Please Wait
کا
11555
11555
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/07/09
سائٹ کے کوڈ
fa4762
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
73734
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
کیا عرفان اسلامی صحیح ہے؟ اور کیا اس کی خاص تعلیمات صوفی ازم سے متاثر نہیں ہیں؟
سوال
کیا عرفان اسلامی صحیح ہے؟ اور کیا اس کی خاص تعلیمات صوفی ازم سے متاثر نہیں ہیں؟ کیا عرفان کی طرف سے پیش کئے گئے مطالب قرآن مجید کی تفسیر بہ رائے نہیں ہیں؟ جبکہ آیہ شریفہ صراحت کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ: " لیس کمثلہ شیء" عرفا کیسے دعوی کرتے ہیں کہ ہم ہر چیز میں خدا کو دیکھتے ہیں؟
ایک مختصر
جو شخص قرآن مجید کی آیات، پیغمبر اکرم(ص) اور اہل بیت (ع) کے کلام پر غور کے ساتھ توجہ کرے، بیشک اسے عرفان کے قلمرو میں بہت ہی بلند اور عمیق مطالب ملیں گے اور عرفانی سیر و سلوک کے بارے میں فراوان آداب و دستور العمل ملیں گے۔ مثال کے طور پر توحید ذات، صفات افعال سے متعلق آیات کو سورہ توحید اور سورہ حدید کی ابتداء اور سورہ حشر کی آخری آیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح جو آیات خدا کے پورے عالم ہستی میں موجود ہونے اور اس کے تمام مخلوقات پر مسلط ہونے اور تمام مخلوقات کا اس کے لئے تسبیح و سجدہ تکوینی انجام دینے کی دلالت پیش کرتی ہیں، کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کئی آیات خاص آداب و سنن پر مشتمل ہیں کہ ان کو سیر وسلوک اسلامی کا لائحہ عمل کیا جاسکتا ہے، جیسے: تفکر و تامل ، توجہ دائمی، سحر خیزی، شب بیداری، روزہ داری، راتوں میں تسبیح و سجدہ طولانی، خضوع و خشوع، گریہ و زاری، عبادت میں اخلاص، خدا کے عشق و محبت میں اور قرب الہی تک پہنچنے کے مقصد سے نیک کام انجام دینے سےمتعلق آیات۔ اس کے علاوہ توکل، بارگاہ الہی میں رضا و تسلیم سے متعلق آیات اور جو کچھ ان مطالب کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کے بیانات، دعاؤں اور مناجات میں آیا ہے وہ بے شمار ہیں۔
بہرحال قرآن سمجھنے کے لئے عرفانی تفسیر کی ضرورت ہے اور حتی کہ امام خمینی (رہ) کے نظریہ کے مطابق جو، مفسر عرفانی اور اخلاقی مطالب بیان کرنے سے غفلت کرے اس نے قرآن مجید کے مقصد اور انزال کتب اور ارسال رسل[ع] کے اصلی مقصد سے غفلت کی ہے۔ اس نکتہ کی طرف توجہ بھی اہم ہے کہ وہ تفاسیر عرفانی کا سرچشمہ، معارف اہل بیت(ع) جانتے ہیں۔
جو کچھ کلی طور پر کہا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عرفان کا سرچشمہ قرآن مجید اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے لیکن بعض صوفی نما جاہلوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے جو ہر چیز کو عرفان کے نام سے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
بہرحال قرآن سمجھنے کے لئے عرفانی تفسیر کی ضرورت ہے اور حتی کہ امام خمینی (رہ) کے نظریہ کے مطابق جو، مفسر عرفانی اور اخلاقی مطالب بیان کرنے سے غفلت کرے اس نے قرآن مجید کے مقصد اور انزال کتب اور ارسال رسل[ع] کے اصلی مقصد سے غفلت کی ہے۔ اس نکتہ کی طرف توجہ بھی اہم ہے کہ وہ تفاسیر عرفانی کا سرچشمہ، معارف اہل بیت(ع) جانتے ہیں۔
جو کچھ کلی طور پر کہا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عرفان کا سرچشمہ قرآن مجید اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے لیکن بعض صوفی نما جاہلوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے جو ہر چیز کو عرفان کے نام سے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
تفصیلی جوابات
آپ کا سوال بعض پیش فرضوں پر مبنی ہے، کہ بہتر ہے کہ پہلے ہم ان پیش فرضوں کو بیان کریں اور اس کے بعد ان کی تحقیق کرکے اصلی سوال کا جواب دیں:
بظاہرآپ عرفان اور تصوف کو دومتفاوت چیزیں سمجھتے ہو اور اعتقاد رکھتے ہو کہ عرفان نے تصوف سے( جو آپ کی نظر میں ایک انحرافی سلسلہ ہے)اثر لیا ہے۔ اس کے بعد جاننا چاہتے ہو کہ کیا قرآن مجید کے بارے میں عرفا کا تصور تفسیر بہ رائے ہے یا نہیں؟ بظاہر آپ خود معتقد ہیں کہ عرفا کے بیانات زیادہ تر تفسیر بہ رائے ہیں اور اپنے اس دعوی کے لئے مثال اور گواہ بھی پیش کرتے ہیں۔
