اعلی درجے کی تلاش
کا
12567
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2008/11/08
 
سائٹ کے کوڈ fa665 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 3466
سوال کا خلاصہ
جو سود بینک سے لیا جاتا ھے ۔ اس کا کیا حکم ھے ؟ کیا اسلامی ملکوں کے بینکوں اور غیر اسلامی بنکوں سے سود لینے میں فرق ھے؟
سوال
میں نے سنا ھے کھ سود لینا ایک بھت بڑا گناه ھے ۔ اب میں یھ جاننا چاھتا ھوں کھ کیا سود لینا بنکوں سے جائز ھے؟ یا چونکھ میں ایک غیر اسلامی ملک میں رھتا ھوں اس میں کوئی اشکال نھیں ھے؟ اسی طرح کریڈٹ کارڈ جس کیلئے بھت ھی سود دیا جاتا ھے اس کا کیا حکم ھے؟
ایک مختصر

غیر اسلامی ممالک کے بنکوں کے بارے میں حضرت آیۃ اللھ العظمی سید علی خامنھ ای ( مد ظلھ العالی ) کا فتوی یوں ھے:

الف) سود دینا حرام ھے ، یعنی بینک سے قرض لینا اس شرط کے ساتھه کھ زیاده پیسھ واپس کیا جائے گا یھ حرام ھے۔ مگر یھ کھ اس کو اتنی ضرورت ھو جو حرام کے ارتکاب کو جائز کرے۔ البتھ ایک شخص حرام سے بچنے کیلئے زیاده پیسھ دینے کا قصد نھ کرے اگر چھ وه  جانتا ھو کھ بینک اس سے لے گا۔[1]

ب) غیر اسلامی ممالک کے بینکوں سے سود لینا جائز ھے ۔[2]

کریڈٹ کارڈ کے بارے میں حضرت آ یۃ اللھ العظمی سید علی خامنھ ای کا فتوی یوں ھے:

جو پیسھ اکونٹ میں موجود ھے اور استعمال کرتے وقت اسے اٹھاتے ھیں اس میں کوئی اشکال نھیں لیکن جو رقم اکونٹ میں پیسھ موجود ھونے کے بغیر آپ کو دی جاتی ھے اگر وه قرض کے عنوان سے ھے اس پر سود لیتے ھیں ، تو قرض کی اصلی مقدار صحیح لیکن اس سے زیاده ربا اور حرام ھے۔ [3]



[1]  توضیح المسائل مراجع ، ج ۲ ص ۹۳۵۔ ص ۱۹۱۱۔

[2]  ایضا ً ص ۹۳۶ ، ص ۱۹۱۷

[3]  پاسخ دفتر رھبری بھ سوال ۳۶۹۔ ، عنوان : کارتھای اعتباری و ربای بانکی۔

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا