اعلی درجے کی تلاش
کا
8391
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/11/20
 
سائٹ کے کوڈ ur21346 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 27059
سوال کا خلاصہ
کیا ابو بصیر کی امام صادق {ع} سے نقل کی گئی اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن مومنین پروردگار{ عز وجل} کو دیکھ لیں گے؟
سوال
کیا اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں: "حدثنا علی بن احمد بن محمد بن عمران الدقاق رحمہ اللہ قال حدثنا محمد بن ابی عبداللہ الکوفی قال حدثنا موسی بن عمران النخعی عن الحسین بن یزید النوفلی عن علی بن ابی حمزۃ عن ابی بصیر عن ابی عبداللہ ع قال: قلت لہ اخبرنی عن اللہ عز و جل ھل یراہ المومنون یوم القیامۃ قال نعم وقد راوہ قبل یوم القیامۃ فقلت متی قال حین قال لھم- الست بربکم قالوا بلی ثم سکت ساعۃ ثم قال و ان المومنین لیرونہ فی الدنیا قبل یوم القیامۃ الست تراہ فی وقتک ھذا قال ابو بصیر فقلت لہ جعلت فداک فاحدث بھذاعنک فقال لا فانک اذا حدثت بہ فانکرہ منکر جاھل بمعنی ما تقولہ ثم قدر آن ذلک تشبیہ کفر و لیست الرویۃ بالقلب کالرویۃ بالعین تعالی اللہ عما یصیفہ المشبھون و الملحدون"
ایک مختصر

سوال میں مذکورہ حدیث ، کتاب توحید صدوق کے باب" ماجاء فی الرویتہ" میں آئی ہے-[1] اس  حدیث کا ترجمہ یوں ہے:" ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام صادق {ع} سے عرض کی: کیا مومنین قیامت کے دن اپنے پروردگار{ عز و جل} کو دیکھ لیں گے؟ امام {ع} نے جواب میں فرمایا: جی ہاں، اور قیامت سے پہلے بھی اسے دیکھا ہے- میں نے عرض کی: کس وقت؟ فرمایا: اس وقت جب اس نے فرمایا: " الست بربکم قالوا بلی"[2] کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ھوں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، تو ہمارا پروردگار ہے- اس کے بعد امام {ع} نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا:" مومنین دنیا میں قیامت سے پہلےاسے دیکھتے ہیں، کیا تم اس وقت اسے نہیں دیکھ رہے ھو؟ ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے حضرت {ع} سے عرض کی، قربان ھو جاوں، کیا میں اس حدیث کو آپ {ع} سے نقل کرسکتا ھوں؟ حضرت {ع} نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اگر تم اس حدیث کو نقل کرو گے، ان معنی سے جاہل اور انکار کرنے والا ہمارے قول کا انکار کرے گا، اور اس کے بعد فرض کرے گا کہ یہ تشبیہ ہے اور وہ فرد اس تصور اور اس فرض کی وجہ سے کافر ھوگا، اور دل سے دیکھنا، آنکھوں سے دیکھنے کے برابر نہیں ہے اور خداوند متعال اس سے برتر ہے کہ فرقہ مشبہہ و ملحدین اسے توصیف کرتے ہیں-                                                        

حدیث کی سند:

یہ حدیث، صحیح احادیث میں سے ہے اور علمائے حدیث اس پر اعتماد کرتے ہیں اور قابل اعتبار کتابوں میں آئی ہے جس کے بارے میں ابتداء میں اشارہ کیاگیا- علمائے رجال کے مطابق، اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں اور حدیث کی سند پر کوئی خدشہ نہیں ہے-[3]

 


[1] ابن بابویه، محمد بن على‏، التوحید( للصدوق)، محقق، مصحح، حسینى، هاشم، ص 117،‏ جامعه مدرسین‏، قم، طبع اول، 1398 ھ .

[2] اعراف، 172.

[3] خوئى موسوی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج 11، ص 254، ج 11، ص 231، ج 14، ص 272، ج 19، ص 59 - 61، مرکز نشر آثار شیعه، قم، 1410 ھ ؛ نجاشى، ابو الحسن، احمد بن على‌، رجال النجاشی- فهرست أسماء مصنفی الشیعة،‌ محقق، مصحح، شبیرى زنجانى، سید موسی، ص 441، دفتر انتشارات اسلامى، قم، 1407 ھ .

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا