Please Wait
6821
اس سوال کا جواب، اراده کى تعریف اور اس کى تکوینى و تشریعى اراده کى تقسیم کے پیش نظر واضح هوتاهے- اراده دوقسم کاهوتاهے،ایک تکوینی اور دوسرا تشریعى -
تکوینى اراده عبارت هے: نظام کا علم مکمل اور تمام صورت میں، یعنى اسى قدر که خداوند کریم نظام کا مکمل طورپر علم رکھتا هے، یهى نظام کا علم کاءنات کى خلقت کا سبب هے که اس علم سے اراده کى تعبیر کى جاتى هے.
لیکن تشریعىاراده عبارت هے، مکلف کے فعل میں خداوند متعال کا علم اور یه علم مصلحت پر هے که جو تکلیف کا سرچشمه هوتاهے اور هم اسے تشریعى اراده کهتے هیں-
اطاعت و عصیان ، عبادت وگناه، ایسے عنوانات هیں که انسان کے با اراده کام کا خدا کے اوامر ونواهى که جو اس کا تشریعى اراده هے کے موازنے میں جدا هیں نه که خدا کےتکوینى اراده کے موازنه میں، خداوند متعال کا تکوینى اراده انسان کے تمام اختیارى افعال سے متعلق هے- محبوبیت اور مغضوبیت کے لحاظ سے جو خداکے تشریعى اراده کے کام کا معیار هے، انسان کے با اراده کام دوحصوں میں تقسیم هوتے هیں:١-پسندیده کام ،٢-ناپسند کام-پهلی قسم خدا کے تشریعی اراده سے متعلق هیں اور دوسرى قسم اس کے تشریعى اراده سے متعلق نهیں هیں، لیکن دونوں قسمیں با اراده هونے کے پیش نظر خدا کے تکوینى اراده سے متعلق هیں،اس لیے نا پسند افعال ابتداء اور براه راست انسان کے اراده سے مربوط هیں اور غیر مستقیم طور پر خدا کے تکوینى اراده سے متعلق هیں اور اسى کے ساتهـ اس کے تشریعى اراده کے خلاف هیں.
نظام خلقت میں بالکل کے مطابق نظام هستی میں خدا وند متعال کے علاوه کسى کو بنیادى اور براه راست فاعلیت کا حق نهی هے اور اگر بعض افراد آثار و افعال کے مظاهر کے حامل هیں توایسا خدا کى اجازت اور مشیت کے تحت هے((وما تشاٶن الاان یشاالله.))اور نه صرف فعل کی بنیاد خدا کے اراده سے متعلق هے ،بلکه خود فعل بهى خدا کے اراده کے قلمرو سے خارج نهیں هے.لیکن جو سوال پیدا هو تا هے وه یه هے که خدا کے اراده کى عمو میت کا لازمه اور اس کی وسعت کا تقاضا یه هے که برے اور ناپسند کام بهی اس کے اراده سے متعلق هوں،جبکه برے کاموں کا اراده ،جیسے ان کو انجام دینا قبیح اور ناروا هے اور خداوند متعال کی ذات هر قبیح اور ناپسند صفت سے منزه اور پاک هے.اس سوال کے جواب کے لیے ایک مقدمه کی ضرورت هے اور وه اراده کو تکوینى اور تشریعى میں تقسیم کرناهے.
کلی طور پر علوم نظرى کے قلمرو میں اراده ایک قسم سے زیاده نهیں هے اور وه"تکوینى"اراده هے اور اس کی دوسری قسم یعنى "تشریعى اراده"قانون سازى اور زیر بحث تشریع کے قلمرو سے متعلق هے.[1]
تکوینى اراده عبارت هے :نظام کے بارے میں مکمل اور تمام علم ،یعنی اسی قدر که خدا وند متعال کاینات کى خلقت کے مکمل نظام کے بارے میں جانتا هے ،یهى نظام کے بارے میں اس کا علم،خلقت کاینات کا سبب هے که اس علم سے ،اراده کی تعبیر کى جاتی هے.دوسرے الفاظ میں ،همارے اندر علم و اراده ممکنات میں سے هے اور اس کے دو معانی اور دو حقیقتیں هیں،لیکن خدا وند متعال کی واجب الوجود ذات میں ایک چیز کے علاوه نهیں هے،تخلیق کاینات کا اراده ،یعنی نظام خلقت کا علم.
