Please Wait
14824
مکہ کی واضح نشانیوں میں سے ایک مقام ابراھیم ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت ابراھیم{ع} کھڑے رہے ہیں۔
مقام ابراھیم کے معنی اور اس کی تفسیر کے بارے میں بعض کا یہ اعتقاد ہے کہ پورا "حج" مقام ابراھیم ہے۔ بعض کا یہ اعتقاد ہے کہ "عرفات"، "مشعر الحرام" اور "تین جمرات" مقام ابراھیم ہے۔ بعض کا اعتقاد ہے کہ پورا حرم مکہ، مقام ابراھیم شمار ہوتا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں پائی جانے والی دلیلوں اور آیہ مربوط کے ظاہر کو مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی معروف "مقام ابراھیم" ہے اور وہ خانہ کعبہ کے قریب ایک نقطہ ہے، جہاں پر اس وقت ایک مخصوص پتھر ہے جس پر حضرت ابراھیم{ع} کے پاوں کے نشان نمایاں ہیں۔ حجاج کرام، طواف کعبہ انجام دینے کے بعد اس {مقام ابراھیم} کے پیچھے طواف کی دو رکعت نماز بجا لاتے ہیں۔
نقل کیا گیا ہے کہ جب حضرت ابراھیم{ع} اور حضرت اسماعیل{ع} کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، اور جب حضرت ابراھیم{ع} کے ہاتھ نہیں پہنچے تو انھوں نے اپنے پاوں کے نیچے ایک پتھر رکھ لیا، اور ان کی طاقت کا بوجھ اس پتھر پر پڑا جس کے نتیجہ میں ان کے پاوں کے نشان اس پتھر پر پڑگئے۔ یا یہ کہ جب حضرت ابراھیم{ع} اسماعیل {ع} کی ملاقات کے لیے گیے تو اسماعیل{ع} کی بیوی نے ابراھیم{ع} سے کہا: ذرا سر کو جھکائیے ، تاکہ میں آپ کے سر اور چہرے سے گرد و غبار کو جھاڑدوں اور اسے دھو دوں۔ ابراھیم{ع} نے اپنا دایاں پاوں آگے بڑھا دیا اور ایک پتھر پر رکھ دیا، ان کے پاوں کے نشان اس پتھر پر باقی رہ گئے۔
البتہ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ جس طرح بھی انجام پایا ہو، حضرت ابراھیم{ع} کے معجزات میں سے ہے، اس لحاظ سے اگر کوئی احتمال ہو تو وہ دور ہو جاتا ہے۔
مکہ اور مسجد الحرام کے اطراف میں خدا پرستی اور توحید و معنویت کی واضح نشانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ نشانیاں پوری تاریخ میں، دشمنوں کی طرف سے انہیں تباہ کرنے کی کوششوں کے باوجود معجزہ کے طور پر باقی رہی ہیں۔ حضرت ابراھیم{ع} جیسے عظیم الشان پیغمبر کی بعض نشانیاں بھی باقی رہی ہیں۔ زمزم، صفا، مروہ، رکن، حطیم، حجرالاسود اور حجر اسماعیل جیسی نشانیاں ماضی کی کئی صدیوں کی مجسم تاریخ ہیں۔
ان واضح نشانیوں میں سے ایک "مقام ابراھیم" ہے۔ مقام، دو قدموں کی جگہ کو کہا جاتا ہے[1]۔ چونکہ یہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں پر حضرت ابراھیم{ع}، کعبہ کی تعمیر کے لیے یا حج کے مراسم بجا لانے کے لیے یا لوگوں کو یہ مراسم بجا لانے کی عام دعوت دینے کے لیے کھڑے رہے ہیں، اسے مقام ابراھیم کہتے ہیں۔ ۔ ۔ [2]
"مقام ابراھیم" کی تفسیر اور معنی کے بارے میں اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ اس سلسلہ میں متفاوت اور مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
الف} بعض افراد کا یہ اعتقاد ہے کہ اول سے آخر تک پورا "حج" {اس کے سارے اعمال} مقام ابراھیم ہیں۔
ب} کچھ لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ "مقام ابراھیم" پورا حج نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض اعمال جیسے: "عرفات"، "مشعرالحرام" اور "تین جمرات" ہیں۔
ج} بعض کا یہ اعتقاد ہے کہ "پورا حرم مکہ" مقام ابراھیم شمار ہوتا ہے۔
د} اگرچہ مذکورہ تمام مطالب ایک طرح سے حضرت ابراھیم{ع} کی جاں نثاری اور بہادری کی یادیں ہیں، لیکن اس سلسلہ مِں پیش کیے جانے والے دلائل اور ظاہر آیت کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی مشہور مقام ابراھیم ہے اور وہ خانہ کعبہ کے قریب ایک ایسا نقطہ ہے جہاں پر اس وقت ایک مخصوص پتھر ہے، اور اس پتھر پر حضرت ابراھیم{ع} کے پاوں کے نشان نمایاں ہیں، اور حجاج کرام طواف بجا لانے کے بعد اس کے پیچھے طواف کی نماز بجا لاتے ہیں[3]۔
قابل اعتبار کتابوں میں ائمہ معصومین{ع} سے بعض روایتوں میں اسی آخری قول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ہم ان میں سے بعض کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:
کتاب کافی میں امام جعفرصادق{ع} سے "فیہ آیات" والے جملے کے بارے میں آیا ہے کہ ایک شخص نے امام صادق{ع} سے پوچھا: یہ "آیات بینات" کیا ہیں؟ امام {ع} نے فرمایا: " ان میں سے ایک مقام ابراھیم ہے کہ حضرت ابراھیم{ع} وہاں پر کھڑے ہوئے اور ان کے پاوں کے نشان پتھر پر باقی رہے ، دوسرا حجر الاسود ہے اور تیسرا حجر اسماعیل ہے۔[4]"
ابراھیم تیمی کہتے ہیں: " امام صادق{ع} نے مجھ سے ٹیک لگا کر فرمایا: " اے ابراھیم؛ اپنے طواف کے اجر کو جاننا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان ہو جاوں ، جی ہاں۔ فرمایا: جو شخص معرفت کے ساتھ خانہ خدا کے پاس آئے اور سات بار طواف کرے اور مقام ابراھیم پر دو رکعت نماز پڑھے، خداوندمتعال دس ہزار ثواب اسے دیتا ہے اور اس کے دس ہزار درجے بڑھاتا ہے۔[5]"
مذکورہ دو روایتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ "مقام ابراھیم" سے مراد، یہی مشہور مقام ہے جس کے پیچھے حاجی طواف کے بعد نماز طواف بجا لاتے ہیں۔
فخررازی نے اس مطلب کے استدلال میں جن دلائل سے استفادہ کیا ہے ہم ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اول: روایت نقل کی گئی ہے کہ جب جابر نے طواف مکمل کیا تو مقام کی طرف بڑھے اور آیہ شریفہ : " واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی" کی تلاوت کر رہے تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقام ابراھیم یہی مشہور جگہ ہے[6]۔
دوم: لوگوں کے درمیان یہ نام اسی جگہ سے مخصوص ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل مکہ سے مقام ابراھیم کے بارے میں پوچھے، تو اسے یہی جگہ بتائی جائے گی۔
سوم: یہ کہ حضرت ابراھیم{ع} کے پاوں ایک پتھر میں دھنس گیے ہیں، یہ خدا کی وحدانیت اور حضرت ابراھیم {ع} کے معجزہ کی واضح ترین دلیل ہے۔
اس بنا پر اگر ہم اس پتھر کو حضرت ابراھیم سے مخصوص جانیں { یعنی مقام ابراھیم سمجھیں} تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ہم کسی دوسری جگہ کو مقام ابراھیم کے عنوان سے مخصوص جانیں۔
چہارم: خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے کہ: مقام ابراھیم سے اپنے لیے کوئی عبادت گاہ منتخب کرنا۔" حرم میں {مقام ابراھیم کے نام پر مشہور جگہ کے علاوہ} عبادت سے مخصوص کوئی خاص جگہ تعلق نہیں رکھتی ہے، پس یہی جگہ مقام ابراھیم ہو سکتی ہے۔
پنجم: مقام ابراھیم کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور روایتوں سے ثابت ہے کہ حضرت ابراھیم{ع} { ایک قول کے مطابق} اپنے پاوں کو دھوتے وقت اس پتھر پر کھڑے ہوئے تھے، لیکن ان کا کسی دوسری جگہ پر کھڑا ہونا ثابت نہیں ہے[7]۔
اس بنا پر ، مقام ابراھیم ایک ایسا پتھر ہے کہ اس پر حضرت ابراھیم{ع} کے پاوں کے نشان موجود ہیں۔ بہت سے ایسی روایتیں ملتی ہیں جو یہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ وہ اصلی پتھر جس پر حضرت ابراھیم{ع} کعبہ کی دیوار بلند کرنے کے لیے کھڑے ہوئےتھے، اسی جگہ پر زمین کے نیچے دفن ہوگئی ہے، جو اس وقت مقام ابراھیم کے کنارے پر ضلع ملتزم کے روبرو ہے[8]۔
[1]ابنمنظور،لسانالعرب،ج12،ص498.
[2]مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج3، ص 15، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش، طبع اول،با اندکی تصرف.
[3]رازی، ابو عبد الله فخرالدین محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج4، ص 44، داراحياءالتراثالعربى، طبعبيروت، 1420 ھ، طبعسوم؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج1، ص 448، با اضافات و تغییر.
[4]کلینی، كافي، ج 4، ص 223، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 هـ ش.
[5]حلی، ابن فهد، عدةالداعي، ص 192، دار الكتاب الإسلامي، 1407 هـ.
[6]مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج 21، 403، مؤسسۀ الوفاء، بیروت- لبنان، 1404 هـ ؛ صحيح مسلم( حج حديث 147) به نقل از ابنكثيردمشقى،اسماعيلبنعمرو،تفسير القرآن العظيم، ج1، ص: 293، دارالكتبالعلمية،منشوراتمحمدعلىبيضون، طبعبيروت، 1419 ھ.
[7]رازی، ابو عبد الله فخرالدین محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج4، ص 44.
[8]طباطبایی، محمد حسین، ترجمه الميزان، ج3، ص 546، مترجم: موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، 1374 هـ ش، طبع پنجم.