Please Wait
10401
جو کچھه سوال میں آیا ھے وھی ھے جو ھماری بعض کتب حدیث میں موجود ھے اور یھ احادیث " یوم معلوم " جس کا قرآن مجید میں ذکر ھے، کی تفسیر میں وارد ھوئی ھیں۔
وضاحت: قرآنی آیات سے یھ بات ثابت ھوتی ھے کھ ابلیس جب خدا کے دربار سے نکالا گیا تو اُس نے خدا سے مھلت مانگی، خداوند متعال نے "مھلت دی" تک اسے معلوم دی ، اور یھ روایت بیان کرتی ھے کھ وه " معلوم وقت " رجعت کا زمانھ ھے نھ کھ قیامت اور دنیا کی انتھاء کا دن۔
اس بنا پراولا : اس روایت کا مطلب یھ نھیں ھے کھ ابلیس مارا گیا اور اس کا سر کاٹا گیا، یھ مطلب قرآنی تعلیمات کے منافی ھے اور جو بات قرآنی آیات سے منافی ھو وه قابل قبول نھیں ھوتی۔
پس ابلیس مرنھیں گیا ھے ، بلکھ وه ھمیشھ لوگوں کے دلوں میں وسوسھ کرنے میں مشغول ھے اور اسکی کوشش بھی یھی ھے کھ انھیں راه راست سے دور کرے۔
ثانیا: اس روایت میں آیا ھے کھ امیر المؤمنین علیھ السلام کے لشکر، شیطان اور اس کی نسل سے لڑتے تھے اور اگر پیچھے هٹنے کی بات ھے تو وه حضرت امیر المؤمنین علیھ السلام کے لشکر کی ھے نھ کھ خود حضرت علی علیھ السلام کی۔
ثالثا ً:اس روایت کا جملھ شیعھ تعلیمات کے مطابق نھیں اور اگر اس روایت کو قبول کریں تو اس جملے کی تاویل کرنی چاھئے کھ اس سے صحیح معنی حاصل ھوں۔
ابلیس کے فرزند [1] اور فوج [2] ھے، جنھوں نے اسے لوگوں کو گمراه کرنے میںمدد کی ھے۔ دینی تعلیمات میں ان کا " شیطان " کے نام سے ھی ذکر کیا گیا ھے [3]
۲۔ قرآن مجید میں آیا ھے کھ ابلیس نے حضرت آدم کو سجده نھ کرنے اور بار گاه الھی سے نکالے جانے کے بعد، خدا وند متعال سے مھلت چاھی : اس نے کھا کھ پھر مجھے قیامت تک مھلت دے دے [4] اسکی درخواست مورد قبول واقع ھوئی، اور خداوند متعال نے فرمایا " تجھے مھلت دے دی گئی ھے" [5] اگرچه ان آیات میں وضاحت نھیں کی گئی ھے کھ کتنی مدت تک شیطان کی درخواست کو مان لیا گیا ھے لیکن سوره حجر کی آیت نمبر ۳۸ میں آیا ھے کھ اس سے کھا گیا : تمھیں ایک معین وقت کیلئے مھلت دی گئی ھے [6] ۔ یعنی اس کی پوری درخواست نھیں مانی گئی بلکھ ایک مقدار تک خداوند متعا ل کی چاھت کے مطابق مان لی گئی ھے [7]
۳۔ " معین مدت تک " کے معنی کے بارے میں روایات میں متعدد تفاسیر بیان ھوئی ھیں۔
ان میں سے بعض اس دنیا کی انتھا اور فرائض کے ختم ھونے تک کو بیان کرتی ھیں کیوں اس دن سب موجودات مر جائیں گے ، اور صرف خداوند متعال کی ذات باقی رھے گی [8] اور اس طرح ابلیس کی درخواست کے بعض حصے کو مان لیا گیا ۔
بعض نے یھ بیان کیا ھے کھ اس دن سے مراد قیامت [9] ھے لیکن یھ بات نھ آیات کے ظاھر سے موافق ھے جس کا سباق یھ بیان کرتا ھے کھ اس کی پوری درخواست قبول نھیں کی گئی ھے اور نه ھی قرآن مجید کی دوسری آیات سے جو دنیا کے اندر زنده موجودات کے مرنے کی خبر دیتی ھیں [10]
یھ صورت بھی ممکن ھے کھ مذکوره آیت ایک ایسے وقت کو بیان کرتی ھو جس کو خدا کے علاوه کوئی اور نھیں جانتا ھے ۔ [11]
صاحب تفسیر نمونھ کے مؤلف کا نظریھ یھ ھے کھ پھلی تفسیر، سب تفاسیر سے مناسب ھے اور تفسیر برھان میں حضرت امام صادق علیھ السلام سے منقول روایت میں آیا ھے کھ ابلیس پھلے اور دوسرے نفخ (صور) کے درمیان مر جائے گا۔ [12]
اس عقیدے کی تائید میں استدلال ھے۔ کھ جب تک فرائض ( اوامر و نواھی ) موجود ھیں مخالفت اور معصیت بھی متصور ھے ، اور لازماً یھ دن نفخ صور کا دن ھے۔ پس " یوم وقت معلوم " جس دن تک خدا نے ابلیس کو مھلت دی ھے وھی پھلے نفخ صور کا دن ھے۔ جبکه پھلے اور دوسرے نفخ کے درمیان جب سب موجودات کو زنده کرے گا ،چار سو چالیس سال ( روایات میں اختلاف کے مطابق ) کا فاصلھ ھے اور جو کچھه ابلیس نے درخواست کی اور جو کچھه خدا نے قبول کیا یھی چند سالوں کا فاصلھ ھے [13]
علامھ طباطبائی اس سلسلے میں فرماتے ھیں یھ اچھی دلیل ھے لیکن جو اشکال اس پر ھے وه یھ ھے کھ یھ دعوی کھ جب تک فرائض ( اوامر و نواھی ) موجود ھیں ، مخالفت اور معصیت بھی موجود ھے ، یھ مقدمھ اپنے اندر واضح نھیں ھے اور نھ ھی اس پر کوئی دلیل موجود ھے۔ کیونکھ اس دعوی میں مفسرین کرام کا زیاده اعتماد ان آیات اور روایات کی استناد پر ھے جو روایات لوگوں میں موجود ھر طرح کے کفر اور فسق کو ابلیس کے ورغلانے اور اس کے وسوسھ سے بیان کرتی ھیں۔ جیسے کھ سوره یاسین کی آیت نمبر ۶۰ [14] سوره ابراھیم کی آیت نمبر ۲۲ [15] اور دوسری آیات اور روایات جن کا مطلب یھ ھے کھ جب تک فرائض ھیں شیطان بھی موجود ھے اور فرائض تب تک باقی ھیں، جب تک انسان باقی ھے اور اس سے مذکوره نتیجھ نکالا گیا ھے۔
البتھ اس میں کوئی شک نھیں ھے کھ لوگوں کی معصیت کرنا شیطان کے بھکانے ، ورغلانے کرنے کے ذریعے ھے اور یھ مطلب آیات اور روایات سے ثابت ھے۔ لیکن آیات اور روایات صرف اس کے متقاضی ھے کھ جب تک زمین پر معصیت اور گمراھی ھے ابلیس بھی ھے ، البتھ ایسا نھیں ھے کھ جب تک فرائض ھیں ابلیس بھی موجود ھے۔ کیونکھ اس بات پر کوئی دلیل نھیں کھ معصیت کے ھونے اور فرائض کے درمیان کوئی ملازمھ ھو۔
بلکھ اس کے برعکس اس بات پر عقلی اور نقلی دلیل قائم ھے کھ انسان سعادت کی طرف جارھا ھے اور یھ انسان جلدی ھی اپنی سعادت کے کمال تک پھنچے گا اور انسانی معاشره گناه اور شر سے آزاد ھوکر خالص خیر اور صلاح تک پھنچے گا یھاں تک کھ زمین کے اوپر خدا کے علاوه کسی اور کی پرستش اور عبادت نھیں کی جائے گی۔ اور کفر اور فسق کی بساط سمیٹ لی جائے گی۔ زندگی خوبصورت بنے گی اور اندرونی اور قلبی وسوسے ختم ھوجائیں گے [16]
پس " وقت معلوم" نھ قیامت کا دن ھے اور نھ دنیا کی انتھا ، اور نھ ھی وه وقت جب فرائض ختم ھوں گے ، بلکھ وه ایسا وقت ھے کھ جب دنیا بھی قائم ھوگی اور انسان کے ذمھ فرائض ھوں گے۔ اس نظریھ کی تائید وه روایات کرتی ھیں جو رجعت کے باب میں وارد ھوئی ھیں۔ [17]
تفسیر قمی میں اپنی سند سے محمد بن یونس سے ایک مرد نے آیھ شریفھ "فانظرنی ۔۔ الی یوم الوقت المعلوم" کی تفسیر میں حضرت امام صادق علیھ السلام سے روایت کی ھے ، کھ آپ نے فرمایا: وقت معلوم کے دن رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم شیطان کو بیت المقدس میں ایک پتھر پر ذبح کریں گے۔ [18]
