Please Wait
7633
بیت الحرام کا حج ہر اس مسلمان پر زندگی میں ایک بار واجب ہوتا ہے، جس میں اس کے شرائط پائے جاتے ہوں اور اس واجب کی خلاف ورزی دوسرے واجبات کی خلاف ورزی کے مانند کسی بہانہ سے جائز نہیں ہے۔ لیکن تمام مستحبی اعمال کے سلسلہ میں، من جملہ مستحب حج اور عمرہ کے بارے میں، ایک کلی اصول پایا جاتا ہے جو اس امر پر مبنی ہے کہ جو بھی کام زیادہ سے زیادہ اخلاص پر مبنی ہو، اس کا زیادہ ثواب ہوتا ہے اور حج کے بارے میں دوسرے کلی معیار بھی ہیں، من جملہ یہ کہ خانہ خدا کی کسی بہانہ، حتی کہ صدقہ و خیرات کے بہانہ سے چھٹی نہیں کی جانی چاہئیے اور اس کی رونق کم نہیں ہونی چاہئیے۔ اس کے علاوہ حج و عمرہ کے سلسلہ کو جاری رکھنے میں ایسی معنویت پائی جاتی ہے، جسے دوسری راہوں سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے یا کافی مشکل ہوگا۔ اسی بنا پر اس سوال کا کلی جواب نہیں دیا جا سکتا ہے، بلکہ ہر مکلف انسان کو ہر مسئلہ کے بارے میں اپنی عقل و دانش سے استفادہ کر کے ، مشخص کرنا چاہئیے کہ اس کا کونسامستحب کام اخلاص کے نزدیک تر ہے اور ریا، خودنمائی اور نفسانی خواہشات سے دور تر ہے۔ اگر آپ اس طرح حاصل ہونے والے نتیجہ کی رعایت کریں گے، تو آپ کا انجام پایا کام ، خواہ آپ کا اپنا حج ہو یا کسی دوسرے کو حج پر بھیجنا ہو یا حج کا خرچہ دوسرے نیک کاموں میں خرچ کرنا ہو، وہ آپ کو دوسرے اعمال کی بہ نسبت خداوندمتعال کے نزدیک تر لائے گا اور اس طرح آپ کو زیادہ سے زیادہ ثواب ملے گا۔
حج، یعنی خانہ خدا کی زیارت اور کچھ اعمال انجام دینا جنہیں مناسک حج کہا جاتا ہے اور ان اعمال کو انجام دینا ہر اس شخص پر واجب ہوتا ہے، جس میں مندرجہ ذیل شرائط پائے جاتے ہوں:
۱۔ بالغ ہو۔
۲۔ عاقل ہو۔
۳۔ حج کو انجام دینے کی وجہ سے حج سے واجب تر کوئی کام چھوٹ نہ جائے یا ایسا کوئی حرام کام بجا لانے کا سبب نہ بنے جس کی شرع مقدس میں زیادہ اہمیت ہو۔
۴۔ استطاعت حاصل ہو کہ وہ کئی چیزوں سے حاصل ہوتی ہے:
الف} زادراہ اور سفر میں جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، ان کا ہونا، جیسے، ضروری مرکب و سواری یا اس مال کا ہونا، جس سے ان چیزوں کو مہیا کر سکے۔
ب} راستہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اور اپنی جان و مال اور عزت کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو، اگر راستہ بند ہو یا کسی خطرہ کا خوف ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا راستہ ہو اگرچہ وہ راستہ دور تر بھی ہو، تو ضروری ہے کہ اس راستہ سے حج پر جائے۔
ج} حج کے مناسک انجام دینے کے لیے جسمانی طاقت ہو۔
د} مکہ پہنچ کر مناسک انجام دینے کے لیے وقت کافی ہو۔
ھ} جن کا خرچہ برداشت کرنا شرعاً اور عرفاً اس پر ضروری ہو، اس خرچہ کا ہونا۔
و} ایسا مال یا کام ہونا جس سے وہ حج سے واپسی کے بعد اپنی زندگی چلا سکے۔
اس بنا پر جس شخص میں مذکورہ شرائط پائے جاتے ہوں اس پر حج تمتع واجب ہے، اسے قطعاً خود حج بجا لانا چاہئیے اور کارخیر میں پیسے خرچ کرنے یا دوسروں کو حج پر بھیجنے سے یہ واجب کام ساقط نہیں ہوتا ہے۔
البتہ مستحبی حج و عمرہ اور دوسرے غیر واجب کاموں کے بارے میں مدنظر رکھنا چاہئیے کہ اسلام نے اس قسم کے اعمال کے لیے کچھ کلی اصول اور معیار مشخص کیے ہیں اور ہر مسلمان کو ہمیشہ اپنی عقل دانش و بصیرت سے استفادہ کر کے اپنے انجام دینے والے نیک کاموں کو مدنظر رکھنا چاہئیے اور ان میں سے ایسے اعمال کو منتخب کرنا چاہئیے جن کی زیادہ اہمیت ہو۔
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔ ہر شخص اپنے مستحب اعمال {حتی کہ واجب اعمال} کو مختلف محرکات کے مطابق انجام دے سکتا ہے۔ بعض اوقات حج اور عمرہ اس لیے انجام دیا جاتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ایک متدین شخص کے عنوان سے پہچانا جائے، یا یہ کہ مذہبی افراد کے درمیان کوئی حیثیت پیدا کر سکے، یا حج پر جانے والوں کے ساتھ اس قسم کے سفروں کی تعداد کے بارے میں مقابلہ کرے ؛ یا یہ سفر تفریح اور تجارت کی غرض سے ہوتا ہے؛ بیشک اس قسم کا حج قابل قبول نہیں ہوگا اور ہمارے ائمہ اطہار{ع} نے بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ صرف وہ حج قابل قبول ہے، جو خداودنمتعال کا قرب حاصل کرنے کے لیے ہو[1]۔
صدقہ بھی ممکن ہے غیر الہٰی محرکات پر مبنی ہو، مثال کے طور پر سخی کے عنوان سے پہچاننے کے لیے ، مختلف مواقع پر اپنے مدمقابل کے شخص کو نیچا دکھانے کے لیے، دوسروں کا احترام حاصل کرنے کے لیے صدقہ دیا جائے۔ اس قسم کے صدقہ کے لیے بھی کسی قسم کا اخروی اجر نہیں ہوگا[2]۔ البتہ یہ دونوں چیزیں،یعنی حج اور صدقہ خدا کے لیے ہو سکتے ہیں اور اس صورت میں ان کو بجا لانے والے کے لیے عظیم اجر ہوگا۔
۲۔ خانہ خدا کی زیارت، بہت سے دوسرے اعمال کے مانند ، خودبخود قابل قدر ہوتی ہے اور عام طور پر اس کا دوسرے اعمال سے موازنہ نہیں کرنا چاہئیے، جس طرح ہمیں عام حالات میں والدین کے احترام کا موازنہ شب نمازوں سے نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ ان دونوں اعمال کی الگ الگ قدر و منزلت ہے۔
البتہ ممکن ہے انسان اپنی پوری زندگی میں کچھ کامیابیوں سے دوچار ہو جائے، کہ ان میں سے صرف ایک پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس صورت میں اسے جاننا چاہئیے کہ ان میں سے کس میں زیادہ قدر و منزلت ہے؟
اس سلسلہ میں پہلے ہمیں جاننا چاہئِے کہ ہر انسان کی عقل و دانش سے اگر منصفانہ طور پر استفادہ کیا جائے تو ان شک و شبہات کو دور کرنے میں بہترین مدد مل سکتی ہے بنیادی طور پر ائمہ اطہار{ع} کی تعلیمات کے مطابق وہ عمل قابل قبول ہوگاجو عقل و دانش کے مطابق ہو، ورنہ حج، صدقہ اور کوئی دوسرا بظاہر نیک عمل اگر عقل کی پشت پناہی نہ رکھتا ہو، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا[3]۔
اس تمہید کے بعد قابل ذکر ہے کہ حج ان اسلامی احکام میں سے ہے جس کی دو انفرادی اور اجتماعی خصوصیات ہیں:
الف} اس کی انفرادی خصوصیت، انسانوں میں ایک قسم کی معنوی رشد و بالیدگی کو پیدا کرنا ہے کہ جسے دوسرے مستحب اعمال میں آسانی کے ساتھ پیدا نہیں کیا جا سکتا ہے[4]۔ البتہ فطری بات ہے کہ ہر انسان اپنی طاقت کے مطابق اس عظیم الہٰی عبادت سے استفادہ کر سکتا ہے[5]۔
ب} حج کی اجتماعی خصوصیت، تمام مسلمانوں کے لیے ایک واحد مرکز کا برقرار رہنا ہے، اس طرح کہ اس مرکز الہٰی کی کبھی چھٹی نہیں کی جانی چاہئیے اور اسے کبھی کمزور نہیں کرنا چاہئیے۔
اب اگر کوئی مسلمان اپنا واجب حج بجا لایا ہو اور حج کو دوبارہ بجا لانے اور کسی دوسرے اعمال کو انجام دینے کے بارے میں شک و شبہہ سے دوچار ہو، تو اس شک و شبہہ کے بارے میں کئی مختلف مفروضات کو مدنظر رکھ سکتا ہے:
اول: حج و عمرہ مستحب کو بجا لانے اور کسی واجب کام جیسے اس کی سرپرستی واجب النفقہ افراد کا نفقہ ادا کرنے یا کسی بیمار کو موت سے نجات دلانے کے درمیان شک و شبہہ میں پڑ جائے، تو ظاہر ہے کہ واجب کو مستحب کے بہانہ سے ترک نہیں کرنا چاہیے، یہاں تک کہ ہم جانتے ہیں کہ واجب نماز جو دین کا ستون ہے، کو بھی خاص موقع پر جب دوسرے واجب تر عمل سے ٹکرائے، تو ترک کیا جا سکتا ہے، یا کسی دوسرے طریقہ سے انجام دیا جا سکتا ہے۔
دوم: اگر شک و شبہہ میں پڑ جائے کہ خود مستحب حج پر جائے یا دوسرے کسی حج کے شوقین شخص کا خرچہ برداشت کر کے اسے حج پر بھیج دے، تو اس سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ دونوں صورتوں میں حج کا اجتماعی پہلو برقرار ہے اور مناسک پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ہے، اس لحاظ سے کسی دوسرے شخص کو حج پر بھیجنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن حج کے انفرادی پہلووں کے بارے میں قابل توجہ ہے کہ، اگرچہ دوسرے شخص کو حج پر بھیجنے والا، خود مناسک کو بجا نہیں لا سکا ہے اور اس کی معنویات سے مستفید نہیں ہو سکا ہے، لیکن اس نے ایسے ایثار کا مظاہرہ کیا ہے کہ شاید اس کا ثواب اس کے خود حج پر جانے سے کم تر نہ ہو، ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے، کہ خود مستحب حج پر جانے اور کسی دوسرے کو بھیجنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے[6]۔
سوم: اگر شک و شبہہ میں پڑے کہ حج و عمرہ مستحب کو بجا لائے یا اس کا خرچہ صدقہ کے عنوان سے کسی کو خیرات کے طور پر دیدے۔ یہ ایسے مسائل میں سے ہے کہ جو باایمان افراد کے لیے زیادہ ابہام و سولات پیدا ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور اس پر گہری تحقیق کی ضرورت ہے:
اس سلسلہ میں جو کچھ معصومین{ع} کے کلام سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر مستحب حج و عمرہ پر نہ جانا، حج کو کمزور کرنے، کعبہ کو جمعیت سے خالی کرنے اور حج کے اجتماعی پہلو کو ضرر پہنچانے کا سبب بنے تو، حج کی تلافی کسی بھی دوسرے کارخیر سے نہیں کی جا سکتی ہے اور کسی بہانہ سے اس سے پہلوتہی نہیں کی جاسکتی ہے[7]۔
اس کے علاوہ ، اگر ضروری اجتماع بھی حج میں موجود ہو، تو ہمارے ائمہ اطہار{ع} کی یہی فہمائش ہے کہ حج کے اخراجات میں قناعت سے کام لے کر اور غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کر کے مستحب حج کو بھی انجام دینا چاہئیے اور فضول خرچی سے اجتناب کر کے بچی رقم کو صدقہ و خیرات کے طور پر دیا جائے {جبکہ افسوس ہے کہ آج کل حج کے بارے میں بعض فضول خرچیاں خود حج کے خرچہ سے زیادہ ہوتی ہیں}۔ کہ اس طرح مناسک حج میں موجود معنویت بھی حاصل ہوگی اور دوسرے اجتماعی ضروریات ، یعنی دوسروں کو مدد کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوگی[8]۔
اس سلسلہ میں جو لوگ مالی لحاظ سے مناسب حیثیت رکھتے ہیں ، وہ اضافی اخراجات میں قناعت کر کے اور حج کے اخراجات میں تعادل کی رعایت کر کے، حج اور صدقہ کے دونوں ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔
لیکن بہرحال، ہر انسان دوسروں کی بہ نسبت اپنی حالت سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے[9]۔ اور عقل و دانش سے استفادہ کر کے تشخیص کرنا چاہئیے کہ کون سا مستحب عمل ریاکاری ، اور نفسانی خواہشات سے پاک ہے اور اس کے معنوی پہلو کو تقویت بخش سکتا ہے اور اسے خدا کے قریب تر لا سکتا ہے اور اس کے بعد اپنی عقل سے فیصلہ کر کے اس پر عمل کرے۔ بیشک جو بھی کام ریاکاری سے دور اور اخلاص سے نزدیک تر ہو، اس کا زیادہ ثواب ہوگا۔ یہ جو ائمہ اطہار{ع} نے مختلف فہمائشیں کی ہیں ، جیسے کبھی حج بجا لانے کی فہمائشں کی ہے[10] اور کبھی صدقہ دینا مناسب سمجھا ہے[11]، ممکن ہے یہ مخاطبین کے حالات کو مدنظر رکھنے کے اس کلی اصول پر مبنی ہو۔
سرانجام، شیطانی وسوسوں سے ہوشیار رہنا چاہئیے، کیونکہ وہ قدم بہ قدم انسان کو خد اکی رضامندی کی راہ سے دور کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے اپنی راہ پر گامزن کرتا ہے؛ مثال کے طور پر شیطان کبھی حج کا زندگی کی فضول خرچیوں سے موازنہ نہیں کرتا ہے کہ مثلا حج پر جانا بہتر ہے یا گھر کے فرنیچر کو بدلنا؟ بلکہ وہ باایمان افراد کے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ صدقہ حج سے بہتر ہے اور بعد والے مرحلہ میں اسے صدقہ دینے سے بھی گمراہ کرتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ "گھر میں اندھیرا ہوتے ہوئے مسجد میں چراغ جلانا حرام ہے"۔ اس کے بعد اسے اپنے مناسب گھریلو اخراجات سے بھی منحرف کردیتا ہے اور اس میں بخل کی صفت پیدا کرتا ہے، سرانجام اسے اس حد تک پہنچاتا ہے کہ حج کے اخراجات کو حج پر خرچ کرنے کے بجائے حرام کاموں اور فضول خرچیوں میں صرف کرادیتا ہے، اس وجہ سے ایک باایمان شخص اگر کبھی اس نتیجہ پر پہنچے کہ صدقہ کو مستحب حج پر ترجیح دینا چاہیے، تو اسے فوراً صدقہ کو مستحق افراد تک پہنچانا چاہئیے، ورنہ ممکن ہے وہ دونوں ثوابوں سے محروم ہو جائے۔
[1] . شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص 219، ح 2221، انتشارات جامعۀ مدرسین، قم، 1413 ه.
[2]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 7، ص 30، ح 1، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 ه ش.
[3]ایضاً، ج 1، ص 24، ح 19، "عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ لِي جَاراً كَثِيرَ الصَّلَاةِ كَثِيرَ الصَّدَقَةِ كَثِيرَ الْحَجِّ لَا بَأْسَ بِهِ قَالَ فَقَالَ يَا إِسْحَاقُ كَيْفَ عَقْلُهُ قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَيْسَ لَهُ عَقْلٌ قَالَ فَقَالَ لَا يَرْتَفِعُ بِذَلِكَ مِنْه".
[4]حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، ج 11، ص 113، ح 14385، مؤسسة آل البیت، قم، 1409 ه ق،"... َ أَنَّى لَكَ أَنْ تَبْلُغَ مَا يَبْلُغُ الْحَاج..."
[5]کافی، ج 4، ص 253، ح 6، "قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع الْحُجَّاجُ يَصْدُرُونَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ صِنْفٌ يُعْتَقُ مِنَ النَّارِ وَ صِنْفٌ يَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ كَهَيْئَةِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ وَ صِنْفٌ يُحْفَظُ فِي أَهْلِهِ وَ مَالِهِ فَذَاكَ أَدْنَى مَا يَرْجِعُ بِهِ الْحَاج".
[6]ایضاً،حدیث 5، "قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِنِّي قَدْ وَطَّنْتُ نَفْسِي عَلَى لُزُومِ الْحَجِّ كُلَّ عَامٍ بِنَفْسِي أَوْ بِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي بِمَالِي فَقَالَ وَ قَدْ عَزَمْتَ عَلَى ذَلِكَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنْ فَعَلْتَ فَأَبْشِرْ بِكَثْرَةِ الْمَالِ".
[7]وسائل الشیعة، ج 11، ص 22، ح 14145، "قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ نَاساً مِنْ هَؤُلَاءِ الْقُصَّاصِ يَقُولُونَ إِذَا حَجَّ الرَّجُلُ حَجَّةً ثُمَّ تَصَدَّقَ وَ وَصَلَ كَانَ خَيْراً لَهُ فَقَالَ كَذَبُوا لَوْ فَعَلَ هَذَا النَّاسُ لَعُطِّلَ هَذَا الْبَيْتُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ هَذَا الْبَيْتَ قِيَاماً لِلنَّاس".
[8]ایضاً، ج 11، ص 115، ح 14390،"عَنْ سَعِيدٍ السَّمَّانِ أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي حَدِيثٍ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ الْحَجُّ أَوِ الصَّدَقَةُ فَقَالَ مَا أَحْسَنَ الصَّدَقَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ قُلْتُ أَجَلْ فَأَيُّهُمَا أَفْضَلُ قَالَ مَا يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ مِنْ أَنْ يَحُجَّ وَ يَتَصَدَّقَ قَالَ قُلْتُ مَا يَبْلُغُ مَالُهُ ذَلِكَ وَ لَا يَتَّسِعُ قَالَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُنْفِقَ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ فِي شَيْءٍ مِنْ سَبَبِ الْحَجِّ أَنْفَقَ خَمْسَةً وَ تَصَدَّقَ بِخَمْسَةٍ أَوْ قَصَّرَ فِي شَيْءٍ مِنْ نَفَقَتِهِ فِي الْحَجِّ فَيَجْعَلُ مَا يَحْبِسُ فِي الصَّدَقَةِ فَإِنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ أَجْراً".
[9]قیامة، 14، "بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصيرَة".
[10]وسائل الشیعة، ج 11، ص 115، ح 14389، "دِرْهَمٌ تُنْفِقُهُ فِي الْحَجِّ أَفْضَلُ مِنْ عِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ تُنْفِقُهَا فِي حَق".
[11]ایضاً، ج 13، ص 305، ح 305"لَقَضَاءُ حَاجَةِ امْرِئٍ مُؤْمِنٍ أَفْضَلُ مِنْ حَجَّةٍ وَ حَجَّةٍ وَ حَجَّةٍ حَتَّى عَدَّ عَشْرَ حِجَج".