Please Wait
7070
اسلام ، عیسائی تعلیمات کے بر خلاف ، (جو خدا کو ایک انسانی سانچے میں ڈالتے ھیں) ۔ خدا کیلئے ایک وجود اور مستقل شخصیت کا قائل ھے۔ اسے انسان نما نھیں جانتا اور اس کیلئے انسانی وجود کا قائل نھیں۔ اس طرح :
۱۔ خداوند متعال انسانی فرد سے قیاس نھیں کیا جاسکتا۔
۲۔ مشابھھ صفات جو انسان میں موجود ھیں اور خدا سے نسبت دی جاتی ھیں وه اسی انسانی مفھوم میں خدا سے نسبت نھیں دی جاتی ھیں ، بلکھ ان صفات سے محدودیتیں اور نقائص نکال کر وه اس قابل بنتی ھیں کھ خدا کی طرف ان کی نسبت دی جائیں۔
۳۔ اس خداوند متعال کا "متشخص" اور "خود آگاه" ھونا ، جو انسانی وجود جیسا نھیں ھے اور اس کی بارگاه میں انسان کی دعائیں اور عبادتیں جو انسانی جیسا نھیں، اور اس لحاظ سے خدا کی ذات کے محدود ھونے کا مستلزم نھیں ، اور خدا کے لامتناھی ھونے سے بھی منافات نھیں رکھتا۔ کیوں کھ خداوند متعال کا "وجودی تشخص" اس کے وجود کے لا متناھی ھونے کے برابر ھے۔ اور خدا کی خود آگاھی بھی اس کے اپنی لامتناھی ذات کے عالم ھونے کے برابر ھے۔ انسان کی عبادت خدا کے متناھی ھونے کے معنی میں نھیں کیوں کھ دعا اور عبادت اجمالی شناخت کے ممکن ھونے اور انسان کے ذاتی وجود اور ضرورت کے مطابق متحقق ھونے کے قابل ھے۔
سوال کرنے والے سے یھ بات سمجھه میں آتی ھے، کھ اس نے عیسائی مذھب کی تعلیمات کے مطابق خدا کو انسانی سانچے میں ڈهالا ھے اور عیسائی مذھب کی تعلیمات میں خدا ( God) اور انسان نما خدا (Personal God) بیان کیا گیا ھے۔ یعنی ان کی تعلیمات میں خدا ایک انسانی اور بشری وجود کے مانند بیان کیا گیا ھے اور اس لحاظ سے سوال کرنے والے نے " تشخص" کو خدا کے محدود ھونے کے ساتھه لازم جانا ھے ۔ لیکن اس مسئلھ کو سمجھنے سے قاصر رھا ھے کھ "تشخص" کسی طرح بھی خداوند متعال کی ذات کے محدود ھونے کا لازمھ نھیں ھے اور خدا کے لامتناھی ھونے سے منافات نھیں رکھتا۔ جب کھ اسلامی نقطھ نظر سے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا مستقل "شخصیت" ھے اور ان تعلیمات میں خدا انسان نما نھیں ھے اور اس کا وجود انسانی وجود جیسا نھیں کھ اسے انسانی فرد پر قیاس کیا جائے اور انسانی صفات اور خصوصیات اس پر منطبق ھوں اس طرح جو صفات انسان میں موجود ھیں اور انکی نسبت خداسے دی جاتی ھے وه اُس اپنے انسانی مفھوم کے معنی میںنھیں ھیں۔ یعنی ان صفات کے محدود ھونے اور نقائص سے خالی ھونے کے بعد ان میں یھ صلاحیت موجود ھوتی ھے کھ انھیں خدا کی جانب نسبت دی جائے ۔ اس بنیاد پر یھ کھنا چاھئے کھ: خداوند متعال کا تشخس اور شخصیت مستقل ھے لیکن چونکھ وه بسیط ھے اور اسکا وجود وسیع ھے اس لئے اس کے وجود کا تشخص اسکا لامتناھی ھونا ھے۔ [1]
اور اس کی خود آگاھی بھی اس کی اپنی لا متناھی ذات کا علم ھے۔
خداکی بارگاه میں انسان کی دعا اور عبادت ِ خدا کے متناھی ھونے کا مستلزم نھیں انسان اگرچھ خدا کی ذات کی گھرائی کی معرفت حاصل نھیں کرسکتا ھے کیوں کھ خدا کی ذات لامحدودھے اور محدود ، لا محدود پر علمی احاطھ نھیں کرسکتا ۔ [2]
لیکن اپنی وجود کی توانائی کے مطابق اس کی معرفت حاصل کرسکتا ھے بلکھ سب موجودات اس سے آگاه ھیں اگر چھ اس آگاھی کا علم انھیں نه ھو یا اس کے انطباق میں خطا کریں[3] ۔ " وه معروف عن کل جاھل" ھے۔ [4]
دوسری جانب چونکھ سب ممکنات اور غیر خداکی ذات ، عین ربط ، نیازمندی اور خدا کی ذات سے وابستھ ھے [5] انسان جو اپنی نیازمندی ، اور ذاتِ خدا کی پھچان رکھتا ھے اپنے ھاتھوں کو بے نیا زکی طرف اٹھاتا ھے اور یھ ذاتِ خدا کی حقیقت کی پھچان کے علم پر موقوف نھیں ھے کھ یھ اشکال پیش آئے کھ ممکن الوجود ذاتِ واجب الوجود کی حقیقت کو نھیں پھچان سکتا ھے۔
ھاں ، جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے فرمایا: " خدایا! میں نے تو تجھے اس طرح نھیں پھچانا جو تیری ذات کو پھچاننے کا حق ھے۔ [6]
یا آنحضرت نے فرمایا: جو آپ کی عبادت کا حق ھے اس طرح میں نے عبادت نھیں کی۔ [7] وه عبادت جو حضرت حق کے قابل اور اس کے لائق ھے متحقق نھیں ھوتی۔ کیونکھ یھ عبادت اس کی ذات کی حقیقت کی پھچان پر موقوف ھے جس کا امکان ھی نھیں۔ لیکن ھر صوت میں اس میں سے کوئی بھی انسان کی توانائی کے مطابق خدا کی پھچان اور اس کی عبادت کے ساتھه متناقض نھیں ھے۔
دوسرے الفاظ میں، خداوند متعال کی ذات اگرچھ غیب الغیوب کے مرتبھ اور اس کی رسم [8]، اور نام و نشان کسی پھچان کے مرتبھ میں نھیں ھے کیونکھ اسی مرتبھ میں خداوند " احدیۃ الذات" ھے لیکن تجلی اور ظھور کے مرتبھ میں ، اسماء اور صفات رکھتا ھے [9] اور ھر موجود اپنی رفعتوں اوراپنے وجودی وسعت کے مطابق خدا کو پھچاننے کی توانائی رکھتا ھے اور خداوند متعال سے فکری اور روحانی رابطھ برقرار کرنے پر قادر ھے۔ وه خدا اسکی بارگاه میں دعا اور عبادت کرسکتا ھے۔
آخر میں ضروری ھے کھ دوباره یاد دھانی کریں کھ خداوند متعال کا تشخص رکھنا اس کے لا متناھی ھونے سے منافات نھیں رکھتا اور اسی لحاظ سے وه مرکز خطاب ھوسکتا ھے اور اس سے کوئی حاجت مانگی جاسکتی ھے اور وه عبادت کے قابل ھے۔
[1] علامھ طباطبائی ، نھایۃ الحکمۃ ، شرح نھایۃ الحکمۃ ، محمد محمدی، مومن ، ج ۱ ص ۱۵۹۔
[2] جوادی آملی ، عبداللھ ، تحریر التمھید۔ ص ۱۸۔
[3] تحریر التمھید۔ ص ۱۹۔
[4] شیخ صدوق ، التوحید، باب التوحید۔ و نفی التشبیھ۔ ح ۱۵۔
[5] تحریر التمھید۔ ص ۳۱۔ " یا ایھا النساس انتم الفقراء الی اللھ و اللھ ھو الغنی الحمید۔" اے لوگو! تم سب خدا کے نیازمند ھو اور وه بے اور قابل تعریف ھے" سوره فاطر / ۱۵۔
[6] مرآۃ العقول : ج ۸ ص ۱۴۶۔
[7] ایضا ۔
[8] یھاں رسم سے مراد اس کا منطقی معنی یعنی "تعریف" ھے (مترجم)
[9] ذات کا مرتبھ احدیت اور غیب الغیوب کھ اس مرتبھ میں کسی کیلے خدا کی تعریف نام اور نشان کا ادراک ممکن نھیں ، یھ وھی مرتبھ بطون اور وحدت حقھ حقیقیھ ھے کھ جو ھر فکر اور سوچ سے ما فوق ھے ۔ عنقا ( ایک قسم کا پرنده) شکار ھونے کے قابل نھیں اپنے جال کو اٹھاهؤ ، اور احدیت کا مرتبھ جو ذات کی ذات کیلئے تجلی کا مرتبھ ھے اسی مرتبھ مین اسماء اور صفات وحدت اور بساطت کے طوراور اپنے جمیع وجود سے حاضر ھیں جھان کوئی کثرت نھیں ھے اور اسی مرتبھ میں ھے کھ خداوند ظاھر بھی ھے اور باطن بھی اول بھی ھے اور آخربھی ھے (سوره حدید / ۶)ذات کے اسماء اور صفات کے تجلی کا مرتبھ کھ جس مرتبھ کو " فیض اقدس" کھتے ھیں ذات کی تجلی کا مرتبھ جو "کن " کے مرحلھ میں جھان عالم خلق ھیں موجودات خلق ھوئے ھیں اور اس مرتبھ کو " فیض اقدس" کھتے ھیں۔ ۔ سید جلال الدین آشتیانی ، مقدمھ تمھید القواعد ، ص ۶۳۔ ۔۔ ۶۴۔
حکیم سبزواری اسفار کے پاورقی میں رقمطراز ھے: ان للحق تعالی بعد تجلیۃ الذاتی علی ذاتھ بذاته تجلیا علی اسمائھ و صفاتھ و لوازمھا و تجلیا علی ذوات الاشیاء۔
اما الاول فکما ان لھ مقاما احدیا وه مرتبۃ نفس الذات و الھویۃ المطلقۃ کذلک لھ مقام واحدی و ھو مرتبۃ الذات المستجممعۃ لجمیع الاسماء الحسنی و الصفات العلیاء مستتبعۃ للاعیان الثابۃ للماھیات الممکنۃ بحیث لو جاز اطلاق الماھیۃ علی تلک المعانی لامعقولۃ اعنی مفاھیم الاسماء و الصفات لکانت الاعیان لوازم الماھیات وه ھی فی ھذه المرتبۃ لا مجعولۃ بلا مجعولیه الذات موجودۃ بوجود الذات لا بوجود آخر اما تجلی الثانی فھو تجلیۃ فی مرتبۃ کن علی زوات الاشیاء و ھذا لتجلی یسمی بالفیض المقدس کام ان لاول وه تجلیۃ فی اسمائھ و شفاتھ یسمی بالفیض الاقدس و هذا هو الرحمۃ السفتیۃ التی وسعت شیئیۃ مفاھیم الصفات کما ان الفیض المقدس ھو الرحمۃ الفعلیۃ التی وسعت شیئیۃ الماھیات ، اسفار ج ۸ ص ۳۔