Please Wait
کا
8817
8817
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2011/05/17
سوال کا خلاصہ
کیا اھل سنت کی کتابوں میں نقل کی گئی مشھور "حدیث قلم و کاغذ" صحیح ھے؟
سوال
میرا سوال، "حدیث دوات و قلم" کے بارے میں ھے۔
۱۔ میں نے شیعوں کی کتابوں کا مطالعه کیا اور معلوم ھوا که تمام شیعه راویوں [ شیخ مفید سے لے کر کتاب بحارالانوار اور مناقب تک] نے اس [روایت کو] یا صحیح مسلم و صحیح بخاری [حضرت علی کی امامت کے دشمنوں] کے قول سے روایت کی ھے یا زمانه کے لحاظ سے بخاری اور مسلم کے نقل کرنے کے بعد والے زمانه میں [بخاری کی وفات ۲۵۶ ھجری ھے اور اس سے قبل اس قسم کی کوئی حدیث نھیں ھے] اس کے علاوه جو راوی مسلم اور بخاری کے زمانه سے عبدالله بن عباس تک پھنچتے ھیں، ان میں سے خود ابن عباس کے علاوه کوئی راوی شیعوں کے نزدیک موثق نھیں ھے، ابن عباس فریقین [سنی اور شیعه] کے ھاں قابل قبول ھیں۔ ۔ ۔ اسی طرح جو سند ابان بن عیاش سے روایت کی گئی ھے، قابل اعتراض ھے۔ اس کی وجه یه ھے که کتاب" تنقیح المقال" میں، بعض علماء کی توضیحات میں اسے فاسد المذھب کها گیا ھے [ تنقیح المقال، ج ۱ ص ۳]۔اسی طرح علامه امینی نے کتاب "الغدیر" میں کتاب "تهذیب المنطق" سے استناد کرکے، ابان بن ابی عیاش کو جھوٹا اور حدیث جعل کرنے والا کها ھے [الغدیر ۵/۲۰۹ ] حتی که علماء "سلیم بن قیس" اس وقت موجوده اصل کتاب پر شک و شبھه کرتے ھیں، من جمله شیخ مفید اس کتاب کو ضعیف جانتے ھیں۔ اور اس سلسله میں فرماتے ھیں: " اس کتاب پر اطمینان نھیں کیا جاسکتا ھے اور اس کے اکثر مطالب پر عمل نھیں کیا جاسکتا ھے، کیونکه یه کتاب دروغ آمیزی اور عوام فریبی پر مشتمل ھے۔ پس مناسب ھے که دیندار لوگ اس کتاب کے تمام مطالب پر عمل کرنے سے پرھیز کریں اور اس پر اعتماد نه کریں اور اس کی احادیث کو نقل نه کریں" [ تصحیح الاعتقاد، ص ۷۲] اور شیخ طوسی نے اسے امام سجاد، امام باقر اور امام صادق [علیھم السلام] کے اصحاب میں ذکر کیا ھے اور اسے ضعیف کها ھے ۔ بھرحال، علم رجال کے علماء، من جمله شیعه اور سنی نے، ابن ابی عیاش کی توثیق نھیں کی ھے [طوسی، رجال،۱۰۶، علام حلی، ۹۹، حلی، ۴۱۴]۔ ایک ایسی کتاب سے استناد کرنا جس کے بارے میں بھت سے علماء شک و شبھه کرتے ھیں اور ابان بن ابی عیاش کو فاسد جانتے ھیں، کوئی خاص دلچسپ بات نھیں لگتی ھے۔ کیا آپ کی نظر میں یھی دلائل اس بات کی علامت نھیں ھیں که اس حدیث کے بارے میں شیعوں کی سند کافی ضعیف ھے؟
۲۔ شیعوں کی اصلی کتب اربعه میں جبکه حضرت زھراء [ع] و علی[ع] کے خلاف اھل نفاق کے خاص مظالم پائے جاتے ھیں، تو ائمه اطھار علیھم السلام نے کسی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر اس حدیث کی روایت نھیں کی ھے؟
۳۔ اھل سنت کچھ تعبیریں اور توجیهات پیش کرتے ھیں، حتی که ایک حدیث پیش کرتے ھیں اور اسے "حدیث دوات و قلم" کے ساتھ ضمیمه کرتے ھیں تاکه ھمارے استدلال کو مورد سوال قرار دیں، مثال کے طور پر یه حدیث: عن عائشة قالت: قال لی رسول الله صلى الله علیه و سلم فی مرضه: «ادعی لی أبابکر أباک و أخاک حتی أکتب کتاباً فإنی أخاف أن تتمنی متمناً و یقول قائل: أنا، و یأبی الله و المؤمنون إلا أبابکر (صحیح مسلم جلد7 بابی از فضائل ابو بکر صفحه 110 طبع محمد علی صبیح) اور کهتے ھیں که اگر آپ مسلم و بخاری سے استناد کرتے ھیں، تو اسے بھی قبول کیجئے!! کیا آپ کی نظر میں پھربھی ھم یه کهه سکتے ھیں که چونکه وه خود قبول کرتے ھیں، اس لئے ھمیں بھی قبول کرنا چاھئے اور ان کی روایتوں کو استناد کے عنوان سے ذکر کرنا چاھئے؟ اور کیا ھم یه کهه سکتے ھیں که ولایت علی[ع] اس حدیث سے ثابت ھوتی ھے ؟ اور کیا غدیر کی وه عظیم حدیث جو شیعوں کی اصلی کتابوں میں ھے اور قرآن مجید کے مطابق دین کامل ھوتا ھے اور پیغمبر اکرم [ص] کی رسالت تمام ھوتی ھے، علی [ع] کی امامت کی توجیه کرنے کے لئے کافی نھیں ھے؟
۴۔ کیا آپ یه خیال نھیں کرتے ھیں که، چونکه عمر، علی[ع] و محمد[ص] کے دشمن ھیں، لھذا ھم نے یه تصور کیا ھے نه یه که خدانخواسته میں کوئی الزام لگانا چاھتا ھوں، لیکن روایت اس طرح ھے که اذھان اس کی طرف متوجه ھوتے ھیں که چونکه عمر دشمن ھیں پس ناممکن ھے صحیح نه ھو؟ اور کیا آپ کی نظر میں یه کافی ھے؟
۵۔ آپ کی نظر میں کیا دوسرے زاویه سے نھیں سوچاجاسکتا ھے اور ایک نیا نظریه پیش نھیں کیا جاسکتا ھے اور ایک تیسری راه کا انتخاب نھیں کیا جاسکتا ھے؟ یعنی نه وه جو سنی کهتے ھیں اور نه وه جو علمائے شیعه بحق تصور کرتے ھیں؟
۱۔ میں نے شیعوں کی کتابوں کا مطالعه کیا اور معلوم ھوا که تمام شیعه راویوں [ شیخ مفید سے لے کر کتاب بحارالانوار اور مناقب تک] نے اس [روایت کو] یا صحیح مسلم و صحیح بخاری [حضرت علی کی امامت کے دشمنوں] کے قول سے روایت کی ھے یا زمانه کے لحاظ سے بخاری اور مسلم کے نقل کرنے کے بعد والے زمانه میں [بخاری کی وفات ۲۵۶ ھجری ھے اور اس سے قبل اس قسم کی کوئی حدیث نھیں ھے] اس کے علاوه جو راوی مسلم اور بخاری کے زمانه سے عبدالله بن عباس تک پھنچتے ھیں، ان میں سے خود ابن عباس کے علاوه کوئی راوی شیعوں کے نزدیک موثق نھیں ھے، ابن عباس فریقین [سنی اور شیعه] کے ھاں قابل قبول ھیں۔ ۔ ۔ اسی طرح جو سند ابان بن عیاش سے روایت کی گئی ھے، قابل اعتراض ھے۔ اس کی وجه یه ھے که کتاب" تنقیح المقال" میں، بعض علماء کی توضیحات میں اسے فاسد المذھب کها گیا ھے [ تنقیح المقال، ج ۱ ص ۳]۔اسی طرح علامه امینی نے کتاب "الغدیر" میں کتاب "تهذیب المنطق" سے استناد کرکے، ابان بن ابی عیاش کو جھوٹا اور حدیث جعل کرنے والا کها ھے [الغدیر ۵/۲۰۹ ] حتی که علماء "سلیم بن قیس" اس وقت موجوده اصل کتاب پر شک و شبھه کرتے ھیں، من جمله شیخ مفید اس کتاب کو ضعیف جانتے ھیں۔ اور اس سلسله میں فرماتے ھیں: " اس کتاب پر اطمینان نھیں کیا جاسکتا ھے اور اس کے اکثر مطالب پر عمل نھیں کیا جاسکتا ھے، کیونکه یه کتاب دروغ آمیزی اور عوام فریبی پر مشتمل ھے۔ پس مناسب ھے که دیندار لوگ اس کتاب کے تمام مطالب پر عمل کرنے سے پرھیز کریں اور اس پر اعتماد نه کریں اور اس کی احادیث کو نقل نه کریں" [ تصحیح الاعتقاد، ص ۷۲] اور شیخ طوسی نے اسے امام سجاد، امام باقر اور امام صادق [علیھم السلام] کے اصحاب میں ذکر کیا ھے اور اسے ضعیف کها ھے ۔ بھرحال، علم رجال کے علماء، من جمله شیعه اور سنی نے، ابن ابی عیاش کی توثیق نھیں کی ھے [طوسی، رجال،۱۰۶، علام حلی، ۹۹، حلی، ۴۱۴]۔ ایک ایسی کتاب سے استناد کرنا جس کے بارے میں بھت سے علماء شک و شبھه کرتے ھیں اور ابان بن ابی عیاش کو فاسد جانتے ھیں، کوئی خاص دلچسپ بات نھیں لگتی ھے۔ کیا آپ کی نظر میں یھی دلائل اس بات کی علامت نھیں ھیں که اس حدیث کے بارے میں شیعوں کی سند کافی ضعیف ھے؟
۲۔ شیعوں کی اصلی کتب اربعه میں جبکه حضرت زھراء [ع] و علی[ع] کے خلاف اھل نفاق کے خاص مظالم پائے جاتے ھیں، تو ائمه اطھار علیھم السلام نے کسی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر اس حدیث کی روایت نھیں کی ھے؟
۳۔ اھل سنت کچھ تعبیریں اور توجیهات پیش کرتے ھیں، حتی که ایک حدیث پیش کرتے ھیں اور اسے "حدیث دوات و قلم" کے ساتھ ضمیمه کرتے ھیں تاکه ھمارے استدلال کو مورد سوال قرار دیں، مثال کے طور پر یه حدیث: عن عائشة قالت: قال لی رسول الله صلى الله علیه و سلم فی مرضه: «ادعی لی أبابکر أباک و أخاک حتی أکتب کتاباً فإنی أخاف أن تتمنی متمناً و یقول قائل: أنا، و یأبی الله و المؤمنون إلا أبابکر (صحیح مسلم جلد7 بابی از فضائل ابو بکر صفحه 110 طبع محمد علی صبیح) اور کهتے ھیں که اگر آپ مسلم و بخاری سے استناد کرتے ھیں، تو اسے بھی قبول کیجئے!! کیا آپ کی نظر میں پھربھی ھم یه کهه سکتے ھیں که چونکه وه خود قبول کرتے ھیں، اس لئے ھمیں بھی قبول کرنا چاھئے اور ان کی روایتوں کو استناد کے عنوان سے ذکر کرنا چاھئے؟ اور کیا ھم یه کهه سکتے ھیں که ولایت علی[ع] اس حدیث سے ثابت ھوتی ھے ؟ اور کیا غدیر کی وه عظیم حدیث جو شیعوں کی اصلی کتابوں میں ھے اور قرآن مجید کے مطابق دین کامل ھوتا ھے اور پیغمبر اکرم [ص] کی رسالت تمام ھوتی ھے، علی [ع] کی امامت کی توجیه کرنے کے لئے کافی نھیں ھے؟
۴۔ کیا آپ یه خیال نھیں کرتے ھیں که، چونکه عمر، علی[ع] و محمد[ص] کے دشمن ھیں، لھذا ھم نے یه تصور کیا ھے نه یه که خدانخواسته میں کوئی الزام لگانا چاھتا ھوں، لیکن روایت اس طرح ھے که اذھان اس کی طرف متوجه ھوتے ھیں که چونکه عمر دشمن ھیں پس ناممکن ھے صحیح نه ھو؟ اور کیا آپ کی نظر میں یه کافی ھے؟
۵۔ آپ کی نظر میں کیا دوسرے زاویه سے نھیں سوچاجاسکتا ھے اور ایک نیا نظریه پیش نھیں کیا جاسکتا ھے اور ایک تیسری راه کا انتخاب نھیں کیا جاسکتا ھے؟ یعنی نه وه جو سنی کهتے ھیں اور نه وه جو علمائے شیعه بحق تصور کرتے ھیں؟
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے