Please Wait
کا
7919
7919
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/02/06
سائٹ کے کوڈ
id23187
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
53667
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
شیعوں کی روایتوں میں آیا ہے کہ، امام تمام دنیا کی زبانوں اور لہجوں پر مسلط ھوتے ہیں۔ کیا ایسی چیز قابل یقین ہے؟ بالفرض، اگر ہم اسے قبول بھی کریں، تو ابوہریرہ جیسے افراد پر کیوں نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ اس نے کیسے کئئ ہزار روایتیں نقل کی ہیں؟
سوال
شیعوں کی روایتوں میں آیا ہے کہ امام حسن﴿ع﴾ نے فرمایا ہے:“ خداوند متعال کے دوشہر ہیں، ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہے۔ ہر شہر میں سات کروڑ قومیں ہیں اور ہر قوم کے افراد مختلف زبان میں بات کرتے ہیں، اور میں ان تمام زبانوں کو جانتا ھوں۔” کیا امام حسن ﴿ع﴾ سات کروڑ زبانوں میں بات کرتے تھے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ اگر ایسا ہے تو بعض افراد کیوں فریاد بلند کرکے تعجب کرتے ہیں کہ ابوہریرہ نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ سے کیسے چھ ہزار روایتیں نقل کی ہیں، اور امام حسن ﴿ع﴾ کے بارے میں یقین رکھتے ہیں؟
ایک مختصر
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام نے، عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں گفتگو کی ہے اور مختلف زبانیں جانتے تھے۔ البتہ انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی مختلف زبانوں کے بارے میں آشنائی کے لئے روایت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ علم الہی کے مالک ھوتے ہیں، اس معنی میں کہ وہ اصلی علم، یعنی خداوند متعال سے متصل ھوتے ہیں اور اپنے علوم کوبراہ راست اسی سے حاصل کرتے ہیں۔ ان وضاحتوں کے پیش نظر دوسرے سوال کا جواب بھی مشخص ھوتا ہے، کیونکہ ہمارا اعتقاد ہے کہ امام، علم الہی کی بناء پر ان زبانوں سے واقف ہیں، نہ یہ کہ کسی کے درس میں شرکت کرکے ان زبانوں کو سیکھا ھو یا یہ کہ کسی دوسرے شخص سے سن کر یاد کیا ھو۔ اس کے مقابلے میں ابوہریرہ بیان کرتا تھا کہ اس نے ان روایتوں کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اور پھر انھیں حفظ کیا ہے، اور یہ موضوع، ہمارے لئے ان کی روایتوں پر بھروسہ کرنے میں خدشہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ابوہریرہ کی شخصیت بھی کوئی قابل اعتماد شخصیت نہیں تھی اور اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تفصیلی جوابات
شیعوں کی روایتوں کی کتابوں میں یوں آیا ہے:
ابو بصیر کہتے ہیں:“ میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہا: آپ پر قربان ھوجاؤں! امام کو پہچاننے کی کیا نشانیاں ہیں؟ امام کاظم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:“ امام کو چند خصوصیات سے پہچانا جاسکتا ہے:
١۔ اس چیز سے کہ اس کے باپ نے اس کے بارے میں﴿ نص کے مانند یا اسے علم امامت حوالہ کرنے کا﴾ اشارہ کیا ھو، تاکہ وہ امامت کی دلیل بن جائے۔
۲۔ جو کچھ اس سے پوچھا جائے، اس کا جواب دے اور اگر اس کے سامنے خاموش رہیں، وہ خود کلام کو شروع کرے۔
۳۔ مسقبل کی پیشنگوئی کرسکے۔
۴۔ دنیا کے لوگوں کے ساتھ ہر زبان میں بات کرسکے اور ہر زبان کو جاننے والا مترجم کے بغیر اس سے بات کرسکے۔ اس کے بعد امام ﴿ع﴾ نے فرمایا: اے ابا محمد!تیرے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے میں تجھے ایک نشانی دکھا دوں گا۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ اہل خراسان میں سے ایک شخص مجلس میں داخل ھوا اور اس خراسانی نے امام ﴿ع﴾ کے ساتھ عربی میں بات کی، لیکن امام ﴿ع﴾ نے اس کا جواب فارسی میں دیا۔ خراسانی نے کہا: میں آپ ﴿ع﴾ پر قربان ھوجاؤں! خدا کی قسم مجھے آپ ﴿ع﴾ کے ساتھ فارسی میں بات کرنے میں روکاوٹ صرف یہ تھی کہ، شائد آپ ﴿ع﴾ فارسی زبان کو اچھی طرح نہ جانتے ھوں۔ امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا: سبحان اللہ! اگر میں تیرا جواب فارسی میں نہ دے سکوں، تو مجھے تجھ پر کیا فضیلت ہے؟ اس کے بعد میری طرف مخاطب ھوکر فرمایا: اے ابا محمد! بیشک امام کے لئے کسی کی زبان پوشیدہ نہیں ہے نہ پرندوں اور جانوروں کی زبان اور نہ روح رکھنے والے جانداروں کی زبان اس سے پوشیدہ ہے ۔ جس کی یہ خصوصیات نہ ھوں، وہ امام نہیں ہے”۔[1]
اسی مضمون کی دوسری روایتیں بھی پائی جاتی ہیں:
الف﴾ اصل روایت، یوں نقل کی گئی ہے کہ:“ امام حسن ﴿ع﴾نے فرمایا:“ خداوند متعال کے دو شہر ہیں، ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہے۔ ان شہروں کے ارد گرد لوہے کی دیواریں ہیں اور ان شہروں میں سے ہر ایک کے دس لاکھ دروازے ہیں اور وہاں پر سات کروڑ زبانوں میں بات کی جاتی ہے۔ ہر ایک زبان میں گفتگو دوسری زبان سے مختلف ہے اور میں ان سب زبانوں اور ان دو شہروں میں موجود ہرچیز کے بارے میں علم رکھتا ھوں اور ان کے لئے میرے اور میرے بھائی حسین ﴿ع﴾ کے علاوہ کوئی حجت نہیں ہے۔”[2]
ب﴾خراسان کے باشندوں میں سے چند افراد امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے۔ امام ﴿ع نے ان کی طرف سے گفتگو شروع ھونے سے پہلے ان کے ساتھ عربی میں فرمایا:“ «مَنْ جَمَعَ مَالًا يَحْرُسُهُ عَذَّبَهُ اللَّهُ عَلَى مِقْدَارِه»﴿ جوکوئی دولت کی ذخیرہ اندوزی کرے خدا اسی مقدار میں اسے عذاب کرے گا﴾۔ خراسانیوں نے جواب میں کہا: آقا! ہم نہیں سمجھے، ہم عربی نہیں جانتے ہیں۔ امام ﴿ع﴾ نے فارسی میں فرمایا:“ جوکوئی ذخیرہ اندوزی کرے اس کی جزا جہنم ہے” اس کے بعد فرمایا: خداوند متعال نے دو شہر خلق کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک مغرب میں اور دوسرا مشرق میں ہے، ہر شہر کی آبادی ستر ہزار افراد پر مستمل ہے۔ ہر شہر کے لوہے کی دیواریں ہیں اور ان میں سونے کے دس لاکھ دروازے ہیں، اور ہر دروازے کے دو مصراع﴿hemistitch﴾ ہیں۔ ان ستر ہزار باشندوں کی مختلف زبانیں اور لہجے ہیں کہ میں ان کی تمام زبانیں اور لہجے جانتا ھوں۔ ان دو شہروں اور ان کے علاوہ دوسرے شہروں میں میرے، میرے والدین اور میری اولاد کے علاوہ خدا کی طرف سے کوئی حجت نہیں ہے۔”[3]
اب، مذکورہ سوال کے جواب کے سلسلہ میں بیان شدہ روایتوں کے پیش نظر مندرجہ ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
١۔ انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام الہی علم کے مالک ھوتے ہیں اور علم کے اصلی منبع یعنی خداوند متعال سے متصل ھوتے ہیں اوراپنے علوم کو براہ راست خداوند متعال سے حاصل کرتے ہیں۔[4] اس بنا پر اماموں نے مختلف مواقع پر حسب ضرورت مختلف زبانوں سے استفادہ کیا ہے۔ اس امر کو ثابت کرنے کے لئے روایت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اصل امامت اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے الہی علم کو قبول کرنے سے اس امر کا یقین پیدا ھوسکتا ہے۔
۲۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کا ان زبانوں سے آشنا ھونا اس معنی میں نہیں ہے کہ تمام دنیا کی زبانیں ان کے دل میں موجود ہیں، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے بارے میں ایک کلیات ان کے ذہن میں موجود ہے اور ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ جیسے ایک کمپیوٹر پر مختلف زبانیں نصب ھوتی ہیں اور ضرورت کے مطابق ہر زبان سے استفادہ جاتا ہے اسی طرح ائمہ اطہار علیہم السلام بھی ضرورت کے وقت ان زبانوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی روایت میں امام ﴿ع﴾ کے مخاطب عربی زبان سے آشنا نہیں تھے اور دوسری روایت میں امام ﴿ع﴾ نے اس علم سے اپنی امامت کے بارے میں شاہد کے عنوان سے استفادہ کیا۔
۳۔ اگر ہم زیر بحث روایت کی سند کو قبول کریں، تو اس سلسلہ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس تعداد میں شہروں اور زبانوں کا بیان کثرت کے معنی میں ہے، جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلی ھوئی ہیں اور امام ﴿ع﴾ نے علم لدنی سے ان کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے۔ اس بنا پر اگر زبانوں اور لہجوں کی تعداد اس سے کم یا زیادہ بھی ھو، امام ﴿ع﴾ کے کلام پر کوئی نقص وارد نہیں ہے۔
۴۔ یہ وضاحتیں دوسرے سوال کے جواب کوبھی مشخص کرتی ہیں۔ ابوہریرہ کہتا تھا کہ، جو احادیث اس نے نقل کی ہیں، انھیں اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں، اور اس کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی مختصر مدت کے پیش نظران کی یہ بات مطابقت نہیں رکھتی ہے اور خلاف حقیقت ہے اور یہ تنقید زیربحث روایت کے لئے کوئی نقص نہیں ہے، کیونکہ شیعوں کے اعتقاد کے مطابق امام اپنے الہی علم کی بنا پر ان زبانوں سے آشنا ہیں، نہ یہ کہ انھوں نے کسی کلاس میں شرکت کی ھو اوران زبانوں کو سکھا ھو یا کہ کسی دوسرے سے سن کر ان کو یاد کیا ھو۔ اس کے برعکس ابو ہریرہ کہتا تھا کہ اس نے روایتوں کی یہ تعداد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں اور سننے کے بعد انھیں حفظ کیا ہے اور اس کا یہ دعوی اس کی بعض روایتوں پر اعتماد کو خدشہ دار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ابو ہریرہ کی شخصیت بھی قابل اعتماد نہیں ہے اور اس کی تمام روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ [5]
ابو بصیر کہتے ہیں:“ میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہا: آپ پر قربان ھوجاؤں! امام کو پہچاننے کی کیا نشانیاں ہیں؟ امام کاظم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:“ امام کو چند خصوصیات سے پہچانا جاسکتا ہے:
١۔ اس چیز سے کہ اس کے باپ نے اس کے بارے میں﴿ نص کے مانند یا اسے علم امامت حوالہ کرنے کا﴾ اشارہ کیا ھو، تاکہ وہ امامت کی دلیل بن جائے۔
۲۔ جو کچھ اس سے پوچھا جائے، اس کا جواب دے اور اگر اس کے سامنے خاموش رہیں، وہ خود کلام کو شروع کرے۔
۳۔ مسقبل کی پیشنگوئی کرسکے۔
۴۔ دنیا کے لوگوں کے ساتھ ہر زبان میں بات کرسکے اور ہر زبان کو جاننے والا مترجم کے بغیر اس سے بات کرسکے۔ اس کے بعد امام ﴿ع﴾ نے فرمایا: اے ابا محمد!تیرے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے میں تجھے ایک نشانی دکھا دوں گا۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ اہل خراسان میں سے ایک شخص مجلس میں داخل ھوا اور اس خراسانی نے امام ﴿ع﴾ کے ساتھ عربی میں بات کی، لیکن امام ﴿ع﴾ نے اس کا جواب فارسی میں دیا۔ خراسانی نے کہا: میں آپ ﴿ع﴾ پر قربان ھوجاؤں! خدا کی قسم مجھے آپ ﴿ع﴾ کے ساتھ فارسی میں بات کرنے میں روکاوٹ صرف یہ تھی کہ، شائد آپ ﴿ع﴾ فارسی زبان کو اچھی طرح نہ جانتے ھوں۔ امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا: سبحان اللہ! اگر میں تیرا جواب فارسی میں نہ دے سکوں، تو مجھے تجھ پر کیا فضیلت ہے؟ اس کے بعد میری طرف مخاطب ھوکر فرمایا: اے ابا محمد! بیشک امام کے لئے کسی کی زبان پوشیدہ نہیں ہے نہ پرندوں اور جانوروں کی زبان اور نہ روح رکھنے والے جانداروں کی زبان اس سے پوشیدہ ہے ۔ جس کی یہ خصوصیات نہ ھوں، وہ امام نہیں ہے”۔[1]
اسی مضمون کی دوسری روایتیں بھی پائی جاتی ہیں:
الف﴾ اصل روایت، یوں نقل کی گئی ہے کہ:“ امام حسن ﴿ع﴾نے فرمایا:“ خداوند متعال کے دو شہر ہیں، ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہے۔ ان شہروں کے ارد گرد لوہے کی دیواریں ہیں اور ان شہروں میں سے ہر ایک کے دس لاکھ دروازے ہیں اور وہاں پر سات کروڑ زبانوں میں بات کی جاتی ہے۔ ہر ایک زبان میں گفتگو دوسری زبان سے مختلف ہے اور میں ان سب زبانوں اور ان دو شہروں میں موجود ہرچیز کے بارے میں علم رکھتا ھوں اور ان کے لئے میرے اور میرے بھائی حسین ﴿ع﴾ کے علاوہ کوئی حجت نہیں ہے۔”[2]
ب﴾خراسان کے باشندوں میں سے چند افراد امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے۔ امام ﴿ع نے ان کی طرف سے گفتگو شروع ھونے سے پہلے ان کے ساتھ عربی میں فرمایا:“ «مَنْ جَمَعَ مَالًا يَحْرُسُهُ عَذَّبَهُ اللَّهُ عَلَى مِقْدَارِه»﴿ جوکوئی دولت کی ذخیرہ اندوزی کرے خدا اسی مقدار میں اسے عذاب کرے گا﴾۔ خراسانیوں نے جواب میں کہا: آقا! ہم نہیں سمجھے، ہم عربی نہیں جانتے ہیں۔ امام ﴿ع﴾ نے فارسی میں فرمایا:“ جوکوئی ذخیرہ اندوزی کرے اس کی جزا جہنم ہے” اس کے بعد فرمایا: خداوند متعال نے دو شہر خلق کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک مغرب میں اور دوسرا مشرق میں ہے، ہر شہر کی آبادی ستر ہزار افراد پر مستمل ہے۔ ہر شہر کے لوہے کی دیواریں ہیں اور ان میں سونے کے دس لاکھ دروازے ہیں، اور ہر دروازے کے دو مصراع﴿hemistitch﴾ ہیں۔ ان ستر ہزار باشندوں کی مختلف زبانیں اور لہجے ہیں کہ میں ان کی تمام زبانیں اور لہجے جانتا ھوں۔ ان دو شہروں اور ان کے علاوہ دوسرے شہروں میں میرے، میرے والدین اور میری اولاد کے علاوہ خدا کی طرف سے کوئی حجت نہیں ہے۔”[3]
اب، مذکورہ سوال کے جواب کے سلسلہ میں بیان شدہ روایتوں کے پیش نظر مندرجہ ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
١۔ انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام الہی علم کے مالک ھوتے ہیں اور علم کے اصلی منبع یعنی خداوند متعال سے متصل ھوتے ہیں اوراپنے علوم کو براہ راست خداوند متعال سے حاصل کرتے ہیں۔[4] اس بنا پر اماموں نے مختلف مواقع پر حسب ضرورت مختلف زبانوں سے استفادہ کیا ہے۔ اس امر کو ثابت کرنے کے لئے روایت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اصل امامت اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے الہی علم کو قبول کرنے سے اس امر کا یقین پیدا ھوسکتا ہے۔
۲۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کا ان زبانوں سے آشنا ھونا اس معنی میں نہیں ہے کہ تمام دنیا کی زبانیں ان کے دل میں موجود ہیں، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے بارے میں ایک کلیات ان کے ذہن میں موجود ہے اور ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ جیسے ایک کمپیوٹر پر مختلف زبانیں نصب ھوتی ہیں اور ضرورت کے مطابق ہر زبان سے استفادہ جاتا ہے اسی طرح ائمہ اطہار علیہم السلام بھی ضرورت کے وقت ان زبانوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی روایت میں امام ﴿ع﴾ کے مخاطب عربی زبان سے آشنا نہیں تھے اور دوسری روایت میں امام ﴿ع﴾ نے اس علم سے اپنی امامت کے بارے میں شاہد کے عنوان سے استفادہ کیا۔
۳۔ اگر ہم زیر بحث روایت کی سند کو قبول کریں، تو اس سلسلہ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس تعداد میں شہروں اور زبانوں کا بیان کثرت کے معنی میں ہے، جو دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلی ھوئی ہیں اور امام ﴿ع﴾ نے علم لدنی سے ان کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے۔ اس بنا پر اگر زبانوں اور لہجوں کی تعداد اس سے کم یا زیادہ بھی ھو، امام ﴿ع﴾ کے کلام پر کوئی نقص وارد نہیں ہے۔
۴۔ یہ وضاحتیں دوسرے سوال کے جواب کوبھی مشخص کرتی ہیں۔ ابوہریرہ کہتا تھا کہ، جو احادیث اس نے نقل کی ہیں، انھیں اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں، اور اس کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی مختصر مدت کے پیش نظران کی یہ بات مطابقت نہیں رکھتی ہے اور خلاف حقیقت ہے اور یہ تنقید زیربحث روایت کے لئے کوئی نقص نہیں ہے، کیونکہ شیعوں کے اعتقاد کے مطابق امام اپنے الہی علم کی بنا پر ان زبانوں سے آشنا ہیں، نہ یہ کہ انھوں نے کسی کلاس میں شرکت کی ھو اوران زبانوں کو سکھا ھو یا کہ کسی دوسرے سے سن کر ان کو یاد کیا ھو۔ اس کے برعکس ابو ہریرہ کہتا تھا کہ اس نے روایتوں کی یہ تعداد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہیں اور سننے کے بعد انھیں حفظ کیا ہے اور اس کا یہ دعوی اس کی بعض روایتوں پر اعتماد کو خدشہ دار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ابو ہریرہ کی شخصیت بھی قابل اعتماد نہیں ہے اور اس کی تمام روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ [5]
[1] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 285، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ق؛ مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، محقق و مصحح: رسولی، سید هاشم، ج 3، ص 208، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع دوم، 1404ق.
[2] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 462، دار الکتب الإسلامیة، تهران، چاپ چهارم، 1407ق: « َ: إِنَّ لِلَّهِ مَدِينَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا بِالْمَشْرِقِ وَ الْأُخْرَى بِالْمَغْرِبِ عَلَيْهِمَا سُورٌ مِنْ حَدِيدٍ وَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَلْفُ أَلْفِ مِصْرَاعٍ وَ فِيهَا سَبْعُونَ أَلْفَ أَلْفِ لُغَةٍ يَتَكَلَّمُ كُلُّ لُغَةٍ بِخِلَافِ لُغَةِ صَاحِبِهَا وَ أَنَا أَعْرِفُ جَمِيعَ اللُّغَاتِ وَ مَا فِيهِمَا وَ مَا بَيْنَهُمَا وَ مَا عَلَيْهِمَا حُجَّةٌ غَيْرِي وَ غَيْرُ الْحُسَيْنِ أَخِي».
[3] ۔ قطب الدین راوندی، سعید بن عبد اللّٰه، الخرائج و الجرائح، ج 2، ص 753، مؤسسه امام مهدی(ع)، قم، طبع اول، 1409ق؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 47، ص 119، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، طبع دوم، 1403ق.
[5] ۔ مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ھو: 973؛ شخصیت ابوهریره از دیدگاه صحابه
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے