Please Wait
کا
11627
11627
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/02/09
سوال کا خلاصہ
قرآن مجید کی بعض آیات میں مسلمانوں سے کفار اور مشرکین کو بخش دینے کی سفارش کی گئی ہے، لیکن دوسری آیات میں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کیا یہ ایک قسم کا تعارض نہیں ہے؟
سوال
کیا مشرکین کو بخش دیا جائے گا یا انھیں سزادی جائے گی؟ سورہ مؤمنون آیہ ١۷ اور سورہ بینہ آیہ ٦ میں ارشاد ھوتا ہے:“ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے گا جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور کافروں کے لئے نجات بہرحال نہیں ہے،” اسی طرح سورہ توبہ کی آیت نمبر ۲۹ میں ارشاد ھوتا ہے:“ ان لوگوں سے جہاد کرو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا و رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب ھوتے ھوئے بھی دین حق کا التزام نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ تمھارے سامنے جزیہ پیش کرنے پر آمادہ ھو جائیں۔” لیکن سورہ جاثیہ آیت نمبر ١۴ میں اس کے بالکل برعکس فر ما تا ہے:“ آپ صاحبان ایمان سے کہہ دیں کہ وہ خدائی دنوں کا توقع نہ رکھنے والوں سے در گزر کریں تاکہ خدا قوم کو ان کے اعمال کا مکمل بدلہ دے سکے۔” اور اس کے علاوہ سورہ نحل کی آیہ نمبر ١۲۸ بھی قابل توجہ ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۲۹ میں خدا پر ایمان لانے والوں سے چاہتا ہے، جنھوں نے اللہ، دین خدا کی حقانیت اور قیامت پر ایمان نہ لایا ہے ان سے جنگ کرو۔
ممکن ہے، اسلام پسند اس کے جواب میں کہیں کہ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۲۹ جنگ کے دوران نازل ھوئی ہے اور سورہ جاثیہ کی آیت نمبر ١۴ جنگ کے خاتمہ پر نازل ھوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید یہ مشخص نہیں کرتا ہے کہ کونسی آیات جنگ کے زمانہ سے متعلق ہیں اور کونسی آیات، جنگ کے بعد والے زمانہ سے معلق ہیں یا یہ کہ قرآن مجید کا کونسا حکم ماضی سے متعلق تھا یا زمانہ حال کے لئے یا زمانہ مستقبل کے لئے ہے۔ افسوس ہے کہ خداوند متعال نے تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے اور اسلام پسندوں کے ہاتھوں کو انتخاب کے لئے کھلا رہا ہے۔ اسلام پسند دعوی کرتے ہیں قرآن مجید ماضی، حال اور مستقبل کے مشکلات کے لئے بہترین راہ حل ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ دعوی زیادہ تر جذبات اور تعصب پر مبنی ہے نہ حقیقت پر۔
ایک مختصر
اس سوال پر ہم دو حصوں میں بحث و تحقیق کرتے ہیں:
الف: کافروں کو عفو و بخشش کرنا
قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس مطلب کے بارے میں تاکید کی گئی ہے کہ کفار اور مشرکین کو اتمام حجت اور برہان کی وجہ سے خداوند متعال کی طرف سے ان کی ھٹ دھرمی کے لئے سزا دی جائے گی اور خداوند متعال، راہ باطل کو چھوڑنے تک ہر گز انھیں نہیں بخش دے گا اور ان کو نجات نہیں ملے گی۔ ان آٰیات میں سے بعض کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ب۔ مشرکین اور کفار سے مسلمانوں کا برتاؤ
لیکن اس کےباوجود جاننا چاہئیے کہ، مشرکین اور کفار سے مسلمانوں کے برتاؤ کے بارے میں نرم رویہ اور حسن اخلاق پسندیدہ ہے۔ لیکن اس وقت تک کہ یہ نرمی ان میں تعمیری اثر ڈالے اور ان کی ہدایت اور نجات میں موثر ھو اور ہمارا نرم رویہ اس امر کا سبب بنے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ سے دست بردار ھو جائیں اور ان کی اصلاح ھو جائے۔ اور اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ھوجائے تو کم از کم ان کی دین مخالف اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کے عمل کو تقویت نہ ملے اور ان کی گمراہی کی برائی کو کم رنگ اور کم اہمیت کا سبب نہ بنے اور ان کے گناہ کو معمولی سمجھنے کا سبب نہ بنے ۔ خداوند متعال حضرت موسی اور ہارون علیہماالسلام کو فرعون کی طرف بھیجتے وقت حکم صادر کرتا ہے:“ إِذْهَبا إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى، فَقوُلا لَهُ قَوْلًا لَيِّناً لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشى”؛[1] “ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، اس نے بغاوت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا، شائد متذکر ھوجائے، یا ﴿خدا سے﴾ ڈرے۔”
یہ جو سوال میں، کافروں کو بخشنے کی خداوند متعال کی سفارش کو خدا کی بخشش کی دلیل قرار دی گئی ہے،[2] وہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اسی آیت کے آخر پر خداوند متعال ارشاد فرماتے ہیں: “ِيَجْزِىَ قَوْمَا بِمَا كاَنُواْ يَكْسِبُونَ”؛[3] “ تاکہ خداوند ہر قوم کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دے۔” یہ آیہ شریفہ، خدا کی طرف سے انھیں بخش دئے جانے کی دلیل نہیں ہے، تاکہ دوسری آیت سے مطابقت نہ رکھے، بلکہ مؤمنوں کو سفارش کی جاتی ہے کہ، بعض خاص مواقع پر کفار کی بری رفتار سے چشم پوشی کریں تاکہ خود خدا ان کے اعمال کی انھیں سزا دے۔
علامہ طباطبائی ﴿رہ﴾ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:“ یہ جو خداوند متعال نے مؤمنین سے کہا ہے کہ قیامت پر ایمان نہ رکھنے والے کفار کے متعرض نہ ھوجائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند متعال ان کے حال پر خود جانچ کرنے کے بعد انھیں اپنے اعمال کی سزا دے گا۔”[4]
قابل بیان ہے کہ کفار کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں اسلام کا کلی حکم یہ ہے کہ ان کے ساتھ برا سلوک نہ کیا جائے، مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کے ساتھ برا سلوک بھی کیا ھو، تو حتی الامکان انھیں بخش دیں مگر یہ کہ جنگ و دفاع کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ھو۔[5]
الف: کافروں کو عفو و بخشش کرنا
قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس مطلب کے بارے میں تاکید کی گئی ہے کہ کفار اور مشرکین کو اتمام حجت اور برہان کی وجہ سے خداوند متعال کی طرف سے ان کی ھٹ دھرمی کے لئے سزا دی جائے گی اور خداوند متعال، راہ باطل کو چھوڑنے تک ہر گز انھیں نہیں بخش دے گا اور ان کو نجات نہیں ملے گی۔ ان آٰیات میں سے بعض کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ب۔ مشرکین اور کفار سے مسلمانوں کا برتاؤ
لیکن اس کےباوجود جاننا چاہئیے کہ، مشرکین اور کفار سے مسلمانوں کے برتاؤ کے بارے میں نرم رویہ اور حسن اخلاق پسندیدہ ہے۔ لیکن اس وقت تک کہ یہ نرمی ان میں تعمیری اثر ڈالے اور ان کی ہدایت اور نجات میں موثر ھو اور ہمارا نرم رویہ اس امر کا سبب بنے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ سے دست بردار ھو جائیں اور ان کی اصلاح ھو جائے۔ اور اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ھوجائے تو کم از کم ان کی دین مخالف اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کے عمل کو تقویت نہ ملے اور ان کی گمراہی کی برائی کو کم رنگ اور کم اہمیت کا سبب نہ بنے اور ان کے گناہ کو معمولی سمجھنے کا سبب نہ بنے ۔ خداوند متعال حضرت موسی اور ہارون علیہماالسلام کو فرعون کی طرف بھیجتے وقت حکم صادر کرتا ہے:“ إِذْهَبا إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى، فَقوُلا لَهُ قَوْلًا لَيِّناً لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشى”؛[1] “ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، اس نے بغاوت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا، شائد متذکر ھوجائے، یا ﴿خدا سے﴾ ڈرے۔”
یہ جو سوال میں، کافروں کو بخشنے کی خداوند متعال کی سفارش کو خدا کی بخشش کی دلیل قرار دی گئی ہے،[2] وہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اسی آیت کے آخر پر خداوند متعال ارشاد فرماتے ہیں: “ِيَجْزِىَ قَوْمَا بِمَا كاَنُواْ يَكْسِبُونَ”؛[3] “ تاکہ خداوند ہر قوم کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دے۔” یہ آیہ شریفہ، خدا کی طرف سے انھیں بخش دئے جانے کی دلیل نہیں ہے، تاکہ دوسری آیت سے مطابقت نہ رکھے، بلکہ مؤمنوں کو سفارش کی جاتی ہے کہ، بعض خاص مواقع پر کفار کی بری رفتار سے چشم پوشی کریں تاکہ خود خدا ان کے اعمال کی انھیں سزا دے۔
علامہ طباطبائی ﴿رہ﴾ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:“ یہ جو خداوند متعال نے مؤمنین سے کہا ہے کہ قیامت پر ایمان نہ رکھنے والے کفار کے متعرض نہ ھوجائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند متعال ان کے حال پر خود جانچ کرنے کے بعد انھیں اپنے اعمال کی سزا دے گا۔”[4]
قابل بیان ہے کہ کفار کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں اسلام کا کلی حکم یہ ہے کہ ان کے ساتھ برا سلوک نہ کیا جائے، مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کے ساتھ برا سلوک بھی کیا ھو، تو حتی الامکان انھیں بخش دیں مگر یہ کہ جنگ و دفاع کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ھو۔[5]
[1]. طه، 43 - 44.
[2] ۔اس آیہ شریفہ «قُلْ لِلَّذينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذينَ لا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّه...»؛ نے آپ صاحبان ایمان سے کہدیں کہ وہ خدائی دنوں کا توقع نہ رکھنے والوں سے در گزر کریں”
[3]. جاثیه، 14.
[4] ۔ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 18، ص 163، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ق.
[5]ملاحظہ ھو:۔«رفتار مسلمانان با غیر مسلمانان»، سؤال 1644؛ «تبلیغ دین اسلام با جنگ و حمله به دیگر کشورها»، سؤال 6893.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے