Please Wait
8999
اس سوال کا جواب واضح ھونے کیلئے ، پهلے خود سوال واضح ھونا چاھئے ۔
اگر آپ کی مراد یھ ھے۔ کھ عربی کے بدلے کوئی اور زباں ھونی چاھئے۔ تو اسی طرح کا سوال اُس زبان کے نھ جاننے والوں کیلئے اٹھے گا۔ اگر آپ کی مراد یھ ھے کھ کیوں نماز کو صرف عربی زبان میں ھی پڑھیں؟ اور سب لوگ اپنی مادری اورعلاقائی زبان میں نماز پڑھ سکتے ھیں۔ تو اس سلسلے میں مندرجھ ذیل نکات کی طرف توجھ کرنی چاھئے۔
پھلا نکتھ : اس سلسلے میں یھ کھیں گے کھ نماز کو عربی زبان میں پڑھنے کی اصلی دلیل، نماز کا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی سنت ھونے کے علاوه، عبادات کا "توقیفی" ھونا ھے۔ توقیفی ھونے سے مراد یھ ھے کھ عبادات کو بالکل اسی شکل میں انجام دیاجائے جس شکل میں خداوند متعال نے معیّن فرمایا ھے۔ اس کے علاوه نماز کو صدیوں اور ھزاروں سالوں تک بغیر کسی کمی و نقصان کے باقی رھنا ھے ۔ اگر کوئی اپنی علاقائی اور مادری زبان میں اسے تلفظ کرے ، الفاظ کے کم اور زیاده ھونے کا امکان، انکی تحریف ،بے بنیاد مطالب اور خرافات کے ساتھه مل جانے کا امکان موجود ھے۔ اس طرح یھ تبدیلیاں دوسرے واجبات اور ارکان نماز تک بھی پھنچ جائیں گی ، اور آھستھ آھستھ اصل نماز کی اھمیت کم ھوکر، کامل طور پر نماز فراموش ھوجائے گی۔
یھ مطلب واضح ھے ، کھ جو چیز بھی تاریخ میں ھمیشھ باقی رھنا چاھتی ھے۔ اس میں غیر قابل تبدیل معیار اور کسوٹی ھونی چاھئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ناپ میں ملی میٹر، سینٹی میٹراور میٹر کو اور وزن میں گرام ، کلو اور کوئنٹل کو معیار اور غیر قابل تغییر میزان قرار دیا گیا ھے۔ بالکل اسی طرح نماز میں بھی بعض امور جیسے واجبات اور ارکان ، معیار اور کسوٹی کے طور پر مقرر کئے گئے ھیں اور اس کے واجب اذکار کا عربی ھونا بھی ان میں سے ایک ھے۔
دوسرا نکتھ : اسلام عالمی دین ھے اور یھ دین سب مسلمانوں کو ایک ھی قطار میں رکھنا دینا چاھتا ھے۔ اس طرح کے ایک عظیم معاشره کو تشکیل دینا ایک ھی زبان کے بغیر (جس کے ذریعے آپس میں ایک دوسرے کو سمجھه سکیں) ممکن نھیں۔ اھل فن کے اعترافات کے مطابق عربی زبان، دنیا کی زبانوں میں سب سے جامع زبان ھے اور یھ زبان عالمی زبان کے طور پر اور مسلمانوں کی نماز کی زبان کے طور مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کی نشانی بن سکتی ھے۔ یھ وحدت، اسلام کے دیگر قوانین جیسے ایک قبلھ کی جانب نماز پڑھنا وغیره میں بھی ظاھر ھے۔۔
تیسرا نکتھ: ممکن ھے کسی کے ذھن میں یھ سوال اٹھے کھ غیر عربی بولنے والے افراد کو عربی زبان میں نماز پر مجبور کرنا، ان کیلئے مشقت اور تکلیف پیدا کرنے اور ان کے حق میں ظلم کرنے کے مترادف ھے۔ اس کے جواب میں کھا جاسکتا ھے ، کھ ان لوگوں کے لئے جو اپنی روز مره کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ، دسیوں بلکھ سیکڑوں دوسری اجنبی اصلاحوں اور محاوروں کو آسانی سے سیکھه لیتے ھیں اور انھیں استعمال کرتے ھیں ، تو پھر نماز کے کلموں کو سیکھنا جس کے واجب کلمات کی مجموعی تعداد ( مکرر کلمات کو حذف کرکے ) صرف ۲۰ عدد ھے، یھ کوئی مشکل نھیں ھے۔ دوسری جانب نماز کے کلموں کے سطحی اور ظاھری معنی بھت ھی آسان اور ساده ھیں، اور یھ سب لوگوں کیلئے قابل فھم ھیں جیسے کھ بسم اللھ الرحمن الرحیم کے سطحی اور ظاھری معنی ھو کوئی سیکھه سکتا ھے ،اگر چھ یھ الفاظ عمیق اور وسیع معنی بھی رکھتے ھیں۔
چوتھا نکتھ : لغت شناسوں کی نظر میں عربی زبان دنیا کی سب سے کامل زبانوں میں سے ایک ھے، جو آسانی سے وسیع اور گھرے مطالب اور مفاھیم کو خوبصورت انداز میں بیان کرتی ھے۔ [1]
پانچواں نکتھ : الفاظ اور اذکار کا عربی ھونا ھر عبادت اور حکم میں لازمی شرط نھیں ھے ۔ جس طرح بعض علماء کی نظر میں صیغه ازدواج کا عربی زبان میں ھونا ضروری نھیں [2] اور بعض علماء جیسے امام خمینی اس سلسلے میں فرماتے ھیں ۔ "اگر مکلف اپنے آپ صیغه کو عربی زبان میں نھیں پڑھ سکتا ھے اگر چھ وکیل بھی لے سکتا ھے، عقد کا غیر عربی ھونا قوت سے خالی نھیں ھے" ۔ [3] اسی طرح ضروری نھیں ھے کھ دعا بھی عربی میں پڑھی جائے اور انسان نماز کی حالت کے بغیر خدا کے ساتھه کسی بھی زبان میں راز و نیاز کرسکتا ھے۔ اور اکثر مراجع کے فتوٰی کے مطابق نماز کی حالت میں واجب اذکار کے علاوه مخصوصا قنوت کی صورت میں غیر عربی میں دعا پڑھ سکتے ھیں[4]۔ البتھ جو کچھه بیان ھوا اس کا مطلب نماز کے اذکار کے معانی کی طرف مسلمانوں کی بے توجھی نھیں بلکھ ھر مسلمان پر ضروری ھے کھ وه نماز اور دعا کے معنی سے آگاه ھو تا کھ وه سمجھه سکے کھ خداکے ساتھه کونسی گفتگو کرتا ھے تا کھ اس کے اعمال خشک اور بے روح نھ بنیں اور ابدیت کی جانب اس کی پرواز کا سبب بنیں۔