اعلی درجے کی تلاش

          اس سوال کے بهتر جواب تک پہنچنے کے سلسله میں ضروری هے که اس مقدس گهر کی تعمیر نوکی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے- جو کچھ اس سلسله میں اسلام کی احادیث کی کتابوں سے معلوم هوتاهے٬ وه یه هے که کعبه توحید کا سب سے پهلا گهر هے٬ اور روئے زمین پر سب سے پهلا عبادت خانه هے- اس سے قبل خداکى عبادت و پرستش کا کہيں پر کوئی مرکز نهیں تها٬ یه ایک ایسا گهر هے جسے لوگوں کے لئے اور انسانی معاشره کے لئے ایک اجتماعی مرکز اور بابرکت جگه پر تعمیر کیا گیا هے-

          خانه کعبه کو حضرت آدم (ع) نے تعمیر کیا هے اور اس کے بعد حضرت نوح(ع) کے طوفان میں اس کو نقصان پهنچا اور اس کے بعد حضرت ابراهیم خلیل الرحمن (ع) نے اس کی تعمیر نوکی هے- حضرت علی(ع) نهج البلاغه میں٬ اس سلسله میں فرماتے هیں: "کیا آپ نهیں دیکھ رهے هیں که خداوند متعال نے دنیا کے لوگوں کو حضرت آدم(ع) کے زمانه سے آج تک پتهروں کے چند ٹکڑوں سے امتحان لیا هے اور اس کو اپنا گهر قرار دیاهے اس کے بعد آدم (ع) اور اس کی اولاد کو حکم دیا که اس گهر کے گرد طواف کریں"[1]

          ابن شهر آشوب نے امیر المومنین(ع) سے روایت نقل کی هے که آیه شریفه:"ان اول بیت وضع للناس" کے معنی کے بارے میں ایک شخص نے سوال کیا که٬ کیا کعبه پهلا گهر هے؟ حضرت(ع) نے جواب دیا: نهیں٬ بلکه کعبه سے پهلے بهی کچھ گهر تهے٬ لیکن کعبه پهلا مبارک گهر هے جو لوگوں کے لئے تعمیر کیا گیا- یه وه گهر هے جس میں رحمت و برکت هے اور سب سے پهلا شخص جس نے اس کی بنیاد ڈالی وه حضرت ابراهیم(ع) تهے اور ان کے بعد "جرهم" نامی ایک عرب قوم نے اس کی تعمیر کی٬ اس کے بعد زمانه گزرنے کے ساتھ کعبہ شريف پهر ویران هوگیا٬ اور تیسری بار "عمالقه" نے اس کی تعمیر کی ارو چوتهی بار٬ قبیله قریش نے اس کی تعمیر کی-[2]

          اس کے بعد کعبه کے امور کی ذمه داری٬ رسول خدا(ص) کے اجداد میں سے "قصی بن کلاب" نامی ایک شخص کے هاتھ میں آگئی(یعنی هجرت سے دوسو سال پہلے)- "قصی" نے اسے گراکر مزید مستحکم صورت میں تعمیر نوکی اور اسے چوب دوم (خرما جیسے ایک درخت کی لکڑی) سے ڈهانپ لیا٬ اور یه عمارت اس وقت تک باقی تهی که یزید بن معاویه کے زمانه میں عبدالله بن زبير نے حجاز پر تسلط جمایا٬ تو یزید بن معاویه نے حصین نامی ایک سپاه سالار کی قیادت میں ایک لشکر کو اسے ویران کرنے کےلئے بهیجا اور جنگ میں یزید کی فوج کی طرف سے منجنیق کے ذریعه مکه پر بڑے بڑے پتهر اور آگ کے کولے پهینکے گئے٬ اس کے نتیجه میں کعبه مسمار هوگیا اور منجنیق کے ذریعه مکه پر پهینکے جانے والے آگ کے گولوں سے کعبه کا پرده اس کی لکڑی والا ایک حصه جل کر راکھ هوگیا- اس کے بعد جب یزید کے مرنے کے نتیجه میں جنگ ختم هوئى تو عبدالله بن زبیر نے کعبه کو منهدم کرکے اس کی تعمیر نو کرنے کا منصوبه بنایا- اس نے حکم دیاتا که یمن سے ایک خاص قسم کا پلاسٹر لایاجائے اور کعبه کو اسی پلاسٹر سے تعمیر کیا اور حجراسماعیل کو خانه کعبه میں داخل کیا اور کعبه کا دورازه جو پهلے بلندی پر واقع تها٬ کو سطح زمین تک نیچے لایا- اور قدیمی دروازه کے مقابلے میں ایک اور دورازه نصب کیا تاکه لوگ ایک دروازه سے داخل هوجائیں اور دوسرے دروازه سے باهرآئیں اور کعبه کی بلندی کو 27 ذراع (تقریبا ساڑهے تیره میٹر) قرار دیا اور جب اس کی تعمیر کے کام سے فارغ هوا٬ اس کے اندر و باهر کو مشک و عنبر سے معطر کیا٬ اور اس پر ریشم کا ایک غلاف لگایا اور 17 رجب سنه 64 هجری کو اس کام سے فراغت حاصل کی-

          اس کے بعد جب عبدالملک مروان خلیفہ بن گیا٬ حجاج بن یوسف نے عبدالله بن زبیر کا تعمیر کیا هوا خانه کعبه منهدم کرکے اسے دوباره گذشته صورت تعمیر کیا- حجاج نے کعبه کی مشرقی دیوار کے چھ ذراع  اور ایک وجب حصہ کو خراب کرکے اسے قریش کی ڈالی گئی بنیاد تک پهنچادیا اور اسی پر اس کی نئی بنیاد ڈالی اور کعبه کے مشرقی دروازه کو٬ جسے زبیرنے نیچے لایاتها٬ اسے اپنی پهلی جگه پر (یعنی سطح زمین سے ڈیڑھ یا دومیٹر بلندتر) قرار دیا اور اس کے مغربی دروازه کو٬ جسے عبدالله بن زبیر نے اضافه کیاتها٬ بند کیا٬ اس کے بعد کعبه کی فرش پر پتهر بچهائے-

          کعبه کی یه حالت سنه 960 هجری میں سلطان سلمیان عثمانى کا دور شرع هونے تک باقی تهی- سلطان سلیمان نے حکومت سنبهالنے کے بعد کعبه کی چهت کو تبدیل کیا اور جب 1121 هجری میں احمد عثمانی کے هاتھ میں خلافت آگئی٬ تو اس نے کعبه میں کچھ مرمتیں انجام دیں٬  جب سنه 1039 هجری کے زبردست سیلاب کی وجه سے٬ کعبه کی شمالی٬ مشرقی اور مغربی دیواریں خراب هوئیں٬ تو آل عثمان کے ایک بادشاه سلطان مراد چهارم نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور اس کے بعد کعبه آج تک اسی حالت میں باقی هے-[3]

          حضرت علی(ع) کے کعبه میں پیدا هونے کے بارے میں کسی کو کسی قسم کا شک و شبهه نهیں هے اور تمام مسلمان٬ من جمله شیعه و سنی اس معجزه کو قبول کرچکے هیں ارو شیعوں کی معتبر کتابوں میں یوں آیا هے که: یزید بن قعنب کهتا هے که: میں عباس بن عبدالمطلب اور قبيلہ عبدالعزی کے چند افراد کے ساتھ خانه کعبه کے سامنے بیٹهاتها که فاطمه بنت اسد(امیرالمومنین کی والده) جن کی حاملگی کا نواں مهینه چل رها تها اور وضع حمل کے درد میں مبتلا تهیں آگيئں اور٬ کها: خداوندا! میں تجھ پر ایمان رکهتی هوں اور جو تیرى طرف سے آیا هے اس پر بهی ایمان رکهتی هوں٬ تیرے رسولوں اور ان کی کتابوں پر ایمان رکهتی هوں اور اپنے جد امجد ابراهیم خلیل(ع) کے کلام کی تصدیق کرتی هوں، جبکه اس قدیمی گهر کو اسی نے تعمیر کیا هے٬ اس کے واسطے جس نے اس گهر کی تعمیر کی هے اور اس مولود بچے کے واسطے جو میرے شکم میں هے٬ اس ولادت کو میرے لئےآسان کرنا- یزید بن قعنب کهتا هے: هم نے اپنی آنکهوں سی دیکها که خانه کعبہ پیچهے سے شق هوگیا اور فاطمه اس کے اندر داخل هوئیں اور هماری آنکهوں سے اوجهل هوگیئں اور دیوار پھر سے اپنی جگه پر آگئی اور هم نے خانه کعبه کے دروازه کا قفل کهولنا چاها٬ لیکن یه کهل نه سکا اور همیں معلوم هوا که یه امر خداوند متعال کی طرف سے هے اور چار دن کے بعد فاطمہ بنت اسد باهر آگئیں اور امیرالمومنین ان کی آغوش میں تهے اور اس کے بعد  انهوں نے کها: میں گزشته تمام عورتوں پر برتری رکهتی هوں٬ کیونکه آسیه بنت مزاحم نے خدا کی مخفیانه طور پر پرستش کی جهاں پر خدا کی پرستش اچهی  نهیں تهی، مگر یه که ناچارهو اور مریم بنت عمران نے خرما کے خشک درخت کو اپنے هاتوں سے هلایا اور اس سے تازه خرما چن لئے اور کهائے اور میں خدا کے محترم گهر میں داخل هوئى اور بهشت کے میوے کهائے اور جب باهرآنا چاهتی تهی٬ هاتف نے آواز دی: اے فاطمه! اپنے بیٹے کا نام "علی" رکهنا که وه علی هیں اور خداوند اعلی فرماتاهے: میں نے اس کا نام اپنے نام سے منتخب کیا هے اور اسے اپنے ادب سے تادیب کیا هے اور اپنے پیچیده علوم کو اسے سکهایاهے اور وهی میرے گهر میں موجود بتوں کو توڑ دے گا اور وهی میرے گهر کی چهت پر اذان دے گا اور میرى تقدیس و تمجید کرے گا٬ مبارک هو اس پر جو اسے دوست رکهے اور اس کا فرمانبردارهو اور افسوس هو اس پر جو اس سے دشمنى رکهے اور اس کی نافرمانى کرے-[4] اهل سنت کے دانشوروں میں سے بهی بهت سے افراد نے اس حقیقت کی صراحت کرتے هوئے اسے ایک بے مثال فضیلت جاناهے- مثال کے طور پر حاکم نیشابوری نے "مستدرک" میں کها هے:"متواتر روایتوں میں آیا هے که "فاطمه بنت اسد" نے حضرت علی(ع) کو خانه کعبه کے اندر جنم دیا هے-[5]

          اسی طرح ساعدی نے اهل سنت کی صحاح سته سے نقل کرکے کها هے کہ: ایک قول کے مطابق حضرت علی (ع) جمعه کے دن 13 رجب سنه 30 عام الفیل اور 33 سال قبل هجرت٬ مکه مکرمه میں خانه کعبه کے اندر متولد هوئے هیں اور ایک دوسرے قول کے مطابق 25 عام الفیل اور 12 سال قبل از بعثت٬ پیدا هوئے  هیں اور ایک قول کے مطابق بعثت سے دس سال قبل پیدا هوئے هیں اور حضرت علی(ع) سے قبل کوئی٬ بچه خانه کعبه کے اندر پيدا نهیں هواهے-[6]

          ان مطالب کے پیش نظر واضح هوتاهے که شیعوں اور اهل سنت کا اعتقاد هے که کعبه کے شق هونے کا معجزه یقینی هے اور حضرت علی(ع) خانه کعبه کے اندر پیدا هوئے هیں- اس بنا پر حضرت علی(ع) کی ولادت کے بعد کعبه کے منهدم هونے اور پهر سے تعمیر ہونے کے نتيجہ ميں حضرت علی (ع) کی والده کے کعبه میں داخل ہونے کى وجہ سے پيدا ہوئے شگاف کے آثار قدرتی طور پر زائل ہوں گے اور یه ایک ایسی حقیقت هے که کوئی اس کا انکار نهیں کرسکتاهے اور شیعیان علی(ع) میں سے بهی کوئی اس حقیقت کا منکر نهیں هے- لیکن جس چیز پر شیعه ناز کرتے ہيں وه یه هے که یه معجزه اس شخص سے متعلق هے جو تنها مولود کعبه هے اور شیعه ان کی پیروی کرنے پر فخر و مباهات کرتےہيں اور اس کی کوئی اهمیت نهیں هے  که اس شگاف کا اثر متعدد تعمیرات کی وجه سے زائل هوچکاهو٬ کیونکه جس چیز کی اهمیت هے وه خود کعبه کی دیوار کا شق هونے کا معجزه هے که قطعی طور پریه واقع رونما هوچکا هے اور شیعوں اور اهل سنت کے قابل اعتبار منابع نے کثرت سے اسے بیان کیا هے-

 


[1] سيد رضى، نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ

[2] بحرانى، سيد ہاشم، تفسير البرھان، ج1، ص661، ح 36، بنياد بعثت، طبع اول، تہران، 1416ھ

[3] موسوى ہمدانى، سيد محمد باقر، ترجمہ تفسير الميزان، ج 3، ص 555، جامعہ مدرسين، قم، 1374ھ ش

[4] شيخ صدوق، امالى، ترجمہ کمرہاى، ص 133، ناشر اسلاميہ، طبع 6، تہران، 1376 ھ ش

[5] حاکم نيشابورى، محمد ، مستدرک على الصحيحين، ج 3، ص 483، ناشر دار المعروفہ، طبع دوم، بيروت،1406 ھ

[6] ساعدى، محمد باقر، فضائل پنجتن (ع) در صحاح ستہ اہل سنت، ج1، ص 304، فيروز آبادى، طبع اول، قم، 1374ھ ش، نقل از نور الابصار، ص 69

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا