Please Wait
7352
کیا یه کلام مذهب شیعه کے باطل هو نے پر دلالت نهیں کرتا هے؟آپ کهتے هیں که علی علیه السلام خدا وند متعال کی طرف سے امامت کے منصب پر فائز هوئے هیں ، اگر ایسا هے تو انهوں نے کیسے اس منصب کو قبول کر نے سے انکار کیا هے؟!
یه بات مضبوط اور مستحکم دلائل سے ثابت هو چکی هے که حضرت علی علیه السلام کی امامت وولایت کا منصب خداوند متعال کی طرف سے منتخب کیا گیا هے – لیکن امیرالمٶمنین علی علیه السلام کے اس کلام کے بارے میں که آپ (ع) نے فر مایا : " مجھے چھوڑ دیجئے اور میرے علاوه کسی اور کی تلاش کیجئے-" قابل ذکر بات هے که اگر چه امامت کا شرعی هو نا نصب الهی کے ذریعه هو تا هے، لیکن اس کو عملی جامه پهنانے اور مقبولیت کے لئے بیعت اور لوگوں کی طرف سے قبول کیا جانا شرط هے- امام علیه السلام اس خطبه میں (جس کے ابتدائی حصه کا صرف تھوڑا سا حّصھ آپ نے نقل کیا هے)اشاره فر ماتے هیں که خلافت کے لئے ابھی عملی جامه پهنانے اور مقبولیت کے شرائط پورے نهیں هوئے هیں اور کچھـ رکاوٹیں پائی جاتی هیں ، اور کچھـ مطلب بیان کر کے لو گوں پر حجت تمام کر نا چاهتے هیں، رکاوٹوں کو دور کر نا چاهتے هیں تاکه لوگوں میں مکمل آماد گی پیدا هو جائے اور مخالفین کے لئے کوئی عذر و بهانه باقی نه رهے-
حضرت علی علیه السلام نے بعد والے جملے میں فرمایا هے –" چونکه همیں کچھـ ایسے حوادث وواقعات کا سامنا هے جو مختلف هیں اور گونا گوں فتنوں پر مشتمل هیں اور مختلف چهرے هیں جن کے دل اس بیعت پر ثابت قدم نهیں هوں گے اور عقلیں اس عهد و پیمان پر مستحکم نهیں رهیں گی –حقیقت کے چهرے پر فساد کے کالے بادل چھائے هوئےهیں اور حق کی صراط مستقیم منهدم هو چکی هے –هوشیار رهئے !اگر میں آپ کی دعوت کو قبول کرلوں گا تو میں اپنے علم کے مطابق عمل کروں گا اور کسی کی بات اور سرزنش کر نے والوں کی سرزنش پر کان نهیں دهروں گا-"
منصب امامت کا الهی هو نا:
شیعوں کا اعتقاد هے که امامت ایک دینی منصب هے اور الهی تشریع و انتصاب کے تابع هے نه کھ ایک دنیوی سلطنت اور اجتماعی عوامل کے تابع هے-
مسلمان مورخین اور سیرت لکھنے والوں نے لکھا هے که :" رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم جب قبیله " بنی عامر بن صعصعه" کے پاس تشریف لے گئے تاکه انھیں دین خدا کی طرف دعوت دیدیں اور ان سے رسالت کے نفاذ میں مدد طلب کریں تو اس قبیله کے " بحیره بن فراس" نامی ایک شخص نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے جواب میں کها:" اگر هم آپ (ص) کی پیروی کریں اور خدا وند متعال آپ (ص) کو اپنے دشمنوں پر فتح و کامیابی عطا کرے، تو کیا آپ (ص) اپنے بعد اپنی خلافت کو همارے لئے چھوڑ دیں گے؟
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: "الا مر الله یضعه حیث یشاء" [1]
" امرخدا، خدا کےهاتھـ میں هے ( نه کھ میرے اختیار میں ) جهاں چاهے اسے قرار دے گا-"
پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اس کلام سے صاف ظاهر هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی جانشینی ایک الهی منصب هے اور یه خدا اور اس کے رسول صلی الله علیه وآل وسلم کے حقوق میں سے هے ، نه کھ لوگوں کا حق هے – اس بناپر خود پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو اپنے جانشین معین کر نے میں براه راست کوئی اختیار نهیں تھا،بلکه آپ(ص) نے اسے خدا وند متعال کے حکم سے انجام دیا هے- اور حقیقت میں ختم نبوت کے فلسفه کا امام معصوم کے انتصاب سے رابطه هے اور ایسے هی امام کی موجود گی کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآل وسلم کے بعد اسلامی معاشره کی مصلحتیں پوری هوتی هیں- [2]
یهاں پر اس امر کو تفصیلی طور پر ثابت کر نے کی گنجائش نهیں هے لیکن اجمالی طورپر اس کی طرف اشاره کر نے پر اکتفا کیا جاتا هے- اس کی تفصیلات علامه امینی کی کتاب " الغدیر" اور علامه سید شرف الدین کی کتاب " المراجعات" میں موجود هیں –
اب هم یهاں پر قرآن مجید کی چند ایسی آیات کی طرف اشاره کرتے هیں جو اس منصب کے الهی هو نے اور حضرت علی علیه السلام کا انتصاب خدا وند متعال کے حکم سے انجام پانے پر دلالت کرتی هیں:
١- الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا-" [3]
" آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کر دیا هے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا هے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیده بنادیا هے-"
شیعه دانشوروں اور مفسرین کے علاوه ، اهل سنت محدثین اور مفسرین کی ایک تعداد نےبھی پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے کئی صحابیوں کے سلسلے سے چند احادیث نقل ک ی هیں جن سے معلوم هوتا هے که مذکوره آیه شریفه غدیر خم کے دن، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے ذریعه حضرت علی علیه السلام کی ولایت کا اعلان کر نے کے بعد نازل هوئی هے-
خطیب بغدادی نے صحیح سند کے ساتھـ صحابی پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم ابوهریره سے نقل کیا هے که انهوں نے کها: " جوشخص ١٨ ذی الحجه کو روزه رکھے گا اس کے نام ساٹھـ دن کے روزے لکھے جاتے هیں – اور وه دن غدیر خم کا دن هے ، جب پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے حضرت علی علیه السلام کے هاتھـ کو پکڑ کر فر مایا : " الست ولی المٶمنیں؟ " قالوا بلی یا رسول الله – قال : " من کنت مولاه فعلی مولاه" فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولای و مو لا کل مسلم ، فانزل الله :الیوم اکملت لکم دینکم-" [4]
" کیا میں مومنوں کا پیشوا اور سر پرست نهیں هوں ؟ انهوں نے کها: جی هاں یا رسول الله (ص) پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : " جس کا میں مولاهوں اس کے علی بھی مولا هیں – اس کے بعد عمر بن خطاب نے کها : " مبارک هو اے فرزند ابیطالب که آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا هو گئے- اس کے بعد بلا فاصله خدا وند متعال نے یه آیت نازل فر مائی: " الیوم اکملت لکم دینکم ---"
مذکوره حدیث کو حاکم حسکانی حنفی ، ابن عساکر دمشقی ، خوارزمی ، ابن مغازلی ، سبط ابن جوزی حنفی اور ابراهیم بن محمد جو بنی نے بھی نقل کیا هے- [5]
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے ایک اور صحابی ابو سعید خدری سے بھی مذکوره مضمون پر مشتمل ایک صحیح حدیث نقل کی گئی هے- وه کهتے هیں : " پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے لوگوں کو علی علیه السلام کی ولایت کی دعوت دی اور ان کے بازو کو پکڑ کر بلند کیا – ابھی لوگ متفرق نهیں هوئے تھے که یه آیت نازل هوئی : " الیوم اکملت لکم دینکم ---" اس کے بعد رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : "دین کے کامل هو نے اور نعمت کے تمام هو نے پر اور میری رسالت اور میرے بعد علی علیه السلام کی ولایت پر الله اکبر!" [6]
جیسا که هم نے مشاهده کیا که ابو هریره اور ابو سعید خدری کی حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی هے که اکمال دین کی آیت غدیر خم میں اور حضرت علی علیه السلام کی امامت و ولایت کے بارے میں نازل هوئی هے-
٢- " یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته-" [7]
" اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پهنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا هے اور اگر آپ نے یه نه کیا تو گو یا ا ُ س کے پیغام کو نهیں پهنچایا-"
اس آیه شریفه کے بارے میں بھی شیعه اور اهل سنت نے بعض روایتیں نقل کی هیں که یه آیت غدیر کے دن حضرت علی علیه السلام کی ولایت کے بارے میں نازل هو ئی هے- [8]
٣-انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه ویٶتون الزکوه وهم راکعون- [9]
" ایمان والو! بس تمهارا ولی الله هے اور اس کا رسول(ص) اور وه صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکوه دیتے هیں-"
شیعوں کی صحیح روایت کے مطابق ، یه آیه شریفه بھی حضرت علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی هے اور اهل سنت نے بھی اس سلسله میں بهت سی روایتیں نقل کی هیں اور اس کی شان نزول کو قبول کیا هے- [10] خاص کر مذکوره آیت میں جو لفظ "ولی" استعمال هوا هے، اسے دوست کے معنی میں نهیں لیا جاسکتا هے، کیونکه دوستی اور یاری تمام مسلمانوں سے متعلق هے، نه کھ اس شخص سے جو رجوع کی حالت میں زک ٰ وه دیتا هے-
مذکوره آیتوں کے پیش نظر اور ان کو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ک ی اس حدیث متواتر " من کنت مولاه فهذا علی مولاه" کے ساتھـ منسلک کر نے سے واضح هو جاتا هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی جانشینی اور امامت کا مقام ایک الهی منصب هے اور یه منصب خدا وند متعال کے ذریعه معین هو نا چاهئے نه یه که اس کا صرف ظاهری اور دنیوی حکومت کا پهلو هو- [11]
امیرالمٶمنین حضرت علی علیه کے کلام " دعونی والتمسوا غیری "کے معنی:
امیرالمٶمنین حضرت علی علیه السلام کے اس کلام که" مجھے چھوڑیئے اور کسی دوسرے کی تلاش کیجئے-"کے معنی کے بارے میں قابل ذکر بات هے که اگر چه امامت کا شرعی جواز خداوند متعال کی طرف سے معین هو تا هے لیکن اس کو عملی جامه پهنانے اور مقبو لیت حاصل کر نے کے لئے لوگوں کی بیعت شرط هے –امام علی علیه السلام اس خطبه میں (جس کے ابتدائی مطالب میں سے ایک مختصر حصه نقل کیا گیا هے) اشاره فر ماتے هیں که خلافت کو عملی جامه پهنانے اور اس کی مقبولیت کے شرائط ابھی پورے نهیں هوئے هیں اور کچھـ رکاوٹیں موجود هیں –آپ(ع) ان مطالب کو بیان کر کے لوگوں پر حجت تمام کر نا چاهتے هیں اور رکاوٹوں کو هٹانا چاهتے هیں تاکه لو گوں میں مکمل طور پر آماد گی پیدا هو جائے اور مخالفین کے لئے کوئی عذر و بهانه باقی نه رهے-
کیونکه حضرت (ع)بعد والے جمله میں فر ماتے هیں: " چونکه همیں کچھـ ایسے حوادث اور واقعات کا سامنا هے جو مختلف هیں اور گونا گوں فتنوں پر مشتمل هیں اور مختلف چهرے هیں جن کے دل اس بیعت پر ثابت قدم نهیں هوں گے اور عقلیں اس عهد و پیمان پر مستحکم نهیں رهیں گ ی – حقیقت کے چهرے پر فساد کے کالے بادل چھائے هو ئے هیں اور حق کی صراط مستقیم منهدم هو چکی هے- هوشیار رهئے! اگر میں آپ کی دعوت کو قبول کر لوں گا تو میں اپنے علم کے مطابق عمل کروں گا اور کسی کی بات اور سرزنش کر نے والوں کی سر زنش پر کان نهیں دهروں گا-" [12]
عالِم اهل سنت ، ابن ابی الحدید نے نهج البلاغه کی شرح میں لکھا هے : " امامیه نے اس جمله کے بارے میں کها هے : جو لوگ علی(ع) کی بیعت کر نے کے لئے حضرت(ع) کے پاس آگئے تھے، یه وهی لوگ تھے جنهوں نے پهلے والے خلفاء کی بیعت کی تھی اور عثمان نے انھیں تنخواه اور تحفه تحائف سے بهره مند نهیں کیا تھا ، چونکه عثمان کے زمانه میں بنی امیه نے بیت المال کو لوٹ لیا تھا – لهذا عثمان کے قتل کے بعد ان لوگوں نے علی علیه السلا سے کها که هم آپ کی بیعت کرتے هیں ، اس شرط پر که آپ ابو بکر اور عمر کی سیرت پر عمل کریں ، کیو نکه انهوں نے بیت المال کو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے صرف نهیں کیا هے – اسی لئے وه علی علیه السلام کی بیعت کر نا چاهتے تھے ، اس شرط پر که حضرت علی علیه السلام بیت المال کو ابو بکر اور عمر کے مانند ان میں تقسیم کریں – اور علی علیه السلام نے اس شرط کو قبول نهیں کیا اور ان سے کها که وه کسی ایسے شخص کی بیعت کریں جو مذکوره دوخلیفوں کی سیرت پر عمل کرے گا-" [13]
ابن ابی الحدید ایک جگه پر امامیه کے قول کو نقل کر کے اپنی طرف سے تشریح کر تے هوئے کهتے هیں :" علی علیه السلام نے یهاں پر اس منصب کے لئے اپنی صلاحیت سے انکار نهیں کیا هے ، لیکن فتنه سے دوری اختیار کی هے ، تا ھم ابو بکر نے ایک جگه پر کها هے که: میں آپ لوگوں میں اس منصب کے لئے بهترین اور سزوارترین فرد نهیں هوں- [14]
علامه مجلسی نے بھی حضرت علی علیه السلام کے مذکوره قول کے بارے میں یوں فر مایا هے:
" جو شخص اس کلام کے ذره ذره پر غور وخوض کرے گا تو اسے واضح طور پر معلوم هو گا که اس کلام کے معنی کیا هیں ، چونکه حضرت علی علیه السلام نے بعد والے جملے میں فر مایا هے: " ایک ایسا امر در پیش هے که دل اسے بر داشت نهیں کر تا اور راسته نامعلوم هے –" پس حضرت علی علیه السلام کا(خلافت کو) قبول نه کر نے کا سبب رکاوٹ کا هو نا هے نه یه که وه امامت کے لئے منصوب نهیں هوئے هیں یا اس منصب و مقام کے سزاوار نهیں تھے-" [15]
وه اس روایت کی تشریح میں کهتے هیں : " اس کلام کے مخاطب وه لوگ هیں جو اس لالچ میں آکر حضرت علی علیه السلام سے حکو مت هاتھـ میں لینے کی درخواست کرتے تھے که آپ(ع) انھیں مقام و منزلت اور تنخواه و عطیات دینے میں ترجیح دیں گے ، اوریهی وجه هے که طلحه وزبیر نے دوسرے هی دن اپنی بیعت کو توڑ کر حضرت علی علیه السلام کی اس لئےسرزنش کی که آپ(ع) نے تمام لوگوں سے مساوی برتاٶ کیا تھا اور اسی طرح عبدالله بن عمر اور سعید بن العاص اور مروان نے اس چیز کو لینے سے انکار کیا، جو ان کے در میان تقسیم کی گئی تھی – اور حضرت علی علیه السلا م نے ان هی افراد کو جواب دیتے هوئے فر مایا که:" مجھے چهو ڑ یئے اور کسی دوسرے سے مطالبه کیجئے " ،کیونکه حضرت علی علیه السلام ان پر اتمام حجت کر نا چاهتے تھے اور آپ (ع) نے ان کے لئے اعلان کیا که وه مسقبل میں ایسے امور سے دوچار هوں گے جو گوناگوں اور رنگ برنگ ے هوں گے اور انهیں برداشت نهیں کر سکیں گے اور آپ(ع) نے اعلان کیا که بیعت کے بعد وه ان کی لالچ کو پورا نهیں کریں گے اور کسی بھی سرزنش کر نے والے کی پروا نهیں کریں گے-" [16]
مذکوره بحث کے علاوه ، ایک اور نکته جو شیعه امامیه کے نظریه کی تائید کرتا هے ، وه امیرالمٶمنین علی بن ابیطالب کا وه کلام هے جو نهج البلاغه میں نقل کیا گیا هے- حضرت علی علیه السلام نے اپنے اس کلام میں واضح الفاظ میں صراحت سے فر مایا هے که خلافت ان کا حق هے – مذکوره کلام کے چند نمو نے حسب ذیل هیں:
" خاندان رسالت سے کسی کا موازنه نهیں کیا جا سکتا هے اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اهل بیت علیه السلام کی هدایت نعمت میں پرورش پائے هوئے افراد کا کوئی برابر نهیں هو سکتا هے- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآل وسلم کے اهل بیت علیه م السلام دین کی بنیاد اور ایمان کے مستحکم ستون هیں - آگے بڑھے هوئے لوگوں کو پلٹنا چاهئے اور پیچھے رهے لوگوں کو ان سے جا ملنا چاهئے ،کیو نکه ولایت کے حق کی خصوصیت ان سے مخصوص هے ، اور مسلمانوں کی خلافت اور رسالت کی میراث سے متعلق پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی وصیت بھی ان هی سے متعلق هے، اس وقت ( جبکه آپ لوگوں نے خلافت کو میرے حواله کیا) حق اهل حق کو ملا هے ، اب پھر سے حق ، جو اپن ی حقیقی جگه سے دور هو چکا تھا، دوباره اپنی جگه پر لوٹ آیا هے-" [17]
امام علی علیه السلام نے مذکوره کلام میں واضح الفاظ میں فر مایا که خلافت ان کا حق هے ، لیکن یه حق اب تک اپنی جگه پر قرار نهیں پایا تھا اور اب جبکه خلافت انهیں ملی هے ، حق اپنی اصلی جگه پر قرار پایا هے-
نهج البلاغه میں ایک اور جگه پر آیا هے که:
" (شور ٰ ی کے دن) ایک شخص نے کها : فرزند ابیطالب ! تم خلافت کے لالچی بن گئے هو! میں نے اس کے جواب میں کها : " خدا کی قسم ، تم لوگ باوجودیکه پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم سے دور تر هو، زیاده لالچی هو ، بیشک میں صرف اپنے حق کا مطالبه کر تا هوں ، که تم لوگ میرے اور اس حق کے درمیان حائل اور رکاوٹ بن گئے هو، اور مجھے مسترد کر گئے هو- " [18]
مذ کوره خطبه میں ایک اور جگه پر آیا هے:
" خداوندا! میں قریش اور ان تمام لوگوں کی تیرے حضور شکایت کر تا هوں ، جنهوں نے ان کی مدد کی هے، کیونکه قریش نے میرے ساتھـ اپنے خاندانی رشتوں کوتوڑ دیا اور میرے بلند مقام و منزلت کو حقیر شمار کیا هے اور میرے حق، یعنی خلافت کا مسئله جو صرف مجھـ سے مر بوط تھا ، سے چشم پوشی کر نے میں ایک دوسرے کے ساتھـ متحد هوئے هیں-" [19]
مذکوره مطالب اور اس قسم کے دوسرے مطالب جو نهج البلاغه اور امت مسلمه کی درجه اول کی کتابوں میں درج هوئے هیں ، سے واضح طور پ ر معلوم هو تا هے که حضرت علی علیه السلام خلافت کو اپنا مسلم اور بجا حق جانتے تھے- یه وه اعتقاد هے جو خدا کی کتاب ، رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی متواتر سنت اور علی علیه السلام کے کلام سے حاصل هو تا هے – لیکن امام علی علیه السلام کا عثمان کے بعد خلافت ک ے قبول کر نے سے تنفر ک ے اظهار میں خاص وجوهات تھے که ان میں سے اکثر کی طرف اشاره کیا گیا-
[1] - سیره ی ابن هشام ،ج٢، ص٦٦: البدایه والنهایه ، ابن کثیر ، ج٣،ص١٣٩-١٤٠: کتاب الثقات ، ابن حبان ، ج١، ص٨٩-٩٠: سیره حلبیه ، علی بن برهان الدین حلبی ، ج٢ ،ص٣: حیات الصحا به، محمد یوسف کاندهلوی ،ج١،ص٦٩-
[2] - محمد تقی مصباح یزدی ، آموزش عقائد ،ج٢،ص ٣٠٤ و ٣٠٣( تھوڑی سی تغیر ک ساتھـ)
[3] - سوره مائده، ٣-
[4] - تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی ،ج٨،ص٢٩٠ قابل ذکر بات هے که خطیب بغدادی نے مذکوره حدیث کو دو صحیح سندوں سے نقل کیا هے –
[5] - شواهد التنزیل ،حاکم حسکانی ،ج١،ص٢٠٠: تاریخ مدینه ی دمشق ، ابن عساکر ،ج٤٢، ص ٢٣٣و ٢٣٤و٢٣٧: مناقب خوارزمی ،ص١٣٥، مناقب ابن مغازلی ، ص١٩، تذکره الخواص ، سبط ابن جوزی ، ص٣٦ : فرائد السمطین ، جوینی ،ج١،ص٧٢-
[6] - شواهد التنزیل ج١،ص٢٠٠ :مناقب خوارزمی ،ص١٣٥ ،فرائد السمطین ،ج١ص ٧٢: محاسن التاویل ، القاسمی ،ج٦،ص٤و٥٠-
[7] - سوره مائده،٦٧-
[8] - الکافی ،ج١،ص٢٨٩،حدیث ٤،الدر المنثور ،ج٢،ص٢٩٨،شواهد التنزیل ،ج١،ص٢٤٩-
[9] - سوره مائده ٥٥-
[10] - شواهد التنزیل ،ج١،ص٢٠٩و محمود زمخشری ،الکشاف ،ج١،ص٦٤٩والدر المنثور ،ج٢،ص٢٩٣و الکافی ،ج١،ص٢٨٩،حدیث ٤-
[11] - مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو : عناوین: اثبات امامت امام علی ازقرآن "( سوال :٣٢١) " " شیعه و خلافت و جانشینی بعداز پیامبر " (سوال :١٢٧٣)" دلایل اعقا به امامت وامامان "(سوال: ٣٢١)" مشخصا ت ویزگیھای شیعه" (سوالی: 3089)-
[12] - نهج البلاغه،خ٩٢-
[13] - عبدالحمید ابن ابی الحدید معتزلی ، شرح نهج البل;اغه ،ج٧،ص٣٤-
[14] - شرح نهج البلاغه (ابن ابی الحدید)، ،ج١،ص١٧٠-
[15] - علامه مجلسی ،بحار الانوار ،ج٣٢،ص٣٨-
[16] - ایضاً، ص٣٦-
[17] - لا یقاس یآ ل محمد ص من هذه الامه احد ولا یسوی بهم من جرت نعمتهم علیه ابداً هم اساس الدین و عماد الیقین الیهم یفی الغالی وبهم یلحق التالی ولهم خصائص حق الولا یه و فیهم الوصیه والوراثه الان اذ رجع الحق الی اهله و نقل الی منتقله : نهج البلاغه ،خطبه٢-
[18] - وانما طلبت حقا لی وانتم تحولون بینی و بینه، نھج البلاغه، خطبه ١٧٢-
[19] - ایضاً-