Please Wait
15628
ارسطو، فلسفی، ماھر فزیکس اور یونان کا بهت بڑا عالم ۳۸۴ قبل مسیح میں شمالی یونان کے شھر"اسٹراگیرا" میں پیدا ھوا ھے۔ اس کا باپ ، نیکوماخس، مقدونیھ کا درباری طبیب تھا، ارسطو جب ۱۲ سال کا تھا تو وه تعلیم کی غرض سے "آٹن" آیا اور سال ۳۷۸ قبل مسیح میں، افلاطون کی اکیڈمی کا ممبر بنا اور بیس سال تک یعنی افلاطون کی موت تک ۳۴۸ ق۔ م وهاں رھا۔
وه افلاطون کا سب سے بڑا اور ممتاز شاگرد تھا اپنے استادکے مرنے کے بعد "آتن" چھوڑ کر، اکیڈمی کی ایک شاخ، ترود کے علاقے " آسوس" نامی شھر میں کھولی۔ اور وھاں ھی " ھرمیاس" ، اس علاقے کے ایک حکمران کے ساتھه آشنا ھوا اورکچھه مدت کے بعد اس کی بھانجی سے شادی کی۔
343 ق۔م کو " فلیپ مقدونی " نے ارسطو کو دعوت دی کھ وه اس کے بیٹے اسکندر کی تعلیم و تربیت کرے۔ اسکندر اس وقت ۱۲ سال کا تھا۔ ارسطو نے یھ دعوت قبول کی اور اسکندر کی تعلیم اور تربیت کرنے لگا۔ ارسطو نے یھ کام قبول کرکے تاریخ میں ایک اھم کام کیا ھے۔ کیوں کھ کچھه سال کے بعد سال ۳۳۶۔ ق۔ م ، اسکندر تخت نشین ھوا اور اس نے دنیا کو فتح کرنا شروع کیا۔ اس وقت ارسطو مقدونیھ کو ترک کرکے آتن واپس لوٹا اور ایک نئی یونیورسٹی ، اپنے استاد کی اکیڈمی کے مطابق بنائی، اور جس علاقے میں یھ یونیورسٹی بنائی گئی اسی شھر کے نام یعنی "لوکیوم" سے مشھور ھوئی۔
"لوکیوم" ایک علمی یونیورسٹی جو لائبریری اور اساتذه کی خدمات سے مالامال تھی اور جھاں پر منظم طریقےسے پڑھایا جاتا تھا۔ لوکیوم میں ، مفکرین اور محققین نئے طریقے سے مطالعھ کرتے تھے۔
ارسطو بھی اسی دانشگاه میں درس دیتا تھا اور اپنے نظریات پیش کرتا تھا جو آثار ارسطو سے باقی رھے وه وهی کتابیں ھیں جو اس کے شاگردوں نے قلم بند کی ھیں۔
وه سبق پڑھانے کے اوقات میں چلتا تھا اور اسی لئے اس کے فلسفھ کا نام فلسفھ مشاء رکھا گیا ھے یعنی وه فلسفھ جو بھت زیاده چلتا ھے۔
اسکندر ۳۲۳ ق م میں اس دنیا سے چل بسا۔ اس نفرت کی وجھ سے جو اسکندرکے خلاف آتن اور یونان میں پیدا ھوئی تھی ارسطو پر یھ اتھام لگایا گیا کھ وه اپنے شاگرد کے جنگی کاموں سے راضی تھا اور اُس نے اس پر اپنا اثر ڈالا ھے۔ اسی لئے ارسطو آتں کو چھوڑ کر شھر"خالکیس" جو "اوبوئیا" کے علاقھ میں ھے چلا گیا اور وھیں پراپنی ماں کے گھر میں مقیم ھوا ، وه اس کے بعد تھوڑی مدت بیمار ره کر سال ۳۲۳ ق۔ م میں چل بسا۔
ارسطو دنیا کے بڑے فلاسفروں میں سے ھے کھ جس نے فکری اور فلسفیانھ موضوعات پر اپنے لاثانی نقاط نظر پیش کئے فزیکس سے لے کر منطق تک ، اخلاق سے لے کر سیاست تک ، ٹریجڑی ، نجوم ، مابعد الطبیعھ اور منطق کے بارے میں اس کے نظریات وسطی صدیوں کے مکاتیب فلسفھ پر حاکم رھے۔ اس کے بعد بھی اس کے افکار نشاۃثانیھ میں علمی اور ثقافتی میدانوں میں حاکم رھے ھیں۔ (بعد میں) اسلامی فلسفھ میں اس کا کردار دوسرے فلاسفھ سے زیاده ھے، اکثر اسلامی فلاسفھ جیسے فارابی ، ابن سینا اسی کے فلسفے کے پیرو تھے اسی لئے انھیں "مکتب مشاء" کھا جاتا ھے۔ انھوں نے زیاده تر ارسطو کے ھی منطقی افکار اور فلسفیانھ نظریات کو وسعت بخشی۔
پس ارسطو کبھی بھی الھی پیغمبروں میں سے نھیں تھا بلکھ ایک بھت بڑا فلسفی تھا جس کو اپنے پیروکاروں نے فلاسفه کے پیغمبر کا لقب دیا ھے۔
آخر میں اس فلسفی کے بعض حکمت آمیز کلمات کو یھاں پر نقل کیا جاتا ھے۔
جس میں اس نے عبارت مختصر لیکن پُرمعنی بیان کی ھے۔
" دوست دوسرا خود ھے" ، " علم حاصل کرنا بوڑھاپے کے لئے بھتریں ذخیره ھے" " خوشبختی خود اپنے ھاتھوں میں ھے" " فقیری انقلاب اور جرم کا باپ ھے" "سمجھنا یعنی رنج اٹھانا " " جس کام کیلئے اجرت لی جائے وه ذھن کو فرسوده کرتی ھے اور اسے بوڑھا بنادیتی ھے" " بزرگی افتخار حاصل کرنے میں نھیں ھے بزرگی یھ ھے کھ تمھیں معلوم ھوجائے کھ تم اس قابل ھو" " امید ، جاگنے میں ایک خواب ھے"۔ [1]