Please Wait
10258
وسیع معنی میں تحریف قرآن کا مفهوم کسی بھی طرح کی کمی زیادتی یا الفاظ و ترکیبات کی جابجائی کو شامل هوتا هے۔ محققین نے قرآن کے تحیرف سے پاک هنوے پر بهت سے دلائل قائم کئے هیں۔ هم یهاں پر ان میں سے صرف کچھ دلائل عقلی کو بیان کریں گے:
۱۔ قرآن شروع هی سے کچھ خصوصیات مثلا امتیازی نظم، آیات کے درمیان نااختلافی، اور غیبی اخبار کا حامل رها هے اور اب بھی اس میں وه خصوصیات موجود هیں اور اب تک کوئی بھی اس کی طرح کا ایک سوره بھی نهین لاپایا هے۔ لهذا ماننا چاهئے که چوده سوسال پهلے اور آج کے قرآن میں کوئی فرق نهیں هے۔
۲۔ اگر کسی دین کو آخری دین هونا هو تو، اولا اسے مکمل هونا چاهئے (غیر خاتم دین کے برخلاف که وه مکمل نهیں تھے)؛ ثانیا اس کے اندر تاریخ کے کسی حصه میں کوئی تحیرف نهیں هونا چاهئے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک خصوصیت نه هو تو عقل یهی کهے گی که یه دین خاتم نهیں هے۔ اور یه واضح سی بات هے که دین کی کتاب دین کے واضحات میں شمار هوتی هے جس میں تغییر تبدیلی نهیں هونا چاهئے۔ لهذا قرآن اسلام کی کتاب هے اور دین اسلام بھی دین خاتم هے لهذا قرآن دین خاتم کی کتاب هے اس بنا پر چانکه دین خاتم کی کتاب کو تحریف سے پاک هونا چاهئے لهذا قرآن بھی تحریف سے پاک هے۔
۳۔اگر کوئی ایک مجموعه کے طور پر اور موجوده صورت میں رسول الله صصص کے زمانے میں جمع قرآن کےحوالے سے اختلاف رکھتا هو تو اس میں کوئی شک نهیں هے که قرآن میں نه کسی لفظ کا اضافه هوا هے اور نه هی کوئی لفظ کم هوا هے، کیونکه اس وقت سے آج تک مسلمان اس کے حفظ اور حفاظت میں کوشاں تھے۔ رسول الله صصص کے زمانے میں قارئین، حافظین اور معلمین اس قدر زیاده تھے که صرف بئر معونه کے واقعه میں تقریبا ۷۰ حافظین قرآن شهید هوئے[i]۔ رسول صصص کے بعد سے آج تک هر زمانے میں اور هر علاقه میں اچھے خاصے حافظ اور قاری و معلم قرآن موجود رهے هیں۔ اور ان حالات کے پیش نظر قرآن تحیرف کا احتمال بھی درست نهیں۔
۵۔ مورخین نے پیغمبر صصص کے زمانے میں وحی لکھنے والوں کی تعداد ۴۳ افراد لکھی هے۔ ایس صورت میں جب اتنے لکھنے والے موجد هوں تو ممکن هی نهیں هے که کوئی اس میں تحریف کرنے کے لئے هاتھ بڑھائے۔
۶۔ اسلام کے تمام پیشواؤں نے یک زبان لوگوں کو موجوده قرآن کی تلاوت، اس کی تحقیق اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی هے۔ یه بات اس پت دلالت کرتی هے که یه آسمانی کتاب هر زمانے میں یهاں تک که صدر اسلام میں بھی تحریف و ترمیم سے پاک ایک مجموعه کی صورت میں رهی هے۔
کتب آسمانی کی تحریف ایک ایسا رائج مسئله هے جو الهی ادیان میں پیدا هوا هے اس طرح که نئے انبیاء کی بعثت کا ایک هدف اسی تحریف سے مقابله کرنا هے۔[1] لیکن دین مقدس اسلام، آخری دین هونے کے عنوان سے هر طرح کی تحیرف و تغییر سے پاک هے۔
یه سوال که [هم کیسے یه اطمیناں حاصل کریں که ۱۴صدیوں میں قرآن کے اندر کوئی تحریف نهیں هوئی هے] مختلف مبانی کے مد نظر پیش کیا جسکتا هے اور سوال کرنے والے کی طرف سے صرف تاریخ زاویه کو مد نظر رکھتے هوئے پیش کیا گیا هے۔
اس سوال کا جوا دو زاویه سے قابل ذکر هے: ایک دین کا درونی زاویه اور ایک دین کا بیرونی زاویه۔ هم یهاں پر ان روایات کو بالکل بیان نهیں کریں گے جو معصوم کی طرف سے اس سلسله میں وارد هوئی هیں اور واضح طور سے قرآن کی تحریف ناپذیری کو بیانکرتی هیں۔ بلکه هم صرف بیرونی نگاه ڈالیں گے۔
پهلی دلیل: اعجاز قرآن
علامه طباطبائی نے قرآن کے اعجاز کے ذریعه اس کی تحریف ناپذیری پر استدلال کیا هے۔ آپ فرماتے هیں: تاریخ کے مسلمات میں سے هے که چوده سو سال پهلے محمد صصص نام کا یک پیغمبر مبعوث هوا اور لوگوں کی هدایت کے لئے ایک قرآن نامی ایک کتاب لیکر آیا جو اس کا ایک جاوید معجزه تھی۔ قرآن آغاز اسلام هی سے کچھ خصوصیات کا حامل تھا جو اس کے معجزه هونے پر دلیل تھے اور انھیں خصوصیاے کے ذریعه وه اپنے مخالفین اور دشمنوں کو چیلینج کرتا تھا۔ اسی طرح تاریخ میں یه بھی حفوظ هے که صدر اسلام میں کوئی بھی مخالف ایسا نه تھا جو قرآن کی خصوصیات کا چھوٹا سا حتی ایک سوره پیش کرسکے۔
جو قرآن آج همارے هاتھوں میں هے یه امتیازی نظم، آیات کے درمیان نااختلافی وغیره کا حامل هے یعنی چوده سو سال پهلے والے قرآن کی تمام خصوصیات اس میں موجود هیں اور آج بھی کوئی اس کی خصوصیات (الفاظ کی ترکیب، آیات کے درمیان ناختلافی وغیره) والا سوره نهیں لاسکا هے۔ نتیجه یه هوا که یه وهی ۱۴صدیوں پهلے والا قرآن هے کیونکه اگر اس میں تحریف هوئی هوتی تو اس کے اوصاف باقی نه رهتے۔[2] اگر انسان قرآن کے حتی چھوٹے سے ایک سورے کا جواب لانے کی توان رکھتا هوتا تو عرب کے مشرکین اس کے سلسله میں زیاده توانا تھے کیونکه ان کی فصاحت و بلاغت اور عربیت و شعر وخطابه کا سکه چل چکا تھا، وه اگر چاهتے تو اسلام سے اپنی دشمنی اور کینه کے پیش نظر اور نئے اسلام کے مقابله کے لئے اپنے آپ کو اسی میں لگادیتے اور قرآن کے چیلینج (حتی ایک سورے کا جواب لانے کی دعوت) کے مد نظر اپنے آپ کو دوسری طرح کی مزاحمت کرنے کی تکلیف نه دیتے بلکه صرف ایک سوره کا جواب لاکر اسلام کے دعوے کو کھوکھلا ثابت کردیتے۔ جیسا که دشمنوں نے اس سلسله میں بهت سی کوششیں کیں لیکن انھیں کامیابی نه مل سکی کیونکه خدا فرماتا هے که [اگر جن وانس جمع هوجائیں کهاس قرآن کا جواب لے آئیں جو لا نهیں سکتے اگرچه ایک دوسے کا تعاون بھی کریں][3]۔
قرآن کے دیگر چیلینجوں میں یه بھی هے که اس میں اختلاف نهیں هے: [کیا قرآن میں تدبر نهیں کرتے هو؟ اگر الله کے علاوه کسی اور کی طرف سے هوتا تو اس میں بهت سے اختلافات پاتے]۔[4] موجوده قرآن میں همیں کوئی اختلاف نظر نهیں آتا۔[5]
اسی طرح موجوده قرآن میں وه خصوصیات بھی بخوبی دکھائی دیتی هیں جو پیغمبر کے اوپر نازل هونے والے قرآن کے بارے میں نقل هوئی هیں مثلا: غیبی خبریں، انبیاء کے واقعات، معارف اور ذکر الهی۔[6]
دوسری دلیل
یه دلیل کچھ مقدمات سے ملکر بنتی هے:
۱۔ دین مرسل وه دین هے جو الله کی طرف سے انسانوں کی هدایت کے بھیجا گیا هے۔
۲۔ هر دین مرسل زمانے کےتقاضوں کے مطابق اپنی آخری منزل سے پهلے، دین کامل کے کچھ دستورات کو انسان کی هدایت کے لئے لاتا هے۔
۳۔ ادیان مرسل کے متعدد هونے کی حکمت ایک تو یه هے که دین کامل (جو الله کے پاس هے) میں سے کچھ دستورات کو لےکر آئے اور ایک یه هے که گزشته شریعت کے اس حصه کی تصحیح کردے جن میں تحریف هوگئی هے۔
۴۔ ادیان الهی کا سلسله کسی وقت ختم هوجاتا هے اور ایک دین [دین خاتم] کے عنوان سے ظاهر هوجاتا هے جو اولا کامل هوتا هے اس طرح که هدایت کا کوئی گوشه چھوٹتا نهیں هے۔
ثانیا یه دین تاریخ میں هر طرح کی تحیرف سے پاک هو اور اگر ان میں سے کوئی ایک عنصر ختم هوجائے تو عقل یه کهے گی که یه آخری دین نهیں هے۔
ان مقدمات کے پیش نظر یه نتیجه نکالا جاسکتا هے که: [دین خاتم، تحریف سے پاک هے]۔[7] اور اس کا مطلب یه هے که اس کی کتاب (اس کا اصلی اور بے بدل منبع) بھی تحریف سے محفوظ هو اور یه دین کے تحیرف سے محفو ظ هونے کا لازمه هے۔[8]
یهاں تک یه عقلی قاعده (کبری) ثابت هوگیا که دین خاتم کی کتاب کو تحریف سے محفوظ هونا چاهئے اور اگر اس قاعده کو مذکوره دو مقدمه کے نتیجه (الف: قرآن اسلام کی کتاب هے، ب: دین اسلام دین خاتم هے؛ لهذا قرآن دین خاتم کی کتاب هے) کے ساتھ ملائیں تو آخر میں یه نتیجه آئے گا: قرآن تحریف و تبدیلی سے محفوظ هے۔[9]
قاعدتا جب یه مان لیا که پیغبر اسلام صصص آخری پیغمبر هیں اور اسلام آخرین دین الهی هے اور قرآن کے احکام دنیا کی انتها تک برقرار رهیں گے؛ تو یه سب ماننے کے بعد یه کیسے باور کیا جاسکتا هے که اسلام اور خاتم النبیین کی واحد سند کی الله حفاظت نهیں کرے گا؟ کیا اسلام کی جاودانی اور هزاروں سال بلکه انتهائے جهان تک اس کی بقا کے ساتھ قرآن کی تحریف کو تصور کیا جاسکتا هے؟
تیسری دلیل
اگر هم اسی پر غور کرلیں که قرآن تمام مسلمانوں کے لئے سب کچھ تھا۔ قانون اساسی، زندگی کا دستور العمل، حکومت کی منصوبه بندی، آسمانی مقدس کتاب اور رمز عبادت تھا تو یه واضح هوجائے گا که اس میں کسی طرح کی کمی زیادتی ممکن هی نهیں تھی۔
قرآن ایسی کتاب تھی جس سے مسلمان همیشه نمازوں میں، مسجدوں میں، گھروں میں، میدان جنگ میں، دشمنوں سے روبرو هوتے وقت اپنے مکتب کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے استفاده کرتے تھے۔ حتی تاریخ اسلامی سے یه بھی استفاده هوتا هے که قرآن کی تعلیم کو عورتوں کی مهر قرار دیا جاتا تھا! اور بنیادی طور پر جو کتاب زندگی کے هر شعبه میں فعال تھی اور هر بچه زندگی کی ابتدا هی سے جس کی آشنائی حاصل کرتا تھا اور اسلام سے کوئی درس حاصل کرنے کے لئے جس چیز کی تعلیم دی جاتی تھی وه یهی قرآن کریم تھا۔ ان حالات کے تحت کیا کوئی یه احتمال دے سکتا هے که اس کتاب آسمانی میں کوئی تبدیلی هوئی هوگی؟[10]
چوتھی دلیل
قرآن اسی مجموعه کے طور پر اسی موجوده صورت میں رسول الله کے زمانے میں هی جمع هوچکا تھا۔[11] اگر کوئی اسے بھی قبول نه کرے تو اسے معلوم هونا چاهئے که جن لوگوں نے سوروں کی ترتیب وغیره کے سلسله میں اختلاف کیا هے انھیں بھی اس میں کوئی شک نهیں هے که قرآن میں نه کوئی لفظ کم هوا اور نه کوئی لفظ زیاده هوا هے۔ کیونکه مسلمان اس کے حفظ اور یاد کرنے پر پاپند تھے اور بنیادی طور پر اس زمانے میں لوگوں کی شخصیت کافی حد تک اسی سے پیچانی جاتی تھی که اسے قرآن کی کتنی آیات یاد هیں۔
قرآن کے حافظین کی تعداد اتنی زیاده تھی که تاریخ میں ملتا هے که ابوبکر کے زمانے کی ایک جنگ میں چار سو حافظین قرآن قتل کئے گئے۔[12]
مدینه کے قریب کی ایک آبادی بئر معونه کے واقعه اس علاقه میں روسول صصص کی زندگی میں هونے والی جنگ میں هم پڑھتے هیں که اس میں قارئین قرآن کی ایک بڑی تعداد جو تقریبا ۷۰ کے قریب تھی شهید هوگئی۔[13]
اس سب سے واضح هوتا هے که حافظین، قارئین اور معلمین قرآن اتنے زیاده تھے صرف جنگ کے میدان میں حافظین کی اتنی بڑی تعداد نے جام شهادت نوش کیا۔
قرآن ایسی کتاب نهیں تھی جو متروک هوگئی هو یا کسی مسجد میں بھول کی گرد و غبار چاٹ رهی هو که کوئی اس میں کوئی چیز بڑھادے یا کم کردے۔
حفظ قرآن کا مسئله مسلمانوں کے درمیان همیشه هی سے ایک سنت اور عبادت کے عنوان سے دیکھا گیا هے۔ حتی اس وقت بھی جب قرآن کے نسخے ایک کتاب کی شکل میں جگه جگه پھیل گئے اور حتی صنعت چاپ کی ایجاد کے بعد بھی جس کے ذریعه قرآن کو ایسی کتاب کا عنوان ملا جو اسلامی ممالک میں سب سے زیاده چھپتی هو تب بھی قرآن کے حفظ کا مسئله ایک قدیم سنت اور فخر و امتیاز کی نگاه سے دیکھا گیا اس طرح که هر شهر اور علاقه میں همیشه کچھ نه کچھ حفاظ آباد رهے۔
اور اب بھی اسلامی ممالک میں بهت مدرسه [مدرسه تحفیظ قرآن کریم] یا کسی اور نام سے موجود هیں جن کی سب سے پهلی منصوبه بندی حفظ قرآن کے سلسله میں هے حتی ان میں حفظ کا درس دینے والے وه حافظین هیں جو خود بهت کمسن هیں۔[14]
بعض رپورٹیں بتاتی هیں که پاکستان میں پندره لاکھ حافظ قرآن موجود هیں۔[15] مصر کی یونیورسٹی [الازهر] میں داخله کی ایک شرط خود مکمل حفظ قرآن هے جس میں چالیس امتیازات میں سے کم سے کم بیس امتیازات حاصل کرنا ضروری هیں۔[16] اور…
خلاصه یه که قرآن کے حفظ کی سنت، رسول الله صصص هی کے زمانے سے اور مختلف روایات کے مطابق خود آپ کی سفارش اور حکم کے سبب هر زمانے اور هر عصر میں رهی هے۔ کیا اس حال میں بھی یه احتمال دیا جاسکتا هے که قرآن میں تحیرف هوسکتی هے؟
پانچویں دلیل
پیغمبر اسلام صصص کے پاس بهت سے کاتب تھے جو وحی کو لکھتے تھے۔ یه ۴۳ افراد تھے[17] جن میں امیر المؤمنین اور زید ابن ثابت سب سے آگے آگے تھے۔[18]
جس کتاب کے اتنے لکھنے والے هوں اس تک تحریف کا هاتھ کیسے پهنچ سکتا هے؟
چھٹی دلیل
موجوده قرآن[19] کے سلسله میں تمام پیشواؤں کی دعوت اس بات تک پهنچاتی هے که یه آسمانی کتاب ایک تحریف ناپذیر مجموعه کی صورت میں تمام زمانوں منجمله صدر اسلام میں رها هے۔
نهج البلاغه میں حضرت علی علیه السلام کا قول اس بات پر شاهد هے۔ ۱۳۳ویں خطبه میں هے که: الله کی کتاب آپ لوگوں کے درمیان هے، ایسی متکلم هے جس کی زبان کبھی کند نهیں پڑتی، ایسا گھر هے جس کے ستون کبھی منهدم نهیں هوسکتے، ایسی عزت بخش هے که اس کے دوست کبھی مغلوب نهیں هوسکتے۔[20]
۱۷۶ویں خطبه میں فرماتے هیں: جان لو که یه قرآن ایسا ناصح هے که جو اپنی نصیحتوں کبھی ملاوٹ اور خیانت نهیں کرتا، ایسا هادی هے جو اپنی هدایت میں کبھی گمراه نهیں کرتا۔[21] اسی خطبه میں هے که: کوئی بھی اس قرآن کا همنشیں نهیں هوتا مگر یه که اس کے پاس سے اضافه یا کمی کے ساتھ اٹھتا هے، هدایت کا اضافه یا گمراهی کی کمی۔[22] ایسی تعبیریں حضرت علی علیه السلام اور دیگر پیشوایان دین کی گفتگو میں بهت زیاده هیں۔
اگر هم فرض کرلیں که دست تحریف قرآن کی طرف بڑھا هے تو کیا ممکن تھا اس طرح اس کی طرف دعوت دی جاتی؟ اور راه و روش اور حق و باطل کی جدائی کے وسیله، خاموش نه هونے والا نور اور نه بجھنے والا چراغ نیز الله کی مضبوط رسی اور امین و اطمینان بخش سبب نه کها جاتا۔[23]
مذکوره ۶دلائل کی بنیاد پر اس میں کوئی شک و شبهه نهیں ره جاتا که قرآن رسول اکرم صصص کے زامنے سے اب تک تحریف و تغییر سے پاک اور مبرا رهاهے۔
[1] دیکھئے: پیام قرآن، مکارم شیرازی
[2] دیکھئے: تفسیر المیزان، طباطبائی، ج۱۲، ص۱۵۰، ۱۵۵، ۱۵۷
[3] اسراء/۸۸
[4] نساء/۸۶
[5] مزید معلومات کے لئے: مبانی کلامی اجتهاد، هادوی تهرانی، مهدی، ص۵۴ و۵۵
[6] دیکھئے: ترجمه المیزان، ج۱۲، ص۱۵۰، ۱۵۴
[7] مبانی کلامی اجتهاد، هادوی تهرانی، ص۶۷
[8] ایضا
[9] ایضا
[10] تفسیر نمونه، ج۱۱، ص۲۲
[11] البته قرآن کی جمع آوری کے سلسله میں متعدد نظریات هیں۔ اس سلسله میں رجوع کیجے: اشاریه: جمع قرآن، سوال۷۱
[12] منتخب کنز العمال، البیان فی تفسیر القرآن کے نقل کے مطابق، ص۲۶۰
[13] سفینۃ البحار، ج۱، ص۵۷
[14] اس سلسله میں کمسن حافظ محمد حسین طباطبائی کی واقعات و یادیں پڑھنے چاهئیں یه حافظ بچپن میں هی حافظ هو اور اس نے بچپنے میں هی ڈاکٹریٹ حاصل کی۔
[15] تفسیر نمونه ج۱۱، ص۲۴، البته یه اعداد و شمار گزشته سال کے هیں اور ظاهر هے که اس وقت اس سے کهیں زیاده ملک میں حافظ موجود هیں۔
[16] ایضا، فرید وجدی کی دائرۃ المعارف کے مطابق
[17] مؤرخین نے اس تعداد کی چوده سے ۴۳ تک نقل کی هے
[18] زنجانی، ابوعبد الله، تاریخ القرآن، ص۲۴
[19] یعنی بزرگان اسلام کے اقوال کی تحقیق سے پته چلتا هے که اسلام کے آغاز هی سے سب کے سب یک زبان هوکر اسی موجده ورآن کی تلاوت، تحقیق اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے
[20] و کتاب الله بین اظهرکم ناطق لا یعیی لسانه و بیت لاتهدم ارکانه و عز لا تهزم اعوانه
[21] اعلموا ان هذا القرآن هو الناصح الذی لا یغش و الهادی الذی لا یضل
[22] و ما جالس هذا القرآن احد الا قام عنه بزیادۃ او نقصان زیادۃ فی هدی و نقصان فی عمی
[23] دیکھئے: تفسیر نمونه، ج۱۱، ص۲۴ تا۲۶