Please Wait
کا
19761
19761
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/02/14
سوال کا خلاصہ
نصیریوں کے اعتقادی اصول کیا ہیں؟ شیعہ امامیہ کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے؟ اس مکتب فکر کےپیروں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ کیا ہے؟
سوال
نصیریوں کے اعتقادی اصول کیا ہیں؟ شیعہ امامیہ کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے؟ اس مکتب فکر کےپیروں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ کیا ہے؟
ایک مختصر
اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ، جو آج کل شام اور بعض دوسرے اسلامی ممالک میں پایا جاتا ہے، وہ نصیری یا علوی فرقہ ہے- ایران میں علویوں کے بارے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی ہے اور عام طور پر ان کے بارے میں وہی منفی نظریہ پایا جاتا ہے جو " ملل و نحل" لکھنے والوں نے پیش کیا ہے- حقیقت میں علوی وہی شیعہ اثنا عشری ہیں جو توحید، عدل، نبوت، امامت اور معاد کے اعتقادی اصول کے قائل ہیں اور فروع دین میں بھی یہ لوگ فقہ اثنا عشری کی پیروی کرتے ہیں-
تفصیلی جوابات
اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ، جو آج کل شام اور بعض دوسرے اسلامی ممالک میں پایا جاتا ہے، وہ نصیری یا علوی فرقہ ہے-
سعد بن عبداللہ اشعری قمی پہلے افراد میں سے ہیں، جنھوں نے نصیری فرقہ کی معرفی کی ہے- انھوں نے اپنی کتاب " المقالات و الفرق" میں ان کا یوں تعارف کیا ہے:
"علی بن محمد کی امامت کے قائل کچھ افراد، محمد بن نصیر غبری کی نبوت کے قائل ھوئے ہیں- یہ شخص دعوی کرتا تھا کہ نبی اور رسول ہے اور علی بن محمد عسکری نے اسے بھیجا ہے – وہ تناسخ [یعنی آواگون ] کا قائل تھا اور ابوالحسن کے بارے میں غلو کرتا تھا اور ان کی ربوبت کا قائل ھوا تھا- وہ محرمات کو مباح سمجھتا تھا اور مردوں کے ساتھ مردوں کے نکاح کو جائز جانتا تھا اور تصور کرتا تھا کہ یہ کام کسر نفسی ہے-[1] "
تھوڑے سے تفاوت کے ساتھ یہی مطالب نوبختی کی کتاب " فرق الشیعہ" میں بھی درج کئے گئے ہیں- اس سلسلہ میں نوبختی کی بعض عبارتیں صحیح تر لگتی ہیں، من جملہ کتاب " المقالات والفرق"، میں امام ہادی {ع} کے نام مبارک کے ساتھ " عسکری" آیا ہے، جبکہ " عسکری" گیارہویں امام کا لقب ہے اور نوبختی کی کتاب میں یہ نہیں آیا ہے-[2]
فرقہ اشاعرہ کے بانی، ابوالحسن اشعری نے ایک عبارت میں یوں لکھا ہے کہ: " رافضیوں کے ایک فرقہ کو نصیری کہتے ہیں، یہ لوگ اصحاب نصیری ہیں، اور ان کا اعتقاد ہے کہ خداوند متعال نے نصیری میں حلول کیا ہے-"[3] لیکن علوی ان کو دی گئی تمام نسبتوں کی تنقید کرتے ہیں اور انھیں مسترد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شیعیان اثنا عشری جانتے ہیں اور شیعہ اثنا عشری کے تمام عقائد کے موافق ہیں- اس سلسلہ میں کافی کتابیں بھی لکھی ہیں- ان مصنفین میں سے ایک شیخ علی عزیز ابراھیم ہیں، کہ انھوں نے علویوں کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں، اور آیت اللہ محسن حکیم، امام موسی صدر اور شیخ محمد مھدی شمس الدین جیسے شیعہ دانشووں کے ہاں رفت و آمد رکھتے تھے اور اپنی کتاب " العلویون بین الغلو والفلسفہ والتصوف و تشیع" کے مقدمہ میں مذکورہ دانشوروں کے پیغامات بھی درج کئے ہیں- وہ اپنی کتاب" العلویون فی دائرۃ الضوء" کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ قارئین اس کتاب میں دلیل و برہان کے ساتھ مندرجہ ذیل حقائق کو پائیں گے:
۱-علوی، شیعہ مسلمان اور موحد ہیں کہ خداوند متعال کو مخلوقات کی ہرگونہ شباہت سے پاک و منزہ جانتے ہیں-
۲-وہ سرورانبیاء، حضرت محمد مصطفے {ص} کی نبوت اور پیغمبر اکرم {ص} کے اہل بیت{ع} سے بارہ اماموں {ع} کی امامت کا اعتراف کرتے ہیں –
۳-وہ خالص عرب ہیں اور ان میں کوئی ایسی چیز داخل نہیں ھوئی ہے، جو انھیں خالص عرب ھونے سے خارج کردے-
۴-ان کے علوی ھونے کی وجہ گوشہ نشینی، محرومیت اور جہالت ہے-
۵-وہ دین کے عنوان سے اسلام، نسب کے عنوان سے عربیت اور مذہب کے عنوان سے تشیع کے علاوہ کسی چیز کو ان امور کا جانشین نہیں جانتے ہیں-
۶-اکثرعلوی، حلول اور تناسخ کو قبول نہیں کرتے ہیں اور ان کے صوفی بھی تجلی کے قائل ہیں،{ نہ حلول کے}-
۷-قضا وقدر کی خیر، خداوند متعال کی جانب سے ہے اور شر خود نفوس کی طرف سے ہے، وہ نہ جبر کو مانتے ہیں اور نہ تفوض کو-
۸-اہل بیت {ع} حقیقت محمدیہ {ص}کی فرع، اور خاص انسان اورمعصوم ہیں-
۹-طریقہ صوفیہ{ حنبلانیہ خصیبیہ} کوئی دین نہیں ہے-
۱۰-ان کا اصلی نام علوی ہےاور نصیریہ کا نام ان کے دشمنوں نے رکھا ہے-
کتاب" من وحی الحقیقۃ المسلمون العلویون" میں آیا ہےکہ: " شہرستانی نے شرط کی تھی کہ تمام مذاہب کے بارے میں خود ان کی کتابوں سے مطلب نقل کریں گے، لیکن علویوں کے بارے میں استناد کے بغیر ان کی کتابوں سے ان کے بارے میں کچھ مطالب کی نسبتیں دی ہیں"- مصنف، مختلف مولفین کی ۲۲ کتابوں کا نام لیتا ہے کہ ان سب کا منبع شہرستانی کی کتاب " ملل و نحل" ہے- اس کے علاوہ، علویوں کے بارے میں مطالب لکھی گئی کتابوں، من جملہ عبدالرحمن بدوی کی کتاب " مذاہب اسلامی"، پر تنقید کی ہے-[4] کتاب " النباء الیقین" کے مصنف نے بھی علویوں کے اعتقادات کو بیان کرتے ھوئے اظہار کیا ہے کہ علویوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان اختلافات جوہر {اصل} دین پر نہیں ہے اور ان کے نزدیک اصول دین وہی امامیہ مکتب فکر کے پانچ اصول دین ہیں، جو توحید، عدل، نبوت، امامت و معاد پر مشتمل ہیں-[5]
ایک کتاب ، جس میں کسی حد تک مناسب صورت میں علویوں کے اعتقادات بیان کئے گئے ہیں، وہ کتاب " اصول الدین عند شیعۃ العلویون" ہے- اس کتاب میں علویوں کے اعتقادات کو توحید اور اس کےاقسام کی بحث سے لے کر عدل، نبوت، امامت اور معاد تک کی بحث بالکل اثنا عشری مکلفین کے مانند پیش کیا گیا ہے-
اس کتاب کے مقدمہ کو مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ نے لکھا ہے، موصوف نے کتاب کی تعریف اور تمجید کے ضمن میں، کہ اس کتاب میں علویوں کے اعتقادات پر بخوبی بحث کی گئی ہے، ایک نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسرے مصنفین نے بھی اس نکتہ پر توجہ کی ہے، مثال کے طور پر ان میں سے شمس الدین ایک ہیں، جنھوں نے، علی عزیز ابراھیم کی کتاب" العلویون بین الغلو- - -" کا مقدمہ لکھا ہے- سید محمد حسین فضل اللہ لکھتے ہیں:" علویوں کے اعتقادات میں انحراف پیدا ھونے کا ایک سبب، ان کا ثقافتی مراکز سے دور ھونا اور ان پر کیا جانے والا ظلم و ستم ہے"-
ایک مصنف، جن کی کتاب کو " کتاب مرجع" کا مقام ملا ہے، وہ منیر شریف ہیں، کہ انھوں نے علویوں کے بارے میں کافی بحث کی ہے، من جملہ، علویوں کے اسی{۸۰} علماء کا ایک بیان درج کیا ہے، جس سے معلوم ھوتا ہے کہ اصول و فرع دین میں ان کے اعتقادات بالکل اثنا عشری کے مانند ہیں- اس بیان میں آیاہے کہ: تشریع کا ادلہ، قرآن، سنت، اجماع وعقل ہے اور حضرت علی {ع} کی ولایت کی شہادت اذان و اقامت کے صحیح ھونے تک ہی محدود نہیں ہے-[6]
احمد علی حسن، کتاب " المسلمون العلویون فی مواجھہ التجنی" میں، سید عبدالحسین مھدی عسکری کی کتاب " النصیریہ اوعلویون" کی تنقید کے ضمن میں، "شیعہ سنی اور مستشرقین کے مصادر میں نصیریہ" جیسے عنوان پر تقریباً سو صفحات پر بحث کی ہے-
الف-نصیری متقدمین کی نظر میں:
مصنف نے ایک مقالہ کا نام لیا ہے، جسے دروزی مذہب کے ایک موسس حمزہ بن علی نے " الرسالۃ الدامغہ فی الرد علی نصیری" کے عنوان سے لکھا ہے- عثمان بن ہاشم کے اعتقاد کے مطابق" ملل و نحل" کے مصنفین میں س پہلے شخص شہرستانی ہیں، جنھوں نے نصیری کا نام لیا ہے اور ان سے پہلے والے مصنفین نے نصریوں کے بارے میں نام تک نہیں لیا ہے- وہ بحث کو جاری رکھتے ھوئے بعض دوسرے قدیم مصنفین کے اعتقادات کو بیان کرکے بالآخر ان کا تجزیہ و تنقید کرتے ہیں-
ب-نصیری جدید مورخین کی نظر میں:
سلیمان ارضی کی کتاب" البا کورہ السلمانیہ فی کشف اسرار الدیانہ النصیریہ" جو سنہ۱۸۶۲ء میں شائع ھوئی ہے، کے بارے میں مصنف اس حصہ میں اس کتاب پر بحث و تنقید کرتا ہے- وہ اس نام کے مصنف پر بھی شک کرتا ہے-
ج-معاصر مورخین کی نظر میں نصیری:
عثمان ہاشم تیسرے حصہ میں معاصر مورخین پر بحث کرتے ھوئے انھیں پانچ گروھوں میں تقسیم کرتا ہے:
۱-وہ مورخین جنھوں نے شہرستانی کے نظریہ کو قبول کیا ہے: جیسے: علی سامی النشار نے اپنی کتاب" نشاۃ الفکر الفلسفی " میں اور کامل مصطفی شیبی نے اپنی کتاب " الصلہ بین التصوف و التشیع" میں-
۲-وہ مورخین جو نصیریوں کو اسماعیلیہ کا ایک حصہ جانتے ہیں، جیسے: کامل الغزی نے اپنی کتاب" الذھب فی التاریخ حلب و فیلیب" حتی تاریخ شام، و لبنان و فلسطین میں، عمر فروخ نے اپنی کتاب " تاریخ الفکر العربی" میں اور وہ مورخین جنھوں نے نصیریوں اور اسماعیلیوں کو آپس میں مخلوط کیا ہے، جیسے: ابوزہرہ نے اپنی کتاب" تاریخ المذاھب الاسلامیہ" میں-
۳-وہ مورخین، جنھوں نے مطالب کو متعدد منابع سے نقل کرکے مختلف اقوال کے درمیان مطالب کو جمع کیا ہے، جیسے: محمد کرد نے اپنی کتاب" خطط الشام" میں، محمد غزہ دروزہ نے اپنی کتاب " العرب و العروبہ" میں، عبدالرحمن بدوی نے اپنی کتاب " مذاھب اسلامیہ" میں اور مصطفی شکعہ نے اپنی کتاب" اسلام بلا مذاھب " میں-
۴-وہ مصنفین، جو نصریوں پر لگائے گئے تمام الزامات سے انھیں بری جانتے ہیں- جیسے: منیر شریف اپنی کتاب" العلویون من ھم واین ھم، میں، عارف الصوص اپنی کتاب " من ھوالعلوی" میں اور محمد علی الزعبی صحبی محمصان نے اپنی کتاب " فلسفۃ التشریع فی الاسلام" میں-
۵-وہ مورخین، جنھوں نے نصیریوں کے عقائد کو بعض مخطوطات سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے: عبدالحمید دجیلی اور مصطفی غالب-
عثمان ہاشم اپنی کتاب کے ایک حصہ میں بیان کرتے ہیں کہ جدید مورخین کا نظریہ، متقدمین کے اقوال کے مانند، مجہول افراد کے کلام سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کی تائید نصیریوں کی کسی کتاب سے نہیں کی گئی ہے- مثال کے طور پر شہرستانی نے وعدہ کیا تھا کہ ہر فرقہ کے مذھب کو ان کی کتابوں سے معرفی کریں گے- اور اس وعدہ کے پابند ھوں گے- فرید وجدی نے بھی " دائرۃ المعارف" میں لازقیہ کے فاضلی نامی ایک مشہور مصنف کے ایک مقالہ سے کچھ مطالب درج کئے ہیں اور یہ مقالہ روزنامہ الازہر میں شائع ھوا ہے-
اگر ہم قدیم و جدید مصنفین کے نظریات کو مدنظر رکھیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نصیری کسی خاص فرقہ یا جدید مذھب کا نام نہیں ہے- یہ نام ایک وصف ہے جو کچھ دلائل کی وجہ سےشیعہ اثنا عشریہ کو دیا گیا ہے- مصنف اپنے نظریہ کی تائید میں مختلف دلائل پیش کرتا ہے اور سرانجام علویوں کی کتابوں سے ان کے بارے میں بحث کرتا ہے-[7]
سعد بن عبداللہ اشعری قمی پہلے افراد میں سے ہیں، جنھوں نے نصیری فرقہ کی معرفی کی ہے- انھوں نے اپنی کتاب " المقالات و الفرق" میں ان کا یوں تعارف کیا ہے:
"علی بن محمد کی امامت کے قائل کچھ افراد، محمد بن نصیر غبری کی نبوت کے قائل ھوئے ہیں- یہ شخص دعوی کرتا تھا کہ نبی اور رسول ہے اور علی بن محمد عسکری نے اسے بھیجا ہے – وہ تناسخ [یعنی آواگون ] کا قائل تھا اور ابوالحسن کے بارے میں غلو کرتا تھا اور ان کی ربوبت کا قائل ھوا تھا- وہ محرمات کو مباح سمجھتا تھا اور مردوں کے ساتھ مردوں کے نکاح کو جائز جانتا تھا اور تصور کرتا تھا کہ یہ کام کسر نفسی ہے-[1] "
تھوڑے سے تفاوت کے ساتھ یہی مطالب نوبختی کی کتاب " فرق الشیعہ" میں بھی درج کئے گئے ہیں- اس سلسلہ میں نوبختی کی بعض عبارتیں صحیح تر لگتی ہیں، من جملہ کتاب " المقالات والفرق"، میں امام ہادی {ع} کے نام مبارک کے ساتھ " عسکری" آیا ہے، جبکہ " عسکری" گیارہویں امام کا لقب ہے اور نوبختی کی کتاب میں یہ نہیں آیا ہے-[2]
فرقہ اشاعرہ کے بانی، ابوالحسن اشعری نے ایک عبارت میں یوں لکھا ہے کہ: " رافضیوں کے ایک فرقہ کو نصیری کہتے ہیں، یہ لوگ اصحاب نصیری ہیں، اور ان کا اعتقاد ہے کہ خداوند متعال نے نصیری میں حلول کیا ہے-"[3] لیکن علوی ان کو دی گئی تمام نسبتوں کی تنقید کرتے ہیں اور انھیں مسترد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شیعیان اثنا عشری جانتے ہیں اور شیعہ اثنا عشری کے تمام عقائد کے موافق ہیں- اس سلسلہ میں کافی کتابیں بھی لکھی ہیں- ان مصنفین میں سے ایک شیخ علی عزیز ابراھیم ہیں، کہ انھوں نے علویوں کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں، اور آیت اللہ محسن حکیم، امام موسی صدر اور شیخ محمد مھدی شمس الدین جیسے شیعہ دانشووں کے ہاں رفت و آمد رکھتے تھے اور اپنی کتاب " العلویون بین الغلو والفلسفہ والتصوف و تشیع" کے مقدمہ میں مذکورہ دانشوروں کے پیغامات بھی درج کئے ہیں- وہ اپنی کتاب" العلویون فی دائرۃ الضوء" کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ قارئین اس کتاب میں دلیل و برہان کے ساتھ مندرجہ ذیل حقائق کو پائیں گے:
۱-علوی، شیعہ مسلمان اور موحد ہیں کہ خداوند متعال کو مخلوقات کی ہرگونہ شباہت سے پاک و منزہ جانتے ہیں-
۲-وہ سرورانبیاء، حضرت محمد مصطفے {ص} کی نبوت اور پیغمبر اکرم {ص} کے اہل بیت{ع} سے بارہ اماموں {ع} کی امامت کا اعتراف کرتے ہیں –
۳-وہ خالص عرب ہیں اور ان میں کوئی ایسی چیز داخل نہیں ھوئی ہے، جو انھیں خالص عرب ھونے سے خارج کردے-
۴-ان کے علوی ھونے کی وجہ گوشہ نشینی، محرومیت اور جہالت ہے-
۵-وہ دین کے عنوان سے اسلام، نسب کے عنوان سے عربیت اور مذہب کے عنوان سے تشیع کے علاوہ کسی چیز کو ان امور کا جانشین نہیں جانتے ہیں-
۶-اکثرعلوی، حلول اور تناسخ کو قبول نہیں کرتے ہیں اور ان کے صوفی بھی تجلی کے قائل ہیں،{ نہ حلول کے}-
۷-قضا وقدر کی خیر، خداوند متعال کی جانب سے ہے اور شر خود نفوس کی طرف سے ہے، وہ نہ جبر کو مانتے ہیں اور نہ تفوض کو-
۸-اہل بیت {ع} حقیقت محمدیہ {ص}کی فرع، اور خاص انسان اورمعصوم ہیں-
۹-طریقہ صوفیہ{ حنبلانیہ خصیبیہ} کوئی دین نہیں ہے-
۱۰-ان کا اصلی نام علوی ہےاور نصیریہ کا نام ان کے دشمنوں نے رکھا ہے-
کتاب" من وحی الحقیقۃ المسلمون العلویون" میں آیا ہےکہ: " شہرستانی نے شرط کی تھی کہ تمام مذاہب کے بارے میں خود ان کی کتابوں سے مطلب نقل کریں گے، لیکن علویوں کے بارے میں استناد کے بغیر ان کی کتابوں سے ان کے بارے میں کچھ مطالب کی نسبتیں دی ہیں"- مصنف، مختلف مولفین کی ۲۲ کتابوں کا نام لیتا ہے کہ ان سب کا منبع شہرستانی کی کتاب " ملل و نحل" ہے- اس کے علاوہ، علویوں کے بارے میں مطالب لکھی گئی کتابوں، من جملہ عبدالرحمن بدوی کی کتاب " مذاہب اسلامی"، پر تنقید کی ہے-[4] کتاب " النباء الیقین" کے مصنف نے بھی علویوں کے اعتقادات کو بیان کرتے ھوئے اظہار کیا ہے کہ علویوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان اختلافات جوہر {اصل} دین پر نہیں ہے اور ان کے نزدیک اصول دین وہی امامیہ مکتب فکر کے پانچ اصول دین ہیں، جو توحید، عدل، نبوت، امامت و معاد پر مشتمل ہیں-[5]
ایک کتاب ، جس میں کسی حد تک مناسب صورت میں علویوں کے اعتقادات بیان کئے گئے ہیں، وہ کتاب " اصول الدین عند شیعۃ العلویون" ہے- اس کتاب میں علویوں کے اعتقادات کو توحید اور اس کےاقسام کی بحث سے لے کر عدل، نبوت، امامت اور معاد تک کی بحث بالکل اثنا عشری مکلفین کے مانند پیش کیا گیا ہے-
اس کتاب کے مقدمہ کو مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ نے لکھا ہے، موصوف نے کتاب کی تعریف اور تمجید کے ضمن میں، کہ اس کتاب میں علویوں کے اعتقادات پر بخوبی بحث کی گئی ہے، ایک نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسرے مصنفین نے بھی اس نکتہ پر توجہ کی ہے، مثال کے طور پر ان میں سے شمس الدین ایک ہیں، جنھوں نے، علی عزیز ابراھیم کی کتاب" العلویون بین الغلو- - -" کا مقدمہ لکھا ہے- سید محمد حسین فضل اللہ لکھتے ہیں:" علویوں کے اعتقادات میں انحراف پیدا ھونے کا ایک سبب، ان کا ثقافتی مراکز سے دور ھونا اور ان پر کیا جانے والا ظلم و ستم ہے"-
ایک مصنف، جن کی کتاب کو " کتاب مرجع" کا مقام ملا ہے، وہ منیر شریف ہیں، کہ انھوں نے علویوں کے بارے میں کافی بحث کی ہے، من جملہ، علویوں کے اسی{۸۰} علماء کا ایک بیان درج کیا ہے، جس سے معلوم ھوتا ہے کہ اصول و فرع دین میں ان کے اعتقادات بالکل اثنا عشری کے مانند ہیں- اس بیان میں آیاہے کہ: تشریع کا ادلہ، قرآن، سنت، اجماع وعقل ہے اور حضرت علی {ع} کی ولایت کی شہادت اذان و اقامت کے صحیح ھونے تک ہی محدود نہیں ہے-[6]
احمد علی حسن، کتاب " المسلمون العلویون فی مواجھہ التجنی" میں، سید عبدالحسین مھدی عسکری کی کتاب " النصیریہ اوعلویون" کی تنقید کے ضمن میں، "شیعہ سنی اور مستشرقین کے مصادر میں نصیریہ" جیسے عنوان پر تقریباً سو صفحات پر بحث کی ہے-
الف-نصیری متقدمین کی نظر میں:
مصنف نے ایک مقالہ کا نام لیا ہے، جسے دروزی مذہب کے ایک موسس حمزہ بن علی نے " الرسالۃ الدامغہ فی الرد علی نصیری" کے عنوان سے لکھا ہے- عثمان بن ہاشم کے اعتقاد کے مطابق" ملل و نحل" کے مصنفین میں س پہلے شخص شہرستانی ہیں، جنھوں نے نصیری کا نام لیا ہے اور ان سے پہلے والے مصنفین نے نصریوں کے بارے میں نام تک نہیں لیا ہے- وہ بحث کو جاری رکھتے ھوئے بعض دوسرے قدیم مصنفین کے اعتقادات کو بیان کرکے بالآخر ان کا تجزیہ و تنقید کرتے ہیں-
ب-نصیری جدید مورخین کی نظر میں:
سلیمان ارضی کی کتاب" البا کورہ السلمانیہ فی کشف اسرار الدیانہ النصیریہ" جو سنہ۱۸۶۲ء میں شائع ھوئی ہے، کے بارے میں مصنف اس حصہ میں اس کتاب پر بحث و تنقید کرتا ہے- وہ اس نام کے مصنف پر بھی شک کرتا ہے-
ج-معاصر مورخین کی نظر میں نصیری:
عثمان ہاشم تیسرے حصہ میں معاصر مورخین پر بحث کرتے ھوئے انھیں پانچ گروھوں میں تقسیم کرتا ہے:
۱-وہ مورخین جنھوں نے شہرستانی کے نظریہ کو قبول کیا ہے: جیسے: علی سامی النشار نے اپنی کتاب" نشاۃ الفکر الفلسفی " میں اور کامل مصطفی شیبی نے اپنی کتاب " الصلہ بین التصوف و التشیع" میں-
۲-وہ مورخین جو نصیریوں کو اسماعیلیہ کا ایک حصہ جانتے ہیں، جیسے: کامل الغزی نے اپنی کتاب" الذھب فی التاریخ حلب و فیلیب" حتی تاریخ شام، و لبنان و فلسطین میں، عمر فروخ نے اپنی کتاب " تاریخ الفکر العربی" میں اور وہ مورخین جنھوں نے نصیریوں اور اسماعیلیوں کو آپس میں مخلوط کیا ہے، جیسے: ابوزہرہ نے اپنی کتاب" تاریخ المذاھب الاسلامیہ" میں-
۳-وہ مورخین، جنھوں نے مطالب کو متعدد منابع سے نقل کرکے مختلف اقوال کے درمیان مطالب کو جمع کیا ہے، جیسے: محمد کرد نے اپنی کتاب" خطط الشام" میں، محمد غزہ دروزہ نے اپنی کتاب " العرب و العروبہ" میں، عبدالرحمن بدوی نے اپنی کتاب " مذاھب اسلامیہ" میں اور مصطفی شکعہ نے اپنی کتاب" اسلام بلا مذاھب " میں-
۴-وہ مصنفین، جو نصریوں پر لگائے گئے تمام الزامات سے انھیں بری جانتے ہیں- جیسے: منیر شریف اپنی کتاب" العلویون من ھم واین ھم، میں، عارف الصوص اپنی کتاب " من ھوالعلوی" میں اور محمد علی الزعبی صحبی محمصان نے اپنی کتاب " فلسفۃ التشریع فی الاسلام" میں-
۵-وہ مورخین، جنھوں نے نصیریوں کے عقائد کو بعض مخطوطات سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے: عبدالحمید دجیلی اور مصطفی غالب-
عثمان ہاشم اپنی کتاب کے ایک حصہ میں بیان کرتے ہیں کہ جدید مورخین کا نظریہ، متقدمین کے اقوال کے مانند، مجہول افراد کے کلام سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کی تائید نصیریوں کی کسی کتاب سے نہیں کی گئی ہے- مثال کے طور پر شہرستانی نے وعدہ کیا تھا کہ ہر فرقہ کے مذھب کو ان کی کتابوں سے معرفی کریں گے- اور اس وعدہ کے پابند ھوں گے- فرید وجدی نے بھی " دائرۃ المعارف" میں لازقیہ کے فاضلی نامی ایک مشہور مصنف کے ایک مقالہ سے کچھ مطالب درج کئے ہیں اور یہ مقالہ روزنامہ الازہر میں شائع ھوا ہے-
اگر ہم قدیم و جدید مصنفین کے نظریات کو مدنظر رکھیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نصیری کسی خاص فرقہ یا جدید مذھب کا نام نہیں ہے- یہ نام ایک وصف ہے جو کچھ دلائل کی وجہ سےشیعہ اثنا عشریہ کو دیا گیا ہے- مصنف اپنے نظریہ کی تائید میں مختلف دلائل پیش کرتا ہے اور سرانجام علویوں کی کتابوں سے ان کے بارے میں بحث کرتا ہے-[7]
[1] - سعدبن عبدالله ابی خلف الاشعری القمی، المقالات و الفرق، ص 100، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، 1360..
[2] - ابی محمد حسن بن موسی نوبختی، فرق الشیعه، ص 93، المطبعه الحیدریه، النجف، 1936م- 1355..
[3] - ابی الحسن علی بن اسماعیل الاشعری، مقالات الاسلامیین، ص 15، تصحیح هلموت ریتر، النشرات الاسلامیه یصدرها جمعیه المستشرقین الالمانیه..( تمام نظریات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے اصلی مقالہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے )
[4] - حسین محمد المظلوم، من وحی الحقیقه، ص 269 ـ 369، جزء اول، طبع اول، 1999م ـ 1420.
[5] - محمود الصالح، النبأ الیقین عن العلویین، مؤسسه البلاغ، الطبعه الثانیه، بیروت، 1987م ـ 1407.
[6] - منیر شریف، المسلمون العلویون من هم و این هم، ص 9 ـ 30.
[7] - مقاله دکتر قاسم جوادی (عضو هیات علمی جامعه المصطفی العالمیه و مرکز تحقیقات ادیان).سے اقتباس -
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے