Please Wait
کا
10007
10007
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/10/06
سوال کا خلاصہ
ابوحمزہ ثمالی کون تھے ؟
سوال
ابوحمزہ ثمالی کون تھے ؟
ایک مختصر
ثابت بن ابی صفیہ، ابو حمزہ ثمالی کے نام سے مشہور تھے ۔[ثابت کے والد] ابی صفیہ کا نام دینار ہے اور وہی ابو حمزہ ثمالی ہیں [1]۔
ابو حمزہ ثمالی کی شخصیت :
ثابت بن دینار یا ابو حمزہ ثمالی،چار اماموں یعنی امام سجاد[ع]،امام باقر[ع]،امام صادق[ع] اور امام کاظم[ع] کے صحابی تھے اور انھوں نے ان چاروں اماموں سے احادیث نقل کی ہیں[2]۔ ابو حمزہ ثمالی ائمہ اطہار [ع]کے صحابی،ثقہ اور قابل اعتماد شخص ہیں،یہاں تک کہ امام صادق[ع] سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے سلمان ہیں "[3]۔ حضرت امام رضا[ع] سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے لقمان تھے،انھوں نے ہم معصومین[ع] میں سے چار افراد، یعنی امام علی بن حسین[ع]،امام باقر[ع]،امام صادق[ع] کے علاوہ امام کاظم[ع] کا ایک مختصر زمانہ درک کیا ہے" ۔[4]
ابو حمزہ ثمالی کے بیٹے،یعنی نوح،حمزہ اورمنصور نے زید بن علی کے قیام میں شرکت کی ہے اور ان کے ہمراہ مبارزہ کیا اور ان کے ہی ساتھ شہید ہوئے[5]۔
ابو حمزہ ثمالی اس قدر مشہور تھے کہ اہل سنت نے بھی ان سے روایت نقل کی ہے[6]۔
ابو حمزہ ثمالی کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد بھی سارے کے سارے عظیم شخصیتیں اورثقات تھے[7]۔
تالیفات :
ابو حمزہ ثمالی کی تالیفات میں سے "تفسیر قرآن"،"کتاب النور"،اور"کتاب الزہد[8]"باقی بچی ہیں اور "رسالہ حقوق امام سجاد[ع]" جو اپنی نوعیت کا بے مثال رسالہ ہے، کو بھی ابو حمزہ ثمالی نے امام سجاد[ع] سے نقل کیاہے[9]۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں سحری کو پڑھی جانے والی بلند معنی و مفہوم سے بھری دعا جو دعائے ابو حمزہ ثمالی کے نام سے مشہور ہے،کو بھی انھوں نے امام سجاد[ع] سے نقل کیا ہے۔[10]
وفات:
بعض مشہور روایتوں کے مطابق ابو حمزہ ثمالی نے سنہ۱۵۰ ھ میں وفات پائی ہے[11]۔ لیکن ابن سعد ان کی وفات کو منصور کی خلافت کے زمانہ میں جانتے ہیں[12] اور منصور کی خلافت ۱۳۶ سے ۱۵۸ ھ تک تھی۔ شیعوں کی احادیث کی شہرت یہ ہے کہ حسن بن محبوب، ابو حمزہ ثمالی سے حدیث نقل کرتے تھے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ابن محبوب سنہ۲۲۴ھ میں فوت ہوئے ہیں اور اس وقت ان کی عمر ۷۵ سال تھی[13]۔ یعنی ابو حمزہ ثمالی کی وفات کے زمانہ [سنہ۱۵۰ھ]میں حسن بن محبوب دو سال سے کم تر عمر کے تھے ۔ پس جو تاریخ وفات ابن محبوب نے نقل کی ہے صحیح تر لگتی ہے،کیونکہ اگر ابو حمزہ ثمالی کی وفات کو ہم سنہ ۱۵۸ ھ مان لیں،تو اس زمانہ میں ابن محبوب کی عمر ۸ سال تھی اور اس قسم کی چیز کو ان کے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کرنا مناسب لگتا ہے[14] ۔
ابو حمزہ ثمالی کی شخصیت :
ثابت بن دینار یا ابو حمزہ ثمالی،چار اماموں یعنی امام سجاد[ع]،امام باقر[ع]،امام صادق[ع] اور امام کاظم[ع] کے صحابی تھے اور انھوں نے ان چاروں اماموں سے احادیث نقل کی ہیں[2]۔ ابو حمزہ ثمالی ائمہ اطہار [ع]کے صحابی،ثقہ اور قابل اعتماد شخص ہیں،یہاں تک کہ امام صادق[ع] سے روایت نقل کی گئی ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے سلمان ہیں "[3]۔ حضرت امام رضا[ع] سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ : "ابو حمزہ ثمالی اپنے زمانہ کے لقمان تھے،انھوں نے ہم معصومین[ع] میں سے چار افراد، یعنی امام علی بن حسین[ع]،امام باقر[ع]،امام صادق[ع] کے علاوہ امام کاظم[ع] کا ایک مختصر زمانہ درک کیا ہے" ۔[4]
