Please Wait
کا
7815
7815
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/11/10
سوال کا خلاصہ
پیغمبر اسلام (ص) میں دوسرے انبیاء کی بعض خصوصیتیں نہیں پائی جاتی تھیں۔ آپ (ص) حضرت موسی(ع) کے مانند خداوند متعال سے گفتگو نہیں کرتے تھےاور۔ ۔ ۔! اس کے باوجود آنحضرت (ص) کی دوسرے انبیاء(ع) برتری کی دلیل کیا ہے؟
سوال
پیغمبر اسلام (ص) میں دوسرے انبیاء کی بعض خصوصیتیں نہیں پائی جاتی تھیں۔ آپ (ص) حضرت موسی(ع) کے مانند خداوند متعال سے گفتگو نہیں کرتے تھےاور۔ ۔ ۔! اس کے باوجود آنحضرت (ص) کی دوسرے انبیاء(ع) برتری کی دلیل کیا ہے؟
ایک مختصر
حتی کہ اگر ہم یہ بھی قبول کریں کہ پیغمبر اسلام (ص) میں، دوسرے انبیاء(ع)کی بعض خصوصیات نہیں پائی جاتی تھیں اور مثال کے طور پر آپ (ص) خداوند متعال سے براہ راست اور بلا واسطہ گفتگو نہیں کرتے تھے، پھر بھی بعض روایتیں اس کے بر خلاف بیان کرتی ہیں۔ اس کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اگر کسی شخص میں کوئی فضیلت پائی جاتی ہو اور دوسرے شخص میں اس سے بالا تر فضیلت پائی جاتی ہو، تو دوسرے شخص میں پہلی اور پائین تر فضیلت کا نہ ہونا اس کے لئے نقص اور عیب شمار نہیں ہوتا ہے، اگر چہ پہلے شخص کی فضیلت بذات خود ایک بالاتر فضیلت ہو۔ اس سلسلہ میں تفصیلی مطلب، تفصیلی جواب میں ملاحظہ ہو۔
تفصیلی جوابات
مقدمہ:
قرآن مجید کی آیات اور روایات کے مطابق کہاجاسکتا ہے: انبیائے الہی ایک ہی مقام و منزلت پر نہیں ہوتے ہیں بلکہ بارگاہ الہی میں ان کے مختلف مقامات ہوتے ہیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" یہ سب رسول وہ ہیں جنھیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔"[1]
البتہ ان آیات سے کسی حد تک ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے درمیان ایک قسم کی برتری پائی جاتی ہے، لیکن اس کے مصداق کو معین کرنے کے لئے کہ مثلاً فلاں پیغمبر، فلاں پیغمبر سے افضل ہے، دوسری دلیل کی ضرورت ہے۔[2]
لیکن روایتوں میں کسی حدتک مصداق بھی معین ہوا ہے۔
پیغمبر اسلا م (ص)نے فرمایا ہے:" خداوند متعال نے اپنے مرسل پیغمبروں کو اپنے مقرب فرشتوں پر برتری دی ہے اور مجھے تمام پیغمبروں اور رسولوں پر برتری بخشی ہے۔"[3]
امام صادق (ع) نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے:" پیغمبروں اور رسولوں کے سردار پانچ افراد ہیں، وہ اولوالعزم رسول ہیں نبوت اور رسالت اسی محور کے گرد گھومتی ہے۔ وہ پانچ افراد یہ ہیں: نوح، ابراھیم، موسی، عیسی اور محمد (ص)۔[4]
امام علی (ع) نے اپنے ایک طولانی بیان میں پیغمبر اسلام (ص) کے دوسرے انبیاء(ع) پر فضائل اور امتیازات کی ایک بڑی تعداد کو پیش کیا ہے کہ ان میں مذکورہ سوال بھی آیا ہے۔ اس کلام کے طولانی ہونے اوراس مقالہ میں تفصیل کی گنجائش نہ ہونے کے پیش نظر ہم صرف اس کے پہلے اور اس سوال سے متعلق حصہ کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
روایت کا مقدمہ اور آغاز یوں ہے:" امام کاظم(ع) نے اپنے آبا و اجداد کے واسطہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے: ایک دن شام کے یہودیوں کا ایک عالم، جس نے آسمانی کتابوں، تورات، انجیل، زبور اور صحف انبیاء(ع) کو پڑھا تھا اور ان سب کے دلائل اور برہان سے آگاہ تھا، ایک ایسی مجلس میں داخل ہوا جہاں پر اصحاب رسول خدا(ص) ، من جملہ امام علی (ع) ، ابن عباس، ابن مسعود اور ابو معبدالجھنّی حاضر تھے۔
یہودی نے کہا: اے امت محمد! آپ لوگوں نے تمام انبیاء و مرسلین کی فضیلتوں اور مقامات میں سے کسی کو نہیں چھوڑا ہے اور ان سب فضیلتوں کو اپنے پیغمبر سے نسبت دی ہے، کیا میرے سوالات کا جواب دینے کے لئے تیار ہو؟! اس سوال کو سن کر سب خاموش رہے اور کسی نے کچھ نہیں کہا۔
حضرت علی (ع) نے جب اس حالت کا مشاہدہ کیا، زبان کھولی اور فرمایا:" جی ہاں! میں حاضر ہوں اور اس بات کو دوبارہ تکرار کرتا ہوں کہ خداوند متعال نے اپنے انبیاء اور مرسلین کے لئے کوئی درجہ و فضیلت عطا نہیں کی ہے بجز اس کے کہ یہ تمام فضائل حضرت محمد (ص) کو بخشے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے چند برابر فضائل و رتبے حضرت محمد (ص) کو عطا کئے ہیں۔
یہودی عالم نے کہا: کیا آپ میرے سوال کا جواب دوگے؟
حضرت(ع) نے فرمایا: جی ہاں، آج میں آپ کے لئے رسول خدا(ص) کے ایسے فضائل بیان کروں گا جو مومنین کی آنکھوں کے لئے بینائی اور آپ (ص) کے فضائل کے بارے میں شک کرنے والوں کے شک و شبہات کو دور کرنے کا سبب بنیں گے۔
آنحضرت (ص) جب کبھی اپنی کسی فضلیت کا ذکر فرماتے تھے، تو فرماتے تھے:" مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے"۔ اب میں آنحضرت (ص) کے کچھ ایسے فضائل بیان کرتا ہوں، جن سے دوسرے انبیاء(ع) کی شخصیت پر کوئی آنچ نہیں آسکتی ہے اور میں اسے صرف اور صرف اس لئے بیان کرتا ہوں تاکہ خداوند متعال کا شکر بجا لاؤں کہ اس نے اپنے دوسرے انبیاء (ع) کے مانند محمد (ص) کو فضیلتیں عطا کی ہیں۔[5]
لیکن سوال سے متعلق روایتوں کا حصہ یوں ہے:
یہودی عالم نے کہا: یہ حضرت موسی(ع) ہیں جن کے ساتھ خداوند عزّ وجلّ نے طور سینا میں گفتگو اور سر گوشیاں کیں۔ ( آپ کے پاس اپنے پیغمبر کے بارے میں کیا ہے جو اس فضلیت کے مانند ان سے برتر ہو؟)
حضرت (ع) نے فرمایا: ایساہی ہے، اورخدا وند متعال نے سدرة المنتہی میں محمد (ص) پر وحی نازل کی۔[ اور آپ (ص) کے ساتھ گفتگو کی]۔ پس آپ (ص) کا مقام آسمان پر پسندیدہ اور بالاترین مکان یعنی عرش پر قابل توجہ ہے۔[6]
بہرحال پیغمبر اسلام (ص) کی تمام خصوصیات اور دوسرے انبیاء(ع) پر برتریوں کو یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے لئے زیادہ فرصت کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہم پیغمبر اسلام (ص) کی بعض اہم برتریوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
پیغمبر اسلام (ص) کی اہم برتریاں
1۔ رسول اکرم (ص) کی کتاب آسمان کی برتری:
ہر پیغمبر کا مقام اور اس کی معنوی شخصیت اس کی آسمانی کاب میں تجلّی ہوتی ہے۔ موسی کلیم(ع) کا مقام تورات کی حد میں اور مقام عیسی مسیح (ع) کا مقام انجیل کی حد میں جلوہ گر ہوا ہے۔ گزشتہ انبیاء(ع) نے بھی اپنی آسمانی کتب کی حد میں ظہور کیاہے۔ اگر چہ جو کچھ گزشتہ انبیاء نے لا یا ہے وہ سب اور ان کی آسمانی کتابیں حق ہیں، لیکن قرآن مجید کی آیات کی بنا پر تمام گزشتہ انبیاء(ع) کی کتابیں قرآن مجید کے تفوّق اور نفوذ میں حفظ ہوتی ہیں:" وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ من الکتاب و مھیمناً علیہ۔"[7] " اور اے پیغمبر ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی کتابوں ( توریت اور انجیل) کی مصداق اور محافظ ہے۔"
" ھیمنہ" یعنی تفوّق اور نفوذ علمی نہ نفوذ مادّی، چونکہ انبیاء آپس میں بھائی ہیں۔"[8] انبیاء ھیمنہ مادی نہیں رکھتے ہیں اگر کوئی تفوق ہے تو وہی علمی نفوذ ہے۔ علمی نفوذ سے مراد یہ ہے کہ انھیں ضائع ہونے نہیں دیتا، ان کی تحریف کی تصحیح کرتا ہے، اس طرح کہ ان کے تحریف شدہ موارد کو قرآن مجید سے موازنہ کرکے تشخیص دیا جاتا ہے اور ان کی اصلاح کی جاتی ہے۔
جب قرآن مجید کا تفوّق و برتری تمام گزشتہ انبیاء(ع) کی آسمانی کتابوں پر ثابت ہو، تو رسول خاتم (ص) کا تفوق اور فضیلت بھی دوسرے انبیاء پر ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ پیغمبر[ص] قرآن مجید کی حد میں اور قرآن مجید مھیمن ہے، پس پیغمبر اسلام [ص]بھی مھیمن ہیں۔[9]
البتہ قرآن مجید کی دوسری تمام آسمانی کتابوں پر برتری کے لئے ایک مفصل اور الگ بحث کی ضرورت ہے[10]، جو یہاں پر ممکن نہیں ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:" فضل القرآن علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ"[11] " دوسرے کلام پر قرآن مجید کی برتری، خداوند متعال کی اس کی مخلوق پر برتری کے مانند ہے۔"
2۔ خاتمیت:
پیغمبر اسلام (ص) کی دوسرے انبیاء(ع) پر برتری کی ایک اور خصوصیت آپ (ص) کی خاتمیت ہے۔ رسول اکرم(ص) کی خاتمیت کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:" ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین"۔[12]" محمد، تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔"
" خاتم" یعنی مہر، جو تحریروں اور خطوط کے آخر پر لگائی جاتی ہے۔ لکھنے والا، جو کچھ ضروری تھا، اسے تحریر کرنے اور اپنے مقاصد بیان کرنے کے بعد، اپنی تحریر کے آخر پر مہر لگاتا ہے اور اس کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہے۔ انبیاء(ص) حق تعالی کی کتاب اور کلام ہیں، چنانچہ حضرت عیسی(ع) کے بارے میں آیا ہے:" یبشّرک بکلمة منہ اسمہ المسیح ابن مریم"[13]۔" اے مریم! خدا تم کو اپنے کلمہ مسیح عیسی بن مریم کی بشارت دے رہا ہے۔"
خداوندمتعال انبیاء(ع) اور وحی کے ذریعہ انسانوں کے ساتھ بات کرتا ہے، اس نے اپنی بات اور گفتگو کو ختم کرنے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کو بھیج کر سلسلہ نبوت اور رسالت انبیاء (ع) کے صحیفہ پر مہر لگائی ہے۔[14]
خاتمیت کا مراد، صرف زمانہ کے لحاظ سے انتہا اور خاتمیت نہیں ہے، بلکہ قوس صعود میں رتبہ کی خاتمیت بھی ہے۔ اس بنا پر مذکورہ آیہ شریفہ سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) گزشتہ انبیاء(ع) کی تمام فضیلتوں اور خصوصیات کے مالک ہیں اور قیامت کے دن تک آپ (ص) سے بہتر اور کامل تر کوئی نہیں آئے گا، کیونکہ اگر آپ (ص) سے کامل تر کوئی پایا جاتا تو قطعاً وہ خاتمنیت کے مقام پر پہنچتا، نہ رسول اکرم (ص)۔[15]
3۔ گزشتہ انبیاء (ع) کی بشارتیں
پیغمبر اسلام (ص) کی برتری کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گزشتہ انبیاء(ع) نے آپ (ص) کے آنے کی بشارت دی ہے۔قرآن مجید میں حضرت عیسی(ع) کی زبان مبارک سے ارشاد ہوتا کہ:" ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد"،[16] ،" اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جس کا نام احمد ہے۔"
بشارت اس چیز کے بارے میں ہوتی ہے کہ بعد والا پیغمبر، اپنی امت کے لئے ایک نیا اور تازہ مطلب لے کر آئے۔ بشارت کو سرور اور شادی لانے والی خبر کے معنی کئے جاسکتے ہیں۔ واضح ہے کہ صرف اسی صورت میں سننے والا کسی خبر کو سننے کے بعد شاد و مسرور ہوتا ہے کہ وہ خبر ایک نئی حقیقت یا واقعہ ہو اور بے مثال ہو۔ اور خاتم الانبیاء (ص) نے ، گزشتہ انبیاء(ع) کی سطح پر یا حضرت عیسی (ع) کی رسالت کی سطح پر بات کی ہو، تو اولاً ایک نئے پیغمبر کے آنے کے ضرورت ہی نہیں تھی، ثانیاً یہ کہ ایسے نبی کے آنے کی بشارت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
حضرت مسیح (ع) کا کلام کہ: میں گزشتہ پیغمبر کی کتاب کی تصدیق کرتا ہوں اور مستقبل میں آنے والے پیغمبر کی بشارت دیتا ہوں، اس بات کی علامت ہے کہ رسول اکرم (ص) حضرت عیسی(ع) سے افضل ہیں اور قرآن مجید انجیل سے برتر ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کا لایا ہوا تحفہ حضرت مسیح(ع) کے لائے ہوئے تحفہ سے زیادہ ہے، کیونکہ صرف اسی صورت میں بشارت کے معنی متحقق ہوسکتے ہیں۔[17]
بعض روایتوں کے مطابق، انبیائے الہی(ع) ہمیشہ حضرت محمد (ص) کے آنے کی بشارت دیتے تھے۔ امام باقر(ع) نے فرمایا ہے:
" انبیاء(ع) ہمیشہ محمد (ص) کی تشریف آوری کی خوشخبری دیتے تھے، یہاں تک کہ خداوند متعال نے حضرت مسیح، عیسی بن مریم(ع) کو مبعوث کیا اور انھوں نے محمد (ص) کی رسالت کی بشارت دیدی۔"[18]
چونکہ تمام انبیائے الہی(ع) نے رسول خدا (ص) کے آنے کی بشارت دی ہے، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) اپنی نوعیت کے فضائل اور خصوصیات کے مالک تھے جن سے دوسرے انبیاء(ع) عاری تھے۔ اس بناپر آپ (ص) گزشتہ تمام انبیاء (ع) سے برتر ہیں۔
4۔ خدا اور ملائکہ کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کی مسلسل تکریم
پیغمبر اسلام (ع) کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ خداوند متعال نے قرآن مجید کی کئی آیات میں پیغمبر اکرم (ص) کی بہ نسبت اپنی اور اپنے ملاءکہ کی خاص محبت کا ذکر کیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے:" ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیماً۔"[19] " بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبان ایمان! تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہواور ان کے فرمان کے مقابلے میں تسلیم رہو۔"
پیغمبر اکرم (ص) کا مقام اس قدر بلند ہے کہ خالق کائنات اور خدا کے حکم سے کائنات کا تدبیر چلانے والے فرشتے آپ (ص) پر دورود بھیجتے ہیں، پس مؤمنین کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس عالمی پیغام کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ " یصلّون" کی تعبیر فعل مضارع کی صورت میں لانے کی دلیل استمرار ہے، یعنی خداوند متعال اور اس کے فرشتے مسلسل ان پر درود و سلام بھیج رہے ہیں، ایک لافانی رحمت اور درود۔[20]
یہان پر مناسب ہے کہ امام علی (ع) کی مذکورہ حدیث کے ایک اور حصہ کی طرف اشارہ کیا جائے:
یہودی عالم نے کہا: میں حضرت آدم (ع) سے شروع کرتا ہوں، خداوند متعال نے اپنے فرشتوں کو ان کے لئے سجدہ کرنے پر مجبور کیا، کیا محمد میں اس قسم کی کوئی فضیلت ہے؟!
امام نے فرمایا: ایساہی ہے، لیکن یہ بھی جان لو کہ اگر خداوند متعال نے اپنے فرشتوں کو آدم (ع) پر سجدہ کرنے کے لئے مجبور کیا، یہ سجدہ عبادت کا سجدہ نہیں تھا کہ ملائکہ حضرت آدم (ع) کی عبادت کریں، بلکہ یہ سجدہ ایک قسم کا حضرت آدم (ع) کی فضیلت کا اعتراف تھا اور خداوند متعال کی طرف سے ایک رحمت تھی۔ لیکن حضرت محمد (ص) کو اس سے برتر چیز عطا ہوئی اور خداوند متعال نے اپنے تمام فرشتوں کے ساتھ آپ (ص) پر درود بھیجا اور تمام مؤمنین پر فرض کیا کہ آپ (ص) پر صلوات بھیجیں، اور یہ فضیلت حضرت آدم (ع) کی فضیلت سے برتر ہے۔"[21]
آخر پر ہم ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے امتیازات اور برتری کی دلائل صرف مذکورہ مطالب تک محدود نہیں ہیں، بلہ ہم، عدم گنجائش کے پیش نظر خلاصہ کی رعایت کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔[22]
قرآن مجید کی آیات اور روایات کے مطابق کہاجاسکتا ہے: انبیائے الہی ایک ہی مقام و منزلت پر نہیں ہوتے ہیں بلکہ بارگاہ الہی میں ان کے مختلف مقامات ہوتے ہیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" یہ سب رسول وہ ہیں جنھیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔"[1]
البتہ ان آیات سے کسی حد تک ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے درمیان ایک قسم کی برتری پائی جاتی ہے، لیکن اس کے مصداق کو معین کرنے کے لئے کہ مثلاً فلاں پیغمبر، فلاں پیغمبر سے افضل ہے، دوسری دلیل کی ضرورت ہے۔[2]
لیکن روایتوں میں کسی حدتک مصداق بھی معین ہوا ہے۔
پیغمبر اسلا م (ص)نے فرمایا ہے:" خداوند متعال نے اپنے مرسل پیغمبروں کو اپنے مقرب فرشتوں پر برتری دی ہے اور مجھے تمام پیغمبروں اور رسولوں پر برتری بخشی ہے۔"[3]
امام صادق (ع) نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے:" پیغمبروں اور رسولوں کے سردار پانچ افراد ہیں، وہ اولوالعزم رسول ہیں نبوت اور رسالت اسی محور کے گرد گھومتی ہے۔ وہ پانچ افراد یہ ہیں: نوح، ابراھیم، موسی، عیسی اور محمد (ص)۔[4]
امام علی (ع) نے اپنے ایک طولانی بیان میں پیغمبر اسلام (ص) کے دوسرے انبیاء(ع) پر فضائل اور امتیازات کی ایک بڑی تعداد کو پیش کیا ہے کہ ان میں مذکورہ سوال بھی آیا ہے۔ اس کلام کے طولانی ہونے اوراس مقالہ میں تفصیل کی گنجائش نہ ہونے کے پیش نظر ہم صرف اس کے پہلے اور اس سوال سے متعلق حصہ کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
روایت کا مقدمہ اور آغاز یوں ہے:" امام کاظم(ع) نے اپنے آبا و اجداد کے واسطہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے: ایک دن شام کے یہودیوں کا ایک عالم، جس نے آسمانی کتابوں، تورات، انجیل، زبور اور صحف انبیاء(ع) کو پڑھا تھا اور ان سب کے دلائل اور برہان سے آگاہ تھا، ایک ایسی مجلس میں داخل ہوا جہاں پر اصحاب رسول خدا(ص) ، من جملہ امام علی (ع) ، ابن عباس، ابن مسعود اور ابو معبدالجھنّی حاضر تھے۔
یہودی نے کہا: اے امت محمد! آپ لوگوں نے تمام انبیاء و مرسلین کی فضیلتوں اور مقامات میں سے کسی کو نہیں چھوڑا ہے اور ان سب فضیلتوں کو اپنے پیغمبر سے نسبت دی ہے، کیا میرے سوالات کا جواب دینے کے لئے تیار ہو؟! اس سوال کو سن کر سب خاموش رہے اور کسی نے کچھ نہیں کہا۔
حضرت علی (ع) نے جب اس حالت کا مشاہدہ کیا، زبان کھولی اور فرمایا:" جی ہاں! میں حاضر ہوں اور اس بات کو دوبارہ تکرار کرتا ہوں کہ خداوند متعال نے اپنے انبیاء اور مرسلین کے لئے کوئی درجہ و فضیلت عطا نہیں کی ہے بجز اس کے کہ یہ تمام فضائل حضرت محمد (ص) کو بخشے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے چند برابر فضائل و رتبے حضرت محمد (ص) کو عطا کئے ہیں۔
یہودی عالم نے کہا: کیا آپ میرے سوال کا جواب دوگے؟
حضرت(ع) نے فرمایا: جی ہاں، آج میں آپ کے لئے رسول خدا(ص) کے ایسے فضائل بیان کروں گا جو مومنین کی آنکھوں کے لئے بینائی اور آپ (ص) کے فضائل کے بارے میں شک کرنے والوں کے شک و شبہات کو دور کرنے کا سبب بنیں گے۔
آنحضرت (ص) جب کبھی اپنی کسی فضلیت کا ذکر فرماتے تھے، تو فرماتے تھے:" مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے"۔ اب میں آنحضرت (ص) کے کچھ ایسے فضائل بیان کرتا ہوں، جن سے دوسرے انبیاء(ع) کی شخصیت پر کوئی آنچ نہیں آسکتی ہے اور میں اسے صرف اور صرف اس لئے بیان کرتا ہوں تاکہ خداوند متعال کا شکر بجا لاؤں کہ اس نے اپنے دوسرے انبیاء (ع) کے مانند محمد (ص) کو فضیلتیں عطا کی ہیں۔[5]
لیکن سوال سے متعلق روایتوں کا حصہ یوں ہے:
یہودی عالم نے کہا: یہ حضرت موسی(ع) ہیں جن کے ساتھ خداوند عزّ وجلّ نے طور سینا میں گفتگو اور سر گوشیاں کیں۔ ( آپ کے پاس اپنے پیغمبر کے بارے میں کیا ہے جو اس فضلیت کے مانند ان سے برتر ہو؟)
حضرت (ع) نے فرمایا: ایساہی ہے، اورخدا وند متعال نے سدرة المنتہی میں محمد (ص) پر وحی نازل کی۔[ اور آپ (ص) کے ساتھ گفتگو کی]۔ پس آپ (ص) کا مقام آسمان پر پسندیدہ اور بالاترین مکان یعنی عرش پر قابل توجہ ہے۔[6]
بہرحال پیغمبر اسلام (ص) کی تمام خصوصیات اور دوسرے انبیاء(ع) پر برتریوں کو یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے لئے زیادہ فرصت کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہم پیغمبر اسلام (ص) کی بعض اہم برتریوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
پیغمبر اسلام (ص) کی اہم برتریاں
1۔ رسول اکرم (ص) کی کتاب آسمان کی برتری:
ہر پیغمبر کا مقام اور اس کی معنوی شخصیت اس کی آسمانی کاب میں تجلّی ہوتی ہے۔ موسی کلیم(ع) کا مقام تورات کی حد میں اور مقام عیسی مسیح (ع) کا مقام انجیل کی حد میں جلوہ گر ہوا ہے۔ گزشتہ انبیاء(ع) نے بھی اپنی آسمانی کتب کی حد میں ظہور کیاہے۔ اگر چہ جو کچھ گزشتہ انبیاء نے لا یا ہے وہ سب اور ان کی آسمانی کتابیں حق ہیں، لیکن قرآن مجید کی آیات کی بنا پر تمام گزشتہ انبیاء(ع) کی کتابیں قرآن مجید کے تفوّق اور نفوذ میں حفظ ہوتی ہیں:" وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ من الکتاب و مھیمناً علیہ۔"[7] " اور اے پیغمبر ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی کتابوں ( توریت اور انجیل) کی مصداق اور محافظ ہے۔"
" ھیمنہ" یعنی تفوّق اور نفوذ علمی نہ نفوذ مادّی، چونکہ انبیاء آپس میں بھائی ہیں۔"[8] انبیاء ھیمنہ مادی نہیں رکھتے ہیں اگر کوئی تفوق ہے تو وہی علمی نفوذ ہے۔ علمی نفوذ سے مراد یہ ہے کہ انھیں ضائع ہونے نہیں دیتا، ان کی تحریف کی تصحیح کرتا ہے، اس طرح کہ ان کے تحریف شدہ موارد کو قرآن مجید سے موازنہ کرکے تشخیص دیا جاتا ہے اور ان کی اصلاح کی جاتی ہے۔
جب قرآن مجید کا تفوّق و برتری تمام گزشتہ انبیاء(ع) کی آسمانی کتابوں پر ثابت ہو، تو رسول خاتم (ص) کا تفوق اور فضیلت بھی دوسرے انبیاء پر ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ پیغمبر[ص] قرآن مجید کی حد میں اور قرآن مجید مھیمن ہے، پس پیغمبر اسلام [ص]بھی مھیمن ہیں۔[9]
البتہ قرآن مجید کی دوسری تمام آسمانی کتابوں پر برتری کے لئے ایک مفصل اور الگ بحث کی ضرورت ہے[10]، جو یہاں پر ممکن نہیں ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:" فضل القرآن علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ"[11] " دوسرے کلام پر قرآن مجید کی برتری، خداوند متعال کی اس کی مخلوق پر برتری کے مانند ہے۔"
2۔ خاتمیت:
پیغمبر اسلام (ص) کی دوسرے انبیاء(ع) پر برتری کی ایک اور خصوصیت آپ (ص) کی خاتمیت ہے۔ رسول اکرم(ص) کی خاتمیت کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:" ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین"۔[12]" محمد، تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔"
" خاتم" یعنی مہر، جو تحریروں اور خطوط کے آخر پر لگائی جاتی ہے۔ لکھنے والا، جو کچھ ضروری تھا، اسے تحریر کرنے اور اپنے مقاصد بیان کرنے کے بعد، اپنی تحریر کے آخر پر مہر لگاتا ہے اور اس کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہے۔ انبیاء(ص) حق تعالی کی کتاب اور کلام ہیں، چنانچہ حضرت عیسی(ع) کے بارے میں آیا ہے:" یبشّرک بکلمة منہ اسمہ المسیح ابن مریم"[13]۔" اے مریم! خدا تم کو اپنے کلمہ مسیح عیسی بن مریم کی بشارت دے رہا ہے۔"
خداوندمتعال انبیاء(ع) اور وحی کے ذریعہ انسانوں کے ساتھ بات کرتا ہے، اس نے اپنی بات اور گفتگو کو ختم کرنے کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کو بھیج کر سلسلہ نبوت اور رسالت انبیاء (ع) کے صحیفہ پر مہر لگائی ہے۔[14]
خاتمیت کا مراد، صرف زمانہ کے لحاظ سے انتہا اور خاتمیت نہیں ہے، بلکہ قوس صعود میں رتبہ کی خاتمیت بھی ہے۔ اس بنا پر مذکورہ آیہ شریفہ سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) گزشتہ انبیاء(ع) کی تمام فضیلتوں اور خصوصیات کے مالک ہیں اور قیامت کے دن تک آپ (ص) سے بہتر اور کامل تر کوئی نہیں آئے گا، کیونکہ اگر آپ (ص) سے کامل تر کوئی پایا جاتا تو قطعاً وہ خاتمنیت کے مقام پر پہنچتا، نہ رسول اکرم (ص)۔[15]
3۔ گزشتہ انبیاء (ع) کی بشارتیں
پیغمبر اسلام (ص) کی برتری کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گزشتہ انبیاء(ع) نے آپ (ص) کے آنے کی بشارت دی ہے۔قرآن مجید میں حضرت عیسی(ع) کی زبان مبارک سے ارشاد ہوتا کہ:" ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد"،[16] ،" اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جس کا نام احمد ہے۔"
بشارت اس چیز کے بارے میں ہوتی ہے کہ بعد والا پیغمبر، اپنی امت کے لئے ایک نیا اور تازہ مطلب لے کر آئے۔ بشارت کو سرور اور شادی لانے والی خبر کے معنی کئے جاسکتے ہیں۔ واضح ہے کہ صرف اسی صورت میں سننے والا کسی خبر کو سننے کے بعد شاد و مسرور ہوتا ہے کہ وہ خبر ایک نئی حقیقت یا واقعہ ہو اور بے مثال ہو۔ اور خاتم الانبیاء (ص) نے ، گزشتہ انبیاء(ع) کی سطح پر یا حضرت عیسی (ع) کی رسالت کی سطح پر بات کی ہو، تو اولاً ایک نئے پیغمبر کے آنے کے ضرورت ہی نہیں تھی، ثانیاً یہ کہ ایسے نبی کے آنے کی بشارت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
حضرت مسیح (ع) کا کلام کہ: میں گزشتہ پیغمبر کی کتاب کی تصدیق کرتا ہوں اور مستقبل میں آنے والے پیغمبر کی بشارت دیتا ہوں، اس بات کی علامت ہے کہ رسول اکرم (ص) حضرت عیسی(ع) سے افضل ہیں اور قرآن مجید انجیل سے برتر ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کا لایا ہوا تحفہ حضرت مسیح(ع) کے لائے ہوئے تحفہ سے زیادہ ہے، کیونکہ صرف اسی صورت میں بشارت کے معنی متحقق ہوسکتے ہیں۔[17]
بعض روایتوں کے مطابق، انبیائے الہی(ع) ہمیشہ حضرت محمد (ص) کے آنے کی بشارت دیتے تھے۔ امام باقر(ع) نے فرمایا ہے:
" انبیاء(ع) ہمیشہ محمد (ص) کی تشریف آوری کی خوشخبری دیتے تھے، یہاں تک کہ خداوند متعال نے حضرت مسیح، عیسی بن مریم(ع) کو مبعوث کیا اور انھوں نے محمد (ص) کی رسالت کی بشارت دیدی۔"[18]
چونکہ تمام انبیائے الہی(ع) نے رسول خدا (ص) کے آنے کی بشارت دی ہے، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) اپنی نوعیت کے فضائل اور خصوصیات کے مالک تھے جن سے دوسرے انبیاء(ع) عاری تھے۔ اس بناپر آپ (ص) گزشتہ تمام انبیاء (ع) سے برتر ہیں۔
4۔ خدا اور ملائکہ کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کی مسلسل تکریم
پیغمبر اسلام (ع) کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ خداوند متعال نے قرآن مجید کی کئی آیات میں پیغمبر اکرم (ص) کی بہ نسبت اپنی اور اپنے ملاءکہ کی خاص محبت کا ذکر کیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے:" ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیماً۔"[19] " بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبان ایمان! تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہواور ان کے فرمان کے مقابلے میں تسلیم رہو۔"
پیغمبر اکرم (ص) کا مقام اس قدر بلند ہے کہ خالق کائنات اور خدا کے حکم سے کائنات کا تدبیر چلانے والے فرشتے آپ (ص) پر دورود بھیجتے ہیں، پس مؤمنین کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس عالمی پیغام کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ " یصلّون" کی تعبیر فعل مضارع کی صورت میں لانے کی دلیل استمرار ہے، یعنی خداوند متعال اور اس کے فرشتے مسلسل ان پر درود و سلام بھیج رہے ہیں، ایک لافانی رحمت اور درود۔[20]
یہان پر مناسب ہے کہ امام علی (ع) کی مذکورہ حدیث کے ایک اور حصہ کی طرف اشارہ کیا جائے:
یہودی عالم نے کہا: میں حضرت آدم (ع) سے شروع کرتا ہوں، خداوند متعال نے اپنے فرشتوں کو ان کے لئے سجدہ کرنے پر مجبور کیا، کیا محمد میں اس قسم کی کوئی فضیلت ہے؟!
امام نے فرمایا: ایساہی ہے، لیکن یہ بھی جان لو کہ اگر خداوند متعال نے اپنے فرشتوں کو آدم (ع) پر سجدہ کرنے کے لئے مجبور کیا، یہ سجدہ عبادت کا سجدہ نہیں تھا کہ ملائکہ حضرت آدم (ع) کی عبادت کریں، بلکہ یہ سجدہ ایک قسم کا حضرت آدم (ع) کی فضیلت کا اعتراف تھا اور خداوند متعال کی طرف سے ایک رحمت تھی۔ لیکن حضرت محمد (ص) کو اس سے برتر چیز عطا ہوئی اور خداوند متعال نے اپنے تمام فرشتوں کے ساتھ آپ (ص) پر درود بھیجا اور تمام مؤمنین پر فرض کیا کہ آپ (ص) پر صلوات بھیجیں، اور یہ فضیلت حضرت آدم (ع) کی فضیلت سے برتر ہے۔"[21]
آخر پر ہم ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے امتیازات اور برتری کی دلائل صرف مذکورہ مطالب تک محدود نہیں ہیں، بلہ ہم، عدم گنجائش کے پیش نظر خلاصہ کی رعایت کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔[22]
[1]۔«تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَهُمْ عَلى بَعْض». بقره، 253. «وَ لَقَدْ فَضَّلْنا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلى بَعْضٍ». اسراء، 55.
[2] ۔ جوادی آملی، عبدالله، سيره رسول اكرم(ص) در قرآن، ج 8، ص 17، قم، اسراء، طبع سوم، 1382ش.
[3] قمى، على بن ابراهيم، تفسير القمي، ج 1، ص 18، قم، دار الكتاب، طبع سوم، 1404ق.
[4] ۔ كلينى، محمد بن يعقوب، كافي، ج 1، ص ۱۷۵، تهران، دار الكتب الإسلامية، طبع چهارم، 1407ق.
[5]ملاحظہ ھو۔: طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج، ج 1، ص 210 و 211، مشهد، نشر مرتضى، طبع اول، 1403ق.
[6] ایضاً۔، ص 215.
[7] ۔ مائده، 48.
[8] ۔ بحرانى، سيد هاشم بن سليمان، البرهان في تفسير القرآن، ج 4، ص 872، قم، مؤسسة بعثة، طبع اول، 1374ش.
[9] ۔ ملاحظہ ھو: سيره رسولاكرم(ص) در قرآن، ص 22و 23.
[10] ۔ملاحظہ ھو: به پاسخ: 49863(جایگاه قرآن در اسلام).
[11] ۔ مجلسى، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 89، ص 19، بیروت، دار إحياء التراث العربي، طبع دوم، 1403ق.
[12] ۔ احزاب، ۴۰.
[13] ۔ آل عمران، 45.
[14] ۔ مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ ھو: پاسخ های 386(سر خاتمیت دین اسلام) و 4916(خاتمیت و پایان رسالت).
[15] ۔ ملاحظہ ھو: سيره رسولاكرم(ص) در قرآن، ج 8، ص 23- 24.
[16]۔ صف، 6.
[17]۔ ملاحظہ ھو: سيره رسولاكرم(ص) در قرآن، ج 8، ص 21.
[18] َلَمْ تَزَلِ الْأَنْبِيَاءُ تُبَشِّرُ بِمُحَمَّدٍ ص حَتَّى بَعَثَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَبَشَّرَ بِمُحَمَّدٍ ص». كلينى، محمد بن يعقوب، ج 8، ص 117.
[19]۔ احزاب، 56.
[20] ۔ مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمون، ج 17، ص 417، تهران، دار الكتب الإسلامية، طبع اول، 1374ش.
[21] ۔ الإحتجاج على أهل اللجاج، ج 1، ص 211.
[22] ۔ ملاحظہ ھو: سيره رسولاكرم(ص) در قرآن، ج 8، ص 20 - 64..
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے