Please Wait
8928
الف۔ مسافت شرعی کی مقدار کے بارے میں فقہا نے کئی نظرئیے پیش کیے ہیں: بعض فقہا مسافت شرعی کو ۵/۲۲ کلومیٹر جانتے ہیں[1]۔ بعض کہتے ہیں کہ مسافت شرعی تقریباً ۵/۲۱ کلومیٹر ہے[2]۔ بعض فقہا کا نظریہ ہے کہ مسافت شرعی تقریباً ۲۲ کلومیٹر ہے[3]۔
ب۔ سوال کے دوسرے حصہ کے جواب کے بارے میں مراجع محترم تقلید نے حسب ذیل ارشاد فرمایا ہے:
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای {مدظلہ العالی}:
۱۔ اگر ۸ فرسخ والے راستہ سے وہاں تک جانا چاہتا ہے تو نماز قصر پڑھے اور اگر ۸ فرسخ سے کم والے راستہ سے جانا چاہتا ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئیے۔
۲۔ آٹھ فرسخ کی ابتدا کو شہر کے آخری مکانوں سے حساب کیا جانا چاہئیے۔
۳۔ ۸ فرسخ یعنی ۴۵ کلومیٹر اگرچہ رفت و برگشت کی صورت میں بھی ہو۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی {مدظلہ العالی}:
۱۔ معیار وہ راستہ ہے، جہاں سے جاتا ہے۔
۲۔ شہر کے آخری مکان معیار ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی {مدظلہ العالی}:
۱۔ اگر اس راستہ سے جانا چاہتا ہے کہ شہر سے باہر نکلے اور واپس نہ لوٹنے کی صورت میں مقصد تک ۴۵ کلومیٹر فاصلہ ہو یا واپس لوٹنے کی صورت میں مقصد تک ۵/۲۲ کلومیٹر کا فاصلہ ہو تو وہ مسافر ہے اور اس کی نماز قصر ہے اور شہر کے آخری مکان سے اس کے سفر کی ابتداء شمار ہوگی۔ لیکن اگر اس راستہ سے جانا چاہتا ہو کہ پورا راستہ شہر کے اندر ہے اور مقصد تک مکانوں کا سلسلہ {اتصال} جاری ہے تو وہ مسافر نہیں ہے اور اس کی نماز پوری ہے، واللہ العالم۔
۲۔ شہر کے آخری رہائشی مکانات شہر کی دیوار کے حکم میں ہیں اور وہی شہر کا آخری حصہ اور سفر کا آغاز محسوب ہوگا۔ واللہ العالم
حضرت آیت اللہ مہدی ہادوی تہرانی {دامت برکاتہ}:
سفر شرعی کا معیار جو نماز کو قصر پڑھنے یا روزہ کا واجب ساقط ہونے کا سبب بنتا ہے " ایک دن کی راہ" ہے۔ "دن" سے مراد "شب" کے مقابلے میں ہے اور یہ سب سے چھوٹے دن پر بھی صادق آتا ہے اور "ایک دن کی راہ" سے مراد وہ مسافت ہے جس پر عام گاڑیاں متعارف صورت میں ایک دن میں طے کرتی ہیں۔
اس وصف کے پیش نظر اگر کوئی شخص ایسا سفر انجام دے کہ رفت آمد اس مقدار مسافت کے برابر ہو، تو اس کی نماز قصر اور اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔
سفر کی مسافت شہر کے آخری حصہ، یعنی شہر کے آخری مکانوں یا عمارتوں سے شمار ہوگی۔
[1]امام خمینی، بهجت، خامنه ای، فاضل، صافی و نوری. توضیح المسائل مراجع، ج1، م 1272.
[2]مکارم شیرازی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص 684.
[3]تبریزی، سیستانی و وحید خراسانی، منهاج الصالحین، م 884.