Please Wait
9372
آیہ شریفہ "وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرينَ وَ الْأَنْصارِ..." امام علی{ع} کی شان میں نازل ہوئی ہے یا نہ ہوئی ہو، آپ{ع} کے پہلے مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ہے،کیونکہ بصورت اجماع ثابت ہوا ہے کہ رسول خدا{ص} پر ایمان لانے والی عورتوں میں سے پہلی عورت، آنحضرت{ص} کی وفادار شریک حیات حضرت خدیجہ {ع} تھیں اور تمام علمائے شیعہ اور بہت سے سنی علما کے بقول مردوں میں سے آنحضرت{ص} پر لبیک کہنے والے پہلے شخص حضرت علی{ع} تھے۔ اس لحاظ سے علی{ع} اولین شخص ہیں جو اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں اور اس آیت کو آپ{ع} پر تطبیق کیا جاتا ہے۔
لیکن لفظ "السابقون" کے صیغہ جمع سے مفرد کا ارادہ کرنے کے بارے میں اعتراض کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ: اس قسم کا استعمال کوئی نئی چیز نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید ، عربی ادبیات اور دوسری زبانوں میں بھی اس قسم کا استعمال بکثرت ملتا ہے کہ لفظ جمع استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک فرد مراد لیتے ہیں۔ ہم تفصیلی جواب میں اس کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
آیہ شریفہ "وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرينَ وَ الْأَنْصارِ..." کی تفسیر میں جانے اور اس کی شان نزول بیان کرنے سے پہلے دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ اس آیہ شریفہ اور دوسری آیات کو مدنظر رکھے بغیر کہ کیا امام{ع} پیغمبراسلام{ص} پر ایمان لانے والے پہلے شخص تھے۔ بہ الفاظ دیگر، کیا تاریخی واقعات ثابت کرتے ہیں کہ رسول خدا{ص} پر ایمان الانے والے مردوں میں امام علی{ع} پہلے شخص تھے؟؛
۲۔ فرض کریں کہ آیہ شریفہ "السابقون الاولون۔۔" کسی خاص شخص کی شان میں نازل نہیں ہوئیِ ہے، لیکن کیا جری اور تطبیق کے لحاظ سے ۔۔۔۔۔ نہ کہ حصر سبب نزول کے لحاظ سے ۔۔۔۔ اس آیت کو حضرت علی{ع} سے تطبیق کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؛
پہلا نکتہ:
پہلے نکتہ کے بارے میں یہ قابل ذکر ہے کہ ہر شخص جو تفسیر، حدیث اور سیرت {معصومین{ع} کی زندگی کی تاریخ} کی کتابوں کی طرف رجوع کرے، اسے واضح طور پر معلوم ہوگا کہ، اسلام میں پہلے ایمان لانے والوں کی داستان، خاص کر مذکورہ آیہ شریفہ کی بحث کے بارے میں، اس قدر خاص مقام و منزلت کی حامل ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔
سوال کے پہلے حصہ ،یعنی کیا علی بن ابیطالب{ع} پہلے مرد مسلمان تھے؟ کے جواب میں قابل بیان ہے کہ: اہل سنت اور شیعہ مورخین بصورت اجماع اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول خدا{ص} پر ایمان لانے والی عورتوں میں پہلی عورت، آنحضرت{ص} کی وفادار شریک حیات حضرت خدیجہ {ع} تھیں اور تمام علمائے شیعہ اور سنی علماء کی ایک بڑی تعداد کا اعتقاد ہے کہ مردوں میں سے آنحضرت{ص} کی دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے حضرت علی بن ابیطالب{ع} تھے[1]۔
البتہ ،بعض لوگوں نے امام علی{ع} کی اس فضیلت اور خصوصیت،یعنی اسلام قبول کرنے میں سبقت کو دوسروں سے نسبت دی ہے؛ اور اس کے لیے یہ بہانہ لائے ہیں کہ حضرت علی{ع} اس زمانہ میں نوجوانی کی عمر میں تھے۔ ہمارے لیے یہاں پر اس تنگ نظری کے بارے میں تنقید کرنے کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ اہم مسئلہ روایات سے ثابت ہوچکا ہے،اس لیے ہم یہاں پر اس سلسلہ میں چند روایات کو مثال کے طور پر پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔اس موضوع کے بارے میں تاریخ طبری میں آیا ہے کہ: " گزشتہ لوگوں نے ، حضرت خدیجہ کے بعد رسول خدا{ص} پر سب سے پہلے ایمان لانے والے شخص کے بارے مین اختلاف کیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مرد جو پیغمبراکرم{ص} پر ایمان لائے اور آپ{ص} کے پیچھے نماز پڑھی، علی بن ابیطالب {ع} تھے۔" اس کے بعد طبری کہتے ہیں: " ابن حمید کہتا ہے : ابراھیم بن مختار نے شعبہ سے اور اس نے ابی بلج سے اور اس نے عمروبن میمون سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے شخص ، جنھوں نے رسول خدا {ص} کے پیچھے نماز پڑھی علی تھے۔[2]"
اس کے علاوہ طبری نے جابر سے نقل کیا ہے کہ : "پیغمبراکرم{ص} سوموار کے دن رسالت پر مبعوث ہوئے اور علی{ع} نے منگل کے دن نماز پڑھی[3]۔"
وہ زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں: " سب سے پہلے شخص، جو پیغمبراکرم{ص} پر ایمان لائے ، علی تھے۔[4]"
۲۔ ابن اثیر، زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں کہ : " سب سے پہلے شخص جو پیغمبر اسلام {ص} پر ایمان لائے، علی تھے۔" اس کے علاوہ عفیف کندی کہتے ہیں: " میں تجارت کے سفر پر تھا، اس دوران ، مکہ پہنچا، یہ حج کے ایام تھے۔ میں نے عباس کو دیکھا، اور اسی دوران دیکھا کہ ایک شخص نے آکر کعبہ کے پاس نماز پڑھی ، اس کے بعد ایک خاتون آگئیں اور ان کی اقتداء کی، ان کے بعد ایک نوجوان لڑکا آیا اور ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کے بعد میں نے پوچھا: اے عباس؛ یہ کونسا دین ہے؟ عباس نے جواب میں کہا: یہ مرد محمد بن عبداللہ، میرا بھتیجا ہے اور وہ خاتون ان کی شریک حیات اور وہ نوجوان علی بن ابیطالب ہیں، جو ان پر ایمان لائے ہیں، اس کے بعد کہا: خدا کی قسم زمین پر ان تین افراد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ یہ دین کیا ہے۔عفیف نے کہا: کاش؛ میں ان میں چوتھا ہوتا؛[5]"
۳۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: "وکیع نے شعبہ سے ، اور ا سنے عمروبن مرہ سے ، اور اس نے انصار کے ہم پیمان ابی حمزہ سے اور اس نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: سب سے پہلے شخص جو رسول خدا{ص} پر ایمان لائے، وہ علی{ع} تھے۔[6]"
۴۔ ترمذی اپنی "سنن" میں لکھتے ہیں: " میں نے سنا ہے کہ زید بن ارقم کہتے تھے کہ سب سے پہلے شخص جو اسلام لائے، علی تھے۔[7]"
۵۔ ابن سعد،کتاب "طبقات" میں لکھتے ہیں: "وکیع بن حراج، یزید بن ہارون، اور عفان بن مسلم نے شعبہ سے اور اس نے ابو حمزہ سے، اس نے زید بن ارقم سے مجھے خبر دی ہے کہ جو شخص سب سے پہلے رسول خدا{ص} پر ایمان لائے، وہ علی تھے۔[8]"
یہ مسئلہ ،علمائے اہل سنت کے درمیان اس قدر مشہور ہوا کہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اس پر اتفاق نظر رکھتے ہیں، من جملہ حاکم نیشا پوری نے "مستدرک صحیحین" اور کتاب "المعرفہ" میں اس مطلب کو قرطبی سے نقل کر کے یوں بیان کیا ہے:
" مورخین کے درمیان علی بن ابیطالب کے پہلے مسلمان ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جس چیز پر اختلاف ہے ، وہ یہ ہے کہ کیا ان کا ایمان لانا ان کے بلوغ کے زمانہ میں تھا یا نہیں۔[9]"
ابن عبدالبر اپنی کتاب "استیعاب" میں لکھتے ہیں: " اس مسئلہ پر اجماع اور اس پر اتفاق ہے کہ سب سے پہلے جو لوگ رسول خدا{ص} پر ایمان لائے خدیجہ اور ان کے بعد علی تھے۔[10]"
ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں:" تمام لوگوں نے، علی کے اسلام لانے میں سبقت پر فخرومباہات کی روایت کی ہے۔[11]"
جو کچھ یہاں تک بیان کیا گیا وہ اہل سنت کی احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں سے تھا۔ لیکن شیعوں کے منابع کے بارے میں ہم اس موضوع پر صرف صاحب "تفسیر البرہان" کی نقل کی گئی روایتوں کی ایک جھلک پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ معاویہ سے صلح کرنے کے بعد امام حسن{ع} کے خطبہ میں آیا ہے: " میرے باپ پہلے شخص تھے جنہوں نے خداوندمتعال اور اس کے رسول {ص} کی دعوت قبول کی اور وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایمان لا کر خدا اور اس کے رسول{ص} کی تصدیق کی۔[12]"
ابن شہر آشوب ماز ندرانی کہتے ہیں: " لیکن اسلام لانے میں علی{ع} کی سبقت سے متعلق روایتوں پر کتابیں تالیف کی گئی ہیں۔[13]"
۲۔ امام صادق{ع} فرماتے ہیں: "آیہ شریفہ "السابقون الاولون۔ ۔ ۔" علی{ع} اور مھاجر و انصار میں سے ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے رسول خدا{ص} کی پیروی کی ہے اور ان کے لیے ایسی بہشت مہیا کی گئی ہے، جس میں نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ابد تک رہیں گے، یہ وہی فوز عظیم ہے۔[14]"
یہاں پر ہم اسی پر اکتفا کرتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ امام علی{ع} بحق پہلے شخص ہیں جو رسول خدا{ص} پر ایمان لائے ہیں۔
لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول خدا{ص} پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ابوبکر تھے، ان کے دلائل کو شیعہ علما نے مسترد کیا ہے، من جملہ جن علماء نے ان دلائل کو مسترد کردیا ہے، صاحب تفسیرنمونہ ہیں، وہ اس سلسلہ میں یوں لکھتے ہیں: "دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ حضرت علی{ع} کے ایمان لانے میں سبقت کا انکار نہیں کر سکے ہیں، وہ کئی وجوہات کی بنا پر کوشش کرتے ہیں کہ ایک اور صورت میں اس سے انکار کریں یا اس مسئلہ کی اہمیت کو گھٹا دیں، اور بعض دوسرے افراد ان کی جگہ پر ابوبکر کو سب سے پہلا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔"
بعض اوقات کہتے ہیں کہ علی{ع} اس وقت دس سال کے تھے اور قدرتی طور پر نابالغ تھے، اس بنا پر ان کا، ایک نوجوان لڑکے کی حیثیت سے اسلام لانا دشمنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے محاذ کو کسی قسم کی طاقت نہیں بخش سکتا تھا[15]۔ اور یہ بیشک تعجب کی بات ہے ، کیونکہ اولاً: یہ پیغمبراکرم{ص} کی ذات پر اعتراض ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں، کہ یوم الدار کے موقع پر جب پیغمبراسلام نے دین اسلام کو اپنے خویش و اقارب کے سامنے پیش کیا ، تو حضرت علی{ع} کے علاوہ کسی اور نے اسے قبول نہیں کیا اور یہ صرف علی{ع} تھے جنہوں نے کھڑے ہو کر اسلام کا اعلان کیا۔ پیغمبراکرم{ص} نے ان کے اسلام لانے کو قبول کیا اور حتی کہ اعلان کیا کہ: تم میرے بھائی ، وصی اور جانشین ہو؛
ثانیاً:جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس دن حضرت علی{ع} کی کم عمری کسی صورت میں مسئلہ کی اہمیت کو نہیں گھٹاتی ہے، خاص کر یہ کہ قرآن مجید حضرت یحیی{ع} کے بارے میں صراحتاً ارشاد فرماتا ہے: " وآتیناہ الحکم صبیاً۔ ۔ [16]" " ہم نے اسے بچپن میں ہی حکم دیا ہے۔" اور حضرت عیسیٰ{ع} کے بارے میں بھی پڑھتے ہیں کہ انہوںنے نوزاد بچے کی حالت میں گفتگو کی اور ان کے بارے میں شک و شبہہ سے دوچار ہوئے افراد سے مخاطب ہو کر فرمایا:"إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ وَ جَعَلَنِي نَبِيًّاً[17]-" میں خدا کا بندہ ہوں، مجھے آسمانی کتاب عطا کی گئی ہے اور مجھے پیغمبر قرار دیا گیا ہے۔
ثالثاً: تاریخی لحاظ سے یہ موضوع مسلم اور صحیح نہیں ہے کہ ابوبکر اسلام لانے والے تیسرے شخص ہیں، بلکہ اسلام کی بہت سی تاریخی اور احادیث کی کتابوں میں ان سے پہلے ایک گروہ کے اسلام لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ابن ابی الحدید ، اہل سنت کے مشہور عالم ابو جعفر اسکافی {معتزلی} سے نقل کرتے ہیں کہ بعض کہتے ہیں: "ابوبکر اسلام لانے میں سبقت رکھتے ہیں، اگر یہ صحیح ہو، تو انہوں نے خود کسی موقع پر اس موضوع کے سلسلہ میں اپنی فضیلت کا استدلال کیوں نہیں کیا ؟ اس کے علاوہ صحابیوں میں ان کے حامیوں میں سے کسی ایک نے بھی اس قسم کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔[18]"
صاحب شرح "کشف المراد" نے بھی اس شبہہ کا یوں جواب دیا ہے کہ:
اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ علی بن ابیطالب {ع} بالغ ہونے سے پہلے اسلام لائے ہیں اور اس قسم کا اسلام قابل قبول نہیں ہے،تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ:
۱۔ شہادت کے وقت حضرت علی{ع} کی عمر ۶۵ یا ۶۶ سال تھی ، جبکہ پیغمبراسلام{ص} نے رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد ۲۳ سال زندگی گزاری ہے اور پیغمبر{ص} کی رحلت کے بعد علی ۳۰ سال زندہ رہے، نتیجہ کے طور پر پیغمبراکرم{ص} کی بعثت کے وقت علی{ع} کی عمر ۱۲ سے ۱۳ سال تھی اور اس عمر میں بالغ ہونا ممکن ہے ۔ پس علی{ع} پیغمبر{ص} کے اس ارشاد کے مصداق ہیں کہ حضرت زہرا{ع} سے مخاطب ہو کر فرمایا: " میں نے تجھے ایک ایسے شخص کے ازدواج میں قرار دیا ہے کہ اسلام میں سبقت لینے والے اور مردوں میں سے عالم ترین شخص ہیں۔[19]"
۲۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے عقل اور عقل کی بالیدگی کے لحاظ سے مکمل ہوتے ہیں اور جسمانی بلوغ سے پہلے فکری طور بالغ ہوتے ہیں، اس صورت میں ان پر تکلیف شرعی عائد ہوتی ہے، اس لحاظ سے ابوحنیفہ بچوں کے اسلام کے صحیح ہونے کا حکم دیتے ہیں، اگر ایسا ہو تو یہ حکم بچہ کے کمال و بلوغ پر دلالت کرتا ہے۔
اس مسئلہ میں چند نکتے قابل توجہ ہیں:
اولاً: بچوں کی فطرت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی طرف میلان، کشش اور محبت رکھتے ہیں، اس صورت میں اگر کوئی بچہ اپنے ماں باپ سے منہ پھیر کر خداوندمتعال کی طرف جذب ہو جائے، تو یہ اس بچے کی فکری بالیدگی اور کمال کی نشانی ہے۔
ثانیاً: بچوں کی جبلت ، عقل اور تکالیف الہٰی کے امور کے ساتھ کوئی خاص نسبت نہیں رکھتی ہے، بلکہ ان کی جبلت سرگرمی اور کھیل کود کے متناسب ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا اس چیز سے منہ موڑنا جوان کی فطرت کے مطابق ہے اور ایسی چیز کی طرف میلان اور کشش رکھنا جوان کی فطرت کے خلاف ہو، بذات خود بچوں کے کمال کی علامت ہے، اور یہ علی{ع} کے ایمان میں پیش قدم ہونے کی دلیل ہے[20]۔
دوسرا نکتہ:
اگر ہم یہ قبول کریں کہ آیہ شریفہ "وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرينَ وَ الْأَنْصارِ..." حضرت علی{ع} کی شان میں نازل نہیں ہوئی ہے، کیونکہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے لیے کئی شان نزول بیان کیے ہیں ، لیکن شان نزول کا یہ تعدد اس کے واضح ترین مصداق یعنی امام علی{ع} سے مطابق کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ خاص کر احمد ابن حنبل کے ابن عباس سے نقل اور سیوطی کے الدار المنشور میں ابو نعیم کے ابن عباس سے نقل کے مطابق کہ پیغمبراکرم{ص} نے فرمایا: "کوئی آیت نہیں نازل ہوئی ہے ، جس میں "یا ایھاالذین آمنوا" ہو ، مگر یہ کہ علی اس آیت کے سرفہرست اور ان کے امیر ہوں گے۔[21]"
لیکن لفظ جمع استعمال کر کے اس سے مفرد کا ارادہ کرنے کے بارے میں کہنا یہ ہے کہ :
اولاً: اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت امام علی{ع} کی شان میں نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ اسلام میں ان کی سبقت کے پیش نظرجری اور حضرت پر تطبیق کے لحاظ سے، اس کی آپ {ع} سے تطبیق کی گئی ہے، تو پھر اس اعتراض کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔
ثانیاً: حتی کہ اگر ہم معتقد ہو جائیں کہ آیت حضرت{ع} کی شان میں نازل ہوئی ہے، پھر بھی اس اعتقاد پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ہے ، اس لیے کہ:
۱۔ متعدد دلائل موجود ہونے کی وجہ سے یہ ناممکن نہیں ہے۔
۲۔ یہ استعمال، یعنی جمع کا صیغہ، ایک یا دو افراد کے لیے استعمال ہونا ، کوئی تازہ چیز نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید ، روایات اور عربی ادبیات اور دوسری زبانوں میں بھی یہ بکثرت استعمال ہوا ہے، یعنی لفظ جمع لایا گیا ہے اور اس سے ایک فرد کا ارادہ کیا گیا ہے، مثال کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے:
"الَّذينَ قالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزادَهُمْ إيماناً..."[22] " اور جو کچھ بھی اسلام و کفر کے لشکر کے مقابلہ کے دن تم لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے وہ خدا کے علم میں ہے۔"
آیہ شریفہ میں مفسرین کے مطابق "ناس" سے مراد نعیم ابن مسعود ہے، کیونکہ یہ وہی تھا جس نے مسلمانون کو کفار کی بڑی جمعیت سے ڈرانے کے لیے ابو سفیان سے مال حاصل کیا تھا۔ اسی طرح ہم دوسری آیت میں پڑھتے ہیں کہ "لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذينَ قالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقيرٌ وَ نَحْنُ أَغْنِياءُ..."؛[23] " اللہ نے ان کی بات کو بھی سن لیا ہے جن کا کہنا ہے کہ خدا فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں ۔ ۔ ۔ "
اس آیت میں بھی بہت سے مفسرین کے مطابق "الذین" سے مراد "حی بن اخطب" یا فنصاص ہے۔
کبھی احترام ، تعظیم و تکریم کے لحاظ سے بھی ایک شخص کے لیے لفظ جمع استعمال ہوتا ہے، چنانچہ حضرت ابراھیم{ع} کے بارے میں آیا ہے۔ "إِنَّ إِبْراهيمَ كانَ أُمَّةً قانِتا" [24] " ابراھیم {اکیلے ہی} خدا کے مطیع اور فرمانبردار ایک امت تھے۔" اس آیت میں امت کا لفظ جو اسم جمع ہے، حضرت ابراھیم{ع} کے لیے استعما ل ہوا ہے[25]۔ اس کے علاوہ خداوندمتعال فرماتا ہے: "يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنا إِلَى الْمَدينَة"[26] " یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے حالانکہ ساری عزت ، اللہ، رسول اور صاحبان ایمان کے لیے ہے۔ لیکن منافقین نہیں جانتے ہیں۔"
یہاں پر بھی یقولون { جو یہ کہتے ہیں} جمع ہے، مفسرین کے اجماع کے مطابق ، مراد ابن ابی نام کا ایک منافق ہے۔
قرآن مجید میں ایسی آیات کثرت سے ملتی ہے جن میں صیغہ جمع استعمال کیا گیا ہو اور مراد ایک فرد ہو[27]۔ یہاں پر ان تمام آیات کی طرف اشارہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
[1] مكارم شيرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج8، ص 103، دار الکتب الاسلامیه، تهران، طبع اول، 1374ھ ش.
[2]طبري، ابو جعفر محمد بن جرير طبري، تاريخ الأمم و الملوك معروف به تاریخ طبري، ج2، ص310، تحقيق، محمد ابو الفضل ابراهيم، بيروت، دار التراث، طبع دوم، 1387/1967.
[3]ایضاً.
[4]ایضاً.
[5] ابن اثیر، عزالدين ابو الحسن، الكامل في التاريخ، ج2، ص57، بيروت، دار صادر، 1385/1965.
[6] احمد بن حنبل، مسند، ح 18478، نقل از نرم افزار المکتبة الشاملة.
[7]ترمذی، سنن، ح 4100، نقل از نرم افزار المکتبة الشاملة.
[8]ابن سعد، محمد بن سعد بن منيع الهاشمي البصري، الطبقات الكبرى، ج3، ص15، تحقيق، محمد عبد القادر عطا، باب (ذکر اسلام علي و صلاته)، بيروت، دار الكتب العلمية، طبع اول، 1410/1990.
[9]قرطبي، محمد بن أحمد، الجامع لاحکام القرآن، ج8، ص 235، ناصر خسرو، تهران، طبع اول، 1406 ق.
[10]ابن عبد البر، أبو عمر يوسف بن عبد الله، الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، ج3،ص1092، تحقيق، على محمد البجاوي، بيروت، دار الجيل، طبع اول، 1412/1992.
[11]تفسیر نمونه ، ج8، ص 104.
[12]بحراني، سيد هاشم، البرهان في تفسير القرآن، ج2، ص 829، مؤسسه بعثت، تهران، طبع اول، 1416 ھ.
[13]ایضاً، 833
[14]ایضآً.
[15]اس بات کو فخررازی نے آیت کی تفسیر کے ذیل میں بیان کیا ہے
[16]مریم، 12.
[17]مریم، 30.
[18]تفسیر نمونه، ج 8، ص 100- 107(خلاصہ).
[19]ذهبی، تاریخ الاسلام، تحقیق، عمر عبد السلام، ج 3، ص 638، دارالکتاب العربی، بیروت، طبع دوم، 1413/1993.
[20]سبحانی، جعفر، شرح کشف المراد،، ص 223، بلا تاریخ.
[21]جلال الدین، سیوطی، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، ج 1، ص 104، کتابخانه آیت الله مرعشی نجفی، قم؛ بلاغی نجفی، محمد جواد، آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، ج 1، ص 11، مؤسسه بعثت، طبع اول، قم، 1420ھ.
[22]آل عمران، 173.
[23]آل عمران، 181.
[24]نحل، 120.
[25]تفسیر نمونه، ج 2، ص 588.
[26]منافقون، 8.
[27]ملاحظہ ہو: سيد محمد الكاظمي القزويني، الردٌ على ردّ السّقيفة، ج1، ص269، تصحیح و تعلیق، هيئت محمّد امين، مكتبة ومركز الأمين، قم، طبع دوم 2002 ء.