل بیت در آیه تطهیر ،ص٥١.٣٨.
[17] ملاحظه هو:طباطبایی ،المیزان،ج١٦،ص٣١٢.
[18] ملاحظه هو:اهل بیت،ص١١٢.
[19] تفسیر نور الثقلین ،ج٤،ص٢٧٥،روایت احتجاج وص٢٧٣روایت اصول کافی.
[20] ابن ابی الحدید ،شرح نهج البلاغه ،ج٦،ص١١و١٢.
[21] بحرانی،سید هاشم،غایه المرام ،ص٢٦٥،احتجاج طبرسی.
[22] قاموس الرجال،ج٦،ص٢٠.
[23] ابن طاوس ،لهوق،ص٥٣.
[24] تفسیر ابن کثیر ،ج٣،ص٤٨٣،مسند احمد ،ج٣،ص٢٥٩،الکلمه الغراء فی تفضیل الزهراء.
[25] قاموس الرجال،ج٤ ،ص٤٢٣.
[26] عروسی حویزی ،عبد علی بن جمعه ،تفسیر نور الثقلین روایت عبدالرحمن بن کثیر ،ج٤،ص٢٧٣.
[27] اشراقی و فاضل لنکرانی ،اهل بیت،ص١٤٣.١١٢و٥.٥٣.