Please Wait
کا
6633
6633
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2015/04/02
سوال کا خلاصہ
اگر آٹومیٹک دروازہ نصب کرنے کے لئے (جوشٹر اور ریمورٹ پر مشتمل ہوتا ہے) ہر مورد کے لئے الگ سے نفع لیا جائے، تو کیا اس کے لئے حاصل کیا گیا نفع حلال ہے؟
سوال
کسب روزی کے بارے میں ایک سوال تھا، میرا کام آٹومیٹک شٹر والے دروازے نصب کرنا ہے جوخود شٹر، موٹر اور ریمورٹ پر مشتمل ہوتاہے۔ میں اجرت کا حساب کرتے وقت شٹر، موٹر، اور ریمورٹ کا الگ سے حساب کرتا ہوں کیا اس طرح میری کمائی حلال ہے؟
ایک مختصر
آپ کے اس سوال کا مراجع تقلید کے دفاتر سے حسب ذیل جواب آیا ہے:
دفتر حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کلی طور پر نفع کمانے کی کوئی حد نہیں ہے، اس بنا پر جب تک زبردستی اور داداگری سے پیسے حاصل کرنے کی حد میں داخل نہ ہوجائے اور حکومتی قوانین کے خلاف بھی نہ ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن افضل اور مستحب یہ ہے کہ بیچنے والا اسی نفع پر اکتفا کرے جو اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ العالی)
اگر حکومت اسلامی نے کوئی ریٹ معین کی ہو تو اسی طرح عمل کیا جانا چاہئے، اگر ایسا نہ کرے تو معاملہ کے طرفین کے توافق پر دار و مدار ہے۔ لیکن سزاوار ہے کہ مسلمان بہر صورت انصاف کی رعایت کریں اور عادلانہ نفع پر قناعت کریں۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی۔( مدظلہ العالی)
بیچنے والا قیمت معین کرنے میں صاحب اختیار ہے اور اگر خریدار بیچنے والے کی معین کردہ قیمت پر راضی ہوتو معاملہ صحیح ہے، لیکن بیچنے والے کو بے انصافی نہیں کرنی چاہئے اور اگر معاملہ طے پانے کے بعد معلوم ہوجائے کہ خریدار کو معاملہ واقع ہونے کے دن دھوکہ دیا گیا ہے، تو اسے معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
آیت اللہ مہدی ہادوی تہرانی (دامت برکاتہ) کا جواب حسب ذیل ہے:
نفع کا محاسبہ بہر صورت اگر طرفین کی موافقت پر منتہی ہوتو جائز ہے، مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے کوئی ممانعت اعلان ہو جائے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ انصاف کی رعایت کی جائے اور اگر ظلم اور دھوکہ دہی کی حد تک پہنچ جائے، تو حرام ہے۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرکے لئے، آپ ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل عناوین کا مطالعہ کرسکتے ہیں:
1. عنوان: نقش انسان در به دست آوردن روزى، سؤال شماره 10375
2. عنوان: دعا برای کسب ثروت، سؤال شماره 12424
3. عنوان: کسب روزی حلال و عبادت، سؤال شماره 4183
دفتر حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کلی طور پر نفع کمانے کی کوئی حد نہیں ہے، اس بنا پر جب تک زبردستی اور داداگری سے پیسے حاصل کرنے کی حد میں داخل نہ ہوجائے اور حکومتی قوانین کے خلاف بھی نہ ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن افضل اور مستحب یہ ہے کہ بیچنے والا اسی نفع پر اکتفا کرے جو اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ العالی)
اگر حکومت اسلامی نے کوئی ریٹ معین کی ہو تو اسی طرح عمل کیا جانا چاہئے، اگر ایسا نہ کرے تو معاملہ کے طرفین کے توافق پر دار و مدار ہے۔ لیکن سزاوار ہے کہ مسلمان بہر صورت انصاف کی رعایت کریں اور عادلانہ نفع پر قناعت کریں۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی۔( مدظلہ العالی)
بیچنے والا قیمت معین کرنے میں صاحب اختیار ہے اور اگر خریدار بیچنے والے کی معین کردہ قیمت پر راضی ہوتو معاملہ صحیح ہے، لیکن بیچنے والے کو بے انصافی نہیں کرنی چاہئے اور اگر معاملہ طے پانے کے بعد معلوم ہوجائے کہ خریدار کو معاملہ واقع ہونے کے دن دھوکہ دیا گیا ہے، تو اسے معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
آیت اللہ مہدی ہادوی تہرانی (دامت برکاتہ) کا جواب حسب ذیل ہے:
نفع کا محاسبہ بہر صورت اگر طرفین کی موافقت پر منتہی ہوتو جائز ہے، مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے کوئی ممانعت اعلان ہو جائے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ انصاف کی رعایت کی جائے اور اگر ظلم اور دھوکہ دہی کی حد تک پہنچ جائے، تو حرام ہے۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرکے لئے، آپ ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل عناوین کا مطالعہ کرسکتے ہیں:
1. عنوان: نقش انسان در به دست آوردن روزى، سؤال شماره 10375
2. عنوان: دعا برای کسب ثروت، سؤال شماره 12424
3. عنوان: کسب روزی حلال و عبادت، سؤال شماره 4183
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے