Please Wait
کا
12618
12618
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/12/09
سائٹ کے کوڈ
fa23357
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
80561
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
تقلید کے بارے میں قرآن مجید کا کیا نظریہ ہے؟ کیا قرآن تقلید کی ستائش کرتا ہے یا اس کی نہی کرتا ہے؟ دونوں صورتوں کے سلسلہ میں مثالیں پیش کیجئے؟
سوال
تقلید کے بارے میں قرآن مجید کا کیا نظریہ ہے؟ کیا قرآن تقلید کی ستائش کرتا ہے یا اس کی نہی کرتا ہے؟ دونوں صورتوں کے سلسلہ میں مثالیں پیش کیجئے؟
ایک مختصر
اصطلاح میں تقلید دلیل کے بغیر کسی کی پیروی کرنا ہے۔ تقلید، من جملہ ان موضوعات میں سے ہے ، جن میں اچھے اور برے ہونے کی قابلیت پائی جاتی ہے اور شرائط کے مطابق کبھی اچھے اور کبھی برے شمار ہوتے ہیں۔ حقیقت میں تقلید ان لوگوں کے لئے ہے، جو کسی امر کے بارے میں اجتہا اور تخصص حاصل نہیں کرسکتے ہیں اور مہارت اور علم میں صاحب نظر نہیں ہوتے ہیں۔ اگر چہ وہ حقیقی علم تک نہیں پہنچے ہیں لیکن اس علم کے ماہرین کی پیروی اور تقلید سے حقیقت تک پہنچنے میں شریک ہوں گے۔
تقلید کی مذمت میں بیان کی گئی آیات حقیقت میں خداشناسی ہے۔ اس کے علاوہ اعتقادی اصول میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اور عقل کی منافی موضوعات میں بھی قرآن مجید میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اس بنا پر قرآن مجید کی آیات کے مطابق اعتقادی اصول میں تقلید کی راہ کا انتخاب نہیں کرنا چاہئیے ۔
اس کے مقابلے میں ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں، جن کے مضمون سے تقلید کا ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے، مثال کے طور پر اہل اعلم سے پوچھنے کی تاکید کرنے والی جیسی آیات۔
تقلید کی مذمت میں بیان کی گئی آیات حقیقت میں خداشناسی ہے۔ اس کے علاوہ اعتقادی اصول میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اور عقل کی منافی موضوعات میں بھی قرآن مجید میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اس بنا پر قرآن مجید کی آیات کے مطابق اعتقادی اصول میں تقلید کی راہ کا انتخاب نہیں کرنا چاہئیے ۔
اس کے مقابلے میں ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں، جن کے مضمون سے تقلید کا ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے، مثال کے طور پر اہل اعلم سے پوچھنے کی تاکید کرنے والی جیسی آیات۔
تفصیلی جوابات
تقلید، مادہ " ق ل د" سے ہے، اصطلاح میں دلیل پوچھے بغیر کسی کی پیروی کرنے کے معنی میں ہے۔[1] تقلید، ایسے موضوعات میں سے ہے، جن کے بارے میں کلی حکم صادر نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ ان کا اچھا اور برا ہونا شرائط اور حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ کبھی قابل قدر و تحسین ہوتے ہیں اور عقل ان کی تائید کرتی ہے اور کبھی قابل مذمت ہوتے ہیں اور ان کا کوئی دفاع نہیں کرسکتا ہے۔
آج، انسان نے ترقی کی ہے اور معاشرہ میں نئی ضروریات اور معلومات کی وسعت اور مختلف مباحث کے پیش نظر اس امر کی ضرورت پیدا ہوئی ہے کہ ہر علم میں اس علم کا ماہر اور متخصص موجود ہو جو اپنی عمر کو اس علم کو حاصل کرنے میں صرف کرے۔ لیکن علم کی وسعت اور انسان کی عمر مختصر ہونے کے پیش نظر ایک انسان کے لئے تمام ضروری علوم میں تخصص حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ہم کسی ایسے انسان کو نہیں پاسکتے ہیں جس نے تمام ضروری علوم میں تخصص حاصل کیا ہو اور اپنے علم سے استفادہ کرے اور اسے کسی علم میں تقلید کرنے کی ضرورت نہ ہو۔
جس اہم موضوع پر یہاں تاکید کی جانی چاہئیے، وہ تمام انسانوں کے لئے علم کا راستہ کھلا ہونا ہے۔ بہ الفاظ دیگر علم کا دروازہ سبوں کے لئے کھلا ہے اور ہر ایک اپنی تلاش و کوشش سے اسے حاصل کرسکتا ہے، لیکن بہت سے لوگ مختلف وجوہات کی بناپر علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں اور صرف مختصر معلومات پر اکتفا کرتے ہیں، ایسے افراد کے لئے ماہرین اور متخصصین سے تقلید کرنے کا راستہ کھلا ہے اور عقل و شرع نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ حقیقت میں تقلید ان لوگوں کے لئے ہے جو کسی امر میں اجتہاد اور تخصص تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں صاحب نظر نہیں ہیں۔ اگر چہ ایسے لوگ حقیقی علم تک نہیں پہنچے ہیں، لیکن ایسے امور میں متخصص افراد کی پیروی اور تقلید کرکے حقیقت تک پہچنے میں ان کے شریک ہوسکتے ہیں۔
قرآن مجید نے بھی اس نظریہ کو واضح طور پر بیان کرکے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید کلی طور پر نہ تقلید کو مسترد کرتا ہے اور نہ کلی طور پر اس کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مناسب حالات اور شرائط میں کچھ احکام صادر کئے ہیں جن سے کچھ مطالب حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم ان آیات پر بحث کرتے ہیں جو تقلید کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں تاکہ قابل مذمت تقلید سے متعلق آیات کے بارے میں ایک کلی نظریہ حاصل کرسکیں۔ عام طور پر جو تقلید پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں زیر بحث تھی ، وہ بت پرستی میں تقلید تھی، جو قدیم زمانہ سے عربوں میں رائج تھی اور جاہلیت کے عرب بھی اس کی پیروی کرتے تھے اور حق کے مقابلے میں نافرمانی کرتے تھے اور پیغمبر (ص) کے کلام کو قبول نہیں کرتے تھے۔ قرآن مجید اس قسم کی خداشناسی جیسے اصول میں اندھی تقلید کے بارے مین سخت موقف اختیار کرتا ہے اور ایسے افراد سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے؛' اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے نازل کئے ہوئے احکام اور اس کے رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے ان کے آباء و اجداد نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ کسی طرح کی ہدایت رکھتے ہوں۔ ( تو کیا پھر بھی وہ ان کی پیروی کرتے ؟) [2] " اور ان لوگوں نے کہا کہ تم یہ پیغام اس لئے لائے ہو کہ ہمیں باب دادا کے راستہ سے منحرف کردو اور تم دونوں کو زمین میں حکومت و اقتدار مل جائے اور ہم ہرگز تمھاری بات ماننے والے نہیں ہیں۔"[3] " ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی انھیں کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم نے کہا: یقینا تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ہوئی گمراہی میں ہو۔"[4]
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول دین میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن تقلید دوسروں سے علم حاصل کرنے کے علاوہ ہے اور یہ آیات اس کے منافی نہیں ہیں کہ اصول دین کے سلسلہ میں دوسروں سے سیکھیں اور ان کے استدلالات سے استفادہ کریں۔ یہاں پر نفی کی گئی تقلید، وہ تقلید ہے جو معرفت اور شناخت کے بغیر صرف دوسروں کی بات پر مبنی ہو۔[5]
اس سلسلہ میں دوسری آیات بھی پائی جاتی ہیں جو اس قسم کی تقلید کی مذمت کرتی ہیں اور اس کے پیرؤں کو ضلالت اور گمراہی میں جانتی ہیں۔[6]
اس قسم کی تقلید کے علاوہ، ایک اور قسم کی تقلید کو قرآن مجید میں مسترد کا گیاہے:" اور یہ لوگ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے۔ آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم دے ہی نہیں سکتا ہے کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو۔"[7]
یہ آیہ شریفہ اعتقادی موضوعات میں آباء و اجداد کی تقلید کی مذمت کرنے کے علاوہ بُرے اور قبیح اعمال انجام دینے میں تقلید کو بھ مذمت کرتی ہے۔ اس آیہ شرفہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کے مخالف امور میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ ایسے امورمیں عقل کی پیروی کرنی چاہئیے۔ اس بنا پر نہ صرف اصول دین اور اعتقادی امور میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ یہاں تک کہ ایسے فروعات میں بھی عقل کے تابع رہنا چاہئیے، جن کا عقل حکم کرتی ہے اس لئے قبیح اعمال کی انجام دہی میں تقلید قابل قبول نہیں ہے۔
یہ قرآن مجید کے حکم کا پہلا حصہ تھا جو بعض موارد کے سلسلہ میں تقلید کی مذمت پر مبنی ہے۔ لیکن بعض دوسری آیات میں کچھ ایسے بیانات ہیں جن سے ماہر اور متخصص کی تقلید کرنا اچھا سمجھا گیا ہے۔
" اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔"[8]
اگر چہ یہ آیہ شریفہ ایک خاص موضوع کے بارے میں ہے لیکن ایک عام حکم کو بیان کرنے والی ہے اور وہ آگاہ متخصصین اور دانشوروں کے ذریعہ مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ آیہ شریفہ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ متخصصین اور ماہروں کی تقلید کرنی چاہئیے مگر ان مسائل میں کہ تقلید کرنے کی ان میں مذمت کی گئی ہے، جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔
ایک اور آیت بھی ہے جو پیروی کرنے اور تقلید کی دلالت کرتی ہے اور ارشاد ہوتا ہے:" اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے۔"[9]
اس آیت میں جہنمی ہونے کی دلیل دو امور کار نہ ہونا، قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ایک تعقل ہے کہ اس سے مراد فکر کرنا اور غور کرنا ہے اور دوسرا سننا ہے، یہاں پر سننے سے مراد کانوں تک آواز کا آنا نہیں ہے ، کیونکہ بیشک یہ امر جہنم سے نجات ملنے کا سبب نہیں بن سکتا ہے بلکہ اس سے مراد سننا اور قبول کرنا ہے۔ یہ سننا اور قبول کرنا وہی تقلید ہے جس پر بحث ہے۔
نتیجہ کے طور پر تقلید کرنے کے سلسلہ میں قرآن مجید اور عقل کا حکم ایک دوسرے کے مانند ہے اور بعض مواقع پر تقلید نہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اور بعض دوسرے مواقع پر اس کی مذمت کی گئی ہے اور قرآن مجید نے ان کے مقام کو مد نظر رکھے بغیر ان کے بارے میں کلی حکم نہیں دیا ہے۔
آج، انسان نے ترقی کی ہے اور معاشرہ میں نئی ضروریات اور معلومات کی وسعت اور مختلف مباحث کے پیش نظر اس امر کی ضرورت پیدا ہوئی ہے کہ ہر علم میں اس علم کا ماہر اور متخصص موجود ہو جو اپنی عمر کو اس علم کو حاصل کرنے میں صرف کرے۔ لیکن علم کی وسعت اور انسان کی عمر مختصر ہونے کے پیش نظر ایک انسان کے لئے تمام ضروری علوم میں تخصص حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ہم کسی ایسے انسان کو نہیں پاسکتے ہیں جس نے تمام ضروری علوم میں تخصص حاصل کیا ہو اور اپنے علم سے استفادہ کرے اور اسے کسی علم میں تقلید کرنے کی ضرورت نہ ہو۔
جس اہم موضوع پر یہاں تاکید کی جانی چاہئیے، وہ تمام انسانوں کے لئے علم کا راستہ کھلا ہونا ہے۔ بہ الفاظ دیگر علم کا دروازہ سبوں کے لئے کھلا ہے اور ہر ایک اپنی تلاش و کوشش سے اسے حاصل کرسکتا ہے، لیکن بہت سے لوگ مختلف وجوہات کی بناپر علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں اور صرف مختصر معلومات پر اکتفا کرتے ہیں، ایسے افراد کے لئے ماہرین اور متخصصین سے تقلید کرنے کا راستہ کھلا ہے اور عقل و شرع نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ حقیقت میں تقلید ان لوگوں کے لئے ہے جو کسی امر میں اجتہاد اور تخصص تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں صاحب نظر نہیں ہیں۔ اگر چہ ایسے لوگ حقیقی علم تک نہیں پہنچے ہیں، لیکن ایسے امور میں متخصص افراد کی پیروی اور تقلید کرکے حقیقت تک پہچنے میں ان کے شریک ہوسکتے ہیں۔
قرآن مجید نے بھی اس نظریہ کو واضح طور پر بیان کرکے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید کلی طور پر نہ تقلید کو مسترد کرتا ہے اور نہ کلی طور پر اس کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مناسب حالات اور شرائط میں کچھ احکام صادر کئے ہیں جن سے کچھ مطالب حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم ان آیات پر بحث کرتے ہیں جو تقلید کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں تاکہ قابل مذمت تقلید سے متعلق آیات کے بارے میں ایک کلی نظریہ حاصل کرسکیں۔ عام طور پر جو تقلید پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں زیر بحث تھی ، وہ بت پرستی میں تقلید تھی، جو قدیم زمانہ سے عربوں میں رائج تھی اور جاہلیت کے عرب بھی اس کی پیروی کرتے تھے اور حق کے مقابلے میں نافرمانی کرتے تھے اور پیغمبر (ص) کے کلام کو قبول نہیں کرتے تھے۔ قرآن مجید اس قسم کی خداشناسی جیسے اصول میں اندھی تقلید کے بارے مین سخت موقف اختیار کرتا ہے اور ایسے افراد سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے؛' اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے نازل کئے ہوئے احکام اور اس کے رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے ان کے آباء و اجداد نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ کسی طرح کی ہدایت رکھتے ہوں۔ ( تو کیا پھر بھی وہ ان کی پیروی کرتے ؟) [2] " اور ان لوگوں نے کہا کہ تم یہ پیغام اس لئے لائے ہو کہ ہمیں باب دادا کے راستہ سے منحرف کردو اور تم دونوں کو زمین میں حکومت و اقتدار مل جائے اور ہم ہرگز تمھاری بات ماننے والے نہیں ہیں۔"[3] " ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی انھیں کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم نے کہا: یقینا تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ہوئی گمراہی میں ہو۔"[4]
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول دین میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن تقلید دوسروں سے علم حاصل کرنے کے علاوہ ہے اور یہ آیات اس کے منافی نہیں ہیں کہ اصول دین کے سلسلہ میں دوسروں سے سیکھیں اور ان کے استدلالات سے استفادہ کریں۔ یہاں پر نفی کی گئی تقلید، وہ تقلید ہے جو معرفت اور شناخت کے بغیر صرف دوسروں کی بات پر مبنی ہو۔[5]
اس سلسلہ میں دوسری آیات بھی پائی جاتی ہیں جو اس قسم کی تقلید کی مذمت کرتی ہیں اور اس کے پیرؤں کو ضلالت اور گمراہی میں جانتی ہیں۔[6]
اس قسم کی تقلید کے علاوہ، ایک اور قسم کی تقلید کو قرآن مجید میں مسترد کا گیاہے:" اور یہ لوگ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے۔ آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم دے ہی نہیں سکتا ہے کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو۔"[7]
یہ آیہ شریفہ اعتقادی موضوعات میں آباء و اجداد کی تقلید کی مذمت کرنے کے علاوہ بُرے اور قبیح اعمال انجام دینے میں تقلید کو بھ مذمت کرتی ہے۔ اس آیہ شرفہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کے مخالف امور میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ ایسے امورمیں عقل کی پیروی کرنی چاہئیے۔ اس بنا پر نہ صرف اصول دین اور اعتقادی امور میں تقلید نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ یہاں تک کہ ایسے فروعات میں بھی عقل کے تابع رہنا چاہئیے، جن کا عقل حکم کرتی ہے اس لئے قبیح اعمال کی انجام دہی میں تقلید قابل قبول نہیں ہے۔
یہ قرآن مجید کے حکم کا پہلا حصہ تھا جو بعض موارد کے سلسلہ میں تقلید کی مذمت پر مبنی ہے۔ لیکن بعض دوسری آیات میں کچھ ایسے بیانات ہیں جن سے ماہر اور متخصص کی تقلید کرنا اچھا سمجھا گیا ہے۔
" اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔"[8]
اگر چہ یہ آیہ شریفہ ایک خاص موضوع کے بارے میں ہے لیکن ایک عام حکم کو بیان کرنے والی ہے اور وہ آگاہ متخصصین اور دانشوروں کے ذریعہ مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ آیہ شریفہ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ متخصصین اور ماہروں کی تقلید کرنی چاہئیے مگر ان مسائل میں کہ تقلید کرنے کی ان میں مذمت کی گئی ہے، جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔
ایک اور آیت بھی ہے جو پیروی کرنے اور تقلید کی دلالت کرتی ہے اور ارشاد ہوتا ہے:" اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے۔"[9]
اس آیت میں جہنمی ہونے کی دلیل دو امور کار نہ ہونا، قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ایک تعقل ہے کہ اس سے مراد فکر کرنا اور غور کرنا ہے اور دوسرا سننا ہے، یہاں پر سننے سے مراد کانوں تک آواز کا آنا نہیں ہے ، کیونکہ بیشک یہ امر جہنم سے نجات ملنے کا سبب نہیں بن سکتا ہے بلکہ اس سے مراد سننا اور قبول کرنا ہے۔ یہ سننا اور قبول کرنا وہی تقلید ہے جس پر بحث ہے۔
نتیجہ کے طور پر تقلید کرنے کے سلسلہ میں قرآن مجید اور عقل کا حکم ایک دوسرے کے مانند ہے اور بعض مواقع پر تقلید نہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اور بعض دوسرے مواقع پر اس کی مذمت کی گئی ہے اور قرآن مجید نے ان کے مقام کو مد نظر رکھے بغیر ان کے بارے میں کلی حکم نہیں دیا ہے۔
[1] ۔ ریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی، سید احمد، ج 3، ص 132، کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع ۔سوم، 1375ش.
[2] ۔ مائده، 104، «وَ إِذَا قِيلَ لهَمْ تَعَالَوْاْ إِلىَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَ إِلىَ الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا أَ وَ لَوْ كاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْا وَ لَا يهَتَدُون».
[3] ۔ یونس، 78.
[4] ۔ انبیاء، 53 – 54.
[5] ۔ ملا حظہ ہو: تقلید در اصول دین؛ 3119.
[6] ۔ و آیات دیگری مانند: شعراء، 71 – 74؛ لقمان، 21.
[7] ۔ اعراف، 28، «وَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيهْا ءَابَاءَنَا وَ اللَّهُ أَمَرَنَا بهِا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَ تَقُولُونَ عَلىَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ».
[8] ۔ نحل، 43، «وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ إِلاَّ رِجالاً نُوحي إِلَيْهِمْ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ».
[9] ۔ ملک، 10، «وَ قالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في أَصْحابِ السَّعيرِ
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے