Please Wait
6258
دینی کتابوں کا مطالعه کرنے اور روایات و آیات پر غور کرنے سے انسان کا آزاد اور مختار هونا ﺴﻤﺠﮭ میں آتا هے لیکن اس کے معنی یه نهیں که وه مکمل مختار هے اور کوئی بھی عامل اور طاقت اس کے اعمال و کردار پر اثر انداز و حاکم نهیں هو سکتی ، بلکه مراد یه هے که تمام شرائط و ضوابط کے هوتے هوئے الله کی قدرت اور حاکمیت کے ماتحت انسان ایسے کام کی انجام دینے کی قدرت رکھتا هے اس طرح که اگر وه چاهتا تو نهیں بھی کرسکتا تھا ۔ لهذا انسان اپنے ارادی اعمال کا ذمه دار هے اور جبر اس پر حکومت نهیں کرتا ۔
واضح هے که جهاں انسان ایک آزاد اور مختار مخلوق هے وهیں وه اپنی روح کی پرورش ، اپنے اعتبار سے ماحول کو سازگار بنانے اور مستقبل کو اپنی چاهت کے مطابق ڈھالنے میں بهت سی پابندیوں سے دو چار هے اوراس کی آزادی مطلق نهیں بلکه نسبی آزادی هے ۔ اگر چه انسان اپنے روابط کو وراثت ،طبیعی ماحول ،سماجی و اجتماعی ماحول اور زمانه سے بالکل منقطع نهیں کر سکتا هے ،اس کے باوجود وه بهت سی محدودیوں سے فرار کرکے ان عوامل کی قید و بند سے خود کو آزاد کر سکتا هے ۔
انسان ایک طرف عقل و علم کے حکم کے ذریعه تو دوسری طرف اپنے اراده و ایمان کے طاقت کے ذریعه ان عوامل میں کافی حد تک تبدیلی لاکر انهیں اپنی چاهت کے مطابق ڈھال سکتا هے اور خود اپنی قسمت کا مالک و مختار بن سکتا هے ۔
دینی متون کا مطالعه کرنے اور آیات و روایات پر غور و فکر کرنے سے انسان کا مختار و آزاد هونا ﺴﻤﺠﮭ میں آتا هے لیکن اس کے معنی یه نهیں که انسان مختار کل هے اور کوئی بھی عامل و قدرت اس کے اعمال و کردار پر اثر انداز اور حاکم نهیں هوسکتی ،بلکه مقصد یه هے که تمام شرائط و ضوابط کے هوتے هوئے، الله که قدرت حاکمیت کے ماتحت انسان ایسے افعال کی انجام دهی پر قدرت رکھتا هے، اس طرح که اگر ان کے انجام دینے کا اراده نه کرتا تو انجام نهیں بھی دے سکتا تھا ۔ لهذا انسان اپنے ارادی اعمال کا ذمه دار هے اور جبر اس پر حاکم نهیں هے[1] ۔
اس دعوے کی دلیل کے لیئے اسلامی حکما اور متکلمین نے متعدد تفسیریں بیان کی هیں، ان میں سب سے عمیق اور زیبا تفسیر صدرالمتألهین کی هے ۔ موصوف فرماتے هیں : عالم هستی میں موجود هر شئے،ذاتی ،صفاتی، اور افعالی تفاوت نیز الله سے دوری اور نزدیکی میں تمام تر اختلافات کے باوجود ایک چیز میں مشترک هے وه یه که الٰهی حقیقت نے سب کو اپنے احاطه میں لے رکھا هے۔ یه الٰهی حقیقت (وجود مطلق) اپنے آپ میں واحد و یکتا هونے کے با وجود عالم وجود کے هر پهلو کا احاطه کیئے هے اور عالم هستی کا کوئی ذره اس نور الانوار اور الٰهی حقیقت کے قبضه قدرت سے خارج نهیں هے ۔ لهٰذا جس طرح عالم خلقت میں هر مخلوق کی شان و هستی خدا کی شأن اور هستی هے اس طرح هر مخلوق کا فعل،خدا کا فعل هے ، اس کا مطلب یه نهیں که مثلاًزید کا فعل اس سے صادر نهیں هوا هے بلکه مقصد یه هے که اس کا فعل اس کے باوجود که حقیقت میں اسی کا فعل هے در حقیقت خد اکا فعل بھی هے ۔
نتیجه میں جس طرح زید کے وجود اس کے حواس اور خصوصیات کی نسبت اس کی طرف دی جائے گی اسی طرح اس کے افعال اور ایجادات بھی اس کی طرف منسوب هوں گے اور یه دونوں حقیقی نسبت هیں پس جبر کا نظریه شاذ و نادرهے۔
جس طرح زید کا وجود اسی کا وجود هے اور در حقیقت اسی سے منسوب هوگا ۔اسی طرح خدا سے بھی منسوب هوگا کیوں که اسے وجود خدا نے عطا کیا هے جس طرح زید کا علم ،اراده ،سکون و حرکت اور هر وه چیزیں جو اس سے صادر هوتی هیں حقیقتاً اسی سے منسوب هوتی هیں اسی طرح خدا کی بھی حقیقی طور سے منسوب هوں گی لهٰذا حقیقت میں انسان اپنے کام کا فاعل اور موجد هے ۔
یه واضح هےکه جهاں انسان ایک مختار اور آزاد مخلوق هے وهیں وه اپنی روح کی پرورش ،اپنے اعتبار سے ماحول کو سازگار بنانے اور آینده کو اپنی چاهت کے مطابق ڈھالنے میں بهت سی حد بندیوں سے دچار هے اور نسبی آزادی کا حامل هے یعنی اس کی آزادی کا دائره محدود هے۔ انسان کی محدودیت چند جهت سے هے:
1 ۔ وراثت : انسان دنیا میں انسانی فطرت لے کر آتا هے اور چوں که اس کے ماں باپ انسان هیں لهٰذا مجبوراً وه بھی دنیا میں انسان هی بن کر آتا هے دوسری طرف اس کے ماں باپﮐﭽﮭ خاندانی اور ارثی اوصاف کے حامل هوتے جو انسان کے اختیار کیئے بغیر اس تک پهنچتے هیں بلکه زبردستی وراثت میں اسے ملتے هیں ،جیسے : رنگ ،آنکھوں کا رنگ، اور دیگر جسمانی خصوصیات۔
2 ۔ فطری اورجغرافیائی ماحول:جغرافیائی ،فطری اور علاقائی ماحول جس میں انسان بڑا هوتا هے انسان کی روح اور جسم پر خواه نا خواه ﮐﭽﮭ اثر ضرور ڈالتا هے ؛ سرد ، گرم، پهاڑی اور ریگستانی علاقے انسان کے جسم ،روح اور اخلاق پر اثر انداز هوتے هیں ۔
3 ۔ سماج، اجتماعی ماحول: اجتماعی ماحول اور سماج انسان کے روح و اخلاقی خصوصیات کے
ڈھالنے کا ایک اهم سبب اور عامل هے ، انسان کی زبان، سماجی و عرفی اخلاق اور دین و مذهب ، یه وه چیزیں هیں جنھیں غالباً سماج انسان پر تحمیل کرتا هے [2] ۔
قرآن مجید جهاں سماج کے لیئے ، فطرت ،طبیعت، شخصیت، نیت، طاقت، موت و حیات ،وجدان اور اطاعت و عصیان کا قائل هے اور سماج کو انسان کے اعمال و کردار میں موثر سمجھتا هے وهیں وه صراحتاً انسان کو سماجی احکام سے سر پیچی کرنے مین صاحب اختیار سمجھتا هے ۔
سوره نساء آیت 97 میں جو لوگ خود کو مستضعف اور کمزور سمجھتے هیں ان کے بارے میں ارشاد فرماتا هے : " ایسے لوگوں کا عذر کسی طرح بھی قابل قبول نهیں هے ؛ اس لیئے کے کم از کم ایسے لوگوں کے لیئے هجرت کرنے کا امکان هے"۔
یا دوسری جگه فرماتا هے : " یا ایّها الّذینَ آمنوا علیکُم أنفُسَکم لا یضُرُّکم مِن ضلّ اذا أھتدیتُم"[3] (اے ایمان لانے والوں !اپنی حفاظت کرو،جب تم هدایت پا چکے هو تو گمراه هونا تمھیں ضرر نهیں پهنچا سکتا ۔
4 ۔ تاریخ اور ماضی واقعات: گذشته زمانے اور ماضی میں رو نما هونے والے واقعات انسان کی ساخت میں بے حد موثر هیں خلاصه یه که هر وجود کے ماضی اور مستقبل کے در میان ایک محکم رابطه اور تعلق برقرار هے ، ماضی میں نطفه اور مستقبل میں ایک هستی هے۔
آخر کلام یه که هر چند وراثت ،فطری ماحول ،سماج اور اجتماعی ماحول ،زمانه و تاریخ سے پوری طرح اپنا رابطه منقطع نهیں کرسکتا لیکن کسی حد تک ان محدودیتوں سے فرار کرکے اپنے آپ کو ان عوامل کی قیدو بند سے نجات دے سکتا هے ۔
انسان علم و عقل کے حکم اور ایمان و اراده کی طاقت کے ذریعه ان عوامل مین ایسی تبدیلی لا سکتا هے که یه اس کی خواهش کے مطابق هو جایئں اور وه خود اپنی قسمت کا مالک بن جائے [4]۔
هم انسان کی شخصیت کے سنورنے میں ان مادی، فطری اور جنٹیک عوامل کے کردار کے منکر نهیں هیں لیکن یه بات بھی غلط هے که هم انسان کی شخصیت اور اعمال و کردار میں موثر عامل کو صرف جنٹیک اور طبیعی عوامل میں منحصر سمجھیں اور روحانی و غیر مادی عوامل کو فراموش کردیں ؛ نفس مجرد کے وجود کے پیش نظر انسان کا آزاد اراده روح مجرد کے بل بوتے اور انسان کے آزاد اراده کے اعتبار سے هے ،اگر چه طبیعی عوامل کا رول اور فیزیکی و کیمیاوی فعل و افعال بھی قابل قبول هے لیکن اس بات کی تاکید کے ساﺘﮭ که ان چیزوں کا کردار انسان کے اختیار کو سلب کرنے کی حد تک نهیں هے ۔
کیا همیں نهیں معلوم هے که بیرونی عوامل کے وجود ،ان کے بعض خواهشات پر اثر انداز هونے اور کیمیاوی و فیزیکی فعل و انفعالات کے حاصل هونے کے باوجود همیں ان سے مقابله کرنا چاهیئے ؛هم اپنی اور دوسروں کی روزمره کی زندگی میں اس کا تجربه کرتے رهتے هیں ۔
قانون وراثت کا تقاضا یه نهیں هے که وه بچّه جسے اپنے اجداد اور والدین سے ﮐﭽﮭ خصوصیات ورثه میں ملی هیں اب وه ﮐﭽﮭ انتخاب اور اختیار کرنے کی قدرت نهیں رکھتا ،انسان اختیار کر سکتا هے اور ان عوامل کے تقاضا کے بر خلاف دوسروں کے کردار کو اپنا سکتا هے [5]۔
مزید مطالعه کے لیئے منابع اور مآخذ:
محمد تقی جعفری ،جبر و اختیار
جعفر سبحانی ، سرنوشت از دیدگاه علم و فلسفه
سید محمد باقر صد ر، انسان مسئول و تاریخ ساز
محمد تقی مصباح ،معارف قرآن ( خدا شناسی ،کیهان شناسی ،انسان شناسی)
[1] احمد واعظی ،انسان از دیدگاه اسلام ،ص12 ،قم۔دفتر همکاری حوزه و دانشگاه،1375 ۔
[2] مرتضیٰ مطهری ،مقدمه ای بر جهان بینی اسلامی صص 271 ،270 انتشارات صدرا قم۔
[3] سوره مائده ،آیت 105 ۔
[4] مرتضیٰ مطهری ،مقدمه ای بر جهان بینی اسلامی صص272 و330۔
[5] محمود رجبی ، انسان شناسی ،ص151 ،موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (رحمۃ الله) چاپ اول 1379 ۔