Please Wait
کا
10887
10887
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/09/07
سوال کا خلاصہ
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ہونے کی وجہ سے کئی دن تک اپنے چچا ابو طالب کی پستان سے دودھ پیا ہے؟
سوال
کیا یہ حدیث متن و سند کے لحاظ سے صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ابو طالب کی پستان سے دودھ پیتے تھے؟ امام صادق (ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ:" جب پیغمبر(ص)پیدا ہوئے، کئی دن تک دودھ نہیں ملا تاکہ آپ (ص) پیتے۔ ابو طالب نے آپ (ص) کے دہان مبارک کو اپنی پستان پر رکھا اور خداوند متعال نے ان میں دودھ جاری کیا اور آنحضرت (ص) نے کئی دن تک وہ دودھ پی لیا یہاں تک کہ حلیمہ سعدیہ کو دودھ پلانے کے لئے پیدا کیا گیا اور پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے حوالہ کیا گیا"۔ ( اصول کافی: کتاب حجت من باب مولود النبی)
ایک مختصر
اصل حدیث یوں ہے:" «محمد بن یحیى عن سَعد بن عبد الله عن إبراهیم بن محمد الثقفی عن علی بن المُعَلّى عن أخیه محمد عن دُرُست بن أبی منصور عن علی بن أبی حمزة عن أبی بصیر عن أبی عبد الله(ع) قال: لَمَّا وُلِدَ النَّبِيُّ(ص) مَكَثَ أَيَّاماً لَيْسَ لَهُ لَبَنٌ فَأَلْقاهُ أَبُو طَالِبٍ عَلَى ثَدْيِ نَفْسِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ لَبَناً فَرَضَعَ مِنْهُ أَيَّاماً حَتَّى وَقَعَ أَبُو طَالِبٍ عَلَى حَليمَةَ السَّعْديَّةِ فَدَفَعَهُ إِلَيْهَا».[1]
ترجمہ: جب پیغمبر اسلام (ص) پیدا ہوئے، چند دنوں تک کوئی دودھ پلانے والی دایہ دستیاب نہیں ہوئی تاکہ آنحضرت (ص) کا تغذیہ ہو جاتا اس لئے ابو طالب نے ( بچے کو آرام کرنے کے لئے) آنحضرت (ص) کے دہان مبارک کو اپنی پستانوں پر رکھا ( اور اعجاز نما طور پر) خداوند متعال نے ابو طالب کی پستانوں میں دودھ جاری کیا اور پیغمبر اکرم (ص) نے کئی دنوں تک ان کی پستانوں سے دودھ پی لیا، یہاں تک کہ ابو طالب نے ( قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون) حلیمہ کو پیدا کیا اور پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے حوالہ کیا تاکہ دودھ پلائیں۔
اس روایت کی سند کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: اس کی سند زیادہ قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اس روایت کے راویوں کے سلسلہ میں ابراھیم بن محمد ثقفی ، علی بن معلی، محمد بن معلی، درست بن ابی منصور اور علی بن ابی حمزہ بطائنی ہیں کہ علم رجال میں ان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے اور اس سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
لیکن اس حدیث کے متن اور محتوی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ:
ترجمہ: جب پیغمبر اسلام (ص) پیدا ہوئے، چند دنوں تک کوئی دودھ پلانے والی دایہ دستیاب نہیں ہوئی تاکہ آنحضرت (ص) کا تغذیہ ہو جاتا اس لئے ابو طالب نے ( بچے کو آرام کرنے کے لئے) آنحضرت (ص) کے دہان مبارک کو اپنی پستانوں پر رکھا ( اور اعجاز نما طور پر) خداوند متعال نے ابو طالب کی پستانوں میں دودھ جاری کیا اور پیغمبر اکرم (ص) نے کئی دنوں تک ان کی پستانوں سے دودھ پی لیا، یہاں تک کہ ابو طالب نے ( قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون) حلیمہ کو پیدا کیا اور پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے حوالہ کیا تاکہ دودھ پلائیں۔
اس روایت کی سند کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: اس کی سند زیادہ قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اس روایت کے راویوں کے سلسلہ میں ابراھیم بن محمد ثقفی ، علی بن معلی، محمد بن معلی، درست بن ابی منصور اور علی بن ابی حمزہ بطائنی ہیں کہ علم رجال میں ان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے اور اس سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
لیکن اس حدیث کے متن اور محتوی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ:
- اس روایت کا مضمون شاذ وغریب ہے، یعنی صرف اسی ایک روایت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
علم حدیث کے دانشور اس قسم کی احادیث کو نادر احادیث میں شمار کرتے ہیں۔[2] اور تاکید کی گئی ہے کہ نوادر احادیث ایسی احادیث ہیں کہ شیعہ ان پر عمل نہیں کرتے ہیں۔[3]
- لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعہ کے متحقق ہونے کا فرض عقل کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ اگر چہ یہ دودھ پلانا فطرت کے خلاف دوسرے اتفاقات کے مانند نادر ہے کہ رائج سسٹم کے بر خلاف انسان کے بدن میں پیدا ہوجائے، لیکن اس حادثہ کے متحقق ہونے کے فرض کے ساتھ، اسے ایک قسم کا معجزہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جس خدا نے غیر معمولی صورت میں تمام چیزوں کو حضرت عیسی (ع) اور ان کے والدہ حضرت مریم (ع) کے اختیار میں قرار دیا۔[4] وہ اسی معجزہ کو پیغمبر اکرم (ص) کے سلسلہ میں بھی دہرا سکتا ہے!
یہی وجہ ہے کہ علامہ مجلسی نے اس حدیث کو ضعیف جانتے ہوئے بھی، اس کے محتوی کو ایک قسم کا معجزہ شمار کیا ہے۔[5]
[1]. كلينى، محمد بن يعقوب، الكافی، ج 1، ص 4
48، تهران، دار الكتب الإسلامية، طبع چهارم، 1407ق.
48، تهران، دار الكتب الإسلامية، طبع چهارم، 1407ق.
[2] ۔ یوسفی غروی، محمدهادی، موسوعة التاریخ الاسلامی، ج 1، ص 262، قم، مجمع اندیشه اسلامی، طبع اول، 1417ق.
[3] شیخ مفید، جوابات أهل الموصل، ص 19، قم، كنگره شيخ مفيد، طبع اول، 1413ق.
[4] ریم؛ 24-26.
[5] ۔ مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول فی شرح أخبار آل الرسول، ج 5، ص 252، تهران، دار الكتب الإسلامية، طبع دوم، 1404ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے