Please Wait
7629
شیعوں کے عقیده کے مطابق، امامت ایک تقرری اور انتسابی منصب هے، جو خداوند متعال کی طرف سے عطا هوتا هے اور پیغمبر کے توسط سے اس کا اعلان کیا جاتا هے، کیونکه امام، صاحب عصمت هونا چاهئیے اور صرف خدا اور اس کے رسول هی جانتے هیں که کون شخص صاحب عصمت هوتا هے اور ولایت کے عظیم عهده کی لیاقت رکھتا هے، لیکن اس منصب کے لئے بظاهر دعوت قبول کرنے پر مبنی هونے کے کچھه اسباب هیں، جن میں سے بعض کی طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:
۱۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اس لئے یه کام انجام دیا تاکه لوگوں پر حجت تمام هو جائے اور بعد میں یه نه کهیں که همیں یا کسی دوسرے کو منتخب کیوں نه کیا؟ چونکه مجلس میں، حضرت علی۴ کے علاوه، حاضر افراد نے اپنے اختیار سے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی دعوت کو قبول نهیں کیا، اس لئے کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش باقی نه رهی-
۲۔ اس کام کے نتیجه میں حضرت علی علیه السلام کی دوسروں پر برتری اور فضیلت ثابت هوئی اور معلوم هوا که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی تنهائی، دباو اور دشمنوں کی مخالفت کے دنوں میں کسی میں یه جرائت، شجاعت اور همت هے که علی الاعلان اور کسی خوف کے بغیر پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے حق میں اپنی حمایت کا اعلان کرے-
۲۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کا کام معاشره کو دو مسائل کے لئے آماده کرنا تھا تاکه مستقبل میں اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد حقیقت کے متلاشی گمراهی سے دوچار نه هو جائیں:
ان میں سے ایک خود اصل امامت کا مسئله تھا، کیونکه امام و قائد کے بغیر معاشره نابودی اور زوال سے دوچار هوتا هے اور دوسرا مسئله حضرت علی السلام کی شخصیت کو امام کی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے معاشره میں ماحول سازگار بنانا تھا-
۴۔ ایک وجه یه بھی تھی که آنے والی اقوام کے لئے، حضرت علی علیه السلام کو کم سن هونے کے باوجود جانشین کے طور پر منتخب کرنے کا سبب معلوم هو جائے، کیونکه اگرچه امامت کا منصب ایک الهٰی منصب هے لیکن ایک اطمینان بخش سبب کا هونا ضروری هے تاکه نافرمانی اور مخالفت کے لئے بهانوں کی کوئی گنجائش باقی نه رهے-
۵۔ یه عمل، انسان کے تکلیف انجام دینے میں مختار هونے کے ساتھه سازگار هے- چناچه شیعه اس کے قائل هیں- اس ماجرا میں قریش کے سرداروں نے اپنے اراده سے اس دعوت کو قبول نهیں کیا اور حضرت علی علیه السلام نے اپنے اراده و اختیار سے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی دعوت کو قبول کیا، اگرچه لوح محفوظ الهٰی میں پهلے سے هی تمام امور معلوم تھے، لیکن یه انسان هے جو اپنے اراده و اختیار سے الهٰی توفیقات، هدایت یا ضلالت کو وجود میں لاتا هے، چناچه اس سلسله میں متعدد آیات اشاره کرتی هیں که هدایت و ضلالت و گمراهی ایسے کام هیں جنهیں خود انسان انجام دیتا هے اور ان کے لئے ماحول خود تیار کرتا هے-
۶۔ "یوم الانزار" کا ماجرا اس بات کی علامت هے که اسلامی معاشره خود افراد کی آزادی و انتخاب پر مبنی هے اور اس میں کسی قسم کا جبرواکراه اور امتیازی سلوک کا وجود نهیں هے، بلکه یه افراد کی صلاحیت اور لیاقت هے جس کے سبب ذمه داری قبول کرنے کا ماحول پیدا هوتا هے اور یه لیاقت الهٰی معیاروں پر مبنی هے نه که حسب و نسب اور رشته داری کی بنیادوں پر-
شیعوں کے عقیده کے مطابق امامت کا منصب استقراری اور انتسابی هے، جو الله تعالیٰ کی طرف سے عطا اور اس کے رسول کے توسط سے ابلاغ هوتا هے اور امام کو صاحب عصمت هونا چاهئیے اور صرف خداوند متعال اور اس کا رسول هی جانتا هے که کون شخص صاحب عصمت هے اور ولایت و امامت کے عظیم مقام کو سنبھالنے کی لیاقت رکھتا هے، لیکن منصب امامت کا بظاهر دعوت قبول کرنے پر مبنی هونے کی کچھه وجهیں هیں که ان میں سے بعض کی طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:
۱۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اس لئے یه کام انجام دیا تاکه لوگوں پر حجت تمام هو جائے اور بعد میں یه نه کهیں که همیں یا کسی دوسرے کو منتخب کیوں نهیں کیا؟ چونکه مجلس میں، حضرت علی علیه السلام کے علاوه حاضر افراد میں سے کسی نے اپنے اختیار سے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی دعوت کو قبول نهیں کیا، اس لئے کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش باقی نه رهی-
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم مناسب نهیں سمجھتے تھے که قریش میں سے کسی کے آپ{ص} کی جانشینی اور امر خلافت کو سنبھالنے کی لیاقت اور صلاحیت نه رکھنے کا خود اعلان کرتے، بلکه وه اس مسئله کو فطری اور عادی صورت میں واضح کرنا چاهتے تھے تاکه مسلمانوں کے لئے زیاده سے زیاده قابل ادراک هو اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی نسبت کینه اور دشمنی بھی پیدا نه هو- خلافت کی داستان کے مانند[1]، کچھه دوسرے مسائل بھی تھے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم ابتداء سے هی جانتے تھے که بعض لوگ کسی کام کو انجام دینے کی صلاحیت نهیں رکھتے تھے یا ان میں کوئی یه ذمه داری نبھا نهیں سکتا تھا، جنگ خندق[2] کے واقعه کی طرح که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے اصحاب میں سے علی علیه السلام کے سوا کسی کے عمروبن عبدود سے مقابله کرنے کے لائق نه هونے، اور یا جنگ خیبر میں ، آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے جنگ اور خیبر کو فتح کرنے کے لئے کچھه افراد کو بھیجا، لیکن وه ناکام هو کر واپس لوٹے اور خیبر کو فتح کرنے میں کامیاب نهیں هوئے[3]- اور اسی طرح پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کا بعض اصحاب کو سوره برائت پڑھنے کے لئے بھیجنا اور پھر انهیں اس کی ذمه داری سے معزول کرنا[4]-
۲۔ اس کام کے نتیجه میں حضرت علی علیه السلام کی دوسروں پر برتری اور فضیلت ثابت هوئی اور معلوم هوا که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی ، تنهائی، دباو اور دشمنوں کی طرف سے مخالفت کے وقت کس میں یه جرائت، شجاعت اور همت هے که علی الاعلان اور کسی خوف کے بغیر پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حق میں اپنی حمایت کا اعلان کرے- فتح خیبر کے مانند که پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا: " لا عطین رایۃ غداً کراراً غیر فرار[5]" {کل میں ایک ایسے شخص کے هاتھه میں پرچم دوں گا جو کرار هے اور فرار نهیں هے-} – باوجودیکه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم پهلے سے جانتے تھے که یه کام صرف حضرت علی علیه السلام هی نبھا سکتے هیں- یا جنگ خندق میں رسول گرامی صلی الله علیه وآله وسلم نے پهلے ماحول کو سازگار بنا دیا اور پھر حضرت علی علیه السلام کو بھیجا تاکه دوسروں پر آپ۴ کی فضیلت مسلم اور واضح هو جائے اور اس فضیلت کو مکمل کرنے کے سلسله میں فرمایا: " لقد برز الاسلام کله علی الکفر کله[6]" {بیشک پورا اسلام، پورے کفر کے مقابلے میں آیا هے}- یا جب بھی آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم مدینه سے باهر کهیں تشریف لے جاتے تھے، حضرت علی علیه السلام کو اپنا جانشین مقرر فرماتے تھے تاکه اشارتاً و عملاً ان کی برتری کو بیان فرمائیں- اس کے بغیر، اکثر مسلمان، دوسرے تمام لوگوں پر علی علیه السلام کی برتری کو قبول نهیں کرتے اور اس کی ذمه داری کو نهیں نبھاتے، خاص کر مخالفین اور منافقین موجود تھے اور پروپگنڈا کرتے تھے تاکه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے اس عمل کو ناکام بنا دیں اور اپنے ناپاک عزائم تک پهنچ جائیں-
۳۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کا کام معاشره کو دو مسائل کے لئے آماده کرنا تھا تاکه مستقبل میں اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد حق و حقیقت کے متلاشی گمراهی سے دوچار نه هو جائیں: ان میں سے ایک خود امامت کا مسئله تھا، کیونکه امام و قائد کے بغیر معاشره بدحالی اور زوال سے دوچار هوتا هے اور دوسرا مسئله حضرت علی علیه السلام کی کی شخصیت کو امام کی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے معاشره میں ماحول سازگار بنانا تھا-
۴۔ ایک وجه یه بھی تھی که آنے والی اقوام کے لئے، حضرت علی علیه السلام کو، کم سن هونے کے باوجود جانشین کے طور پر منتخب کرنے کا سبب معلوم هو جائے، کیونکه اگرچه امامت کا منصب ایک الهی منصب هے لیکن ایک اطمینان بخش سبب کا هونا ضروری هے تاکه نافرمانی اور مخالفت کے لئے بهانوں کی کوئی گنجائش باقی نه رهے- اگر پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم لوگوں سے سوال کئے بغیر اور ان کے ساتھه صلاح مشوره کئے بغیر، خود هی علی۴ کا انتخاب فرماتے تو یه عمل همیشه حتی که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه میں موجود لوگوں کے لئے بھی انتهائی تعجب خیز هوتا که کس طرح ایک بچے کو دوسروں پر مقدم قرار دیا جاتا هے، مستقبل کی اقوام کی بات هی نهیں، جنهوں نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه کو پایا بھی نهیں هو اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت اور طریقه کار سے براه راست آگاهی بھی نه رکھتے هوں اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے فضائل و صفات کو بھی نه جانا هو اس لئے ایسا هونا چاهئیے که علی علیه السلام کی دوسروں پر فضیلت و برتری کی وجه تاریخ میں همیشه کے لئے ثابت هو جائے، ورنه مخالفین یه دلیل پیش کر سکتے تھے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے انهیں فلاں کام کے لئے منتخب نهیں کیا هے- لیکن اب یه ثابت نهیں هو سکتا هے که ان {حضرت علی} میں وه کام انجام دینے کی صلاحیت نهیں تھی یا کوئی دوسرا شخص ان سے برتر تھا-
۵۔ یه عمل، تکلیف انجام دینے میں انسان کے مختار هونے کے ساتھه سازگار هے، چناچه شیعه اسی کے قائل هیں- اس واقعه میں قریش کے سرداروں نے اپنے اراده سے اس دعوت کو قبول نهیں کیا[7] اور حضرت علی علیه السلام نے اپنے اراده و اختیار سے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی دعوت کو قبول کیا[8]، اگرچه لوح محفوظ میں پهلے سے هی تمام امور معلوم تھے، لیکن یه انسان هے جو اپنے اختیار و اراده سے الهی توفیقات، هدایت یا ضلالت کو وجود میں لاتا هے، چناچه اس سلسله میں متعدد آیات اشاره کرتی هیں که هدایت و ضلالت و گمراهی ایسے کام هیں، جنهیں خود انسان انجام دیتا هے اور ان کے لئے خود ماحول پیدا کرتا هے-
۶۔ "یوم الانزار" کا ماجرا اس بات کی علامت هے که اسلامی معاشره خود افراد کی آزادی و انتخاب پر مبنی هے اور اس میں کسی قسم کا جبر و اکراه اور امتیازی سلوک کا وجود نهیں هے بلکه یه افراد کی صلاحیت اور لیاقت هے جس کے سبب ذمه داری قبول کرنے کا ماحول پیدا هوتا هے اور یه لیاقت، الهی معیاروں پر مبنی هے نه کی حسب و نسب اور رشته داری کی بنیادون پر- شاید آزادی کا بهترین مظهر، معاشرے کے امورمیں لوگوں کی شرکت اور ان سے صلاح و مشوره کرنا هے- اسلام میں صلاح و مشوره کی خاص اهمیت هے- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم وحی الهی سے متصل اور عصمت کے حامل تھے اور اس کے علاوه آپ{ص} عظیم هوش و ذکاوت کے مالک تھے، لیکن اس کے باوجود صلاح و مشوره اور تبادله خیالات کے لئے مسلمانوں کو دعوت دیتے تھے- پھر بھی پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم احکام الهی کے اصول پر لوگوں سے صلاح و مشوره نهیں کرتے تھے، بلکه آپ{ص} اس سلسله میں وحی الهی کے تابع هوتے تھے، اور بعض احکام کو نافذ کرنے کے طریقه کار کے سلسله میں لوگوں سے صلاح و مشوره کرتے تھے- چناچه قرآن مجید میں کئی جگهوں پر اس امر کی طرف اشاره کیا گیا هے[9]- سوره آل عمران میں صلاح و مشورے کا حکم، اس لئے تھا که جنگ احد کے بارے میں اصحاب سے صلاح و مشوره کا نتیجه اچھا نهیں نکلا تھا، اس لئے ایسا خیال هوتا تھا که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اب مسلمانوں کے ساتھه صلاح مشوره نهیں کریں گے[10]- ایک اور مورد جنگ بدر کا تھا که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے حباب بن منذر جیسے صحابیوں سے صلاح و مشوره کیا تھا[11] اور اسی طرح دوسرے مواقع پر بھی لوگوں سے صلاح و مشوره کرنے کے چند مقاصد هیں:
۱۔ مسلمانوں کے دلوں اور نظریات کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ان کے درمیان الفت و محبت کو پیدا کرنا-
۲۔ معاشره کے افراد کو اهمیت دینا اور ان کی شخصیت کا احترام کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو نشونما بخشنے کے لئے ماحول سازگار بنانا، کیونکه صلاح و مشوره میں افراد کی صلاحیتیں اور لیاقتیں مشخص هوتی هیں اور افراد کی شخصیت ابھرتی هے-
۳۔ دوسروں کے ساتھه صلاح و مشوره کرنے میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو امت اسلامیه کے لئے نمونه عمل قرار دینا- چناچه قرآن مجید میں ارشاد الهی هے: " آپ لوگوں کے لئے پیغمبر{ص} بهترین نمونه عمل هیں[12]-"
۴۔ کامیابیوں اور ناکامیوں کا کسی خاص شخص پر مرکوز نه هونا اور تمام معاشره کا کامیابیوں اور ناکامیوں میں شریک هونا-
[1] بلاذرى، انساب الاشراف، ج 1، ص 580؛ ابن قتیبة الدینورى، الامامة و السیاسة، ص 9 ؛ مسعودى، مروج الذهب، ج 2، ص 304.
[2] سبحانى جعفر، فروغ ابدیت، ص 545؛ بحارالانوار، ج 20، ص 227 و... .
[3] تاریخ طبرى، ج 2، ص 300؛ فروغ ابدیت، ص 467؛ ابن حجر عسقلانى، الاصابة، ج 2، ص 508 و... .
[4] بحارالانوار، ج 21، ص 266 به بعد؛ تفسیر المیزان، ج 9، ص 162 و...
[5] فروغ ابدیت، ص 647؛ سیره ی حلبى، ج 3، ص 41.
[6] ایضاً.
[7] تاریخ طبرى، ج 2، ص 63؛ سیره ی حلبى، ج 1، ص 286؛ بحارالانوار، ج 38؛ کنزالعمال، ج 15، ص 15 و... .
[8] ایضاً.
[9] آل عمران، 159؛ شورى، 38؛ تفسیر المیزان، ج 4، ص 70؛ مجمع البیان، ذیل آیه ی 159 آل عمران.
[10] الدرالمنثور، ج 2، ص 80 و 90؛ تفسیر المیزان، ج 4، ص 70.
[11] صحیح مسلم، ج 5، ص 170؛ البدایه والنهایه، ج 3، ص 263.
[12] احزاب، 21.