Please Wait
6876
گناه پر اصرار کےدو معنى هیں:
1ـ گناه کو تکرار کرنا
2ـ توبه اوراستغفار کئے بغیر گناه کا مرتکب هوناـ کناه پر اصرار کى بهت برے اور سخت نتائج هوتے هیںـ آیات و روایات میں گناه پر اصرار کى سخت مذمت کى گئى هے اور اس کے بعض آثار اور نتائج جیسے، گناه صغیره کا گناه کبیره میں تبدیل هونا، تقوىٰ کے دائره سے خارج هونا، بدبختى سے دوچار هونا، عبادت قبول نه هونا، انسان کو کفر والحاد کى حد تک لے جانا وغیره کى طرف اشاره کیا گیا هےـ گناه کى تکرار اور اصرار کے اثار و نیائج میں سے ایک نتیجه گناه کے دینوى اور اخرى سزا میں شدت پیدا هونا هےـ مثال کے طور پر اگرکوئى شخص گناه کبیره کا مرتکب هوجائے تو دوبار مرتکب هونے پر اس پر حد جارى کى جائے گى اور تیسرے بار مرتکب هونے پر اسے قتل کیا جائےگا ـ
پهلے دیکھنا چاهئے که گناه کے اصرار کا قانون اور اس کے معنى کیا هیں؟ گناه پر اصرار کے دو معنى هیں:
1ـ گناه کى تکرار: اصرار کے معنى، یقینى طور پر پشیمان کے بغیر گناه کى عملى تکرار هے، جیسے عرف میں کها جائے که مسلسل گناه انجام دے رها هے اور اس پر پشیمانى بھى نهیں هورها هےـ
2ـ توبه و استغفار کے مقصدو اراده کے بغیر گناه کا مرتکب هونا(حتى ایک بار)ـ
امام صادق علیه اسلام سے نقل کى گئى ایک روایت میں آیا هے:" گناه پر اصرار کا معنى یه هیں که انسان گناه کا مرتکب هوجائے اور تونه کرے اور توبه کرنے اور گناه کو ترک کرنے کا اراده بھى نه کرے"ـ[1] ایک اور روایت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سے نقل کیا گیا هے که:"توبه کرنے والے کاگناه اصرارشمار نهیں هوتا هے، اگر ایک دن میں ستر بار بھى ایک گناه کو انجام دےـ"[2]
مزکوره احادیث اور ان کے مانند دوسرى احادیث کے پیش نظر معلوم هوتا هے که گناه پر اصرار اس وقت معنى پیدا کرتا هے که جب گناه کے بعد توبه و استغفار نه کیا جائےـ
گناه پر اصرار کے اثرات:
آیات و روایات میں گناه پر اصرار کى سخت مذمت کى گئى هےـ اس کے بعض برے اثرات حسب ذیل هیں:
1ـ گناه صغیره کا گناه کبیره میں تبدیل هونا: ایک روایت میں آیا هے:"کوئى گناه صغیره اصرار کى صورت میں گناه صغیره نهیں هے اور توبه کى صورت میں کوئى گناه کبیر، کبیره نهیں هے"ـ[3]یعنى اگر کوئى گناه پر اصرار کرے اگرچه اس کا گناه صغیره هو وه گناه کبیره میں تبدیل هوتا هے اور اگر کوئى توبه و استغفار کرے تو اگر اس کا گناه کبیره بھى هو تو وه گناه کبیره کے دائره سے خارج هوتا هےـ
2ـ تقوىٰ کے دئره سے خارج هونا: قرآن مجید متقى کے حالات بیان کرتے هوئے ارشاد فرماتا هے:" وه لوگ ، وه هیں که جب کوئى نمایاں گناه کرتے هیں یا اپنے نفس پر ظلم کرتے هیں تو خدا کو یاد کرکے اپنے گناهوں پر استغفار کرتے هیں اور خداکے علاوه کون گناهوں کا معاف کرنے والا هے اور وه اپنے کئے پر جان بوجھـ کر اصرار نهیں کرتے"ـ[4]
3ـ عبادت کا قبول نه هونا: امام صادق علیه اسلام نے فرمایاهے:" خدا کى قسم، خداوند متعال اس بنده کى عبادت میں سے کسى چیز کو قبول نهیں کرتا هے جو اپنے گناه پر اصرار کرنے والا هو"ـ[5]