اس بنا پر، ہم اس سوال کے جواب میں پہلے عرفان اور تصوف اور ان کے آپسی رابطہ کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد عرفانی تفاسیر اور تفسیر قرآن مجید میں عرفا کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کریں گے، اور اس کے بعد آپ کے سوال کے مطابق توحید کے بارے میں عرفا کے نظریہ اور مذکورہ آیہ شریفہ سے ان کے تعارض کے بارے میں جواب دیں گے۔
اول: اسلامی عرفان کی پہچان
" عرفان" کا لفظ، لغت میں پہچاننے کے معنی میں آیا ہے۔ لیکن اصطلاح میں ایک خاص پہچان سے مخسوص ہے جو اندرونی اور باطنی شہود سے حاصل ہوتی ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے انکشاف اور شہود عام طور پر خاص مشق اور ریاضت پر منحصر ہیں اس لئے سیر و سلوک کے لائحہ عمل کے مطابق عملی طریقوں کو بھی "عرفان" کہا گیا ہے۔
ان وضاحتوں کے پیش نظر واضح ہوا کہ حقیقی عارف وہ ہے جو خاص عملی پروگراموں کو عملی جامہ پہناکر خداوند متعال کے شہودی اور حضوری اور صفات و افعال کی معرفت تک پہنچا ہو۔
جو کچھ عرفان اور عرفا کی سیر و سلوک کے طریقوں کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں اختلافات پیدا ہونے کا سبب بنا ہے، وہ ایک ایسا جواب ہے، جو ہر ایک نے اس سوال کا دیا ہے کہ کیا اسلام میں عرفان اسلامی کے نام پر کوئی چیز موجود ہے؟ یا مسلمانوں نے اسے دوسرے ادیان سے لے کر اپنے دین میں داخل کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے مطلق طور پر اسلام میں عرفان کے وجود سے ہی انکار کیا ہے اور اسے بدعت جان کر اس کی مذمت کی ہے اور عرفا کو گمراہ جانا ہے اور ایک گروہ نے عرفان کو اسلام کا جزو بلکہ اسے اسلام کا مغز و روح جانا ہے، جس کا سرچشمہ اسلام کے دوسرے حصوں کے مانند قرآن مجید اور سنت نبوی ہے۔
جو شخص قرآن مجید کی آیات، پیغمبر اکرم(ص) اور اہل بیت (ع) کے کلام پر غور کے ساتھ توجہ کرے، بیشک اسے عرفان کے قلمرو میں بہت ہی بلند اور عمیق مطالب ملیں گے اور عرفانی سیر و سلوک کے بارے میں فراوان آداب و دستور العمل ملیں گے۔ مثال کے طور پر توحید ذات، صفات افعال سے متعلق آیات کو سورہ توحید اور سورہ حدید کی ابتداء اور سورہ حشر کی آخری آیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح جو آیات خدا کے پورے عالم ہستی میں موجود ہونے اور اس کے تمام مخلوقات پر مسلط ہونے اور تمام مخلوقات کا اس کے لئے تسبیح و سجدہ تکوینی انجام دینے کی دلالت پیش کرتی ہیں، کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کئی آیات خاص آداب و سنن پر مشتمل ہیں کہ ان کو سیر وسلوک اسلامی لائحہ عمل کہا جاسکتا ہے، جیسے: تفکر و تامل ، توجہ دائمی، سحر خیزی، شب بیداری، روزہ داری، راتوں میں تسبیح و سجدہ طولانی، خضوع و خشوع، گریہ و زاری، عبادت میں اخلاص، خدا کے عشق و محبت میں اور قرب الہی تک پہنچنے کے مقصد سے نیک کام انجام دیے سےمتعلق آیات۔ اس کے علاوہ توکل، بارگاہ الہی میں رضا و تسلیم سے متعلق آیات اور جو کچھ ان مطالب کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کے بیانات، دعاؤں اور مناجات میں آیا ہے وہ بے شمار ہیں۔
ان آیات اور پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت (ع) کے رسا بیانات کے مقابلے میں کئی گروہوں نےافراط و تفریط کی راہ کا انتخاب کیا ہے:
پہلے گروہ نے تنگ نظری اور ظاہری بینی سے ان کے سادہ معنی لئے ہیں اور انھیں سادہ مسائل تصور کیا ہے اور اس سے متعلق آیات و روایات کے بلند معنی کرنے کی منع کی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کلی طور پر "عرفان" کے نام پر اسلامی متوں میں کسی چیز کے موجود ہونے سے منکر ہوئے ہیں۔
ایک اور گروہ کے افراد عرفان کے نام پر ایسے امور کے معتقد ہوئے ہیں کہ انھیں دینی متون اور کتاب وسنت کے مضامین شمار نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ ان میں سے بعض صریح نصوص کے بھی مخالف ہیں اور ناقابل تاویل بھی ہیں۔ اسی طرح ایک طرز عمل کے مقام پر کچھ ایسے آداب و رسوم پیدا کئے ہیں جنھیں غیر اسلامی فرقوں سے قرض لیا ہے ۔ اور دوسری جانب، تکلیف شرعی سے منکرہو کر عارف کے درجہ کو گرا دیا ہے۔
