Please Wait
10587
انسان ایک ذمه دار وجود هے، اور ذمه داری کا لازمه یه هے که الله کی طرف سے احکام و فرائض کو پهنچانے کے لئے ﮐﭼﻬ انبیاء اس کے پاس بھیجے جائیں ورنه ذمه داری کا کوئی مفهوم نهیں ره جائے گا۔
قرآن کریم مختلف جگھوں پر فرماتا هے که جهاں بھی کوئی قوم آباد رهی هے وهاں الله کی طرف سے ﮐﭼﻬ انبیاء ان کی هدایت کے لئے بھیجے گئے هیں۔ البته قرآن کے اندر ان میں سے صرف ﮐﭼﻬ کے نام آئے هیں جیساکه قرآن فرماتا هے: [اور وه انبیاء جن کی سرگذشت کو هم نے تمهارے لئے بیان کیا هے اور وه انبیاء جن کی سرگذشت هم نے بیان نهیں کی هے۔][i]یعنی اے نبی هم نے صرف ﮐﭼﻬ انبیاء کی سرگذشت تمهارے لئے بیان کی هے نه که سب کی۔
اس بات کی تمام دین شناسوں نے تصدیق کی هے که هر قوم کسی نه کسی دین پر رهی هے لیکن چونکه گذشته اقوام اور انبیاء کی سرگذشت کو الله دوسرے لوگوں کے لئے تربیتی استفاده کے طور پر بیان کرنا چاهتا تھا لهذا صرف مشرق وسطیٰ کے انبیاء کا ذکر فرمایا هے تاکه لوگ جاکر قرآن کی باتوں کی تصدیق کرسکتے تھے۔
الله نے انسان کو خلق کیا هے اوراس کو مختلف نعمتیں مثلا ذهن و عقل عنایت فرمائی هیں۔ اور عطا کرده نعمتوں کے ساﺗﻬ ساﺗﻬ ﮐﭼﻬ ذمه داریاں بھی اسے کاندھوں پر رکھی هیں اگرچه یه ذمه داریاں بھی خود اپنی جگه عظیم نعمتیں هیں۔
فرائض اور ذمه داریوں کا لازمه یه هے که الله کی طرف سے ﮐﭼﻬ انبیاء و رسل ان فرائض کو پهنچانے کے لئے آئیں ورنه ذمه داری کو کوئی مفهوم نهیں ره پائے گا۔
انبیائے الهی ایسے تربیت یافته انسان تھے جو الله کی طرف سے انسان کی هدایت کے لئے الهی دستورات کے ابلاغ پر مأمور تھے۔ الله کی سنت یه رهی هے که هر امت کے درمیان سے ایک نبی کو مبعوث کرے۔ جیساکه قرآن میں هے: [یقینا هم نے هر قوم میں ایک نبی کو مبعوث کیا هے][1] یه بات دوسری آیتوں میں بھی بیان هوئی هے[2]۔ لهذا یه بات مسلم هے که دنیا میں جهاں بھی کوئی قوم رهی هے وهاں ان کی هدایت کے لئے ایک نه ایک نبی آیا هے۔[3] لیکن قرآن اور معصومین کی احادیث میں ان سب کے اسماء ذکر نهیں کئے گئے هیں۔ مختصراً هماری بعض روایات میں یه آیا هے که الله نے ایک لاﮐﻬ چوبیس هزار انبیاء یا بعض میں آﭨﻬ هزار معجزے والے انبیاء مبعوث فرمائے۔[4] قرآن میں صرف پچیس انبیاء کا نام ذکر هوا هے شاید روایات میں بھی اسی کے برابر یا اس سے ﮐﭼﻬ کم هیں۔ ظاهر هے که یه تعداد کهاں اور انبیاء کے لئے ایک لاﮐﻬ چوبیس هزار یا آﭨﻬ هزار کی تعداد کهاں؟ قرآن هی میں ایک جگه هے که [هم نے بعض انبیاء کی داستان نقل کی اور بعض کی نقل نهیں کی][5] دوسری جگه پر هے که [هم نے آپ سے پهلے انبیاء بھیجے ان میں سے بعض کی داستان کو تمهارے لئے بیان کیا اور بعض کو بیان نهیں کیا…][6]۔ یه تفصیل، دین شناسوں کی اس بات کی تصدیق هوسکتی هے که هر قوم کے درمیان کوئی نه کوئی دین رها هے۔
رابرٹ هیوم نے اپنی کتاب [دنیا کے زنده ادیان] میں کها هے: [تاریخ انسانیت میں کوئی قبیله ایسا نهیں رها هے جو کسی نه کسی طرح سے دین نه رکھتا هو] ان کا کهنا هے که [دین هی [حیوانوں سے] انسانوں کا وجه امتیاز هے]۔[7] قدرتی بات هے که دنیا کے زنده اور نابود هوجانے والے ادیان میں فرق هوگا۔ وه کهتے هیں که [دنیا کے تمام زنده ادیان کی جائے پیدائش ایشیا هے]۔[8] ان کی زبانی دنیا کے مختلف علاقوں کے مرده ادیان کا ذکر کرنے سے پته چلتا هے که ایسی هر جگه پر دین الهی کے نمائنده کے طور پر انبیاء کا وجود رها هے جهاں انسانی آبادی تھی۔ وه لکھتے هیں: [… افریقا میں قدیم مصر ، اور امریکا میں مکزیک قدیم پرو کے ادیان…]۔[9]
لهذا یه مسلم هے که بهت سے انبیاء رهے هیں جن کا ذکر قرآن میں نهیں هے۔[10] اور قرآن نے صرف مشرق وسطیٰ کے انبیاء کا تذکره کیا هے اور شاید ان انبیاء کے تذکره کا مقصد ان کی سرگذشت سے لوگوں کا عبرت اور سبق لینا هے۔ کیونکه صرف انھیں کی قوموں کی تاریخ و آثار اس زمانے کی دسترس میں رهے هیں اور اس زمانے کے لوگوں کے لئے ان کی شناخت آسان تھی۔ یهی سبب هے که قرآن جهاں بھی ان انبیاء کا ذکر کرتا هے وهاں لوگوں کو انبیاء کا انکار کرنے والی قوموں کے آثار قدیمه دیکھنے کی دعوت دیتا هے اور کهتا هے: [زمین پر گھومیں پھریں اور جھٹلانے والوں کا انجام دیکھیں][11] (اور اس سے عبرت لیں) ۔ اسی وجه سے اگر جناب موسیٰ علیه السّلام کا ذکر قرآن میں زیاده آیا هے تو وه ایسی عبرت تھی جس کا ذکر هونا لوگوں کے لئے ضروری تھا اور اس کا سبب وه گفتگو اور مکالمات تھے جو اهل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان هوتے تھے۔
یه احتمال بھی دیا گیا هے که مختلف تمدن کا ظهور مشرق وسطیٰ میں هوا هے اور ماهرین آثار قدیمه نیز اقوام و ملل کی تاریخ کا مطالعه کرنے والوں کا کهنا هے که تمدن کی ابتدائی کونپلیں یهیں پھوٹی هیں۔ اس لئے انبیاء کی ضرورت اس علاقه میں رهی هے۔
البته یه بھی خیال رکھنا چاهئے که بهت سے شرائط و حالات ایک نبی کے انتخاب میں پیش نظر هوتے هیں جس کے بارے میں انبیاء کو مبعوث کرنے والا پروردگار خود بهتر جانتا هے۔ اور شاید یه بات کهی جاسکتی هے که فلسطین، جزیره عرب، مکه اور مدینه جیسی سرزمینوں پر دعوت حق قبول کرنے والے مردان الهی نے زیاده پرورش پائی هے جیساکه یونان میں فلاسفه زیاده رهے هیں۔ بهر طور یه ایک امر الهی هے اور الله اس سلسله میں سب سے زیاده دانا هے۔ بهر حال اور بهر طریق جن انبیاء کا تذکره قرآن میں آیا هے یه اس مبارک سرزمین سے تعلق رکھتے تھے اور اس میں کوئی شک نهیں هے که آج کی دنیا کے تمام بڑے ادیان نے مشرق وسطیٰ میں جنم لیا هے۔ اور صدیوں پر محیط زمانے میں انھوں نے آهسته آهسته باقی تمام ادیان کو اپنے اندر سمو لیا هے اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کو اپنے طرف دعوت دی هے۔ اگرچه آج مثلا عیسائیت کے یورپ اور امریکا میں بهت سے پیروکار هیں لیکن مسلما اس کی پیدائش مبدأ و منشأ دیگر تمام ادیان ابراهیمی کی طرح ایشیا خصوصا مشرق وسطی رها هے۔ لیکن اس کا مطلب یه نهیں هے که دنیا کے دوسرے حصوں میں انبیاء مبعوث نهیں هوئے هیں اور اگر آج ان ادیان کے علاوه دیگر ادیان کا نام و نشان نهیں ملتا تو اس کا مطلب یه نهیں هے که ان کا وجود هی نهیں تھا بلکه اگر یقینی اور حتمی تحقیق کے ذریعه ایشیا کے علاوه کهیں اور بھی کسی نبی کا اثبات هوتا هے تو یقینا اسے بھی قبول کیا جائے گا۔ آج ابتدائی قبائل یا امریکی سرخ پوستوں میں بخوبی خدا پرستی کی نشانیاں (اگرچه کمزور اور تحریف شده) نظر آرهی هیں جو که انبیائے الهی کی تعلیمات کی نشانیاں هیں۔
لهذا آغاز خلقت سے جهاں بھی انسانوں کی آبادی رهی هے وهاں الله نے شریعت کے بیان و ابلاغ کے لئے بهت سے انبیاء بھیجے هیں لیکن ان کے نام اور سرگذشت تفصیلی طور پر آسمانی کتابوں منجمله قرآن میں نهیں آئی هے اور قرآن کے اهداف کے پیش نظر یه کام ضروری بھی نهیں تھا۔
[1] نحل/۳۶
[2] فاطر/۲۴؛ اسراء/۱۵؛ طه/۱۳۴
[3] حکمت و عدل الهی کے علاوه اس کا لازمه یه هے که هر زمانے اور هر نسل میں تمام ملتوں کی هدایت بھی هے۔
[4] بحار الانوار، ج۱۱، ص۲۱، قال الطبرسی رحمه الله روی عن علی انه قال بعث الله نبیا اسود لم یقص علینا قصته و اختلف الاخبار فی عدد الانبیاء فروی فی بعضها ان عددهم مائۃ الف و اربعۃ و عشرون الفا و فی بعضها ان عددهم ثمانیۃ آلاف نبی اربعۃ آلاف من بنی اسرائیل و اربعۃ آلاف من غیرهم بآیۃ ای بمعجزۃ و دلالۃ…
[5] نساء/ ۱۶۴
[6] غافر/۷۸ وَ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِکَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْک…
[7] ادیان زنده جهان، ریبرٹ هیوم، ص۱۷
[8] ایضا، ص۳۰
[9] ایضا، ص۲۹
[10] دیکھئے: آموزش عقائد، مصباح یزدی، ص۲۳۷
[11] نحل/۳۶