Please Wait
11471
"زیبائی" کے مختلف معنی ہیں، جیسے: شائستہ، نیک، جمیل اور خوشنما، اور اصطلاح میں ظہور اور کمال پر اوڑھے گیے ایک شفاف پردہ کے معنی میں ہے۔ بنیادی طور پر چار قسم کی زیبائی پائی جاتی ہیں۔ محسوس زیبائی، نامحسوس زیبائی، معقول زیبائی، خداوندمتعال کی مطلق زیبائی اور جمال۔
قرآن مجید کی روشنی میں، انسان کی زیبائی، فطرت کی زیبائیاں اور معنوی اور اخلاقی زیبائیاں، زیبائی کے مظاہر شمار ہوتی ہیں۔
اسی طرح، زیبائی شناسی کے بعض اصول قرآن مجید میں یہ ہیں: ہدف مندی، تناسب و توازن ، نظم و ترتیب، تنوع و تضاد، رنگوں کی زیبائی کا تنوع اور عیوب کو چھپانا۔ قرآن مجید میں زیبائی شناسی کا طریقہ، ہستی شناسی کی بنیاد اور معرفت شناسی کے پیش نظر ہے اور مغربی طرز فکر کی زیبائی شناسی سے فرق رکھتا ہے۔
قرآن مجید انسان کی ہدایت کے لیے ایک کتاب ہے، جس کو خداوندمتعال نے اپنے پیغمبراکرم{ص} پر نازل کیا ہے، تاکہ انسان کے لیے تمام حقائق کو اس کے ذریعہ بیان کرے، اس لحاظ سے خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے: " ونزلناعلیک الکتاب تبیاناً لکل شئ"[1] " ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شئے کی وضاحت موجود ہے۔ ۔ ۔ " اس بنا پر قرآن مجید میں ایسے بہت سے مفاہیم پائے جاتے ہیں ، جو انسانی طرز فکر کی اصلاح کے سلسلہ مِں کلیدی رول رکھتے ہیں،قرآن مجید میں ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جس مفہوم کے بارے میں کثرت سے آیات مخصوص ہیں، وہ زیبائی کا مفہوم ہے۔ ظاہر ہے کہ دقیق طریقہ کار کو حاصل کرنے کے لیے اس کی تعریف اور حدود کو معین کیا جانا چاہئیے اور اس کے بعد اس کے مفروضات اور مبانی سے استفادہ کر کے آیات اور مصادیق میں غور و فکر کرنا چاہئیے تاکہ زیبائی شناسی کا طریقہ کار تشکیل پائے۔ "زیبا" کے لغت میں مختلف معنی ہیں،جیسے: شائستہ، نیک، جمیل اور خوشنما۔ زیبائی ، یعنی، خوبصورتی کی حالت اور کیفیت،جیسے: وہ نظم و ہم آہنگی جو کسی شے میں عظمت و پاکی ہوتی ہے، جو انسان کی عقل، تخیلات اور عالی میلانات کی تحسین کرتی ہے اور لذت و انبساط پیدا کرتی ہے[2]۔
اصطلاح میں بھی زیبائی کے بارے میں متعدد تعریفیں کی گئی ہیں۔ ایک تعریف کی بنا پر زیبائی ایک ہم آہنگی اور ہارمونی ہے جو ہماری لذتوں کو ایک معین راہ میں تشکیل دیتی ہے اور زیبائی کے تصور کا سبب بن جاتی ہے[3]۔ علامہ محمد تقی جعفری اس نکتہ کو بیان کرتے ہیں کہ خلقت کی زیبائی کے ایک مظہر پر غور کرنے سے، انسان ایک زیبا حس حاصل کرنے کے علاوہ کمال تک بھی پہنچتا ہے، وہ زیبائی کی یوں تعریف کرتے ہیں: کمال پر اوڑھا ہوا ایک شفاف پردہ۔ اس تعریف کی بنا پر زیبائی وہ ہے کہ جو انسان کو اپنی زیبائی کی حس کو دور کرنے کے علاوہ کمال تک بھی پہنچاتی ہے[4]۔
زیبائی کی مختلف قسمیں ہیں، ہر مکتب فکر نے اپنی ہستی شناسی کے مبانی کے مطابق اس کی مختلف قسمیں کی ہیں۔
لیکن کلی طور پر چار قسم کی زیبائیاں پائی جاتی ہیں:
۱۔ محسوس زیبائی،مثال کے طور پر ، پھولوں اور جنگلوں کی زیبائی
۲۔ نامحسوس زیبائی،مثال کے طور پر، آزادی، علم وغیرہ کی زیبائی
۳۔ قابل قدر معقول زیبائی، مثال کے طور پر ، حکمت، عدالت اور دوسری روحانی عظمتیں
۴۔ لم یزلی ولا یزالی، مطلق زیبائی و جمال[5]۔
قرآن مجید ، اپنی نورانی آیات میں زیبائیاں بیان کرتا ہے اور انسان کو ان پر غورو فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ان زیبائیوں کو حاصل کرنے کی سفارش کرتا ہے، خواہ یہ زیبائیاں معنوی ہوں مادی و محسوس ہوں۔ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نہ صرف زیبائی کو جائز جانتا ہے، بلکہ زیبائیوں کو حاصل کرنا ، انسان کی روحانی ضرورت کے عنوان سے مطلوب و محبوب جانتا ہے[6]، ارشاد الہٰی ہے:
" اور وہی وہ ہے جس نے سمندروں کو مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھا سکو اور پہننے کے لیے زینت کا سامان {موتی} نکال سکو۔ ۔ ۔ [7]" قرآن مجید کی آیات اپنی بے مثال بلاغت کے سبب زیبائی شناسی میں تفکر کرنے کا حیرت انگیز راز ہیں[8]۔ اس بنا پر قرآن مجید، خود زیبائی کا مظہر ہے اور اس میں زیبائی شناسی کے مظاہر اور خوبصورت نشانیاں پائی جاتی ہیں اور قرآن مجید میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوندمتعال تمام زیبائیوں کا سرچشمہ ہے اور اس نے کائنات اور اس کی نعمتوں کی خلقت میں زیبائیوں کو مدنظر رکھا ہے۔
قرآن مجید کی آیات میں،زیبائی کے لیے کچھ الفاظ اور مفاہیم استعمال ہوئے ہیں۔ جو ایک تقسیم بندی کے مطابق حسب ذیل ہیں:
۱۔ جمال { بہت خوبصورت، حسن {شادی اور دل پسند}، زینت { زیبائی کا مطلب، جو کسی چیز میں اضافہ ہوتا ہے}۔ یہ تین الفاظ زیبائی کے محور ہیں۔
۲۔ حلیہ {آراستگی} ، بہجت {زیبائی، خوشی ، شادی} ، زخرف{زینت، خوشنما، زرق برق} اور تسویل {آرائش کر کے بدصورت کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا}
۳۔ وہ الفاظ، جنہیں بعض تفسیروں کی بنا پر زیبائی کے دائرے میں قرار دیا گیا ہے، مثال کے طور پر : حبک {زیبائی} اور تبرج {زینت نمائی}
۴۔ وہ الفاظ، جو زیبائی کی خصوصیات بیان کرتے ہیں، جیسے: نور، لون، قدر
قرآن مجید میں زیبائی شناسی کے مظاہر:
قرآن مجید ، اپنے بلند مقاصد کے سلسلہ میں ، ہستی کی بعض زیبائیوں، معنوی اور اخلاقی زیبائیوں کی کچھ مثالیں اور آخرت کی زیبائیوں کی ایک جھلک ہمیں دکھاتا ہے، جو حسب ذیل محوروں میں بیان کی گئی ہیں:
الف۔ انسان کی زیبائیاں: قرآن مجید نے انسان کے رشد و بالیدگی کے مراحل بیان کیے ہیں اور ان کے موزون اور معتدل ہونے کی یوں تاکید فرماتا ہے: " ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔[9]" اور انسان کو اس زیبائی کے ساتھ پیدا کرنے کے بعد خداوندمتعال اپنے آپ کو آفرین کہتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: " کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔[10]" بیشک، انسان کے اعضا کا تناسب اور ہر ایک عضو کا اپنی مخصوص جگہ پر قرار پانا اور ان کا منظم اور دقیق کام انجام دینا اور ان کی زیبائی نے سائینسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہےاور حیرت اور تعجب کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
یہ زیبائی، صرف انسان کی ظاہری صورت نہیں، بلکہ یہ اس کے روحانی اور باطنی پہلو پر بھی مشتمل ہے اور اس سے کمال و سعادت کے بلند ترین مراتب میں بھی راہنمائی کی جا سکتی ہے۔
ب۔ طبیعیت کی زیبائیاں: ہر نظریہ کا قائل انسان جب طبیعیت{فطرت} کا نظارہ دیکھتا ہے تو اس کے عجائبات اور زیبائیوں کا مشاہدہ کر کے وجد میں آتا ہے اور اس کی روح تازہ ہو جاتی ہے۔ فلک بوس پہاڑ، بہتے دریا، سورج کا ایک جگہ سے طلوع ہونا اور دوسری جگہ غروب ہونا اور بجلی اور کڑک وغیرہ میں چکاچوند کرنے والی زیبائیاں ہیں، قرآن مجید نے ان زیبائیوں کو بے جان اور جاندار طبیعیت کے قالب میں پیش کیا ہے اور اس طرح زیبائی شناسی کا ایک نیا باب کھولا ہے۔
طبیعیت {فطرت} سے متعلق آیات کو طبیعتی آیات کہا جاتا ہے اور مفسرین نے اس قسم کی آیات کی تعداد ۷۵۰ سے زائد بتائی ہے اور ان کی بھی مختلف قسمیں کی گئی ہیں جو آسمان اور دوسرے مظاہر کی زیبائیوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں پر ہم اس قسم کی چند آیتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ " کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ہے کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور پھر آراستہ بھی کردیا ہے اور اس میں کہیں شگاف بھی نہیں ہے[11]۔"
۲۔ " بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین بنا دیا ہے[12]۔"
۳۔ " ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں{ستاروں} سے آراستہ کیا ہے۔[13]"
۴۔ " اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کر دیا۔[14]"
ان آیات کی مزید مثالوں کو سورہ ضحیٰ کی آیت ۱، مدثر، آیت ۳۴، کہف، آیت ۸۶، نمل آیت ۶۰، حج، آیہ ۵ اور ق، آیت ۸-۱۱ میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
ج۔ معنوی اور اخلاقی زیبائی: اسلام کی زیبائی شناسی اور مغربی ہیومنزم {Humanism} کی زیبائی شناسی کے اصولوں کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام نے زیبائی کو طبیعی اور قابل حس زیبائیوں سے بالاتر وسعت دے کر معنوی اور اخلاقی زیبائیوں کو بھی اس میں شامل کیا ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے: " خدا نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کیا ہے۔ ۔ ۔[15]"
صبر و بخشش بھی ان امور میں سے ہیں جو ایک طرح کی زیبائی ہیں: " لہٰذا آپ بہترین صبر سے کام لیں۔[16]" بخشش کی زیبائی: " پس ان کے بارے میں شائستہ طور پر چشم پوشی کرو۔[17]" طلاق کی زیبائی: " پیغمبر؛ آپ اپنی بیویوں سے کہ دیجئیے کہ اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو تو آو میں تمہیں متاع دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔[18]"
اس سلسلہ میں قرآن مجید نے متعدد آیات بیان کی ہیں، من جملہ سورہ مزمل کی آیت۷۳ اور سورہ احزاب کی آیت۴۹۔
قرآن مجید میں زیبائی کا اصول:
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے زیبائی کے عوامل اور نشانیاں معلوم کی جا سکتی ہیں جو پروردگار عالم کے نظام ہستی کی خلقت کی خصوصیات شمار ہوتی ہیں، ان میں سے بعض عوامل حسب ذیل ہیں:
۱۔ بامقصد: قرآن مجید کی زیبا شناسی کے اصولوں میں سے ایک اس کا بامقصد ہونا ہے، چونکہ قرآن مجید کی دعوت کی بنیاد مخاطب کی ہدایت اور الہٰی و معنوی پیغاموں کی طرف دلچسپی دکھانا ہے۔ زیبائی اور ہنرمندی کو صرف ان کے مادی دائرے میں تعریف نہیں کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی داستانوں کے بارے میں جب فن کاری کے لحاظ سے بات کی جاتی ہے اور ان داستانوں کے محتوٰی کو خوبصورت عبارتوں میں نمایاں کیا جاتا ہے، تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ داستان سرائی اور ادبی و فنی جلووں کی زیبائی ہی زیبائی شناسی کا موضوع ہے، بلکہ اس کے ذکر کا مقصد انسان کی ہدایات اور پروردگار کی لامحدود قدرت کی یاددہانی کرانا ہوتا ہے[19]۔
۲۔ تناسب و توازن: عالم ہستی کا نظام نہایت گہری اور حساب شدہ منظم بنیادوں پر تشکیل پایا ہے، اس نکتہ کو ان آیات میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے:
" بیشک ہم نے ہر شے کو ایک اندازہ کے مطابق پیدا کیا ہے[20]۔"
" ہر شے کا اس کے نزدیک ایک معیار معین ہے[21]۔"
" اس نے ہر شے کو خلق کیا ہے اور صحیح اندازے کے مطابق درست بنایا ہے[22]۔"
" اس نے ہر شے کے لیے ایک مقدار معین کی ہے[23]۔"
" جس نے پیدا کیا ہے اور درست بنایا ہے، جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے۔[24]"
۳۔ منظم اور زیبا نظم و ترتیب: کائنات کے نظم وانتظام کی اہم نشانیوں میں سے ایک اس کا منظم ہونا اور زیبا نظم و ترتیب ہے، قرآن مجید میں اس کا مختلف صورتوں میں ذکر کیا گیا ہے:
" اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا ہے اور اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دئے ہیں اور ہر چیز کو معینہ مقدار کے مطابق پیدا کیا ہے[25]۔"
" وہ برابر سے بچھے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے[26]۔"
" اور قطار سے لگے ہوئے گاو تکیے ہوں گے[27]۔"
" ان کے لیے جنت کے غرفے ہیں اور ان کے غرفوں پر مزید غرفے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔[28]"
۴۔ تنوع اور تضاد: نظام ہستی پر حاکم نظام میں وحدت اور ہم آہنگی کے علاوہ اس میں حیرت انگیز تنوع بھی پایا جاتا ہے، جو جمادات، نباتات اور حیوانات اور انسانوں کی قسموں میں مشہور ہے:
" اور زمین کے متعدد ٹکڑے آپس میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریں ہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض کھانے پر ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔[29]"
۵۔ زیبائی اور رنگوں میں تنوع: قرآن مجید کی آیات کی ایک تعداد مختلف رنگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ قرآن مجید نے سبز رنگ کو نعمت، شادی، اور بہشتی رنگ کے عنوان سے یاد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
" ان {بہشتیوں} کے اوپر کریب کے سبز لباس اور ریشم کے حلّے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔[30]"
زرد رنگ کو مسرت لانے والے رنگ کے عنوان سے یاد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
" ایک ایسی گائے ہو۔ جو زرد رنگ کی ہو، کہ اس کا رنگ دیکھنے والوں کو شاد اور مسرور کرے۔"
اس کے علاوہ رنگوں کے نمونوں کو سورہ نحل آیت۱۳، سورہ فاطر آیت۲۷، ۲۸، اور سورہ زمر آیت۲۱ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
۶۔ عیبوں سے پاک ہونا: پروردگار کی خلقت کی نشانیوں میں سے ایک اس کا عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔ قرآن مجید کے سورہ ملک میں آسمان کی زیبائی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
" اس کے بعد بار بار نگاہ ڈالو ، دیکھو، نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی لیکن کوئی عیب نظر نہ آئے گا۔[31]"
پروردگارعالم کی خلقت کا عیبوں سے پاک ہونا ، قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے[32]۔
[1] نحل، 89.
[2] معین،محمد،فرهنگفارسی،تهران،موسسهانتشاراتامیرکبیر، 1360ھ ش.
[3] خرقانی، حسن، مفاهیم زیبائی شناختی در قرآن،مجله مطالعات اسلامی، ص 11، سال 1387ھ ش، شماره 80.
[4] جعفری،محمد تقی،زیبائی و هنر از دیدگاه اسلام، ص 174،موسسه تدوین آثارعلامه جعفری، تهران،1385ھ ش.
[5]ایضاً، ص 162و163.
[6]ایضاً، ص133-136، انتشارات شرکت سهامی چاپخانه وزارت ارشاد اسلامی، بلا تاریخ.
[7]نحل،14.
[8]فضیلت،محمود،زیبائی شناسی قرآن،ص 22،طبع دوم،انتشارات سمت،تهران،1387ھ ش.
[9] تین، 4.
[10] مؤمنون، 14.
[11] ق، 6.
[12] صافات، 6.
[13]فصلت، 12.
[14]حجر، 16.
[15] حجرات، 7.
[16] معارج، 5.
[17] حجر، 85.
[18] احزاب، 28.
[19]ایازی، سيد محمد علی،اصول و مباني زيبايي شناسي قرآن كريم،پا تبیان ویب سائٹ.
[20]قمر، 49.
[21]رعد، 8.
[22] فرقان، 2.
[23] طلاق، 2.
[24] أعلی، 2ـ3.
[25] حجر، 19.
[26] طور، 20.
[27] غاشیه، 15.
[28] زمر، 20.
[29] رعد، 4 .
[30] انسان، 21.
[31]ملک، 3.
[32]مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو: حسن خرقانی، مفاهیم زیبائی شناختی در قرآن،مجله مطالعات اسلامی،سال 1387ھ ش، شماره 80 ،ص11؛ مهدی مطیع،مبانی زیبائی شناختی در قرآن، قرآن به مثابه نظریه پردازی زیبائی شناسی،فصلنامه هنر،سال 1385ھ ش،شماره نشریه، 70،ص210؛ حسن بلخاری،بنیان های نظری زیبائی شناسی اسلام در قرآن کریم، فصلنامه هنر،سال 1385ھ ش،شماره نشریه، 70،ص164تا 171.