لیکن ایک اور گرہ جس نے اپنے آپ کو افراط و تفریط سے بچایا ہے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ عرفانی سیر و سلوک شرعی طریقہ کے مقابلہ میں ایک مستقل طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح تر اور لطیف تر حصہ ہے۔ اور اگر ہم ظاہر احکام کو " شریعت" کی اصطلاح سے مخصوس کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ: طریقت، شریعت کے طول میں اس کے دو باطن کے ساتھ ہے۔ مثال کے طور پر احکام ظاہری کی شریعت نماز کو معین کرتی ہے اور عرفان اس میں حواس اور حضور قلب کے تمرکزکا سسبب بن جاتا ہے۔[1]
دوم: تصوف کے بارے میں ایک بحث
تصوف کے بارے میں بحث سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ صوفیوں کے بارے میں ہمارا مراد بقول ملاصدرا شیرزای" جھلة صوفیہ" نہیں ہے بلکہ حقیقی صوفی ہیں۔[2]
لفظ " تصوف" کی بنیاد کے بارے میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں اور تصوف کے لئے مختلف لغوی بنیادیں بیان کی گئی ہیں۔ اس لئے ہم تصوف کے بارے میں لغوی بحث میں داخل نہیں ہوتے ہیں اور صرف تصوف کے اصطلاحی معنی پر اکتفا کرتے ہیں۔ تصوف، جسے طریقت بھی کہا جاتا ہے اصطلاح میں یہ ہے:"سیر وسلوک کا ایک خاص طریقہ، جس میں ایک صوفی مکمل طور پر ایک اخلاقی اور زاہدانہ زندگی میں اپنے حیوانی نفس پر کنٹرول کرکے، دنیا اور نفسیاتی خواہشات کو ترک کرکے اور روح کی بلندی کا خیال رکھ کر کچھ مقامات و حالات سے گزر کر اپنی تمام تر کوششوں کو مقام توحید تک پہنچنے پر متمرکز کرتا ہے۔"[3] البتہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ یہ تعرہف تصوف کی تھوڑی طرفداری میں پیش کی گئی ہے، لیکن، ہم پھر بھی آپ کو اپنے پہلے والے نکتہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ صوفی سے ہمارا مراد " جھلہ صوفیہ" نہیں ہے۔
سوم: عرفان و تصوف کے درمیان رابط
اس کے بعد والانکتہ عرفان و تصوف کے درمیان رابطہ ہے۔ امام خمینی(رہ) عارف اسے جانتے ہیں، جس نے علم توحید حاصل کیا ہو، لیکن صوفی اسے سمجھتے ہیں جس نے اس علم کو اپنے اندر متحقق کرکے عقل کے مرتبہ سے قلب کے مرتبہ تک پہنچا چکا ہو۔[4] اس بنا پر امام خمینی(رہ) صوفی کے مقام کو عارف کے مقام سے بلند تر سمجھتے ہیں۔
البتہ شہید مطہری جیسے بعض دوسرے افراد تصوف کو عرفان و عرفا کے اجتماعی حضور کا پہلو جانتے ہیں۔[5] ان توصیفات کے بعد یہ نکتہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بہت سے شیعہ علماء کی نظر میں حقیقی تصوف ایک نیک اور محدود امر کے عنوان سے متعارف کیا گا ہے۔ البتہ یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ بعض علماء نے صوفیوں کی مخالفت کی ہے، اس کی وجہ اس گروہ میں بعض افراد کی گمراہی ہے جو بعض ادوار میں ان کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ علماءلفظ تصوف سے استفادہ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور زیادہ تر عرفان کی اصلاح سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چہارم۔ عرفانی نظریات اور تفسیر بہ رائے
اب ہمیں جاننا چاہئے کہ کیا عرفانی نظریات، ایک قسم کی تفسیر بہ رائے ہے؟ اور کیا عرفا دین اور قرآن کو سمجھنے میں تفسیر بہ رائے کے مرتکب ہوئے ہیں؟ یہ ایک غلط کام ہے کہ ہم ہر اس تفسیر پر درویشی الفاظ کا الزام لگائیں، جو الفاظ عقل کے ادراک سے تھوڑے بلند تر ہوں اور یہ ہماری قرآن مجید سے دوری کا سبب ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے اپنے سوال میں آیہ شریفہ" لیس کمثلہ شیء" کی طرف اشارہ کیا ہے، جبکہ قرآن مجید کی دوسری آیات، جیسے:: پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔"[6] یا یہ آیہ شریفہ:" وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن"[7]کی طرف آپ نے توجہ نہیں کی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی عبارتوں کے بارے میں ایک کلی فہم و ادراک تک پہنچیں نہ یہ کہ ایک آیت کو دیکھ دوسروں کی تنقید کرنے بیٹھیں۔
امام علی(ع) نے ایک زندیق، جو یہ کہتا تھاکہ:" اگر قرآن مجید میں تناقض نہ ہوتا تو میں آپ کے دین کو قبول کرتا۔" فرمایا: قرآن مجید کے ایک حصہ کو عالم و جاہل دونون سمجھتے ہیں:" لیکن ایک حصہ کو صرف وہ لوگ سمجھتے ہیں جو باطنی پاکیزگی اور حس و شرح صدر کی لطافت کے مالک ہوں۔[8]
امام خمینی کا اعتقاد ہے کہ:" جو لوگ عرفانی ذوق نہیں رکھتے ہیں، وہ معارف دین کے ایک حصہ کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ اور سورہ نجم کی آیت 8اور 9 کے بارے میں کہتے ہیں:" اس کو صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو خود خدا کی قربت درک کرچکا ہو۔"[9] البتہ وہ ان افراد کی تنقید کرتے ہیں، کہ جویہ کہتے ہیں کہ یہ "معارف درویشوں کے کلام ہیں" اور ان کے بارے میں کہتے ہیں: یہ سب چیزیں قرآن مجید میں ایک لطیف صورت میں موجود ہیں۔[10]
اس کے علاوہ، شیعہ علماء کی دستیاب تفاسیر میں سے، بعض تفاسیر عرفانی ہیں کہ آپ اس سلسلہ میں ملا صدرا شیرازی، ملا علی نوری، حاج ملا ہادی سبزواری، آقا محمد رضا قمشہ ای اور امام خمینی کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ نکتہ اہم ہے کہ یہ افراد سب کے سب نا معقول وسطحی اور سوال انگیز شطحیات سے پرہیز کرتے تھے۔ ضمناً یہ افراد اپنے عرفانی مطالب کو ایک معقول اور برہانی صورت میں بیان کرتے ہیں۔[11]
اس بنا پر قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے عرفانی تفسیر ضروری ہے اور حتی کہ امام خمینی کی نظر میں جو مفسر عرفانی و اخلاقی مطالب سے غفلت کرے اس نے قرآن مجید کے مقصد اور انزال کتب و ارسال رسل [ع]کے اصلی مراد سے غفلت کی ہے۔[12] بہر حال یہ نکتہ اہم ہے کہ وہ عرفانی تفاسیر کا سرچشمہ معارف اہل بیت (ع) جانتے ہیں۔[13]
اس صورت میں عرفانی تفاسیر میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا اہم ہے؛ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ان تفسیروں میں، معارف اہل بیت (ع) کو بنیاد قرار دینا چاہئیے، نہ شخصی نسیج کو۔ اور دوسرا نکتہ یہ کہ بہتر ہے کہ عرفانی نسیج، برہانی و عقلانی ہوں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دوسروں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔
پنجم۔ اشیاء عالم میں خدا کو دیکھنا
آپ نے کہا ہے کہ عرفا اعتقاد رکھتے ہیں کہ خداوند متعال کو دنیا کی تمام چیزوں میں دیکھتے ہیں، جبکہ آیہ شریفہ میں آیا ہے کہ " لیس کمثلہ شیء"، " کوئی چیز خدا کے مانند نہیں ہے۔" ہمیں جاننا چاہئے کہ اتفاق سے توحید کے بارے میں عرفا کا نظریہ اس سے بہت ہی مکمل تر اور صحیح تر ہے کہ خدا کو زمین کی مخلوقات کے مانند جان لیں۔ اسی وجہ سے مناسب ہے کہ عرفا کے نظریہ کے مطابق توحید کی تھوڑی وضاحت کی جائے:
اسلامی عرفان میں توحید اس معنی میں ہے کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، اس نظریہ کے مطابق ایک مسلمان عارف تمام چیزوں کو خدا کی تجلی کے عنوان سے دیکھتا ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھتا ہے اور ماسو اللہ کو حق کے مظاہر جانتا ہے جو اسی کی عنایت سے وجود حاصل کرچے ہیں۔ عارف کی توحید، فلاسفر کی توحید سے قوی تر اور بالاتر ہے۔ عارف خدا کے مظاہر جانتا ہے۔ عارف کی نظر میں، وجود ہر جہت سے وسیع اور واحد ہے اور اس میں طولی و عرضی کثرت کی گنجائش نہیں ہے، کثرت، مظہر ہے نہ وجود، نسبت ماسو اللہ خدا نہیں ہے، بلکہ سایہ ہے، نہ صاحب سایہ، نسبت آئینہ ہے نہ صاحب تصویر[14] جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سایہ کا وجود صاحب سایہ پر متکی ہوتا ہے اور آئینہ میں ہماری تصویر بھی خود ہم پر متکی ہے اور ہمارے بغیر ہرگز وجود نہیں رکھتی ہے۔ اس عالم کی مخلوقات بھی خداوند متعال سے یہی نسبت رکھتی ہیں۔
اس بنا پر، یہ جو عرفا کہتے ہیں کہ ہم ہر ایک چیز میں خدا کو دیکھتے ہیں، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ درخت، پانی وغیرہ کے مانند ہر چیز خدا ہیں اور یا یہ کہ خدا ان کے مانند ہے، بلکہ یہ سب خداوند متعال کے مظہر اور سایہ ہیں، بہ الفاظ دیگر یہ سب خداوند متعال کے وجود کے تجلّی ہیں۔ مثال کے طور پر جب آپ کسی کی آواز کو سمجھتے ہوتو آپ کو اس شخص کے موجود گی کا علم حاصل ہوتا ہے، بہ الفاظ دیگر، کسی چیز کی آوازآپ کے ذہن میں بس صاحب صدا کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں آتی ہے۔ عرفا بھی کائنات کا مشاہدہ کر کے خدا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھتے ہیں۔ اس بنا پر عرفا کا کلام آیہ شریفہ سے تعارض نہیں رکھتا ہے، کیونکہ آیہ شریفہ بیان کرتی ہے کہ کوئی چیز خدا کے مانند نہیں ہے اور عرفا کا اعتقاد بھی یہی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز حقیقی وجود نہیں رکھتی ہے بجز وجود حضرت حق۔
اس سلسلہ میں امام خمینی یوں فرماتے ہیں:" حقیقی ہستی خدا ہے اور چونکہ جلوہ کسی قسم کا استقلال نہیں رکھتا ہے، اور اس کی ہستی صرف ربط ہے، مستقل نہیں ہے تاکہ خدا کی ہستی کے مقابلے میں اس کا نام بھی ہستی رکھیں۔"
وہ عارف اور حکیم کے درمیان اس چیز میں فرق جانتے ہیں کہ حکیم کثرت میں ہوتا ہے اور عارف وحدت میں غرق ہوتا ہے۔ حکیم(فلاسفر) صرف کائنات کو دیکھتا ہے اور اس سے خدا تک پہنچتا ہے، لیکن عارف صرف خدا کو دیکھتا ہے اور بس"۔[15]
جو کچھ کلی طور پر کہا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عرفان کا سرچشمہ قرآن مجید اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے لیکن بعض صوفی نما جاہلوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے جو ہر چیز کو عرفان کے نام سے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور خالص عرفانی تعلیمات کو علمائے دین اور اس راہ کے راہنماؤں سے سیکھنا چاہئے اور بقول مشہور:
طی این مرحلہ بی ھمرھی خضر مکن
ظلمات است بترس از خطر گمراھی
( اس مرحلہ کو حضرت خضر(ع) کی راہنمائی کے بغیر طے نہ کرنا، سامنے ظلمات ہے، گمراہی کے خطرات سے ڈرنا)
بظاہرآپ عرفان اور تصوف کو دومتفاوت چیزیں سمجھتے ہو اور اعتقاد رکھتے ہو کہ عرفان نے تصوف سے( جو آپ کی نظر میں ایک انحرافی سلسلہ ہے)اثر لیا ہے۔ اس کے بعد جاننا چاہتے ہو کہ کیا قرآن مجید کے بارے میں عرفا کا تصور تفسیر بہ رائے ہے یا نہیں؟ بظاہر آپ خود معتقد ہیں کہ عرفا کے بیانات زیادہ تر تفسیر بہ رائے ہیں اور اپنے اس دعوی کے لئے مثال اور گواہ بھی پیش کرتے ہیں۔
اس بنا پر، ہم اس سوال کے جواب میں پہلے عرفان اور تصوف اور ان کے آپسی رابطہ کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد عرفانی تفاسیر اور تفسیر قرآن مجید میں عرفا کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کریں گے، اور اس کے بعد آپ کے سوال کے مطابق توحید کے بارے میں عرفا کے نظریہ اور مذکورہ آیہ شریفہ سے ان کے تعارض کے بارے میں جواب دیں گے۔
اول: اسلامی عرفان کی پہچان
" عرفان" کا لفظ، لغت میں پہچاننے کے معنی میں آیا ہے۔ لیکن اصطلاح میں ایک خاص پہچان سے مخسوص ہے جو اندرونی اور باطنی شہود سے حاصل ہوتی ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے انکشاف اور شہود عام طور پر خاص مشق اور ریاضت پر منحصر ہیں اس لئے سیر و سلوک کے لائحہ عمل کے مطابق عملی طریقوں کو بھی "عرفان" کہا گیا ہے۔
ان وضاحتوں کے پیش نظر واضح ہوا کہ حقیقی عارف وہ ہے جو خاص عملی پروگراموں کو عملی جامہ پہناکر خداوند متعال کے شہودی اور حضوری اور صفات و افعال کی معرفت تک پہنچا ہو۔
جو کچھ عرفان اور عرفا کی سیر و سلوک کے طریقوں کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں اختلافات پیدا ہونے کا سبب بنا ہے، وہ ایک ایسا جواب ہے، جو ہر ایک نے اس سوال کا دیا ہے کہ کیا اسلام میں عرفان اسلامی کے نام پر کوئی چیز موجود ہے؟ یا مسلمانوں نے اسے دوسرے ادیان سے لے کر اپنے دین میں داخل کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے مطلق طور پر اسلام میں عرفان کے وجود سے ہی انکار کیا ہے اور اسے بدعت جان کر اس کی مذمت کی ہے اور عرفا کو گمراہ جانا ہے اور ایک گروہ نے عرفان کو اسلام کا جزو بلکہ اسے اسلام کا مغز و روح جانا ہے، جس کا سرچشمہ اسلام کے دوسرے حصوں کے مانند قرآن مجید اور سنت نبوی ہے۔
جو شخص قرآن مجید کی آیات، پیغمبر اکرم(ص) اور اہل بیت (ع) کے کلام پر غور کے ساتھ توجہ کرے، بیشک اسے عرفان کے قلمرو میں بہت ہی بلند اور عمیق مطالب ملیں گے اور عرفانی سیر و سلوک کے بارے میں فراوان آداب و دستور العمل ملیں گے۔ مثال کے طور پر توحید ذات، صفات افعال سے متعلق آیات کو سورہ توحید اور سورہ حدید کی ابتداء اور سورہ حشر کی آخری آیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح جو آیات خدا کے پورے عالم ہستی میں موجود ہونے اور اس کے تمام مخلوقات پر مسلط ہونے اور تمام مخلوقات کا اس کے لئے تسبیح و سجدہ تکوینی انجام دینے کی دلالت پیش کرتی ہیں، کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کئی آیات خاص آداب و سنن پر مشتمل ہیں کہ ان کو سیر وسلوک اسلامی لائحہ عمل کہا جاسکتا ہے، جیسے: تفکر و تامل ، توجہ دائمی، سحر خیزی، شب بیداری، روزہ داری، راتوں میں تسبیح و سجدہ طولانی، خضوع و خشوع، گریہ و زاری، عبادت میں اخلاص، خدا کے عشق و محبت میں اور قرب الہی تک پہنچنے کے مقصد سے نیک کام انجام دیے سےمتعلق آیات۔ اس کے علاوہ توکل، بارگاہ الہی میں رضا و تسلیم سے متعلق آیات اور جو کچھ ان مطالب کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کے بیانات، دعاؤں اور مناجات میں آیا ہے وہ بے شمار ہیں۔
ان آیات اور پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت (ع) کے رسا بیانات کے مقابلے میں کئی گروہوں نےافراط و تفریط کی راہ کا انتخاب کیا ہے:
پہلے گروہ نے تنگ نظری اور ظاہری بینی سے ان کے سادہ معنی لئے ہیں اور انھیں سادہ مسائل تصور کیا ہے اور اس سے متعلق آیات و روایات کے بلند معنی کرنے کی منع کی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کلی طور پر "عرفان" کے نام پر اسلامی متوں میں کسی چیز کے موجود ہونے سے منکر ہوئے ہیں۔
ایک اور گروہ کے افراد عرفان کے نام پر ایسے امور کے معتقد ہوئے ہیں کہ انھیں دینی متون اور کتاب وسنت کے مضامین شمار نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ ان میں سے بعض صریح نصوص کے بھی مخالف ہیں اور ناقابل تاویل بھی ہیں۔ اسی طرح ایک طرز عمل کے مقام پر کچھ ایسے آداب و رسوم پیدا کئے ہیں جنھیں غیر اسلامی فرقوں سے قرض لیا ہے ۔ اور دوسری جانب، تکلیف شرعی سے منکرہو کر عارف کے درجہ کو گرا دیا ہے۔
لیکن ایک اور گرہ جس نے اپنے آپ کو افراط و تفریط سے بچایا ہے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ عرفانی سیر و سلوک شرعی طریقہ کے مقابلہ میں ایک مستقل طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح تر اور لطیف تر حصہ ہے۔ اور اگر ہم ظاہر احکام کو " شریعت" کی اصطلاح سے مخصوس کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ: طریقت، شریعت کے طول میں اس کے دو باطن کے ساتھ ہے۔ مثال کے طور پر احکام ظاہری کی شریعت نماز کو معین کرتی ہے اور عرفان اس میں حواس اور حضور قلب کے تمرکزکا سسبب بن جاتا ہے۔[1]
دوم: تصوف کے بارے میں ایک بحث
تصوف کے بارے میں بحث سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ صوفیوں کے بارے میں ہمارا مراد بقول ملاصدرا شیرزای" جھلة صوفیہ" نہیں ہے بلکہ حقیقی صوفی ہیں۔[2]
لفظ " تصوف" کی بنیاد کے بارے میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں اور تصوف کے لئے مختلف لغوی بنیادیں بیان کی گئی ہیں۔ اس لئے ہم تصوف کے بارے میں لغوی بحث میں داخل نہیں ہوتے ہیں اور صرف تصوف کے اصطلاحی معنی پر اکتفا کرتے ہیں۔ تصوف، جسے طریقت بھی کہا جاتا ہے اصطلاح میں یہ ہے:"سیر وسلوک کا ایک خاص طریقہ، جس میں ایک صوفی مکمل طور پر ایک اخلاقی اور زاہدانہ زندگی میں اپنے حیوانی نفس پر کنٹرول کرکے، دنیا اور نفسیاتی خواہشات کو ترک کرکے اور روح کی بلندی کا خیال رکھ کر کچھ مقامات و حالات سے گزر کر اپنی تمام تر کوششوں کو مقام توحید تک پہنچنے پر متمرکز کرتا ہے۔"[3] البتہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ یہ تعرہف تصوف کی تھوڑی طرفداری میں پیش کی گئی ہے، لیکن، ہم پھر بھی آپ کو اپنے پہلے والے نکتہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ صوفی سے ہمارا مراد " جھلہ صوفیہ" نہیں ہے۔
سوم: عرفان و تصوف کے درمیان رابط
اس کے بعد والانکتہ عرفان و تصوف کے درمیان رابطہ ہے۔ امام خمینی(رہ) عارف اسے جانتے ہیں، جس نے علم توحید حاصل کیا ہو، لیکن صوفی اسے سمجھتے ہیں جس نے اس علم کو اپنے اندر متحقق کرکے عقل کے مرتبہ سے قلب کے مرتبہ تک پہنچا چکا ہو۔[4] اس بنا پر امام خمینی(رہ) صوفی کے مقام کو عارف کے مقام سے بلند تر سمجھتے ہیں۔
البتہ شہید مطہری جیسے بعض دوسرے افراد تصوف کو عرفان و عرفا کے اجتماعی حضور کا پہلو جانتے ہیں۔[5] ان توصیفات کے بعد یہ نکتہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بہت سے شیعہ علماء کی نظر میں حقیقی تصوف ایک نیک اور محدود امر کے عنوان سے متعارف کیا گا ہے۔ البتہ یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ بعض علماء نے صوفیوں کی مخالفت کی ہے، اس کی وجہ اس گروہ میں بعض افراد کی گمراہی ہے جو بعض ادوار میں ان کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ علماءلفظ تصوف سے استفادہ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور زیادہ تر عرفان کی اصلاح سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چہارم۔ عرفانی نظریات اور تفسیر بہ رائے
اب ہمیں جاننا چاہئے کہ کیا عرفانی نظریات، ایک قسم کی تفسیر بہ رائے ہے؟ اور کیا عرفا دین اور قرآن کو سمجھنے میں تفسیر بہ رائے کے مرتکب ہوئے ہیں؟ یہ ایک غلط کام ہے کہ ہم ہر اس تفسیر پر درویشی الفاظ کا الزام لگائیں، جو الفاظ عقل کے ادراک سے تھوڑے بلند تر ہوں اور یہ ہماری قرآن مجید سے دوری کا سبب ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے اپنے سوال میں آیہ شریفہ" لیس کمثلہ شیء" کی طرف اشارہ کیا ہے، جبکہ قرآن مجید کی دوسری آیات، جیسے:: پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔"[6] یا یہ آیہ شریفہ:" وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن"[7]کی طرف آپ نے توجہ نہیں کی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی عبارتوں کے بارے میں ایک کلی فہم و ادراک تک پہنچیں نہ یہ کہ ایک آیت کو دیکھ دوسروں کی تنقید کرنے بیٹھیں۔
امام علی(ع) نے ایک زندیق، جو یہ کہتا تھاکہ:" اگر قرآن مجید میں تناقض نہ ہوتا تو میں آپ کے دین کو قبول کرتا۔" فرمایا: قرآن مجید کے ایک حصہ کو عالم و جاہل دونون سمجھتے ہیں:" لیکن ایک حصہ کو صرف وہ لوگ سمجھتے ہیں جو باطنی پاکیزگی اور حس و شرح صدر کی لطافت کے مالک ہوں۔[8]
امام خمینی کا اعتقاد ہے کہ:" جو لوگ عرفانی ذوق نہیں رکھتے ہیں، وہ معارف دین کے ایک حصہ کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ اور سورہ نجم کی آیت 8اور 9 کے بارے میں کہتے ہیں:" اس کو صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو خود خدا کی قربت درک کرچکا ہو۔"[9] البتہ وہ ان افراد کی تنقید کرتے ہیں، کہ جویہ کہتے ہیں کہ یہ "معارف درویشوں کے کلام ہیں" اور ان کے بارے میں کہتے ہیں: یہ سب چیزیں قرآن مجید میں ایک لطیف صورت میں موجود ہیں۔[10]
اس کے علاوہ، شیعہ علماء کی دستیاب تفاسیر میں سے، بعض تفاسیر عرفانی ہیں کہ آپ اس سلسلہ میں ملا صدرا شیرازی، ملا علی نوری، حاج ملا ہادی سبزواری، آقا محمد رضا قمشہ ای اور امام خمینی کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ نکتہ اہم ہے کہ یہ افراد سب کے سب نا معقول وسطحی اور سوال انگیز شطحیات سے پرہیز کرتے تھے۔ ضمناً یہ افراد اپنے عرفانی مطالب کو ایک معقول اور برہانی صورت میں بیان کرتے ہیں۔[11]
اس بنا پر قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے عرفانی تفسیر ضروری ہے اور حتی کہ امام خمینی کی نظر میں جو مفسر عرفانی و اخلاقی مطالب سے غفلت کرے اس نے قرآن مجید کے مقصد اور انزال کتب و ارسال رسل [ع]کے اصلی مراد سے غفلت کی ہے۔[12] بہر حال یہ نکتہ اہم ہے کہ وہ عرفانی تفاسیر کا سرچشمہ معارف اہل بیت (ع) جانتے ہیں۔[13]
اس صورت میں عرفانی تفاسیر میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا اہم ہے؛ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ان تفسیروں میں، معارف اہل بیت (ع) کو بنیاد قرار دینا چاہئیے، نہ شخصی نسیج کو۔ اور دوسرا نکتہ یہ کہ بہتر ہے کہ عرفانی نسیج، برہانی و عقلانی ہوں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دوسروں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔
پنجم۔ اشیاء عالم میں خدا کو دیکھنا
آپ نے کہا ہے کہ عرفا اعتقاد رکھتے ہیں کہ خداوند متعال کو دنیا کی تمام چیزوں میں دیکھتے ہیں، جبکہ آیہ شریفہ میں آیا ہے کہ " لیس کمثلہ شیء"، " کوئی چیز خدا کے مانند نہیں ہے۔" ہمیں جاننا چاہئے کہ اتفاق سے توحید کے بارے میں عرفا کا نظریہ اس سے بہت ہی مکمل تر اور صحیح تر ہے کہ خدا کو زمین کی مخلوقات کے مانند جان لیں۔ اسی وجہ سے مناسب ہے کہ عرفا کے نظریہ کے مطابق توحید کی تھوڑی وضاحت کی جائے:
اسلامی عرفان میں توحید اس معنی میں ہے کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، اس نظریہ کے مطابق ایک مسلمان عارف تمام چیزوں کو خدا کی تجلی کے عنوان سے دیکھتا ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھتا ہے اور ماسو اللہ کو حق کے مظاہر جانتا ہے جو اسی کی عنایت سے وجود حاصل کرچے ہیں۔ عارف کی توحید، فلاسفر کی توحید سے قوی تر اور بالاتر ہے۔ عارف خدا کے مظاہر جانتا ہے۔ عارف کی نظر میں، وجود ہر جہت سے وسیع اور واحد ہے اور اس میں طولی و عرضی کثرت کی گنجائش نہیں ہے، کثرت، مظہر ہے نہ وجود، نسبت ماسو اللہ خدا نہیں ہے، بلکہ سایہ ہے، نہ صاحب سایہ، نسبت آئینہ ہے نہ صاحب تصویر[14] جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سایہ کا وجود صاحب سایہ پر متکی ہوتا ہے اور آئینہ میں ہماری تصویر بھی خود ہم پر متکی ہے اور ہمارے بغیر ہرگز وجود نہیں رکھتی ہے۔ اس عالم کی مخلوقات بھی خداوند متعال سے یہی نسبت رکھتی ہیں۔
اس بنا پر، یہ جو عرفا کہتے ہیں کہ ہم ہر ایک چیز میں خدا کو دیکھتے ہیں، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ درخت، پانی وغیرہ کے مانند ہر چیز خدا ہیں اور یا یہ کہ خدا ان کے مانند ہے، بلکہ یہ سب خداوند متعال کے مظہر اور سایہ ہیں، بہ الفاظ دیگر یہ سب خداوند متعال کے وجود کے تجلّی ہیں۔ مثال کے طور پر جب آپ کسی کی آواز کو سمجھتے ہوتو آپ کو اس شخص کے موجود گی کا علم حاصل ہوتا ہے، بہ الفاظ دیگر، کسی چیز کی آوازآپ کے ذہن میں بس صاحب صدا کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں آتی ہے۔ عرفا بھی کائنات کا مشاہدہ کر کے خدا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھتے ہیں۔ اس بنا پر عرفا کا کلام آیہ شریفہ سے تعارض نہیں رکھتا ہے، کیونکہ آیہ شریفہ بیان کرتی ہے کہ کوئی چیز خدا کے مانند نہیں ہے اور عرفا کا اعتقاد بھی یہی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز حقیقی وجود نہیں رکھتی ہے بجز وجود حضرت حق۔
اس سلسلہ میں امام خمینی یوں فرماتے ہیں:" حقیقی ہستی خدا ہے اور چونکہ جلوہ کسی قسم کا استقلال نہیں رکھتا ہے، اور اس کی ہستی صرف ربط ہے، مستقل نہیں ہے تاکہ خدا کی ہستی کے مقابلے میں اس کا نام بھی ہستی رکھیں۔"
وہ عارف اور حکیم کے درمیان اس چیز میں فرق جانتے ہیں کہ حکیم کثرت میں ہوتا ہے اور عارف وحدت میں غرق ہوتا ہے۔ حکیم(فلاسفر) صرف کائنات کو دیکھتا ہے اور اس سے خدا تک پہنچتا ہے، لیکن عارف صرف خدا کو دیکھتا ہے اور بس"۔[15]
جو کچھ کلی طور پر کہا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عرفان کا سرچشمہ قرآن مجید اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے لیکن بعض صوفی نما جاہلوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے جو ہر چیز کو عرفان کے نام سے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور خالص عرفانی تعلیمات کو علمائے دین اور اس راہ کے راہنماؤں سے سیکھنا چاہئے اور بقول مشہور:
طی این مرحلہ بی ھمرھی خضر مکن
ظلمات است بترس از خطر گمراھی
( اس مرحلہ کو حضرت خضر(ع) کی راہنمائی کے بغیر طے نہ کرنا، سامنے ظلمات ہے، گمراہی کے خطرات سے ڈرنا)
[1]۔ خلاصهای از مقالۀ: مصباح، محمد تقی، عرفان و حکمت اسلامی، : فصلنامه معرفت، شماره 21. به نقل پاسخ 3221 سائٹ.
[2]۔ ملاصدرا نے گروه اول کے لئے اصطلاح جهله صوفیه استفاده کیا ہے. به نقل از: آقانوری، علی، عارفان مسلمان و شریعت اسلام، ص 34، انتشارات دانشگاه ادیان و مذاهب.
[3]۔ کاشانی، مصباح الهدایة و مفتاح الکفایة، تصحیح و مقدمه، سید جلال الدین همایی، ص 81، نشر هما.
[4]۔ اردبیلی، سید عبدالغنی، تقریرات درس فلسفه امام خمینی، ج 2، ص 156، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی.
[5]۔ مطهری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، ص 196، انتشارات صدرا.
[6]۔ نجم، آیه 8 و 9. یہ آیات پیغمبر اسلام [ص] کی معراج کے بارے میں ہیں کہ ان میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اور خدا کے درمیان فاصلہ دو کمانوں کے برابر یا انسے کم تر ہوا.
[7]۔ حدید، آیه 3.
[8]۔ علامه مجلسی، بحار الانوار، ج 90، ص 120، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1362.
[9]۔ صحیفه امام، ج 17، ص 457 – 458، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی.
[10]۔ ایضاً، ج 17، ص 458.
[11]۔ ایازی، سید محمد علی، تفسیر قرآن مجید برگرفته از آثار امام خمینی، ج 1، ص 456، با نظارت محمد هادی معرفت، نشر عروج.
[12] ۔ ایضاً، ص 219.
[13]۔ ایضاً، ص 225.
[14]،ملاحظہ ہو: سؤال 1220 سائٹ.
[15]۔ ام خمینی، مصباح الهدایة الی الخلافة و الولایة، ص 48، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، طب اول 1372.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے