Please Wait
5224
- سیکنڈ اور
آپ کی توجہ مندرجہ ذیل استفتاآت کی طرف مبذول کرائی جاتی ھے:
دفتر حضرت آیتاللہ العظظمی خامنہ ای{مد ظلہ العالی}:
اگر فلیٹوں کو سکونت کے لئے تعمیر کیا گیا ھے اور ان میں سکونت کی جاتی ھے ،تو اس کا خمس نھیں ھے ،لیکن اگر مثال کے طور پر فلیٹوں کو کرایہ پر د ینےکےلئے تعمیر کیا گیا ھے اور تعمیر پر خرچ کی گئی رقم پر خمس واجب تھا ، تو اس رقم پر خمس دینا واجب ھے-اور اگر عمارت کو بیچنے اور بیچ کر تجارت کرنے کے لئے تعمیر کیا گیا ھے ،تو خمس کا سال پہنچنے پر ان فلیٹوں کی قیمت کا خمس ادا کرنا ضروری ھے-
دفتر آیت اللہ ا لعظمی سیستانی{مدظلہالعالی}:
جی ھاں ،اگر{یہ فلیٹ }ان کی ضرورت کے علاوہ ہوں یا تجارت کی غرض سے تعمیر کئے گئے ھوں ،تو ان
پر خمس ھے-
حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی{مد ظلہ العالی}:
جی ھاں ،ان کی افزودہ قیمت پر خمس دینا ھے-
حضرت آیت اللہ مھدی ھادوی تھرانی {دامت بر کا تہ} کا جواب:
۱-اگر کوئی مال وراثت میں ملے ، اس پر خمس نھیں ھے ، البتہ احتیاط کا تقاضا ھے کہ اگر وارث جانتا ھو کہ خاص طورپر اس مال کا خمس ادا نھیں کیا گیا ھے ،تو اس کا خمس ادا کرنا چاھئے-
۲ – اگر مذکورہ فلیٹ وراثت کا حصہ ھوں تو اس کا حکم نمبر۱ میں بیان کیا گیا، لیکن اگر یہ فلیٹ یا ان کا ایک حصہ، عمارت کے مانند وراثت نہ ھوں ، تو چونکہ سا ل کے خرچہ سے علاوہ ھیں ،اس لئے ان پر خمس ادا کرنا واجب ھے-