4ـ بدبختى سے دوچار هونا: امام صادق علیه اسلام نے فرمایا هے:" پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایاهے که، بدبختى کى علامتیں یه هیں : آنکھوں کا خشک هونا (آنسو اور گریه کا فقدان)، قساوت قلب( سنگ دلى)، دینا کى شدید لالچ اور گناه پر اصرار"ـ[6]
5ـ گناه کى قباحت(برائى) کا کم هونا
6ـ انسان کو کفروالحاد کى حد تک لے جانا: قرآن مجید کا ارشاد هے:" اس کے بعد برائى کرنے والوں کا انجام براهوا که انهوں نے خدا کى نشانیوں کو جھٹلا دیا اور برابران کامذاق اڑاتے رهے"ـ[7]
7ـ گناه کى دنیوى اور اخروى سزاوں میں شدت: روایتوں میں آیا هے که جوافراد گناه کبیره کا مرتکب هوتے هیں اور ان پر دوبار حد جارى هوا هو تو تیسرى بار قتل کئے جاتے هیںـ[8]
اس کے علاوه روایتوں میں زنا کے بارے میں آیا هے که : جس زنا کار نے تین بار کوڑے کھائے هوں چوتھى بار قتل کیا جاتا هےـ"[9]
اس لحاظ سے اگر انسان هر گناه کا ارتکاب کرنے کے بعد خواه وه گناه کتنا هى چھوٹا هو، فوراً توبه کرکے اس سے بلٹنے کا اراده نه رکھتا هوبلکه اس کا تکرار کرے تو گناه کى یه تکرار اس کو رفته رفته خداوند متعال سے دور کرنے کا سبب بن جاتى هے اور اس کے دل کو سیاه کرتى هے اور اس صورت میں انسان سے توبه کى توفیق سلب هوتى هےـ
[1] عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ (ع) فِی قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَمْ یُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا وَ هُمْ یَعْلَمُونَ قَالَ الْإِصْرَارُ هُوَ أَنْ یُذْنِبَ الذَّنْبَ فَلَا یَسْتَغْفِرَ اللَّهَ وَ لَا یُحَدِّثَ نَفْسَهُ بِتَوْبَةٍ فَذَلِکَ الْإِصْرَارُ، محمد بن یعقوب کلینی، کافی، ج 2، ص 288، بابُ الْإِصْرَارِ عَلَى الذَّنْبِ، حدیث 2.
[2] انوار التنزیل، ج 1، ص 182.
[3] کافی، ج 2، ص 282، بابُ الْإِصْرَارِ عَلَى الذَّنْبِ، حدیث 1.
[4] آل عمران،135:وَ الَّذِینَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ذَکَرُواْ اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَ مَن یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَ لَمْ یُصرُِّواْ عَلىَ مَا فَعَلُواْ وَ هُمْ یَعْلَمُون
[5] قال أَبِی بَصِیرٍ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع یَقُولُ لَا وَ اللَّهِ لَا یَقْبَلُ اللَّهُ شَیْئاً مِنْ طَاعَتِهِ عَلَى الْإِصْرَارِ عَلَى شَیْءٍ مِنْ مَعَاصِیهِ کافی، ج 2، ص 288، َبابُ الْإِصْرَارِ عَلَى الذَّنْبِ حدیث 3.
[6] شیخ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج 15، ص 337، حدیث 20680. عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنْ عَلَامَاتِ الشَّقَاءِ جُمُودُ الْعَیْنِ وَ قَسْوَةُ الْقَلْبِ وَ شِدَّةُ الْحِرْصِ فِی طَلَبِ الدُّنْیَا وَ الْإِصْرَارُ عَلَى الذَّنْبِ .
[7] روم ، 10.ثُمَّ کانَ عاقِبَةَ الَّذِینَ أَساؤُا السُّوآی أَنْ کَذَّبُوا بِآیات اللَّهِ وَ کانُوا بِها یَسْتَهْزِؤُنْ.
[8] کافی، ج 7، ص 191، حدیث 2.
[9] ایضاً، حدیث 1.