لیکن تشریعى اراده عبارت هے:خدا وند متعال کا علم مکلف کے فعل کى مصلحت میں اور یه علم مصلحت پر هے جو تکلیف کا سر چشمه بن جاتا هے اور هم اسے تشریعى اراده کهتے هیں.پس جو تکلیف الهی سے خالی نه هونا چاهیے وه مصلحت کا علم هے،یعنى وهی تشریعی اراده جو تکالیف میں موجود هونا چاهیے وه موجود هے اور جو محال هے وه تکوینى اراده کی خلاف ورزى هے ،نه کھ تشریعى اراده که تشریعى اراده کی مخالفت ایک ممکن امر هے،یعنی ممکن هے خدا وند متعال بنده کے نماز پڑھنے کی مصلحت کا علم رکھتا هو ،لیکن وه بنده نماز نه پڑهے ،پس جو تکالیف میں لازم هے وه تشریعى اراده هے.[2]
مذکوره مقدمه کے پیش نظر سوال کا جواب، فلسفیانه قواعد کے مطابق اور قرآن مجید کى آیات کے همآهنگ اس صورت میں دیا جاسکتا هے:
خدا کی مخلوق کے وجود کا امکان همیشه اور هر جگه پر هے ."الله خالق کل شی[3]".جوبھی مخلوق اور خداکی پیدا کی هویى چیز هے،وه پسندیده اور خوبصورت هے."الذین احسن کل شی خلقه"[4] اور اصل وجود میں شایسته اور نارواکام کے در میان کویى فرق نهیں هے،دوسرے کے مال پر مالک کی اجازت سے قبضه کرنا اور غاصبانه قبضه واقعیت اور اصل هستی کے مطابق یکساں هے، مرد اور عورت کے درمیان قانونی اور مشروع روابط کی ان کے غیر قانو نی اور خلاف شرع روابط کے در میان عینى حقیقت میں کویى فرق نهی هے ،کیونکه دونوں کام فاعل کے اختیاری کام هیں اور حقیقت وهستی میں مساوی هیں اور اپنی حقیقت وهستی میں مخلوق اور خدا کا پیدا کیا گیا اور اس کے تکوینى اراده سے متعلق هے.اس لیے ان میں ناروا یاناپسند هو نے کی گنجایش نهیں هے .انسان کے اختیاری کام کا شایسته یاناشایسته هونا شرعی اوامر و نواهى کے مطابق اور عدم مطابق کى وجه سے هے که یه شرعی اوامر و نواهى بھی خداکی خوشنودی ورضامندى یا ناراضی وغصه کی حکایت کرتے هیں اور مرکز رضا و غصه کبھی خدا کا تکو ینی اراده نهیں هے.[5]
اطاعت و نافر مانی ،عبادت و گناه،ایسے عنوانات هیں جو انسان کے ارادی کام کے خدا کے اوامر و نواهی یعنى اس کے تشریعى اراده سے موازنه میں جدا هیں نه نه خدا کے تکوینى اراده سے موازنه کر کے ،اور خدا کا تکوینى اراده اس کے علم و قدرت کے مانند انسان کے تمام افعال پر وسعت اور احاطه رکھتا هے ،لیکن محبو بیت ومبغو ضیت کے لحاظ سے معیار، خدا کا تشریعى اراده هے .
حدیث میں آیا هے که خدا وند متعال فر ماتا هے:"یابن آدم انااولی بحسناتک منک وانت اولی بسییاتک منی"
کلام کی تعبیر پر سنجیدگی سے غور کر نے پر معلوم هو تا هے که خدا وند متعال حسنه کو خود سے نسبت دیتا هے اور انسان سے بھی ،اور فر ماتا هے :میں حسنات میں تم سے آگے هوں ،لیکن براییوں کے بارے میں فر ماتا هے:تم اپنی براییوں پر خود مجھـ سے آگے هو.
اس سلسله میں بعض حقائق کی بناپر رسایل میں جو مثال پیش کی گیی هے میں اسے بیان کر نا چاهتا هوںتاکه بهتر صورت میں آگاهی حاصل هو جایے :
سورج جب دیوارپر چمکتا هے ،تو دیوار بھی سورج کی روشنی سے روشن هو جاتی هے اور سورج کی روشنی سے هی سایه بنتا هے- جو شخص دیوار کو دیکھتا هے اور سورج کو نهی دیکھتا هے وه تصور کرتا هے که دیوار کی روشنی اس کی اپنی روشنی هے اور جو سورج کو دیکهتا هے وه جانتا هے که دیوار کا نور سورج سے هے،اگر چه روشنی دیوار سے منسوب هے که حقیقت میں دیوار روشن هے اور اس انتساب میں کوئی شک و شبه نهی هے اور بدیهی و ضروری هے ،لیکن اس کی روشنی سورج سے هے اسی طرح اٹهنا اور بیٹهنا هم سے منسوب هے.لیکن یه خداوند متعال کی طاقت و قدرت سے هے.اسى طرح هنسے اور رونے کا وجود میں آنا صرف خدا کی طرف سے هے که "انه هوا ضحک وابکی "لیکن هنسے اور رونے والے زید اور عمر هیں.
پهرهم دیکھتےهیں که دیوار کا سایه هے،اور جو جانتا هے که سایه دیوار پر قایم هے سایه اپنا ذاتی وجود نهیں رکهتا هے اور دیوار کا سایه سورج سے صادر نهیں هوا هے ،چنانچه دیوار کا نور سورج سے صادر هوا هے ،لیکن اگر دیوار پر سورج نه چمکتا تو سایه کبهى وجود میں نهیں آتا .پس اگر سورج نے ذاتی طور پر دیوار کو سایه نهیں دیا هے،بلکه ذاتی طور پر اسے روشنی دی هے ،لیکن سایه کا وجود سورج کی وجه سے هے .پس دیوار ذاتی طور پر روشنی نهیں رکھتی هے اور بالعرض روشن هے که اس کی روشنی سورج سے هے . پهر دیوار ذاتی طور پرسایه نهیں رکھتا هے اگر چه سایه اس کی طرف سے هے پس دیوار کے نور اور اس کے سایه کےوجود کے سلسله میں مطلقا سلطان خورشید حکم فر ما هے اور سورج کے اثر کو دیوار کے سایه سے جدا نهیں کیا جاسکتا هے ،اگر چه سایه دیوار کی طرف سے هے.
پس جان لیجیے که سورج کی روشنی حسنه کے لیے مثا ل هےاور دیوار کا سایه گناه اور برایی کے لیےمثال هے.
سورج دیوار سے کهتا هے :اگر چه تم روشن هو ،لیکن"انااولی بنورک منک"اور دیوار سے کهتا هے :اگر چه تیرے سایه کا ظهور بھی مجھـ سے هی هے لیکن"انت اولی بظلک منی"
اور پهر دیوار سے کهتا هے "مااصابک من نور فمن الشمس وما اصابک من ظل فمن نفسک"
مزید مطالعه کے لیے مندرجه ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جایے:
حسن حسن زاده آملی ،"خیر الاثر" در رد جبر و قدر
جعفر سبحانی ،الهیات علی هدی الکتاب والسنه والعقل ،ج٢
محمد تقی جعفری ،تفسیر ونقد تحلیل مثنوی جلال الدین محمد بلخی ،ج اول
روح الله موسوی خمینی ،"طلب واراده"ترجمه وشرح،سید احمد فهرى
صدر الدین ملا صدر شیرازی ،"رساله جبر و اختیار،خلق الاعمال"