Please Wait
9223
لغت میں "اسلام" خداوند متعال کے سامنے کسی چون وچرا کے بغیر تسلیم محض هو نے کے معنی میں هے – اور " دین " ، انسان کے انفرادی اور اجتمای امور میں افکار، حالات و کرداراور اس کے اپنے آپ ، دوسروں اور خدا وند متعال سے رابطه کے طریق کار کے سلسله میں خداوند متعال کے اس سے توقعات کے معنی میں هے – اس لئے هر دین کو قبول کر نے کا لازمه یه هے که انسان هر عصر میں اسی زمانه کے پیغمبر کے لائے هوئے دین کے سامنے چون وچرا کے بغیر تسلیم محض هوجائے – نئے دین کے آنے سے (جو نئے حکم کے مانندهے) خدا کےبندے اس امر کے ذمه دار هیں که اسی پهلے والے دین کی هدایت کے مطابق ، نئے دین کو قبول کریں اور اس کے سامنے سراپا تسلیم هوجائیں- پس یه کها جاسکتا هے که ، بشریت کی پوری تاریخ کے دوران ، تمام انبیائے الهی صرف ایک دین، یعنی دین اسلام کے مبلغ تھے اور سابق و ملحقه انبیاء کی شریعتوں میں کمی بیشی کے لحاظ سے تفاوت بھی پایا جاتا هے لیکن اس جهت سے خود انبیاء میں کوئی فرق نهیں هے اگر چه وه سب فضیلت اور خدا کے پاس مقام و منزلت کے لحاظ سے یکسان نهیں هیں-[i] اور نئی شریعت کے آنے کے بعد پهلی والی شریعت پر باقی نهیں رها جاسکتا هے- مذکوره مطالب کے پیش نظر جب انبیاء علیهم السلام اور ان کی شریعتیں ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور" دین اسلام " کے آنے کے بعد ختم هوگئیں اور یه دین ، ایک آفاقی اور لافانی دین هے ، اگر کوئی شخص حقیقت میں اپنے آپ کو دیندار اور خداوند متعال کا مطیع و تسلیم محض جانتا هے، خواه یهودی ، نصاری اور مشرکین وغیره هوں ،اس کے لئے " حقیقی دین محمدی صلی الله علیه وآله وسلم" کو قبول کر نا ضروری هے تاکه اس کا دین خدا کی مرضی کے مطابق هو اور اسے قبول کیا جائے اور وه اپنے افکار وحالات اور نیک کردار کے مسابقه میں شرکت کر کے بهشت کے درجات پر فائز هو جائے ! اس لئے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت اور دین اسلام کے مکمل هو نے کے بعد کوئی دوسرادین قابل اجر وقبول نهیں هوگا-
خدا وند متعال کے حضور سراپا تسلیم هو نے کے مختلف مراتب ودرجات هیں:
١- خدا وند متعال کے سامنے تمام مخلوقات من جمله انسان کا تکوینی طور پر تسلیم محض هونا: یه اس معنی میں هے که ان مخلوقات کی تکوینی تخلیق ، تبدیلیاں اور تغیرات اور ان کی کیفیت و جنسیت اور بالاخر ان کی موت میں سے کوئی چیز ان کے اختیار میں نهیں دی گئی هے اور سب مخلوقات جبری طور پر الله کی معین کرده تقدیر ، تخلیق، تدبیراور ملک و ربوبیت کے سامنے تسلیم محض هیں-[1] اس معنی میں حتی که دشمن، مشرکین، کفار اور منافقین بھی اس تکوین میں تسلیم محض خدا وند متعال هیں اور اس میں کسی قسم کی نافر مانی نهیں کرسکتے هیں ، خواه وه چاهیں یا نه چاهیں اور جان لیں یا نه جان لیں-[2]
٢- اسلام ، اس معنی میں هے که اگر انسان کی فطرت غلط تعلیم وتر بیت کے تحت قرار نه پائے تو وه خدا طلب هے اور اپنے پروردگار ، رزاق اور مالک مطلق کے سامنے مخلص ، تابعدار اور تسلیم محض هے اور فطری طور پر توحید کا رجحان رکھتا هے اور انحراف وشرک سے دوری اختیار کر تا هے – یهی باطنی اسلام ابراھیم علیه السلام کو ملکوت اعلی تک پهنچاتا هے اور جان ودل سے ندا دیتا هے که: " میرا رخ تمام تر اس خدا کی طرف هے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا هے "[3]
٣- اسلام ، یعنی، کسی چون وچرا کے بغیر اور خدا کے عرفانی، علمی و اخلاقی تعلیمات کے در میان کسی قسم کے امتیاز ، یعنی بعض پر عمل اور بعض کو ترک کئے بغیر ، دین کے سامنے سراپا تسلیم هو نا هے – دوسرے الفاظ میں انسان کے افکار، حالات اور رفتار کے سلسله میں خداومد متعال کی طرف سے تشریعی امر ونهی کا نام دین هے-
یه"تسلیم" هر قسم کی " دینداری" کے ادعا کا لازمه هے – یعنی اگر کوئی شخص حقیقت می اپنے آپ کو متد ین اور دین الهی کا پابند جانتا هو، تو اسے خدا وند متعال کے اوامر ونواهی کے مقابل میں تسلیم محض هو نا چاھئے، خواه وه اس کی مرضی اور خواهشات کے خلاف هی کیوں نه هوں-[4]
اس لئے اگر اس کا محبوب پیغمبر سفارش اور تاکید کرے که ایک مدت کے بعد میری شریعت کو چھوڑ کر نئے پیغمبر اور اس کی شریعت کی پیروی کر نی چاهئے، تو اگر وه حقیقت میں اپنے پیغمبر کا پیرو ، مطیع اور فرمانبردارهے ، تو بعد والے پیغمبر کے مبعوث هو نے کے بعد اس پر فرض عائد هو تا هے که پهلی شریعت کو چھوڑ کر نئی شریعت کے مطابق عمل کرے- چنانچه اگر یهودی حضرت موسی علیه السلام کے حقیقی پیرو کار هو تے ، تو انھیں حضرت عیسی علیه السلام کی بعثت کے بعد ان کا پیرو کار بننا چاهئے تھا اور اس وقت یهودی نام کی کوئی چیز باقی نهیں ر هتی- اسی طرح اگر عیسائی حضرت مسیح علیه السلام کے حقیقی پیرو هو تے تو انھیں حضرت مسیح علیه السلام کے حکم کے مطابق ، حضرت محمد بن عبدالله ( علیه وآله افضل التحیات والصلوات والسلام) کی بعثت کے بعد آپ (ص) کا پیرو کار بن کر پچھلے دین کو چھوڑ کر مسلمان بننا چاهئے تھا!
٤- "اسلام "، خدا کا آخری اور مکمل ترین دین هے جو اپنے سے پهلے تمام شریعتوں کو منسوخ کر نے والا دین هے اور اس کے بعد کوئی ایسی شریعت نهیں آئے گی جو اس شریعت کو منسوخ کرسکے-[5] اس لئے ، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے مبعوث هو نے کے بعد اور اس دین کے مکمل اور تمام هو نے کے بعد کوئی دین قابل قبول نهیں هوگا، اور اس دین کے بعد کوئی شریعت خدا کی پسندیده شریعت نهیں هے-
کیونکه نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے دین پر ایمان لانے اور اس دین کے مقابل میں تسلیم محض هو نے کا لازمه تمام انبیاء کی شریعتوں پر ایمان اور ان کی تصدیق کر نے کے مترادف هے اور اس کے علاوه ان جدید اور مطابق وقت( احکام و معارف) کے اتمام واکمال کو قبول کرنا هے – لیکن دوسری شریعتوں کا ایمان ایک ایسے دین پر ایمان هے جن کے ذریعه مکمل طور پر دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کر نے کے لئے انسان کی ضرورتوں کو پورا نهیں کیا جاسکتا هے ، اس لحاظ سے یه شریعتیں ناقص اور نارسا هیں – لهذا اس کے بعد یه ادیان به رضائے حق واقع نهیں هو سکتے هیں اور ان کو قبول کر نے والے ثواب و اجر کے مستحق نهیں هو سکتے هیں ! خاص کر جب وه ادیان تحریف زده هو کر اپنی الهی راه سے دور هو چکے هیں -[6]
مذکوره آیه شریفه میں ، "اسلام" ان تمام چار معانی کا حامل هے ، کیونکه انسان تکوینی طور پر اپنی راه کا خود انتخاب کرتا هے اور اپنی تقدیر کا خود فیصله کرتا هے اور دین اسلام کو قبول کر کے، فطرت کی آواز کا مثبت جواب دیتا هے، کیونکه یه دین فطرت اور عقل سلیم کے مطابق هے اور انسان اس کو قبول کر کے، حقیقت میں دوسرے انبیاء اور ان کے ادیان کی بھی تصدیق کرتا هے اور جانتا هے که وه بھی حقیقی انبیائے الهی اور خدا کے سچے دین کے مبلغ اور انسان کے کمال کی طرف هدایت کر نے والے تھے اور جن منحرف نا شده ادیان کو لے کر آئے تھے وه مکمل دین کے لئے راه هموار کر نے والے تھے که اسلام کے علاوه کوئی اور دین یه خصوصیت نهیں رکھتا هے- اس لئے اس دین کی پیروی کر کے انسان ، خدا وند متعال کے حضور تسلیم محض هو کر اور دوسری متفرق راهوں کو چھوڑ کر خدا کی صراط مستقیم پر گامزن هوتا هے-[7]
اس دین کو قبول کر نے کے بھی مختلف مراحل اور درجات هیں:
١) شهادتین پڑھ کر اسلام کو ظاهری طور پر قبول کر نا اور ممکن هے اوامر ونواهی الهی کو ظاهری طور پر قبول کر کے ان پر عمل کر نا اعتقاد اور قلبی ایمان کے همراه نه هو، لیکن اس پر مسلمان هو نے کا اطلاق هو گا ، مثال کے طور پر نکاح، معامله ،بدن ولباس کی طهارت اور جان ومال کی حر مت وغیره کے احکام-[8]
٢) اسلام کو قلبی ایمان اور تمام معارف حقه الهی پر یقین اور تصدیق وتسلیم کے ساتھـ دل وجان سے قبول کر نا، اگر چه ممکن هے که بعض موارد میں عملا نافرمانی یاشک وشبهه سے دوچار هو جائے[9] ، یاکوئی کام قلبی کراهت کے ساتھـ انجام دے-
٣) اسلام کو قلبی چاهت ، خدا، دین اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم پر سر شار ایمان کے ساتھـ قبول کر نا ، جس کانتیجه ، پروردگار عالم ، نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور امام علیه السلام کے مقابل میں خضوع وخشوع اور ان کے اوامر و نواهی پر عمل کر نا هو تا هے ، اور ان کو قبول کر نے کے سلسله میں دل میں کسی قسم کے حرج یا کراهت کا احساس نهیں کرتا هے-[10] اس حالت میں بنده اپنے آپ کو خدا وند متعال کا مملوک اور پروردگار عالم کو اپنا مالک کل جانتا هے اور اس کی مرضی کو اپنی مرضی میں تبدیل کرتا هے اور اسی چیز کو پسند کرتا هے جسے اس کا محبوب پسند کرے-
٤) تسلیم حق هونا، وه تسلیم جس میں بنده اپنے لئے کسی آزادی یا اراده کا مشاهده نهیں کرتا هے، اس طرح خدا کے فر مان اور حکم کے علاوه کوئی اراده نهیں کرتا هے اس کا تمام عشق ومحبت اور هم وغم اپنے معبود کی جس طرح بھی ممکن هو،مرضی کو حاصل کر نا هو تا هے اور اس کے علاوه کچھـ نهیں، اس مقام پروه، اولیائے الهی کے درجه پرفائزهوتا هے اور اس کے لئے ایک ایسی حالت پیدا هوتی هے ، جس میں اسے نه کوئی خوف باقی رهتا هے اور نه کوئی رنج و غم ،[11] نه گزرے هوئے پر افسوس کرتا هے اور نه کسی کھوئی هوئی چیز پر اسے پریشانی هوتی هے اور نه اپنے مستقبل کے بارے میں خائف هوتا هے-[12] کیو نکه وه اطمینان کے مقام پر پهنچا هے اور صرف دعوت حق پر لبیک کر نے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملنے کا منتظر هوتا هے [13]اور اس راه میں جس چیز سے بھی دو چار هو اس کے لئے خوشنودی حق کے سوا کچھـ نهیں هے خواه یه اس کے لئے حادثه کر بلا هی کیوں نه هو!
پس "حقیقی اسلام" وه هے، جس کے جامع مراتب ، ایسے هی مراتب هوں-[14] اس لحاظ سے "نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا اسلام "کسی اور دین سے قابل موازنه نهیں هے ، چنانچه "ائمه هدی علیهم السلام کا اسلام" بھی دوسروں کے اسلام سے قابل موازنه نهیں هے- اس دعوی کی نشانیاں اور آثار و قرائن اس قدر زیاده هیں که اس مختصر مقاله میں ان سب کا ذکر کر نے کی مجال نهیں هے اس لئے هم محققین سے گزارش کرتے هیں که اس سلسله میں تفصیلات جاننے کے لئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعه کریں!
خلاصه یه که، خدا وند متعال کے سامنے تسلیم محض هو نے کے لئے دین اسلام کو قبول کر نا ضروری هے اور دین اسلام کو قبول کر نے کے لئے خدا وند متعال کے حضور تسلیم محض هونا ضروری هے – یه ایک ایسی لطافت هے جو اس لفظ اور عنوان میں مضمر هے اور هر معنی، دوسرے معنی کا لازمه هے اور ایک دوسرے سے جدا نهیں هے تاکه هم یه کهیں که یه معنی یا وه معنی!
دوسری جانب چونکه یه دین "ولایت" کے ذریعه کامل اور تمام هوا هے ، یعنی غدیر خم میں امام علی علیه السلام کے امامت پر منصوب هو نے سے کامل اور تمام هوا هے،[15] اس لئے ولایت کا منکر خدا کے حکم کے مقابل میں تسلیم محض نهیں هوتا هے ، پس اس نے حقیقی اسلام (کامل صورت میں دین ) کو قبول نهیں کیا هے اور شریعت کی اطاعت کر نے میں اس نے تبعیض کی راه کا انتخاب کیا هے، یعنی بعض چیزوں پر عمل کر نے اور بعض چیزوں کو چھوڑ نے کی راه اختیار کی هے، جبکه خدا وند متعال فر ماتا هے: " ایمان والو! الله ورسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نه کرو جب که تم سن رهے هو – اور ان لوگوں جیسے نه هو جاٶ جو یه کهتے هیں که هم نے سنا حالانکه وه کچھـ نهیں سن رهے هیں – الله کے نزدیک زمین پر چلنے والے بد ترین وه بهرے اور گو نگے هیں جو عقل سے کام نهیں لیتے هیں ...اے ایمان والوالله اور رسول کی آواز پر لبیک کهو جب وه تمهیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمهاری زندگی هے ... ایمان والو! خدا اور رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نه کرو جبکه تم جانتے بھی هو –"[16] مزید فر مایا :" اور کهه دو که حق تمهارے پروردگار کی طرف سے هے اب جس کا جی چاهے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاهے کافر هو جائے ، هم نے یقینا کافرین کے لئے اس آگ کا انتظام کردیا هے جس کے پردے چاروں طرف سے گھیرے هوں گے اور وه فریاد بھی کریں گے تو پگھلے هوئے تانبے کی طرح کھولتے هوئے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو چهروں کو بھون ڈالے گا یه بدترین مشروب هے اور جهنم بدترین ٹھکانا هے-[17] اس میں کوئی شک وشبه نهیں هے که"عترت و قرآن" دو گرانقدر امانتیں هیں ،که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے همیں ان دو اور دونوں سے قیامت تک تمسک کر نے کی سفارش اور تاکید کی هے ، کیونکه ثقلین نامی مشهور حدیث شیعه وسنی کے در میان ایک متواتر حدیث هے- پس ولایت کے بغیر اسلام ، حقیقی اسلام نهیں هے اور خدا کا پسندیده نهیں هوگا-
منابع و ماخذ:
١-شیرازی ، میرزا ابوطالب ،اسرار العقاید، مکتب اسلام ، طبع ١، ١٣٧٧،قم، کل کتاب وسایر تفاسیر ذیل آیات مذکور در پاورقی ها-
٢- طباطبائی ، محمد حسین، المیزان، انتشارات اسلامی، قم، ج١،ص٣٠٨- ٣٠٠، ج٧،ص٣٤٧-٣٤٢، ج٣،ص١٢٣-١٢٠ و٣٣٩-٣٣١-
٣- قمی مشهدی، محمد بن محمد رضا، کنز الدقائق ، مٶسسه طبع ونشر وزارت ارشاد، طبع ١، ١٤١١ق ، تهران، ج٤،ص١٢٣و ٤٤٢و ج ٣، ٥٨-٥٦-
[1] - سوره آل عمران ،٨٣، سوره رعد، ١٥ ، سوره فصلت، ١١-
[2] - ملاحظه هو: عنوان: اختیار و مشیت اله ، سٶال ١٥٣، سوره عنکبوت، ٩٨-
[3] - سوره انعام، ٧٩-
[4] - سوره احزاب ، ٣٦، سوره انعام، ١٢٧- ١٢٢ ، سوره نساء، ٧٠-٦٠-
[5] ـ سوره احزاب، ٤٠، ملاحظه هو: مطهری، مرتضی، خاتمیت-
[6] - سوره آل عمران، ٩٥- ٧٩-
[7] سوره انعام، ١٥٣، سوره مائده، ١٩- ١٥-
[8]- سوره حجرات، ١٤٤-
[9] - سوره زخرف، ٦٩، سوره بقره،٢٠٨،سوره حجرات،١٥-
[10] - سوه نساء، ٦٥،سوره مٶمنون ،٣-١-
[11] - سوره یونس ، ٦٢-
[12] - سوره حدید، ٢٣ سوره آل عمران ، ١٥٣-
[13] - سوره فجر، ٣٠-٢٧-
[14] ملاحظه هو: المیزان ، ج١،ص٣٠٣- ٣٠٠ -
[15] - ملاحظه هو: عنوان: تحریف اور غیر شیعه مذاهب سوال نمبر ٢٦٠، سوره مائده، ٣و ٦٧-
[16] - سوره انفال، ٢٧- ٢٠-
[17] - سوره کهف، ٢٩-