Please Wait
کا
10742
10742
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/01/01
سائٹ کے کوڈ
fa25193
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
72108
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
زیارت وارث،امام حسین (ع) کے وارثِ انبیاء ہونے کے معنی کیا ہیں؟
سوال
زیارت وارث کے بارے میں وضاحت کیجئے اورامام حسین (ع) کے وارثِ حضرت آدم (ع) اور حضرت ابراھیم (ع) ہونے کے کیا معنی ہیں؟
ایک مختصر
زیارت وارث، متعدد کتابوں میں، جیسے شیخ مفید کی " المرار"[1] ، شیخ طوسی کی" مصباح المتہجد"[2] اور دوسرے قابل اعتبار شیعہ منابع میں ذکر کی گی ہے۔ یہ زیارت، حقیقت میں، امام حسین (ع) کی دفن کی جگہ پر زیارت کے دستور العمل کے ایک حصہ کے عنوان سے ہے کہ اس زیارت کو ضریح مبارک کے پاس پہنچ کر سرمبارک کی طرف پڑھنا چاہئے۔[3] بعض نے زیارت وارث کو، عرفہ[4] کے دن امام حسین (ع) کی زیارت کے عنوان سے اور بعض نے شب اور روز عرفہ کے اعمال اور عید قربان کے دن کے اعمال کے عنوان سے بیان کیا ہے۔[5] قابل ذکر ہے کہ دوسری مخلتلف زیارتیں بھی ہیں جن میں اس زیارت سے کافی شباہت پائی جاتی ہے خاص کر ان کے ابتدائی حصہ ہیں۔
وراثت، یعنی یہ کہ ایک چیز کسی شخص سے جو اس دنیا سے گزرگیا ہو، کسی دوسرے شخص کو منتقل ہو جائے۔ یہ چیز مادی بھی ہوسکتی ہے اور معنوی بھی۔[6] اسلامی منابع سے استفادہ کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جو کچھ اس زیارت میں مد نظر ہے، وہ وراثت معنوی اور مادی دونوں ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
1۔ خلیفہ الہی کا مقام: یعنی جیسا کہ خداوند متعال نے حضرت آدم (ع) کو زمین پر اپنے خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا، دوسرے انبیاء (ع) اور ان کے جانشین بھی زمین پر خدا کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے اور اس مقام کو یکے بعد دیگرے وراثت میں حاصل کرتے تھے۔ امام حسین (ع) نے بھی اس معنوی مقام کو اپنے نانا، باپ اور بھائی کے بعد وراثت میں حاصل کیا ہے اور اس کے عہدہ دار ہوئے ہیں۔
2۔ علم: بہت سی روایتوں اور زیارتوں میں آیا ہے کہ امام حسین (ع) اور دوسرے ائمہ (ع) انبیاء(ع) خاص کر پیغمبر اسلام (ص) کےعلم کے وارث تھے۔ اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:"حضرت داؤد[ع] نے انبیاء (ع) کے علم کو وراثت میں حاصل کیا اور سلیمان (ع) نے بھی اس علم کو اپنے باپ داؤد[ع] سے وراثت می لے لیا اور ہم نے بھی اس علم کو حضرت محمد (ص) سے واثت میں لے لیا ہے۔"[7]
3۔ آسمانی کتابیں: جو زیارت نیمہ شعبان اور اول ماہ رجب کے لئے ذکر کی گئی ہے، اس میں امام حسین (ع) وارثِ تورات، انجیل و زبو کے عنوان سے بیان کئے گئے ہیں۔[8] کیونکہ ان کتابوں کے اصل اور حقیقت، وہ مطالب ہیں جو ان میں لکھے گئے ہیں اور امام حسین (ع) بھی ان مطالب کے بارے میں آگاہ ہیں۔
4۔انبیاء (ع) سے متعلق بعض چیزیں: [9]بعض انبیاء (ع) کے ہمراہ کچھ مقدس و سائل اور چیزیں ہوتی تھیں، جن کی معجزہ نما خصوصیتیں تھیں، جیسے: حضرت موسی(ع) کا عصا اور صندوق، حضرت ابراحیم [ع]کا لباس اور حضرت سلیمان (ع) کی انگوٹھی۔ روایات کے مطابق، یہ چیزیں ائمہ اطہار (ع) کو منتقل ہوئی ہیں اور اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں اور ظہور کے وقت آپ (ع) انھیں اپنے ساتھ لائیں گے اور ان سے استفادہ کریں گے۔[10]
وراثت، یعنی یہ کہ ایک چیز کسی شخص سے جو اس دنیا سے گزرگیا ہو، کسی دوسرے شخص کو منتقل ہو جائے۔ یہ چیز مادی بھی ہوسکتی ہے اور معنوی بھی۔[6] اسلامی منابع سے استفادہ کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جو کچھ اس زیارت میں مد نظر ہے، وہ وراثت معنوی اور مادی دونوں ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
1۔ خلیفہ الہی کا مقام: یعنی جیسا کہ خداوند متعال نے حضرت آدم (ع) کو زمین پر اپنے خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا، دوسرے انبیاء (ع) اور ان کے جانشین بھی زمین پر خدا کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے اور اس مقام کو یکے بعد دیگرے وراثت میں حاصل کرتے تھے۔ امام حسین (ع) نے بھی اس معنوی مقام کو اپنے نانا، باپ اور بھائی کے بعد وراثت میں حاصل کیا ہے اور اس کے عہدہ دار ہوئے ہیں۔
2۔ علم: بہت سی روایتوں اور زیارتوں میں آیا ہے کہ امام حسین (ع) اور دوسرے ائمہ (ع) انبیاء(ع) خاص کر پیغمبر اسلام (ص) کےعلم کے وارث تھے۔ اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:"حضرت داؤد[ع] نے انبیاء (ع) کے علم کو وراثت میں حاصل کیا اور سلیمان (ع) نے بھی اس علم کو اپنے باپ داؤد[ع] سے وراثت می لے لیا اور ہم نے بھی اس علم کو حضرت محمد (ص) سے واثت میں لے لیا ہے۔"[7]
3۔ آسمانی کتابیں: جو زیارت نیمہ شعبان اور اول ماہ رجب کے لئے ذکر کی گئی ہے، اس میں امام حسین (ع) وارثِ تورات، انجیل و زبو کے عنوان سے بیان کئے گئے ہیں۔[8] کیونکہ ان کتابوں کے اصل اور حقیقت، وہ مطالب ہیں جو ان میں لکھے گئے ہیں اور امام حسین (ع) بھی ان مطالب کے بارے میں آگاہ ہیں۔
4۔انبیاء (ع) سے متعلق بعض چیزیں: [9]بعض انبیاء (ع) کے ہمراہ کچھ مقدس و سائل اور چیزیں ہوتی تھیں، جن کی معجزہ نما خصوصیتیں تھیں، جیسے: حضرت موسی(ع) کا عصا اور صندوق، حضرت ابراحیم [ع]کا لباس اور حضرت سلیمان (ع) کی انگوٹھی۔ روایات کے مطابق، یہ چیزیں ائمہ اطہار (ع) کو منتقل ہوئی ہیں اور اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں اور ظہور کے وقت آپ (ع) انھیں اپنے ساتھ لائیں گے اور ان سے استفادہ کریں گے۔[10]
[1] ۔ شیخ مفید، محمّد بن محمد بن نعمان، کتاب المزار، محقق و مصحح: ابطحی، سید محمد باقر، ص 106، کنگره جهانی هزاره شیخ مفید، قم، طبع اول، 1413ق.
[2] ۔ شیخ طوسی، ابو جعفر محمد بن حسن، مصباح المتهجد و سلاح المتعبّد، ج 2، ص 720، مؤسسة فقه الشیعة، بیروت، طبع اول، 1411ق.
[3] ۔ سید ابن طاوس، علی بن موسی، الإقبال بالأعمال الحسنة، محقق و مصحح: قيومى اصفهانى، جواد، ج 2، ص 63، دفتر تبلیغات اسلامی، قم، طبع اول، 1376ش.
[4] ۔ ابن مشهدی، محمد بن جعفر، المزار الكبير، محقق و مصحح: قیومی اصفهانی، جواد، ص 462، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع اول، 1419ق.
[5] ۔ کفعمی، ابراهیم بن علی، المصباح (جنة الأمان الواقیة و جنة الإیمان الباقیة)، ص 501 و 502، دار الرضی (زاهدی)، قم، طبع دوم، 1405ق.
[6] ۔ مصطفوی، حسن، التحقيق فی كلمات القرآن الكريم، ج 13، ص 78، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، تهران، طبع اول، 1368ش.
[7] ۔«السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا إِمَامَ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَارِثَ عِلْمِ النَّبِيِّينَ وَ سُلَالَةَ الْوَصِيِّين»؛ ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، محقق و مصحح: امینی، عبد الحسین، ص 318، دار المرتضویة، نجف اشرف، طبع اول، 1356ش.
[8] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 225، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ق.
[9] ۔«السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا وَارِثَ التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ الزَّبُور»؛ الإقبال بالأعمال الحسنة، ج 3، ص 341.
[10] ۔: الکافی، ج 1، ص 231 – 237.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے