Please Wait
کا
20657
20657
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/04/18
سوال کا خلاصہ
اس روایت کے کیا معنی ہیں کہ: " جس نے اپنے نفس کو پہچانا وہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے- " جبکہ تمام انسان جسم اور روح سے پیدا کئے گئے ہیں؟
سوال
اس روایت کے کیا معنی ہیں کہ: " جس نے اپنے نفس کو پہچانا وہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے- " جبکہ تمام انسان جسم اور روح سے پیدا کئے گئے ہیں؟
ایک مختصر
نفس کے مفہوم اور اس کے بدن سے رابطہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال نمبر ۳۵۱۵۰{ حقیقت نفس} اور سوال نمبر ۳۲۵۰{ رابطہ روح و نفس} کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-
لیکن مذکورہ سوال میں ذکر کئی گئی حدیث کے معنی کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہے- پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا ہے:" جس نے اپنے آپ کو پہچانا وہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے-"[1]
اسلامی دانشوروں اور علماء نے اس حدیث شریف { من عرف نفسہ عرف ربہ} کے معنی کے بارے میں متعدد احتمالات بیان کئے ہیں - بعض علماء نے اس کے سلبی اور امتناعی معنی لئے ہیں، یعنی جس طرح نفس کی شناخت ممکن نہیں ہے، اسی طرح خدا کی شناخت بھی ممکن نہیں ہے- وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی بعض آیات بھی گواہ ہیں، کیونکہ ایک جگہ پر ارشاد الہی ہے کہ:" اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہدیجئے کہ یہ میرے پرودگار کا ایک امر ہے اور تمھیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے-"[2] اور ایک دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے:" پھر جب مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح حیات پھونک دوں تو سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا-"[3] اس بناء پر چونکہ خدا کی روح قابل شناخت نہیں ہے، اس لئے انسان بھی جو خدا کی روح سے پیدا کیا گیا ہے، قابل شناخت نہیں ہے- خاص کر جب فرمایا ہے کہ" تمھیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے-"
لیکن اکثر علماء اس حدیث شریف کے اثباتی معنی لیتے ہیں، یعنی اپنے نفس کو پہچاننا خداوند متعال کو پہچاننے کا وسیلہ ہے-اس حدیث شریف کے اثباتی معنی کے بارے میں بھی بعض علماء نے کہا ہے کہ نفس کی معرفت، خدا کی معرفت کی دلیل ہے، مخالفت کے طریقہ سے ، نہ موافقت کے طریقہ سے، یعنی جو شخص اپنے نفس کو اس میں تبدیلی، فنا، نقصان اور نیازمندی سے پہچان لے وہ اپنے پروردگار کو دائم، بقا، کمال اور بے نیازی سے پہچانتا ہے-[4] شائد امام صادق{ع} کی یہ روایت ان ہی معنی کی تائید کرتی ھو، کہ آپ {ع} نے فرمایا ہے:" عبودیت ایک گوہر ہے کہ اس کی اصل ربوبیت ہے اور عبد جو کچھ عبودیت میں کھو دیتا ہے وہ اسے ربوبیت میں پاتا ہے-[5] کیونکہ بعض اہل معرفت، سیر وسلوک کے باب میں اس کے قائل ہیں کہ سیر و سلوک کی تمام راہوں کی منزل ایک کے علاوہ کچھ نہیں ہے-
"برخود قدم نہ تا بہ خدا برسی-"[6] { اپنے آپ پر قدم رکھنا تاکہ خدا تک پہنچ جاو گے}
بعض علماء نے موافقت کے طریقہ سے اس کے معنی لئے ہیں، اس بنا پر بھی کچھ دلائل پیش کئے گئے ہیں- بعض دانشوروں نے کہا ہے کہ چونکہ انسان خدا کی روح سے پیدا کیا گا ہے:" ونفخت فیہ من روحی"[7] لہذا انسان کے نفس کی پہچان خدا کی پہچان کا لازمہ ہے-[8] یعنی ان علماء کے نظریات کے گواہ و شاہد وہی آیات ہیں، جن سے امتناع کے قائل علماء نے استناد کیا ہے-
اس روایت کے معنی کی ایک اور صورت یہ ہو سکتی ہے کہ: انسان کا نفس، چونکہ ذات، صفات اور افعال کے لحاظ سے اپنے پروردگار کے مانند ہے، اس بنا پر، اسماء و صفات الہی کو صحیح معنوں میں سمجھنا خاص کر، ذات الہی کے اپنی مخلوقات سے رابطہ کی کیفیت کو صحیح معنوں میں ادراک کرنا اور خدا کی {ذاتی، صفاتی اور افعالی} توحید کی حقیقت کو ادراک کرنا، نفس کے مسائل کو دقیق صورت میں سمجھنے سے ممکن ہے- مثال کے طور پر یہ صفات الہی کہ: وہ سب کے ساتھ ہے، لیکن کسی کا ہم نشین نہیں ہے، سب سے مختلف ہے لیکن کسی چیز سے جدا نہیں ہے،[9] تمام اشیاء کے اندر ہے لیکن کسی چیز کے دوسری چیز کے اندر ھونے کے مانند نہیں ہے، سب سے باہر ہے لیکن کسی چیز کے دوسری چیز سے جدا ھونے کےمانند نہیں ہے،[10] بہ الفاظ دیگر، تمام طبیعی عوامل کی تاثیر کا اعتراف کرنے کے باوجود، خداوند متعال کے ہر ذرہ میں موجود ھونے کا شہودی اور باطنی ادراک، نفس کی معرفت کے طریقہ سے حاصل ھوتا ہے-
لیکن مذکورہ سوال میں ذکر کئی گئی حدیث کے معنی کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہے- پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا ہے:" جس نے اپنے آپ کو پہچانا وہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے-"[1]
اسلامی دانشوروں اور علماء نے اس حدیث شریف { من عرف نفسہ عرف ربہ} کے معنی کے بارے میں متعدد احتمالات بیان کئے ہیں - بعض علماء نے اس کے سلبی اور امتناعی معنی لئے ہیں، یعنی جس طرح نفس کی شناخت ممکن نہیں ہے، اسی طرح خدا کی شناخت بھی ممکن نہیں ہے- وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی بعض آیات بھی گواہ ہیں، کیونکہ ایک جگہ پر ارشاد الہی ہے کہ:" اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہدیجئے کہ یہ میرے پرودگار کا ایک امر ہے اور تمھیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے-"[2] اور ایک دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے:" پھر جب مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح حیات پھونک دوں تو سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا-"[3] اس بناء پر چونکہ خدا کی روح قابل شناخت نہیں ہے، اس لئے انسان بھی جو خدا کی روح سے پیدا کیا گیا ہے، قابل شناخت نہیں ہے- خاص کر جب فرمایا ہے کہ" تمھیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے-"
لیکن اکثر علماء اس حدیث شریف کے اثباتی معنی لیتے ہیں، یعنی اپنے نفس کو پہچاننا خداوند متعال کو پہچاننے کا وسیلہ ہے-اس حدیث شریف کے اثباتی معنی کے بارے میں بھی بعض علماء نے کہا ہے کہ نفس کی معرفت، خدا کی معرفت کی دلیل ہے، مخالفت کے طریقہ سے ، نہ موافقت کے طریقہ سے، یعنی جو شخص اپنے نفس کو اس میں تبدیلی، فنا، نقصان اور نیازمندی سے پہچان لے وہ اپنے پروردگار کو دائم، بقا، کمال اور بے نیازی سے پہچانتا ہے-[4] شائد امام صادق{ع} کی یہ روایت ان ہی معنی کی تائید کرتی ھو، کہ آپ {ع} نے فرمایا ہے:" عبودیت ایک گوہر ہے کہ اس کی اصل ربوبیت ہے اور عبد جو کچھ عبودیت میں کھو دیتا ہے وہ اسے ربوبیت میں پاتا ہے-[5] کیونکہ بعض اہل معرفت، سیر وسلوک کے باب میں اس کے قائل ہیں کہ سیر و سلوک کی تمام راہوں کی منزل ایک کے علاوہ کچھ نہیں ہے-
"برخود قدم نہ تا بہ خدا برسی-"[6] { اپنے آپ پر قدم رکھنا تاکہ خدا تک پہنچ جاو گے}
بعض علماء نے موافقت کے طریقہ سے اس کے معنی لئے ہیں، اس بنا پر بھی کچھ دلائل پیش کئے گئے ہیں- بعض دانشوروں نے کہا ہے کہ چونکہ انسان خدا کی روح سے پیدا کیا گا ہے:" ونفخت فیہ من روحی"[7] لہذا انسان کے نفس کی پہچان خدا کی پہچان کا لازمہ ہے-[8] یعنی ان علماء کے نظریات کے گواہ و شاہد وہی آیات ہیں، جن سے امتناع کے قائل علماء نے استناد کیا ہے-
اس روایت کے معنی کی ایک اور صورت یہ ہو سکتی ہے کہ: انسان کا نفس، چونکہ ذات، صفات اور افعال کے لحاظ سے اپنے پروردگار کے مانند ہے، اس بنا پر، اسماء و صفات الہی کو صحیح معنوں میں سمجھنا خاص کر، ذات الہی کے اپنی مخلوقات سے رابطہ کی کیفیت کو صحیح معنوں میں ادراک کرنا اور خدا کی {ذاتی، صفاتی اور افعالی} توحید کی حقیقت کو ادراک کرنا، نفس کے مسائل کو دقیق صورت میں سمجھنے سے ممکن ہے- مثال کے طور پر یہ صفات الہی کہ: وہ سب کے ساتھ ہے، لیکن کسی کا ہم نشین نہیں ہے، سب سے مختلف ہے لیکن کسی چیز سے جدا نہیں ہے،[9] تمام اشیاء کے اندر ہے لیکن کسی چیز کے دوسری چیز کے اندر ھونے کے مانند نہیں ہے، سب سے باہر ہے لیکن کسی چیز کے دوسری چیز سے جدا ھونے کےمانند نہیں ہے،[10] بہ الفاظ دیگر، تمام طبیعی عوامل کی تاثیر کا اعتراف کرنے کے باوجود، خداوند متعال کے ہر ذرہ میں موجود ھونے کا شہودی اور باطنی ادراک، نفس کی معرفت کے طریقہ سے حاصل ھوتا ہے-
[1] - «قَالَ النَّبِیُّ(ص) مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ ثُمَّ عَلَیْکَ مِنَ الْعِلْمِ بِمَا لَا یَصِحُّ الْعَمَلُ إِلَّا بِهِ وَ هُوَ الْإِخْلَاص. وَ قَالَ عَلِیٌّ (ع) اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصِّینِ وَ هُوَ عِلْمُ مَعْرِفَةِ النَّفْسِ وَ فِیهِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ عَزَّ وَ جَلَّ. علامه مجلسی، بحارالانوار، ج2، ص32، مؤسسة الوفاء، بیروت، سال 1404ق.
[2] - «وَ یَسْئَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَ ما أُوتیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلیلاً»؛ اسرا، 85.
[3] -«فَإِذا سَوَّیْتُهُ وَ نَفَخْتُ فیهِ مِنْ رُوحی فَقَعُوا لَهُ ساجِدینَ»؛ حجر، 29.
[4] - حسن زاده آملی، حسن، هزار و یک نکته، نکته 15، نشر رجاء، تهران، طبع پنجم، ۱۳۶۵ش. حسن زاده آملی، حسن، هزار و یک نکته، نکته 15، نشر رجاء، تهران، چاپ پنجم، ۱۳۶۵ش.
[5] -«قال الصادق ع العبودیة جوهر کنهها الربوبیة فما فقد من العبودیة وجد فی الربوبیة»، منسوب به جعفر بن محمد علیه السلام (امام ششم)، مصباح الشریعة، ج1، ص 7، اعلمی، بیروت، طبع اول، 1400ق.
[6] - یزدان پناه، یدالله، مبانی و اصول عرفان نظری، ص 67، مؤسسه امام خمینی، قم، طبع اول، 1388.
[7] - الحجر، 29.
[8] - بحار الأنوار، ج 57، ص 324.
[9] -«مَعَ کُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ وَ غَیْرُ کُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُزَایَلةٍ»، نهج البلاغة، خ 1.
[10] -«دَاخِلٌ فِی الْأَشْیَاءِ لَا کَشَیْءٍ دَاخِلٍ فِی شَیْءٍ وَ خَارِجٌ مِنَ الْأَشْیَاءِ لَا کَشَیْءٍ خَارِجٍ مِنْ شَیْء»؛ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 85، دار الکتب الإسلامیة، تهران،طبع چهارم، 1407ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے