Please Wait
14727
- سیکنڈ اور
یہ سوال دو حصوں پر مشمل ہے:
۱- حضرت ابراھیم {ع} کے بارے میں
۲- تمام انبیاء{ع} کے بارے میں
پہلے سوال کے بارےمیں دو نظریے پائے جاتے ہیں:
۱- بعض اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابراھیم{ع} کا باپ بت پرست تھا اور اس کا نام آزر تھا-
۲- بعض اہل سنت اور تمام شیعہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تمام انبیاء {ع} من جملہ حضرت ابراھیم {ع} کے ماں، باپ اور اجداد اور ان کے پدری و مادری اجداد بت پرست نہیں تھے، بلکہ وہ سب موحد اور خدا پرست تھے اور حضرت ابراھیم {ع} کے باپ کا نام تارخ تھا-
قرآن مجید کی چار آیتوں میں آزر کو " اب" کہا گیا ہے کہ یہاں پر جو شواہد اور دلائل ہم بیان کریں گے ان سے معلوم ھوگا کہ ان آیات میں "اب"سے مراد " باپ" نہیں ہے، بلکہ حضرت ابراھیم {ع} کا چچا مراد ہے- پیغمبر اکرم {ص} سے نقل کی گئی روایتوں کے مطابق، پیغمبر اسلام {ص} کے اجداد، حضرت آدم {ع} تک سب موحد تھے- پیغمبر اسلام {ص} نے اس سلسلہ میں فرمایا :" میں مسلسل پاک صلب سے پاک رحم میں منتقل ھوتا رہا ھوں-" مذکورہ حدیث کے مطابق حضرت ابراھیم {ع} کے باپ، مشرک نہیں ھوسکتے ہیں- اس لحاظ سے ان آیات میں " اب" کے معنی باپ کے علاوہ کچھ اور ہیں { یعنی چچا یا پدر نسبتی و غیرہ}-
ایک دوسری آیت میں لفظ " اب" { یعنی باپ} کا، جد، چچا اور حقیقی باپ پر اطلاق ھوا ہے، اس لئے اگر کہا جائے " آزر" جس کو قرآن مجید میں " اب" کہا گیا ہے تو اس سے مراد حضرت ابراھیم {ع} کا چچا ہے، تو یہ دعوی قرآن مجید کی ثقافت کے خلاف اور بغیر دلیل نہیں ہے-
ہماری روایتوں میں حضرت ابراھیم {ع} کے حقیقی باپ " تارخ " متعارف ھوئے ہیں اور توریت نے بھی اس کی تائید کی ہے- لیکن یہ سوال کہ کیا ہر پیغمبر کو پاک نسل سے ھونا چائیے؟ اس سلسلہ میں رسول خدا {ص} کی روایتوں میں آیا ہے کہ :" میرے ماں باپ میں سے کوئی بھی زنا کے ذریعہ ایک دوسرے سے نہیں ملے ہیں-"
اگر چہ اس روایت میں پیغمبر اسلام {ص} اور آپ {ص} کے اجداد شامل ھوتے ہیں ، لیکن چونکہ بظاہر تمام انبیاء {ع} کے والدین کی طہارت کا معیار یکساں ہے، اس لئے اس حکم کو تمام انبیاء پر قائم کیا جاسکتا ہے-
یہ سوال دو حصوں پر مشتمل ہے:
۱- حضرت ابراھیم {ع} کے بارے میں
۲- تمام انبیاء{ع} کے بارے میں
پہلے سوال کے بارےمیں دو نظرئے پائے جاتے ہیں:
۱- بعض اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابراھیم{ع} کا باپ بت پرست تھا اور اس کا نام آزر تھا-
۲- بعض اہل سنت اور تمام شیعہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تمام انبیاء {ع} من جملہ حضرت ابراھیم {ع} کے ماں، باپ اور اجداد اور ان کے پدری و مادری اجداد بت پرست نہیں تھے، بلکہ وہ سب موحد اور خدا پرست تھے اور حضرت ابراھیم {ع} کے باپ کا نام تارخ تھا-
ان اختلافات کا سر چشمہ شائد وہ آیات ہیں جو اس سلسلہ میں قرآن مجید میں پائی جاتی ہیں- کیونکہ قرآن مجید میں ایک شخص کے بارے میں " اب" کی تعبیر استعمال ھوئی ہے، جو عام طور پر قرینہ کے بغیر باپ کے معنی میں ہے - اس لئے ضروری ہے کہ ان آیات کو بیان کرنے کے بعد ان کے تحقیق و تجزیہ سے سوال کا جواب دیا جائے-
قرآن مجید کی مندرجہ ذیل چار آیتوں میں آزر کو " اب " کہا گیا ہے:
الف}: " اور ابراھیم {ع} کا استغفار ان کے باپ { چچا آزر} کے لئے صرف اس وعدہ کی بنا پر تھا، جو انھوں نے اس سے کیا تھا، اس کے بعد جب یہ واضح ھوگیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو اس سے برائت اور بیزاری بھی کرلی کہ ابراھیم بہت زیادہ تضرع کرنے والے اور برد بار تھے-"[1]
ب}: " اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراھیم نے اپنے مربی باپ { چچا} " آزر" سے کہا تو ان بتوں کو خدا بنائے ھوئے ہے، میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی ھوئی گمراہی میں دیکھ رہا ھوں-"[2]
ج}:" اور جب ابراھیم نے اپنے باپ {چچا} اور اپنی قوم سے کہا کہ میں تمھارے تمام معبودوں سے بری اور بیزار ھوں-"[3]
د}:" - - - علاوہ ابراھیم کے اس قول کے جو انھوں نے اپنے مربی باپ { چچا} سے کہہ دیا تھا کہ میں تمھارے لئے استغفار ضرور کروں گا لیکن میں پروردگار کی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا ھوں-"[4]
پہلی آیت میں خداوند متعال حضرت ابراھیم {ع} کے باپ کو اپنا دشمن متعارف کرتا ہےکہ ابراھیم {ع} نے اس سے بیزاری کی ہے- اور دوسری آیت میں حضرت ابراھیم {ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ آزر کو واضح گمراہی میں دیکھتے ہیں- تیسری آیت میں بھی حضرت ابراھیم {ع} فرماتے ہیں کہ میں اس چیز سے بیزار ھوں جس کی تم پرستش کرتے ھو – لیکن چوتھی آیت میں حضرت ابراھیم { ع } نے آزر سے کہا { اور وعدہ کیا } کہ میں تیرے لئے استغفار کرتا ھوں، لیکن پہلی آیت کے پیش نظر ، جو اسی موضوع کے بارے میں ہے، خداوند متعال فرماتا ہے: جب اسے معلوم ھوا کہ وہ خدا کا دشمن ہے، تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا-
"اب" سے مراد:
مندرجہ ذیل شواہد اور نشانیوں کی بناپر واضح ھوتا ہے کہ مذکورہ آیات میں " اب" سے مراد " باپ" نہیں ہے ، بلکہ حضرت ابراھیم کا چچا ہے- شیعہ اور سنیوں کی طرف سے پیغمبر اکرم {ص} سے نقل کی گئی روایتیں جن کے مطابق پیغمبر اکرم {ص} کے اجداد، حضرت آدم {ع} تک موحد تھے:[5]
شیعہ اور سنی راویوں سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا:" "لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرین إلی أرحام المطهرات"؛ میں مسلسل پاک اصلاب سے پاک ارحام میں منتقل ھوتا رہاھوں-"[6]
ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے :" لم يزل ينقلنى اللَّه من اصلاب الطاهرين الى ارحام المطهرات حتى اخرجنى فى عالمكم هذا لم يدنسنى بدنس الجاهلية"؛ " خداوند متعال نے مجھے مسلسل پاک باپ کے صلب سے پاک ماوں کے رحم میں منتقل کیا ہے اور مجھے کبھی جہالت کے دور کی آلودگیوں سے آلودہ نہیں کیا ہے-"[7]
ظاہر ہے کہ جب پیغمبر اسلام {ص} حضرت ابراھیم {ع} کی نسل سےہیں تو قدرتی طور پرحضرت ابراھیم {ع} بھی ہمارے پیغمبر {ص} کے اجداد میں شمار ھوتے ہیں جو مذکورہ حدیث کے مطابق مشرک نہیں ھوسکتے ہیں، اس لحاظ سے اس آیہ شریفہ میں " اب" کے معنی " باپ " نہیں ھوسکتے ہیں، بلکہ اس کے دوسرے معنی ہیں جن کو عرب استعمال کرتے ہیں، مثال کے طور پر چچا یا پدر نسبتی وغیرہ-
۲-خداوند متعال قرآن مجید میں حضرت اسماعیل {ع} کو حضرت یعقوب {ع} کے چچا ھونے کے باوجود ان کے باپ کے عنوان سے متعارف کرتا ہے:" کیا تم اس وقت تک موجود تھے جب یعقوب کا وقت موت آیا اور انھوں نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کروگے تو انھوں نے کہا کہ آپ کے اور آپ کے آبا و اجداد اور ابراھیم و اسماعیل و اسحاق کے پروردگار، خدائے وحدہ لاشریک کی اور ہم اسی کے مسلمان اور فرمانبردار ہیں-"[8]
اس آیہ شریفہ میں لفظ " اب" { باپ} کا، جد اور چچا اور حقیقی باپ پر اطلاق ھوا ہے، اس لحاظ سے اگر کہا جائے ،" آزر" جس کو قرآن مجید میں باپ کہا گیا ہے ، اس سے حضرت ابراھیم {ع} کا چچا مراد ہے ، اور حضرت ابراھیم کے حقیقی باپ کوئی اور شخص تھے، لیکن قرآن مجید نے ان کا نام نہیں لیا ہے، بلکہ ہماری روایتیں ان کا نام " تارخ" بتاتی ہیں اور توریت نے بھی اس کی تائید کی ہے-[9] آنحضرت {ص} کی شریک حیات ام سلمہ فرماتی ہیں : میں نے پیغمبر اکرم { ص } سے سنا ہے کہ آپ {ص} فرماتے تھے:" "...عدنان هوأد بن أدد بن اليسع بن الهميسع بن سلامان بن نبت بن حمل بن قيدار بن إسماعيل بن إبراهيم (ع) بن تارخ بن تاخور بن ساروخ بن أرعواء بن فالغ بن عابر و هو هودع بن شالخ بن أرفخشد بن سام بن نوح (ع) بن لمك بن متوشلخ بن أخنوخ و يقال أخنوخ و هو إدريس بن يارد بن مهلائيل بن قينان بن أنوش بن شيث بن آدم (ع) أبي البشر".[10] اس بنا پر حضرت ابراھیم کے باپ " تارخ " تھے اور " آزر" ان کا چچا تھا-[11]
بیشک بت پرست و مشرکین خدا کے دشمن شمار ھوتے ہیں اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ خدا کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرے نہ یہ کہ ان کے بارے میں ہمدردی کا اظہار کرے- اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت ابراھیم {ع} کے لئے واضح ھوا کہ ان کا چچا دشمن خدا ہے، تو انھوں نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا- خداوند متعال حضرت ابراھیم خلیل اللہ {ع} کے بارے میں یوں ارشاد فرماتا ہے: "فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ"؛ جب اسے معلوم ھواکہ وہ دشمن خدا ہے تو اس سے بیزاری کا اظہار کیا -"[12]
لیکن یہ کہ کیا ہر پیغمبر کا پاک نسل سے ھونا ضروری ہے؟ سیوطی اپنی کتاب " الدر المنثور" میں آیہ شریفہ : "لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ"،[13]" کے ذیل میں کہتے ہیں: " ابو نعیم نے کتاب " دلائل" میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا { ص } نے فرمایا:" میرے ماں باپ میں سے کوئی بھی زنا کے ذریعہ ایک دوسرے سے نہیں ملے ہیں، اور خداوند لایزال مجھے پاک باپ کے اصلاب سے پاک و صاف اور مہذب ارحام میں منتقل کرتا رہا ہے، جہاں پر ایک باپ سے کئی اولاد پیدا ھوتیں تو ان میں سےمیں اس بیٹے کے صلب میں منتقل ھوتا جو سب سے پاک و بہتر ھوتا-"[14]
اگر چہ اس روایت میں پیغمبر اسلام {ص} اور آپ {ص} کے اجداد شامل ھوتے ہیں، لیکن بظاہر تمام انبیاء {ع} کے والدین کی طہارت کا معیار یکساں ہے، اس لئے اس حکم کو تمام انبیاء { ع } پر قائم کیا جاسکتا ہے- مختصر یہ کہ، قرآن مجید کی بہت سی آیات اور اہلسنت اور شیعہ کی نقل کی گئی متعدد روایات اور عقل و اجماع حضرت ابراھیم {ع} کے والدین کے موحد ھونے اور ان کی روحی طہارت کو ثابت کرتے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے اشارہ کیا-
ہمارے اعتقاد کے مطابق نہ صرف شیعہ ، بلکہ بہت سے برادران اہل سنت کا یہ اعتقاد ہے کہ تمام انبیاء کے ماں باپ اور اجداد من جملہ حضرت ابراھیم {ع} کے ماں باپ اور اجداد میں سے حضرت آدم {ع} تک کوئی بھی شرک سے دوچار نہیں ہوا ہے، بلکہ وہ سب موحد اور خداپرست تھے اور وہ سب نکاح کے ذریعہ پیدا ھوئے ہیں-
[1] توبه، آیه 114.
[2] انعام، 74.
[3] زخرف، 26.
[4] ممتحنه، 4.
[5] آلوسي، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القران، على عبدالبارى عطية، ج 7، ص 388، ناشر دارالكتب العلميه، طبع بيروت، سال 1415 ق، طبع اول؛ اندلسی، ابو حیان محمد بن یوسف، بن حيّان، تفسير البحر المحیط فی التفسیر، ج 8، ص 439 البحر المحيط، سایت التفاسير، http://www.altafsir.com (المکتبة الشاملة)؛ رازی، ابو عبد الله فخر الدین محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج 6، ص 337، ناشر دار احياء التراث العربى، طبع بيروت، سال 1420 ھ- ، طبع سوم ؛ ابن عادل، تفسیر اللباب، ج7، ص9، سایت التفاسير، http://www.altafsir.com (المکتبة الشاملة).
[6] آلوسي، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القران، ج 7، ص 388؛ اندلسی، ابو حیان محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، ج 8، ص 439؛ رازی، ابو عبد الله فخر الدین محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج 6، ص 337؛ ابن عادل، تفسیر اللباب، ج 7، ص 9 و ... قابل توجہ ہے کہ آلوسی، فخر رازی کی اس بات کو تحقیقی نہیں جانتے ہیں ، کہ انھوں نے اس قول کو شیعوں سے مخصوص جانا ہے}
[7] اس روایت کو بہت سے شیعہ و سنی مفسرین من جملہ مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں، نیشاپوری نے تفسیر غرائب القرآن میں، فخررازی نے تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے-
[8] سوره بقره، آیه 133.
[9] بیهقی، دلائل النبوة، ج 1، ص 103، سایت جامع الاحادیث، http://www.alsunnah.com (المکتبة الشاملة).
؛ بيهقي، شعب الإیمان، ج 3، ص 428، سایت جامع الحديث، http://www.alsunnah.com (المکتبة الشاملة).
[10] طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الورى بأعلام الهدى، ص 6.
[11] کلینی، روضه كافى، ترجمه كمرهاى، ج 2، ص 327، طبع دار الکتب الاسلامیة، تهران، سال 1365 هـ ش.
[12] توبه، آیه 114.
[13] توبه، آیه 128؛ " یقینا" تمھارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمھیں میں سے ہے اور اس پر تمھاری ہر مصیبت شاق ھوتی ہے وہ تمھاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے-"
[14] سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، ج 3، ص 294، ناشر کتابخانه آیت الله مرعشی نجفی، قم، 1404 هـ .