Please Wait
13894
قرآن مجید میں "جن" کے اصلی وجود کی تائید کی گئی ھے۔ اور اس کی خصوصیات بیان ھوئی ھیں۔ اگر چھ "جن" کے بارے میں ھماری اطلاعات بالکل محدود اور کم ھیں لیکن مختلف دلیلوں کی رو سے یھ کھا جاسکتا ھے کھ حضرت آدم کی خلقت سے پھلے جنات کے درمیان کچھه پیغمبر موجود تھے ،
۱۔ جنات انسانوں کے مانند مکلف اور مسئول ھیں۔ اور تکلیف (فرائض) اور مسئولیت (ذمھ داری)، ابلاغ اور تبشیر کے بعد ممکن ھے پس یھ بات مسلم ھے کھ خداوند متعال کی طرف سے پیغمبر ان موجودات کی طرف بھیجے گئے ھیں تا کھ وه تبلیغ اور ارشاد کریں۔
۲۔ یھ موجودات انسان کے مانند حساب و کتاب اور سزا وجزا رکھتے ھیں اور سزا و جزا اور اتمام حجت ، رسولوں کے بیجھے جانے کے بعد ھی متصور ھے۔
۳۔ آیھ شریفھ : " یا معشر الجن و الانس الم یاتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم ھذا ۔۔ " "اے گروه جن و انس کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نھیں آئے جو ھماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمھیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے"۔
جو حضرت آدم کی خلقت سے پھلے کو شامل ھوجاتاھے ۔
ایک روایت میں، حضرت علی علیھ السلام سے ایک شامی مرد نے سوال پوچھا کھ کیا خداوند متعال نے جنات کی جانب پیغمبروں کو بھیجا ھے، فرماتے ھیں: بالکل ، ان کے پیغمبر کا نام یوسف تھا جو انھیں خدا کی جانب دعوت کردیتا تھا اور انھوں نے اس کو شھید کیا۔
قرآن مجید میں اصل "جن" کی تائید کی گئی ھے اور اس کی خصوصیات یوں بیان ھوئی ھے:
۱۔ ایک ایسا موجود ھے جو انسان کے برعکس آگ کے شعلوں سے خلق کیا گیا ھے جب که انسان خاک سے خلق ھوا ھے[1]۔
۲۔ وه علم ادراک ، اور حق و باطل کی تشخیص کی صلاحیت رکھتا ھے اور وه منطق و استدلال کی قدرت رکھتا ھے ۔ [2]
۳۔ وه فرائض اور ذمھ داری رکھتا ھے۔[3]
۴۔ وه جزا اور سزا اور حساب و کتاب رکھتا ھے ۔[4]
۵۔ ان میں ایک گروه مؤمن اور دوسرا گروه مشرک اورکافر ھے۔[5]
۶۔ ان میں آسمانوں تک پھنچنے کی طاقت اور غیبی خبروں کو سننے کی صلاحیت تھی۔ جو رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے مبعوث ھونے کے بعد روک دی گئی۔ [6]
۷۔ انھوں نے بعض انسانوں کے ساتھه رابطھ کرکے اپنی محدود آگاھی کے ذریعے، جو وه بعض اسرار کے بارے میں رکھتے تھے ، انسانوں کو بھکایا کرتے تھے۔ [7]
۸۔ ان میں بعض ایسے پائے جائے ھیں جن کی طاقت بھت زیاده ھے ۔ [8]
۹۔ ان میں انسانوں کے بعض کام انجام دینے کی صلاحیت ھے۔ [9]
۱۰ ۔ زمین پر ان کی خلقت انسانوں کی خلقت سے پھلے ھوئی تھی۔ [10]
۱۱۔ انسان کا مقام اور منزلت ان سے بلند ھے اسی لئے خدا نے ابلیس کو یھ فرمان دیا کھ انسان کو سجده کرے اور ابلیس قبیلھ جن کے بزرگوںمیں سے تھا۔ [11]
لیکن اس سوال کا جواب، کھ کیا جنات کا کوئی پیغمبر تھا یا نھیں؟ اس سلسلے میں کھنا چاھئے کھ جس طرح بیان ھوا جنات کے متعلق دو زمان پائے جاتے ھیں پھلا زمانھ انسان کی خلقت سے پھلے کا ھے اور دوسرا انسان کی خلقت کے بعدکا زمانھ ھے۔
دوسرے زمانھ میں یعنی انسان کی خلقت کے بعد جو انسان اور جن کا مشترک زمانھ ھے (اسلام کے ظھور سے پھلے یا اس کے بعد ) قرآن مجید کے مطابق جنات بھی انسانوں کے مانند مکلف تھے اور انھیں ان پیغمبروں کی پیروی کرنے کا حکم تھا جو انسانوں کے درمیان مبعوث ھوتے تھے۔ [12]
اسی بنیاد پر بھت سے جنات خدا کے پیغمبر پر ایمان لائے تھے اور بعض جنات ایمان نھیں لائے اور وه کافر ھوئے ۔
لیکن انسان کی خلقت سے پھلے والے زمانے میں جب خدا نے انسان کو خلق نھیں کیا تھا اور جنات کو خلق کیا تھا کیا ان کی ھدایت کیلئے کوئی پیغمبر مبعوث کیا گیا تھا یا نھیں؟ اگر مبعوث کیا گیا تھا، تو کیا وه جن کی نوع سے تھا؟ اس کے جواب میں یھ کھنا چاھئے کھ حضرت آدم علیھ السلام کی خلقت سے پھلے جنات کے درمیان پیغمبر مبعوث ھوئے ھیں کیونکھ :
۱۔ خداوند متعال قرآن کریم میں خلقت کے مقصد کو جن و انس کی عبادت اور ان کو کمال تک پهنچانا بیان کرتا ھے اور فرماتا ھے: "میں نے جن و انس کو عبارت کے لئے خلق کیا ھے" [13] اس میں کوئی شک نھیں کھ عبودیت کے مقام تک پھنچنا وھی حقیقی کمال ھے جو فرائض کے بغیر ممکن نھیں ، اس لحاظ سے یھ کهه سکتے ھیں کھ جنات بھی مکلف ھیں [14] اور اس نکتھ پر قرآن کی آیات گواھی دیتی ھیں۔[15] اور دوسری جانب واضح ھے کھ یھ ممکن نھیں کھ خدا نے جن کو مکلف کیا ھوگا ان کے فرائض ، ان کے اجزاء و شرائط اور راھنما کو نھیں بھیجا ھوگا جن وانس کو مکلف کرنا نبیوں کو بھیجنے کے بعد ممکن ھے اور جب تک پیغمبر بھیجا نھ جائے مکلف بنانا جایز نھیں ۔
۲۔ خداوند متعال عادل اور حکیم ھے اور قبیح فعل، عادل اور حکیم سے انجام نھیں پاتا یھ کس طرح ممکن ھے کھ خداوند فرماتے :" جن و انس کو اپنے وظائف انجام نھ دینے پر عذاب کروں گا " اور " جھنم کو (گناھگاروں اور بے ایمان ) سے بھر دوں گا ۔ [16] جبکھ ان کی طرف کسی پیغمبر کو نھ بھیجے اور ان پر اپنی حجت تمام نھ کرنے کے بغیر ھی ان پر عذاب کرے ؟ اس کا جواب قطعی طور پر منفی ھے کیونکھ مکلف کا عقاب ارسال رسل اور اتمام حجت کے بغیر قبیح ھے اور ایسا فعل حکیم سے سرزد نھیں ھوتا ، جنات بھی اسی کلی قاعدے میں شامل ھیں اس کے علاوه خود قرآن فرماتا ھے : "ھم کسی قوم پر عذاب نھیں کرتے مگر یھ کھ ان کی جانب کسی پیغمبر کو مبعوث کریں" ، ( تاکھ انھیں اپنے فرائض سمجھائے ) [17] پس یقینی طور پر ان کے پیغمبر ھوتے تھے۔
۳۔ آیھ شریفھ " " یا معشر الجن و الانس الم یاتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم ھذا ۔۔ " ای گروه جن و انس کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نھیں آئے جو ھماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمھیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے " [18]
اس آیت کا مفھوم اور اس پر قطعی استدلال واضح دلالت کرتا ھے کھ سب زمانوں میں جن موجود تھے ، حضرت آدم کی خلقت سے پھلے یا ان کی خلقت کے بعد اسلام سے پھلے یا اسلام کے بعد ان کے لئے پیغمبر تھے لیکن قدرتی بات ھے کھ انسان کی خلقت سے پھلے یھ پیغمبر اُن کی اپنی نوع سے ھی تھے[19] اس بات کی گواه ایک اور آیت ھے جس میں فرمایا گیا ھے : انا ارسلناک بالحق بشیرا و نذیرا و ان من امۃ الا خلا فیھا نذیر۔ " [20] ھم نے آپ کو حق سے ساتھه بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ھے اور کوئی قوم ایسی نھیں جس میں کوئی ڈرانے والا نھ گزرا ھو۔ "
۴۔ روایت میں آیا ھے کھ ایک شامی مرد نے حضرت علی سے پوچھا کھ : کیا خدا نے جنات کی جانب کسی پیغمبر کو بھیجا ھے امام علی علیھ السلام نے جواب میں فرمایا: ھاں ، ایک پیغمبر جس کایوسف نام تھا انکی ھدایت کے لئے بھیجا گیا لیکن انھوں نے اسے شھید کردیا " [21]
یھ روایت بھی دلیل ھے کھ جنات میں ان کی ھی نوع سے پیغمبر ھوتے تھے۔
اس بنا پر جو کچھه ھم نے بیان کیا ھے واضح ھوا کھ جن بھی مکلف ھیں اور فرائض رکھتے ھیں اور انسان کی خلقت سے پھلے ان کی ھدایت کیلئے پیغمبر مبعوث ھوئے ھیں لیکن اس کی کیفیت ھمارے لئے واضح نھیں۔
[1] سوره الرحمن ، / ۱۵۔
[2] سوره جن کی مختلف آیات۔
[3] سوره جن اور الرحمن کی مختلف آیات۔
[4] سوره جن / ۱۵۔
[5] سوره جن / ۱۱
[6] سوره جن / ۹۔
[7] سوره جن / ۶۔
[8] سوره نمل/ ۳۹۔
[9] سوره سبا / ۱۲، ۱۳۔
[10] سوره حجر/ ۲۷۔
[11] سوره کھف / ۵۰۔
[12] البتھ یھ مسئلھ حضرت موسی علیھ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے بارے میں قطعی ھے اور دوسرے پیغمبروں کے بارے میں جو انسان کی جنس سے ھیں مفسروں کے نظریات مختلف ھیں۔
اس سلسلے میں سب سے واضح آیات سوره احقاف کی ۲۹ اور ۳۰ کی ھیں :"و اذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین قالو یا قومنا انا سمعنا کتاب انزل من بعد موسی مصدقا لما بین یدیھ یھدی الی الحق و الی طریق مستقیم ، اور جب ھم نے جنات میں سے ایک گروه کو آپ کی طرف متوجھ کیا کھ قرآن سنیں توجب وه حاضر ھوئے تو آپس میں کھنے لگے کھ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ھوگئی تو فورا پلٹ کر اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر آگئے کھنے لگے اے قوم والو ھم نے ایک کتاب کو سنا جو موسی کے بعد نازل ھوئی ھے یھ اپنے پھلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ھے اور حق و انصاف اور سیدھے راستھ کی طرف ھدایت کرنے والی ھے " البتھ اگر آیات میں انجیل کا نام نھیں لیا گیا ھے یھ اس لئے ھے کھ توریت اصلی کتاب ھے اور عیسائی بھی اپنے احکام اور شریعت کو اسی سے لیتے ھیں تفسیر نمونھ ج ۲۱ ص ۳۷۰۔ علامھ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں واضح طور پر فرماتے ھیں ، آیھ مبارکھ کا یھ جملھ " انا سمعنا کتابا انزل من بعد موسی مصدقا لما بین یدیھ" دلالت کرتا ھے مذکوره جنات حضرت موسی علیھ السلام اور ان کی کتاب پر ایمان رکھتے تھے تفسیر المیزان ج ۱۸ ص ۳۵۰
اسلام کے ظھور کے بعد بھی پیغمبر اکرم جب مکھ سے طائف کے بازار عکاظ میں آئے تا کھ جو لوگ اس بڑے بازار میں جمع تھے انھیں اسلام کی طرف دعوت دیں اور کسی نے ان کی دعوت کا مثبت جواب نھیں دیا اور واپس لوٹتے وقت ایک ایسی جگھ پھنچے جس کو" وادی جن " کھتے تھے اور آنحضرت نے رات بھر وھیں قیام کیا اور قرآن کی تلاوت کی ، جنات کے ایک گروه نے اس تلاوت کو سنا اور ایمان لے آئے پھر اپنی قوم کی جانب تبلیغ کیلئے واپس لوٹے تفسیر نمونھ ج ۲۵ س ۱۰۰ ذیل آیات ۱ اور ۲ سوره جن ،
البتھ بعض مفسریں سوره انعام کی آیھ شریفھ ۱۳۰ میں " یا معشر الجن و الانس الم یاتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم ھذا ۔۔ " ای گروه جن و انس کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نھیں آئے جو ھماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمھیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے "کے معنی نکالتے ھیں کھ حضرت آدم علیھ السلام کی خلقت کے بعد بھی جنات کے پیغمبر ان کی اپنی نوع سے تھے اگر چھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے بارے میں جانتے ھیں کھ وه جن اور انس کے پیغمبر ھیں روح البیان ج ۳ ص ۱۰۵ ، اسماعیل حقی بروسوی ، تفسیر راھنما ، ج ۵ ص ۳۵۴۔ لیکن دوسرے گروه نے اس نظریھ کو رد کرکے کھا ھے : سوره جن کی آیات سے معلوم ھوتا ھے وه یھ ھے کھ قرآن اور اسلام سب کیلئے نازل ھوا ھے اور پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سب کیلئے مبعوث ھوئے ھیں لیکن اس میں کوئی رکاوٹ نھیں کھ ان ھی میں سے بعض نمایندے اور سفیر پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی طرف دعوت سے کردینے پر مقرر ھوں اور کلمھ " منکم " اس بات پر دلیل نھیں کھ ھر قوم کے پیغمبر انکی نوع اور جنس میں سے ھوں ، کیوں کھ جب ایک گروه کو کها جاتا ھے "آپ میں بعض لوگ" یھ لوگ ممکن ھیں ایک قبیلے سے ھوں یا مختفلف طائفوں سے ھوں۔ ایک یا مختلف قبیلوں سے ھوں ، تفسیر نمونھ ج ۵ ص ۴۴۳۔ یعنی کلمھ "منکم" اس سے زیاده دلالت نھیں کرتا کھ پیغمبر سب کی جنس اور نوع سے ھوں اور مجموعی طور پر جن اور انس میں سے تھے جو ان کی طرف مبعوث ھوئے اور خدا نے پیغمبر کو ملائکھ کی جنس سے قرار نھیں دیا تا کھ انکی امت ان کے دین سے خوف زده نھ ھو اور ان کا کلام جو کھ مادری زبان میں ھے سمجھه سکیں لیکن یھ کھ جنات کیلئے جناتی پیغمبر ھوں اور انسان کیلئے صرف انسانی پیغمبر مبعوث کئے گئے ھون آیھ شریفھ اس پر دلالت نھیں کرتی ۔ المیزان ج ۷ ص ۵۴۔ منھج الصادقین ، ج ۳ ص ۴۵۲۔
[13] " و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون" سوره ذاریات / ۵۶۔
[14] بحار الانوار ، ج ۶۰ ص ۳۱۱۔
[15] اولئک الذیں حق علیھم القول فی امم قد خلق من قبلھم مں الجن و الانس انھم کانو خاسرین ۔ سوره احقاف / ۱۸۔
[16] سجده ، ۱۳ اور سوره ھود ۱۱۹۔
[17] سوره اسراء / ۱۵۔
[18] سوره انعام / ۱۳۰۔
[19] یھ نکتھ بعض مفسریں کے اظھارات کے مطابق " رسل منکم " کے ظھور سے سمجھا جا سکتا ھے اور یھ سب زمانوں کو شامل ھوتا ھے لیکن حضرت موسی علیھ السلام اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کا زمانھ استثناء کیا گیا ھے۔ اور اس دور کے ان کی اپنی جنس سے نھیں تھے۔
[20] سوره فاطر / ۲۴۔
[21] بحار الانوار ج ۱۰ ص ۷۶، ھل بعث اللھ نبیا الی الجن فقال نعم بعد الیھم نبیا یقال لھ یوسف فدعاھم الی اللھ فقتلوه"