اس سلسلے میں روایات بھت زیاده ھیں اور انھیں روایات میں ایک روایت وه ھے جس کی جانب سوال میں اشاره کیا گیا ھے۔ [19]
۴۔ یھاں ممکن ھے کھ یھ سوال اٹھے کھ اگر یھ واقعھ پیش آئے گا تو اس کے بعد دنیا میں کسی طرح کا غلط کام انجام نھیں پانا چاھئے ؟ اس کے جواب میں ھم کھتے ھیں؟
شیطان کا کام دنیا کی زینت اور اسکو بڑا دکھانا ھے ، [20] لھذا ممکن ھے کھ شیطان کی ھلاکت کےبعد بھی جن لوگوں کی طینت میں شیطان نے فساد کے بیچ بوئےھیں وه گناه کا ارتکاب کرتے رھیں۔ [21]
۵۔ ظاھری طور پر جو کچھه سوال میں آیا ھے وھی ھے جو ھماری بعض حدیثی [22] کتب میں آیا ھے [23] لیکن توجھ کرنی چاھئے کھ :
اولا : جیسا کھ ذکر ھوا ، کھ یه روایات رجعت کے زمانے سے متعلق ھیں اور اس روایت کا مطلب یھ نھیں ھے کھ ابلیس کو ماڑ ڈالا گیا اور اسکا سر کاٹ دیا گیاهے [24] بلکھ ابلیس اُسی معلوم زمانے میں مار ڈالاجائے گا۔
اور کلی طور پر جو روایت بھی بیان کرے که ابلیس گزشتھ زمانے میں مارا گیا ھے وه قرآن سے منافی ھے اور جو قرآن سے منافی ھو وه قابل قبول نھیں ھے۔ [25]
پس شیطان ( ابلیس) مارا نھیں گیا ھے بلکھ وه اپنے کام یعنی لوگوں کے دلوں میں وسوسھ کرنے میںمصروف ھے اور اس کی کوشش بھی یھی ھے کھ انھیں راه راست سے دور کرے۔
ثانیاً: اس روایت میں آیا ھے کھ حضرت امیر المؤمنین علیھ السلام کے لشکر، شیطان اور اس کی اولاد سے لڑیں گے اور اگر پیچھے ھٹنے کی بات ھے تو وه امیرالمؤمنین علیھ السلام کے لشکر کی عقب نشینی ھے نھ کھ خود حضرت علی علیھ السلام کی [26]
ثالثا: اس روایت کے ایک فقرے میں ایک مطلب ھے کھ جوشیعھ مسلمات کے مطابق نھیں ھے اور اس کی تاویل کرنی چاھئے۔ [27]
[1] سوره کھف / ۵۰۔
[2] عنوان : شیطان اور اس کی نسل ، سوال نمبر 3559۔ (سائٹ نمبر ، 3841)
[3] عنواں: شیطان اور جن کی توانائی ، سوال 2275 ( سائٹ نمبر ، 2458)
[4] "قال رب أنظرنی الی یوم یبعثون" ، سوره اعراف / ۱۴۔
[5] "قال انک من المنظرین" ،
[6] " فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم" ،سوره حجر ۳۷ اور ۳۸۔ وقت معلوم سے مراد یا حضرت حجت (عجل الله فرجھ الشریف) کا ظھور ھے یا قیامت کی ابتداء۔
[7] تفسیر نمونھ ، ج ۶ ص ۱۰۹۔
[8] جیسا کھ سوره قصص کی آیت نمبر ۸۸، میں آیا ھے : "کل شیء ھالک الا وجھھ "
[9] کیونکھ ابلیس چاھتا تھا کھ اس دن تک زنده رھتا تاکھ دائمی زندگی پا لیتا ۔ اور اس کی درخواست قبول کر لی جاتی۔ خصوصا سوره واقعھ کی آیھ شریفھ ۵۰ میں یھ تعبیر " یوم الوقت المعلوم " قیامت کے بارے میں بھی بیان ھوا ھے۔
[10] ترجمھ و تفسیر المیزان ، ج ۱۳ ص ۳۳۷۔
[11] کیونکھ اگر خداوند اس وقت کو واضح کردیتا تو ابلیس زیاده سرکشی اور گناه کرتا ، مجمع البیان ، ج ۶ ص ۳۳۷۔ منقول از بلخی، اس کی رد کیلئے رجوع کریں، تفسیر المیزان ، ج ۱۳ ص ۳۳۷۔
[12] تفسیر برھان ، ج ۲ ص ۳۴۲۔ نور الثقلین ، ج ۳ ص ۱۳ ح ۴۵۔ ؛ تفسیر نمونھ ، ج ۱۹ ص ۳۴۴؛ ایضا ، ج ۱۱ ص ۷۲۔
[13] ترجمھ تفسیر المیزان، ج ۱۲، ص ۳۳۷۔
[14] "الم اعھد الیکم یا بنی آدم آدم ان لا تعبدوا الشیطان انھ لکم عدو مبین" ، ای بنی آدم کیا ھم نے تم سے اس بات کا عھد نھیں لیا تھا کھ خبردار شیطان کی عبادت نه کرنا کھ وه تمھارا کھلا ھوا دشمن ھے۔
[15] "و قال الشیطان لما قضی الامر ان الله وعدکم وعد الحق و عدتکم فاخلفتم ۔۔۔۔"، اور شیطان تمام امو کا فیصلھ ھونے کے بعد کھے گا کھ اللھ نے تم سے بالکل برحق وعده کیا تھا اور میں نے بھی وعده کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدے کی مخالفت کی۔
[16] ترجمھ تفسیر المیزان ،ج ۱۳، ص ۳۳۷، اسی طرح رجوع کریں ، مباحث نبوت ، اس کتاب کی دوسری جلد اور قصص نوح کی جانب جلد ۱۰ سے رجوع کریں۔
[17] مرحوم علامھ ان روایات کے جمع کرنے کے مقام پر فرماتے ھیں: ان روایات میں جو ائمھ اھل بیت علیھم السلام سے وارد ھوئی ھیں ، قیامت کے متعلق اکثر آیات ، یا حضرت مھدی ( عج ) کے ظھور ، یا رجعت یا قیامت سے تفسیر کی گئی ھیں ، اور اس کی وجھ یھ ھے کھ یھ تینوں دن ، حقایق کو واضح کرنے میں مشترک ھیں، اگرچھ حقایق کا ظھور ان میں شدت اور ضعف کے ساتھه ھے ، پس قیامت کا حکم ان دو دنوں ( رجعت اور حضرت مھدی (عج) کا ظھور) پربھی جاری ھوتا ھے۔ غور کریں، ترجمھ تفسیر المیزان ، ج ۱۳ ص ۲۵۸۔
[18] تفسیر قمی ج ۱ ص ۳۴۹۔ تفسیر عیاشی میں وھب بن جمعی سے تفسیر برھان میں شرف الدین نجفی نے سند کو حذف کرکے وھب سے نقل کیا ھے کھ اس نے کھا: امام صادق علیھ السلام سے میں نے ابلیس کے بارے میں پوچھا اور یھ کھ آیھ شریفھ " رب فانظرنی الی یوم یبعثون قال فانک من المنظرین الی یوم وقت المعلوم میں "یوم وقت معلوم " سےکیا مراد ھے۔ انھوں نےفرمایا: اے وھب کیا تم یھ گمان کرتے ھو کھ وه قیامت کا دن ھے ، کھ جس دن لوگ زنده ھوں گے ، ؟ نھیں ، بلکھ خدا عزو جل نے اس کو مھلت دی جب کھ ھمارے قائم ( عج ) ظھور کریں ، کھ اس دن ابلیس کے آگے والے بالوں کو پکڑ کر اس کی گردن ماردی جائے گی ، اور روز وقت معلوم وھی دن ھے ، البرھان ، ج ۳ ص ۳۴۳۔ ، ح ۷؛ عیاشی ، ج ۲ ص ۳۴۳۔ ح ۱۴۔
[19] در محضر علامھ طباطبائی ص ۷۵۔ ص ۴۶۔
[20] سوره حجر ۳۹۔
[21] در محضر علامھ طباطبائی ،ص ۷۶، ص ۴۷۔
[22] بحار الانوار ، ج ۵۳، روایت ، ۱۲، خص ( منتخب البصائر ) سعد عن ابی ابی الخطاب عن موسی بن سعدان عن عبداللھ بن القاسم الحضرمی عن عبد الکریم ، بن عمرو الخثعمی قال سمعت ابا عبدا للھ علیھ یقول ان ابلیس قال انظرنی الی یوم یبعثون فابی اللھ ذالک علیھ قال فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم ، فاذا کان یوم الوقت المعلوم ، ظھر ابلیس لعنۃ اللھ فی جمیع اشیاعھ منذ خلق اللھ آدم الی یوم الوقت المعلوم و ھی اخر مرۃ یکرھا امیر المومنین علیھ السلام فقلت و انھا لکرات قال نعم انھا لکرات و کرات ما من امام فی قرن الا و یکر معھ البر و الفاجر فی دھره حتی یدیل اللھ المؤمن من الکافر فاذا کان یوم الوقت المعلوم کرّ امیر المؤمنین علیھ السلام فی اصحابھ و جاء ابلیس فی صحابۃ و یکون میقاتھم فی ارض من اراضی الفرات یقال لھ الروحاء قریب من کوفتکم فیقتتلون قتالا لم یقتتل مثلھ منذ خلق اللھ عز و جل العالمین فکانی انظر الی اصحاب علی امیر المؤمنین علیھ السلام قد رجعوا خلفھم القھقری مائۃ قدم و کانی انظر الیھم و قد وقعت بعض ارجلھم فی الفرات فعند ذالی یھبط الجبار عز وجل فی ظلل من الغمام و الملائکۃ قضی الامر رسول للھ صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم امامھ بیده حربۃ من نور فاذا نظر الیھ ابلیس رجع القھقری ناکصا علی عقیبیھ فیقولون لھ اصحابھ این ترید و قد ظفرت فیقول انی اری ما لا ترون انی اخاف اللھ رب العالمین فیلحقھ النبی صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم فیطعنھ طعنۃ بین کتفیه فیکون ھلاکه و ھلاک جمیع اشیاعھ فعند ذلک یعبد اللھ عز و جل و لا یشرک بھ شیئا و یملک امیر المومنیں علیھ اربعا و اربعین الف سنۃ حتی یلد الرجل من شیعھ علی علیھ السلام الف ولد من صلبھ ذکرا و عند ذلک تطھر الجنتان المدھامتان عند مسجد الکوفۃ و ما حولھ یما شاء اللھ ۔
[23] البتھ بحار الانوار کی ج ۱۴ اور ۳۷ ،میں بعض احادیث حضرت امام علی علیھ السلام کی شیطان کے ساتھه جنگ کے بارے میں نقل ھوئی ھیں ، لیکن ان روایات کا مضمون جو کچھه سوال میں آیا ھے ، ان کے ساتھه بنیادی اختلاف رکھتا ھے ، کتاب السماء و العالم آیۃ اللھ کوه کمره ای ، ص ۱۶۰ ، تجرمھ ج ۱۴ بحار الانوار۔
[24] ھاں ، ابلیس کی فوجوں کو مارنا اگرچھ ممکن ھے جو اولیای الھی کے ذریعے واقع ھوتا ھے ، کیونکھ ابلیس جن میں سے ھے اور اس کے فرزند بھی جن سے ھیں، کھف ۵۰ ، اور جنات کو مارنا بھی ممکن ھے ، لیکن اس کی دوسرے شیاطین کے ھونے سے منافات نھیں ھے۔
[25] جیسا کھ بیان ھوا خداوند متعال نے ابلیس کو خاص وقت تک مھلت دی اور فرما ، تمھیں خاص وقت تک مھلت دی جاتی ھے ، اور وقت معلوم ھے کے معانی بھی بیان ھوئے ھیں۔ البھ یھ سب خداوند متعال کی سنت کے مطابق ھے ، کھ شیطان طولانی مدت تک زنده رھے اور ھمیشھ لوگوں کے دلوں میں وسوسھ پیدا کرے ، رجوع کریں عنوان: شیطان کی خلقت کا فلسفھ ، سوال نمبر 2913 (سائٹ نمبر 3150)۔ اور خلقت ابلیس، سوال نمبر ۷۷، اس کے علاوه سوره ناس میں آیا ھے۔ " جو لوگوں کے دلوں میں وسوسھ کرتا ھے ، چاھے وه جنات میں سے ھوں یا انسان میںسے " الذی یوسوس فی صدور الناس ، من الجنۃ و الناس۔ سوره ناس ۵ اور ۶، میں صیغه مضارع " یوسوس" عربی زبان میں استمرار پر دلالت کرتا ھے ، یعنی شیطانی وسوسے انسانوں کیلئے دائمی اور ھمیشھ ھین۔
[26] کانی انظر الی اصحاب علی امیر المومنین علیھ السلام قد رجعوا الی خلفھم القھقری مائۃ قدم۔
[27] علامھ مجلسی (رح) اس سلسلے میں فرماتے ھیں: ھبوط الجبار تعالی کنایۃ عں نزول آیات عذابھ و قد مضٰی تاویل الآیۃ المضمنۃ فی ھذالخبر فی کتاب التوحید و قد سبق الروایۃ عن الرضا علیھ السلام ھناک انھا ھکذا نزلت الا ان یاتیھم اللھ بالملائکۃ فی ظلل من الغمام و علی ھذا یمکن ان یکون الواو فی قولھ و الملائکۃ ھنا زائدا من النساء۔