ابو حمزہ ثمالی کے بیٹے،یعنی نوح،حمزہ اورمنصور نے زید بن علی کے قیام میں شرکت کی ہے اور ان کے ہمراہ مبارزہ کیا اور ان کے ہی ساتھ شہید ہوئے[5]۔
ابو حمزہ ثمالی اس قدر مشہور تھے کہ اہل سنت نے بھی ان سے روایت نقل کی ہے[6]۔
ابو حمزہ ثمالی کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد بھی سارے کے سارے عظیم شخصیتیں اورثقات تھے[7]۔
تالیفات :
ابو حمزہ ثمالی کی تالیفات میں سے "تفسیر قرآن"،"کتاب النور"،اور"کتاب الزہد[8]"باقی بچی ہیں اور "رسالہ حقوق امام سجاد[ع]" جو اپنی نوعیت کا بے مثال رسالہ ہے، کو بھی ابو حمزہ ثمالی نے امام سجاد[ع] سے نقل کیاہے[9]۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں سحری کو پڑھی جانے والی بلند معنی و مفہوم سے بھری دعا جو دعائے ابو حمزہ ثمالی کے نام سے مشہور ہے،کو بھی انھوں نے امام سجاد[ع] سے نقل کیا ہے۔[10]
وفات:
بعض مشہور روایتوں کے مطابق ابو حمزہ ثمالی نے سنہ۱۵۰ ھ میں وفات پائی ہے[11]۔ لیکن ابن سعد ان کی وفات کو منصور کی خلافت کے زمانہ میں جانتے ہیں[12] اور منصور کی خلافت ۱۳۶ سے ۱۵۸ ھ تک تھی۔ شیعوں کی احادیث کی شہرت یہ ہے کہ حسن بن محبوب، ابو حمزہ ثمالی سے حدیث نقل کرتے تھے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ابن محبوب سنہ۲۲۴ھ میں فوت ہوئے ہیں اور اس وقت ان کی عمر ۷۵ سال تھی[13]۔ یعنی ابو حمزہ ثمالی کی وفات کے زمانہ [سنہ۱۵۰ھ]میں حسن بن محبوب دو سال سے کم تر عمر کے تھے ۔ پس جو تاریخ وفات ابن محبوب نے نقل کی ہے صحیح تر لگتی ہے،کیونکہ اگر ابو حمزہ ثمالی کی وفات کو ہم سنہ ۱۵۸ ھ مان لیں،تو اس زمانہ میں ابن محبوب کی عمر ۸ سال تھی اور اس قسم کی چیز کو ان کے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کرنا مناسب لگتا ہے[14] ۔
[1] نجاشی، احمد بن علی، فهرست أسماء مصنفی الشیعة(رجال نجاشی)، ص 115، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع ششم، 1365ش.
[2] رجال نجاشی، ص 115؛ کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفة الرجال، ص 124، نشر دانشگاه مشهد، 1348ش.
[3] رجال نجاشی، ص 115.
[4] ایضا، ص 203.
[5] ایضا، ص 115.
[6] ملاحظہ ہو: سبحانی، جعفر، موسوعة طبقات الفقهاء، ج 1، ص 304، قم، مؤسسه امام صادق (ع)، 1418ق.
[7] رجال کشی، ص 406.
[8] شیخ طوسی، الفهرست، محقق و مصحح: آل بحر العلوم، سید محمد صادق، ص 105، نجف، المکتبة المرتضویه، طبع اول، بیتا
[9] رجال نجاشی، ص 116.
[10] آقا بزرگ تهرانی، الذریعة إلی تصانیف الشیعة، ج 8، ص 186، قم، اسماعیلیان، 1408ق.
[11] شیخ طوسی، محمد بن حسن، الابواب (رجال طوسی)، محقق و مصحح: قیومی اصفهانی، جواد، ص 110، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع سوم، 1427ق.
[12] ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، ج 6، ص 345، بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع اول، 1410ق.
[13] بنابراین؛ سال تولد حسن بن محبوب 149 هجری بوده است. ر.ک: امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعة، ج 4، ص 9، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1406ق.
[14] : اعیان الشیعة، ج 4، ص 10.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے