Please Wait
7646
عقل، انسان کی باطنی حجت هے جو اسے کمال کی طرف رهبری کرتی هے اور شریعت (دین) ظاهری حجت هے ، جو انسان کو آلودگیوں کے بهنور سے نجات دلاکر کمال سعادت کے ساحل کی طرف رهنمائی کرتی هے- اس بناپر ممکن نهیں هے که ظاهری حجت اور باطنی حجت کے در میان تناقض هو-
چونکه عقل، مظاهر میں سے ایک مظهر هے اور هر مظهر محدود هو تا هے، فطری بات هے که اس کے کام کا دائره لا محدود نهیں هو سکتا هے- اس لئے عقل کے کام و فعالیت کی محدودیت مخلوقات کے دائرے میں هوتی هے اور خدا کو پهچاننے کی ایک محدود توانائی رکهتی هے اورخدا کی ذات اور حقیقت ، جو لا محدود هے، رسائی نهیں رکهتی هے-
عقل تکوینی اور تشریعی قوانین کے دائرے میں سر گرم هو سکتی هے اور ان کو سمجھـ سکتی هے لیکن دونوں دائروں میں عقل وحی سے بے نیاز نهیں هو سکتی هے ، اور معاد کے جزئیات اور احکام کے فلسفه کے بارے میں عقل کی توانائی محدود هے اور شرع کی رهنمائی کی محتاج هے- نتیجه کے طور پر اسلام اور عقلمندی کے در میان کسی قسم کا تضاد نهیں هے- البته ، کبهی کسی غیر دینی امر کو دین کے قلمرو میں جگه دینے یا عقلی استدلال کے صحیح مقد مات اور شرائط سے فاقد هونے یا عقل سے کوئی خاص معنی لینا، همیں ان ناموا فقتوں کی طرف لے جاتے هیں – آخری نکته یه هے که آپ نے اپنے دعوی میں کوئی دلیل یا مثال پیش نهیں کی هے-
اصطلاح میں ، عقل ایک بسیط جوهر هے که لوگ اس کے توسط سے حقیقتیں معلوم کرتے هیں – اس بناپر عقل، حقیقت کو پانا هے – حقائق معلوم کر نے کے علاوه ، عقل، نفس ناطقه کو تحفظ وشرف بخشنے والی بهی هے[1]-
فلاسفه کی اصطلاح میں عقل کی کئی قسمیں هیں : نظری عقل اور عملی عقل – نظری عقل کا کام حقائق کو درک کر نا اور انهیں پهچاننا اور ان کے بارے میں فیصله کر نا هے [2]–اور عملی عقل وه قوت هے جو انسان کے عمل و رفتار کو کنٹرول کرتی هے[3] یا اس کا کام ، باید و نباید کو درک کر نا هے اور حقیقت میں عملی عقل زندگی کے علوم کی بنیاد هے اور عملی عقل میں اس امر کا فیصله کیا جاتا هے که اس کام کو انجام دیں یا نه دیں[4]؟ امام صادق علیه السلام کی فر مائش کے مطابق عملی عقل انسان کی عبودیت کا مر کز اور خداوند متعال سے بهشت حاصل کر نے کا سر مایه هے، " العقل ماعبد به الرحمن واکتسب به الجنان[5]"
بهر حال ، عقل ووحی کی بحث میں عقل سے مراد ، وهی انسان کے ادراک کی قوت هے جس سے وه کلی امور کو درک کرتا هے-
اسلام کے حیات بخش مکتب میں عقل کا ایک بلند مقام هے – علامه طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں کهتے هیں : " انسان کے وجود میں عقل شریف ترین طاقت هے [6]–" خدا وند متعال نے قرآن مجید میں تین سو سے زائد بار اس خدا داد توانائی ، یعنی عقل سے استفاده کر نے کی دعوت کی هے[7]- علامه طباطبائی کی نظر میں اسلام میں تعقل وتفکر کی اس قدر اهمیت هے که خدا وند متعال نے قرآن مجید میں ، ایک آیت میں بهی اپنے بندوں کو نه سمجهنے اور یا اندهی تقلید کر نے کا حکم نهیں کیا هے[8]-
اس لحاظ سے اسلام اور عقل کے درمیان کسی قسم کا تضاد نهیں پایا جاتا هے – البته کبهی کسی غیر دینی امر کو دین کے قلمرو میں جگه دینے یا عقلی استدلال کے صحیح مقد مات اور شرائط سے فاقد هونے یا عقل سے کوئی خاص معنی لینے کے نتیجه میں همیں ان ساز گاریوں سے دو چار هو نا پڑتا هے-
نهج البلاغه میں انبیاء کی رسالت کے بارے میں امیر بیان حضرت علی علیه السلام کے نورانی کلام پر نظر ڈالنے سے معلوم هو تا هے که عقل وشرع نه صرف آپس میں تعارض نهیں رکھتے، بلکه هم آهنگ اور ایک دوسرے کے مٶید بهی هیں –" ---ویثیروالهم دفائن العقول---[9]" "--- اورعقل کے خزانوں کو ان کے لئے انکشاف کرتا هے-" حضرت (ع) اس بیان میں ، انبیاء کی بعثت کے فلسفه کے بارے میں فر ماتے هیں : خدا وند متعال نے انبیاء علیهم السلام کو لوگوں کی طرف بهیجا تا که ان کی دفن شده عقلوں کو زنده کریں-"
انسان کی عقل وفطرت ، ایک خزانه کے مانندهے ، جس میں تمام حقائق و واقعات موجود هیں ، اس لئے انبیاء علیهم السلام جو کچھـ فر ماتے هیں وه عقل و منطق کے مطابق هو تا هے – اصول فقه میں " قاعده ملا زمه" کے نام سے ایک اصطلاح هے جس میں کها جاتا هے: " کل ماحکم به العقل حکم به الشرع [10]" " جس چیز کی عقل حکم کرتی هے ، شرع بهی اس کا حکم کرتی هے –" اس کا برعکس بهی صحیح هے ، یعنی " کل ماحکم به الشرع حکم به العقل-" جس چیز کی شرع حکم کرتی هے عقل بهی اس کا حکم کر تی هے-"اس لئے مبانی احکام میں سے ایک عقل هے-
اس بناپر انبیاء علیهم السلام کے احکام عقل کے خلاف نهیں هیں ، جو کچھـ وه کهتے هیں وهی عقل کا فیصله هوتا هے که شیاطین کی طرف سے خیالات ایجاد کر نے کے نتیجه میں انسان اس سے عفلت کرتا هے - انبیاء آئے هیں تاکه لوگوں کو عقل کے مخفی خزانوں سے آگاه کریں –بنیادی طور پر انبیاء علیهم السلام کی طرف سے حق وحقیقت کی طرف دعوت اور صحیح و منطقی استدلال کے ذریعه انسان کو حاصل هونے والی چیز کے در میان کوئی فرق نهیں هے – صرف یه فرق هے که انبیاء علیهم السلام سر چشمه غیب سے مدد طلب کرتے تھے اور چشمه وحی کے آب زلال کو پیتے تھے – البته وه بزرگ شخصیتں، باوجود اس کے که عالم بالا سے رابطه رکهتے تھے، خود کو تنزل کر کے لوگوں کے فهم و ادراک کی سطح پر گفتگو کرتے تھے اور انسان سے چاهتے تھے تاکه اس فطری اور تمام توانائی یعنی عقل سے استفاده کر کے مستحکم و منطقی استدلال و دلیل کا سهارا لیں – پس انبیاء علیهم السلام کی ذات اس سے بالاتر هے که لوگوں کو بصیرت کے بغیر اور اندهی تقلید کی بناپر حر کت کر نے پر مجبور کریں –قرآن مجید اس سلسله میں ارشاد فر ماتا هے: " آپ کهدیجئے که یهی میرا راسته هے که میں بصیرت کے ساتھـ اپنے پیرٶں کو خدا کی طرف دعوت دیتا هوں-[11]"
اس لحاظ سے دین اور عقلمندی ، یا شریعت و حکمت که ان کا مقصد، واضع اور روش ایک هی هے، آپس میں کسی قسم کا اختلاف نهیں رکهتے هیں- حقیقی دین لوگوں کو دعوت دیتا هے تاکه عقلی دلیل سے عالم ماورائے طبیعت پر یقین وعلم پیدا کرے-عقل و نقل طول میں قرار پاتے هیں – عقل انسان کی باطنی حجت هے که انهیں کمال کی طرف رهبری کرتی هے ، شریعت ظاهری حجت هے که انهیں کمال کی طرف رهبری کرتی هے، شریعت ظاهری حجت هے جو انسان کو آلود گیوں کے بهنور سے نجات دلاکر سعادت کے ساحل کی طرف هدایت کرتی هے-
حضرت امام موسی کاظم علیه السلام فر ماتے هیں : "خداوند متعال نے انسان کے لئے دو حجتیں قرار دی هیں : ظاهری حجت اور باطنی حجت، اما ظاهری حجت ، خدا وند متعال کے بهیجے هوئے انبیاء اور ائمه علیهم السلام هیں اور باطنی حجت ، عقل هے[12]-"
اس بناپر ممکن نهیں هے که ظاهر و باطن کی ان دو حجتوں کے در میان کسی قسم کا اختلاف و تعارض هو- حجت، دلیل و راهنما کے معنی میں هے اور راهنما اس کو کهتے هیں جو راه و مقصد اور اس کے انتها سے آگاه هو- حضرت امام کاظم علیه السلام کی روایت کے مطابق خدائے واحد و یکتا تک پهنچنے کے لئے دوراهنما موجود هیں : ایک ظاهری راهنما اور ایک باطنی راهنما، لیکن توجه کی جانی چاهئے یه ظاهر و باطن کے دو راهنما دومستقل اور ایک دوسرے سے بے نیاز راهیں نهیں هیں-انسان تب مقصد تک نهیں پهنچ سکتا هے جب تک نه ان دو راهنماٶں کے در میان مکمل هم آهنگی موجود هو-
امام حسین علیه السلام فر ماتے هیں : "عقل کا کمال حق کی پیروی هے[13]" اور قرآن مجید ارشاد فر ماتا هے : " خداوند حق هے[14]" اور " حقیقت اس کی طرف سے هے[15]-" اس لئے حق کی پیروی میں ، عقل کمال تک پهنچتی هے اور حجت ظاهری کی اطاعت کر نا خداوند متعال کے احکام میں سے هے – قرآن مجید میں ارشاد الهی هے" : الله کی اطاعت کرو اور رسول اور ان کے اوصیا کی [16]اطاعت کرو" اهم نکته یه هے که بعض اوقات بلند دینی حقائق ڈیکارٹ کی جزئی اور حساب لگانے والی عقل سے ( ڈیکارٹ کے مطابق عقل کلی کا کوئی معنی نهیں هے اور وه اس کی طرف کوئی اشاره نهیں کر تا هے- اس کی پوری توجه حساب لگانے والی عقل اور دور اندیشی پر متمر کز هے) یا پریگما ٹزم کے مکتب کی عقل سے ( پریگما ٹزم کےنظریه کے مطابق وه عقل فائده مند هے جو همارے تجرباتی مشکلات میں سےکسی مشکل کو حل کرسکے) اور یا کانٹ کے نظریه کے مطابق نظری عقل سے ( کانٹ کے مطابق نظری عقل مسائل کو حل کر نے میں ناتواں هے اور اس سلسله میں عقلی احکام عملی اقدار سے فاقد هیں ) تعارض رکهتے هیں-
واضح هے که ایثار ، جان نثاری ، شهادت ، انفاق، غیب پر ایمان اور اسلام کی هزاروں بنیادی حقیقتیں جزئی اور حساب لگانے والی عقل سے قابل تحلیل وبیان نهیں هیں – دوسری جانب سے عقل اور وهم کے در میان فرق کر نا بهی ضروری هے، کیونکه کبهی وهم ، عقل کی جگه لیتا هے – اس طرح نقلی چیزیں اصلی چیزوں کی جگه لیتی هیں ، چنانچه آیه شریفه میں ارشاد هوا هے : " ---وهم یحسبون انهم یحسینون صنعاً ،خیال کرتے تھے که وه نیک کام انجام دے رهے هیں [17]" لیکن حقیقت میں انکا تصور اور خیال بالکل وهم اور باطل پر مبنی تها-
نتیجه کے طور پر عقل ودین کی هم آهنگی اور ان کے در میان مقاصد، واضح اور طریقه کار کی یکسانیت کی وجه سے اسلام اور عقلی استدلالوں کے در میان تضاد کے باطل هو نے کے باوجود ، اگر عقلی اصولوں کا کوئی قاعده دینی حقائق سے، یا استدلال عقلی کے منطقی بر هان سے مطابقت نه کرے، تو جاننا چاهئے که یا هم نے عقلی استدلال وبرهان کے مقدمات اور ضوابط کی رعایت نهیں کی هے یا دینی احکام کے بارے میں همارا تصور، وهم و گمان پر مبنی تها-
لیکن اس بات کو مد نظر رکهنا چاهئے که اسلام کے عقائد (اصول) اور احکام (فروعات) میں ، بعض احکام و مسائل عقل سے بالا تر هو تے هیں اور اگر چه عقل ان کے ساتھـ کسی قسم کی مخالفت نهیں کرتی هے لیکن ان کی حقیقت تک نهیں پهنچتی اور انهیں نهیں سمجھـ سکتی هے، جیسے بعض احکام کے فلسفه اور معاد سے مربوط بحث کے جزئیات –
لیکن بعض احکام کے، همارے خیال میں عقل سے تعارض اور مخالفت دکهائی دینے کی علت دو چیزوں میں هے:
اول یه که اسلام کے بهت سی بنیادی حقیقتیں جزئی اور حساب کر نے والی عقل کے ذریعه قابل تحلیل و بیان نهیں هیں –
دوسرے یه که عقل اور وهم کے در میان فرق کر نا ضروری هے اور جیسا که بیان کیا گیا ، ممکن هے وهم کے نتائج کا عقل کے نتائج سے مغالطه هو جائے-
نتیجه کے طورپر، چونکه عقلی برهان خدا کی حجت هے، اس لئے جوشخص عقل کے سر مایه کے ساتھـ کتا بوں ، کا مطالعه کرے گا اسے گوناگون مقدس علوم، حدیث کی کتابوں سے بهی اور عقلی برهان سے بهی حاصل هوں گے –البته اگر کوئی شخص ناقص استدلال یا منطقی تمثیل یا مغالطه کے طریقه سے مقدس کتابوں کا مطالعه کرے، توچونکه بشریت کا غبار مقدس دینی محتوی کو اپنے لپیٹ میں لیتا هے، اس لئے اسے غبار آلود کرتا هے-
جوشخص یه سوال کرے که : کیا دین کے تمام کلی اور جزئی مسائل کا عقلی لحاظ سے دفاع کیا جاسکتا هے، اس کے جواب میں کهنا چاهئے که : دین کو پهچاننے کے لئے عقل ضروری هے لیکن کافی نهیں هے –اس لحاظ سے عقل کے ذریعه دین کے جزئیات کی حمایت نهیں کی جاسکتی هے کیونکه جزئیات برهان عقلی کے دائرے میں قرار نهیں پاتے هیں ، خواه یه جزئیات فطرت سے مربوط هوں یا شریعت سے- دوسرے الفاظ میں جزئیات، خواه علمی ، عینی ، حقیقی یا اعتباری هوں ، برهان عقلی کی پهنچ میں نهیں هیں اور جو چیز برهان عقلی کی پهنچ میں نه هو اس کی عقلی توجیه نهیں کی جاسکتی هے، لیکن کلیات اور فطرت و شریعت کے کلی خطوط میں عقلی طور پر علت بیان کی جاسکتی هے-
وضاحت، یه که، چونکه عقل بهت سے امور میں عاجز هو تی هے ، اس لئے اسے وحی کی ضرورت هوتی هے –عقل کی منطق یه هے که میں سمجهتا هوں که میں بهت سی چیزوں کو نهیں سمجهتا هوں اور مجهے وحی کی ضرورت هے[18]-
مزید معلومات کے لئے ملاحظه هو:
الف : تفکر در قرآن ، علامه طباطبائی سید محمد حسین-
ب : حکمت نظری وعملی در نهج البلاغه، جوادی آملی عبدالله –
ج- شریعت در آینه معرفت ، جوادی آملی عبدالله ، ص٢٢٤- ا٩٩-
د- دین شناسی ، جواد آملی عبدالله ،ص١٧٤-١٧٠-
ه- باورها وپرسشها ، مهده هادوی تهرانی،ص٥٨- ٥١-
و- مبانی کلامی اجتهاد، مهدی هادوی تهرانی ،ص٢٨٤-٢٨٠-
ز- نشریه پرسمان، پیش سماره دواز دهم ، مرداد ماه سال ١٣٨١، مقاله: اسلام وعقل ،همسویی یا تضاد ، رضا نیا حمید رضا-
[1] - کر جیی ،علیی ،اصطلاحات فلسفیی وتفاوت آنها با یکدیگر ،ص ١٧١- ١٧٢-
[2] - شهید مطهری ،ده گفتار ص ٣٠- ٣١-
[3] - جوادی آملی ،عبدالله، رحیق مختوم، ج ١ بخش اول ص١٥٣-
[4] - شهید مطهری، ده گفتار ٣٠- ٣١-
[5] - کلینیی ،اصول کافی ،ج١ص١١،حدیث ٣-
[6] - طباطبائی ، محمد حسین، المیزان ،ج٣،ص٥٧-
[7] - ایضاً ،ج ٥،ص٢٥٥-
[8] - نفیسیی شادیی ،عقل گرایی در تفاسیر قرن چهاردهم ،ص١٩٤- ١٩٥-
[9] - نهج البلاغه ،خطبه ١-
[10] - سبزواری ،سید عبدالاعلی ،تهذیب الاصول ،ج١،ص ١٤٥; مظفر ، محمد رضا ،اصول الفقه ،ج١،ص٢١٧-
[11] - سوره یوسف،آیه١٠٨-
[12] - ملاحظه هو: منتخب میزان الحکمۃ ،ری شهری محمد ،ص٣٥٨، روایت شماره ٤٣٨٧-
[13] - ملاحظه هو: منتخب میزان الحکمۃ، ،ص٣٥٩،روایت شماره ٤٤٠٧-
[14] - سوره لقمان ،آیه ٣٠-
[15] - سوره آل عمران ،آیه ٦٠-
[16] - سوره نساء،آیه ٥٩-
[17] - سوره کهف ،آیه ١٠٤-
[18] - جوادی آمیل عبدالله ، دین شناسی (سلسله بحث های فلسفه دین) ،صص ١٧٤—١٢٧-