Please Wait
کا
22458
22458
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/02/02
سوال کا خلاصہ
اصول دین اور فروع دین کے نام لے کر ان کی مختصر وضاحت فرمائیے؟
سوال
اصول دین اور فروع دین کے نام لے کر ان کی مختصر وضاحت فرمائیے؟
ایک مختصر
اصول دین اور فروع دین کی طبقہ بندی، جس صورت میں ہمارے درمیان عام اور رائج ہے، وہ ائمہ اطہار {ع} کی رواتوں سے اخذ نہیں کی گئ ہے بلکہ دینی علوم کے دانشووں نے دینی معارف کی اس صورت میں طبقہ بندی کی ہے- اس بحث کی تاریخ پہلی صدی ھجری کے دوسرے نصف حصہ سے متعلق ہے- لیکن واضح طور پر مشخص نہیں ہے، کس نے اسے " اصول دین" کا نام دیا ہے- بلکہ بنیادی طور پر اس قسم کے علمی مباحث دانشوروں اور علماءکے مباحث اور تفکرات کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں اور یہ علمائے دین کی ایک ھمہ جہت علمی تحریک کا نتیجہ تھا اور اس سلسلہ میں کسی خاص واضع کا فرض کرنا، صحیح فرض نہیں ہے-
تفصیلی جوابات
ہر چیز کی اصل، وہی اس کی جڑ اور بنیاد ہے جس کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے- اس بنا پر، اصول دین ایک ایسی چیز ہے، جس کی بنیاد پر دین کی عمارت تعمیر کی گئی ہے-[1]
" اصول دین" کو اگر اس کے خاص معنی [2] { یعنی بنیادی ترین عقائد} میں استعمال کیا جائے، جیسے علم اعتقاد میں استعمال کیا گیا ہے، تو یہ ہر دین کے بنیاد ی عقائد پر مشتمل ھوگا، کہ ان عقائد کے بغیر دین متحقق نہیں ھوتا ہے-
تمام توحیدی ادیان تین بنیادی اور مشترک اصولوں پرمبنی ھوتے ہیں: خدائے یکتا کا اعتقاد، ہر انسان کے لئے آخرت میں ابدی زندگی اور اس دنیا میں انجام دئے اعمال کی پاداش اور سزا کا اعتقاد { یعنی معاد} اور انبیاء {ع} کی بعثت کا اعتقاد، جنھیں خداوند متعال نے انسان کے آخری کمال اور دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف ہدایت کرنے کے لئے بھیجا ہے-[3]
لیکن اس قسم کے بنیادی عقائد کے بارے میں لفظ"اصل" کا استعمال، اصطلاحات اور قراردادوں کے تابع ہے-[4] اور اس قسم کی کوئی آیت یا روایت نہیں پائی جاتی ہے، جو براہ راست اس مطلب کی دلالت پیش کرتی ھو، بلکہ اسلامی دانشوروں نے بعض مسائل کی اہمیت کے پیش نظر انھیں اصول دین کا جزو شمار کیا ہے-
تمام توحیدی ادیان کے درمیان مشترک مذکورہ تین اصول، کی بنیاد پر ان ادیان کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، ان کے علاوہ شیعہ علماء نے دو اصل، یعنی امامت و عدالت کا اضافہ کیا ہے، اگر چہ امامت، نبوت کے تابع ہے، لیکن، صدر اسلام میں مسلمانوں کے درمیان پیدا ھونے والےاختلاف کی وجہ سے شیعوں نے اپنے اس اہم عقیدہ کو ظاہر کرنے کے لئے امامت اور اس کے اعتقاد کو اپنے اصول میں داخل کیا- کیونکہ عقلی اور نقلی ادلہ اور پیغمبر اکرم {ص} کی سفارت کے پیش نظر، اگر نبوت کا استمرار امامت کے ذریعہ نہ ھوتا تو دین ناقص ھوتا اور لوگ گمراہ ھوتے-[5]
فروع دین: فروع دین { اصول دین کے مقابلے میں} ایک اصطلاح ہے، جو اسلام کے عملی احکام سے متعلق ہے، چونکہ اصول دین کا رتبہ { یقین کے ساتھ} علم کے باپ سے متعلق ہے، اس لئے فروع دین پر مقدم ہے جو عمل کے باپ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جب تک علم و اعتقاد نہ ھو عمل کے کوئی معنی نہیں ہیں، اس لئے اس قسم کے اسلام کے عملی احکام کو " فروع دین" کہا جاتا ہے کہ جو اصول کی بنیاد پرمبنی ھوتے ہیں اور مرحوم فیض کاشانی کے بقول اصول دین ایک درخت کے مانند ہے اور فروع دین اس کے میوے ہیں اور فرماتا ہے: ان دو { علم و عمل} میں سے برتر علم ہے، علم درخت کے مانند ہے اور عبادت اس کے میوہ کے مانند ہے"-[6] فروع دین کی تعداد آٹھ یا دس ھونا ان کی عبادت میں اہمیت کے پیش نظر ہے، ورنہ واجبات اور محرمات کی تعداد فروع دین کے حصہ شمار ھونے والے معاملات کے احکام کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں-[7] لیکن مشہور فروع دین مندرجہ ذیل دس ہیں:
۱-نماز
۲-روزہ
۳-خمس
۴-زکواۃ
۵-حج
۶-جہاد
۷-امر بالمعروف{ نیکیوں کا حکم}
۸-نہی عن المنکر{برائیوں سے روکنا}
۹-تولی { خدا کے دوستوں سے دوستی}
۱۰-تبری {خدا کے دشمنوں سے دشمنی}
" اصول دین" کو اگر اس کے خاص معنی [2] { یعنی بنیادی ترین عقائد} میں استعمال کیا جائے، جیسے علم اعتقاد میں استعمال کیا گیا ہے، تو یہ ہر دین کے بنیاد ی عقائد پر مشتمل ھوگا، کہ ان عقائد کے بغیر دین متحقق نہیں ھوتا ہے-
تمام توحیدی ادیان تین بنیادی اور مشترک اصولوں پرمبنی ھوتے ہیں: خدائے یکتا کا اعتقاد، ہر انسان کے لئے آخرت میں ابدی زندگی اور اس دنیا میں انجام دئے اعمال کی پاداش اور سزا کا اعتقاد { یعنی معاد} اور انبیاء {ع} کی بعثت کا اعتقاد، جنھیں خداوند متعال نے انسان کے آخری کمال اور دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف ہدایت کرنے کے لئے بھیجا ہے-[3]
لیکن اس قسم کے بنیادی عقائد کے بارے میں لفظ"اصل" کا استعمال، اصطلاحات اور قراردادوں کے تابع ہے-[4] اور اس قسم کی کوئی آیت یا روایت نہیں پائی جاتی ہے، جو براہ راست اس مطلب کی دلالت پیش کرتی ھو، بلکہ اسلامی دانشوروں نے بعض مسائل کی اہمیت کے پیش نظر انھیں اصول دین کا جزو شمار کیا ہے-
تمام توحیدی ادیان کے درمیان مشترک مذکورہ تین اصول، کی بنیاد پر ان ادیان کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، ان کے علاوہ شیعہ علماء نے دو اصل، یعنی امامت و عدالت کا اضافہ کیا ہے، اگر چہ امامت، نبوت کے تابع ہے، لیکن، صدر اسلام میں مسلمانوں کے درمیان پیدا ھونے والےاختلاف کی وجہ سے شیعوں نے اپنے اس اہم عقیدہ کو ظاہر کرنے کے لئے امامت اور اس کے اعتقاد کو اپنے اصول میں داخل کیا- کیونکہ عقلی اور نقلی ادلہ اور پیغمبر اکرم {ص} کی سفارت کے پیش نظر، اگر نبوت کا استمرار امامت کے ذریعہ نہ ھوتا تو دین ناقص ھوتا اور لوگ گمراہ ھوتے-[5]
فروع دین: فروع دین { اصول دین کے مقابلے میں} ایک اصطلاح ہے، جو اسلام کے عملی احکام سے متعلق ہے، چونکہ اصول دین کا رتبہ { یقین کے ساتھ} علم کے باپ سے متعلق ہے، اس لئے فروع دین پر مقدم ہے جو عمل کے باپ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جب تک علم و اعتقاد نہ ھو عمل کے کوئی معنی نہیں ہیں، اس لئے اس قسم کے اسلام کے عملی احکام کو " فروع دین" کہا جاتا ہے کہ جو اصول کی بنیاد پرمبنی ھوتے ہیں اور مرحوم فیض کاشانی کے بقول اصول دین ایک درخت کے مانند ہے اور فروع دین اس کے میوے ہیں اور فرماتا ہے: ان دو { علم و عمل} میں سے برتر علم ہے، علم درخت کے مانند ہے اور عبادت اس کے میوہ کے مانند ہے"-[6] فروع دین کی تعداد آٹھ یا دس ھونا ان کی عبادت میں اہمیت کے پیش نظر ہے، ورنہ واجبات اور محرمات کی تعداد فروع دین کے حصہ شمار ھونے والے معاملات کے احکام کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں-[7] لیکن مشہور فروع دین مندرجہ ذیل دس ہیں:
۱-نماز
۲-روزہ
۳-خمس
۴-زکواۃ
۵-حج
۶-جہاد
۷-امر بالمعروف{ نیکیوں کا حکم}
۸-نہی عن المنکر{برائیوں سے روکنا}
۹-تولی { خدا کے دوستوں سے دوستی}
۱۰-تبری {خدا کے دشمنوں سے دشمنی}
[1] - الرحمانی الھمدانی، احمد،الامام علی{ع}، ص ۵۸۶، نشر منیر، تھران-
[2] -مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقاید، ص ۱۴، نشر بین الملل-
[3] - مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۶۵، ص، نشر موسسہ الوفاء، بیروت-
[4] -آموزش عقاید، ص ۱۴-
[5] - حدیث متواتر" ثقلین"میں ، { عترت و قرآن} موجب ھدایت مردم بعد از نبی{ص} شمارہوتے ہیں-
[6] - فیض کاشانی، ملا محسن، علم الیقین فی اصول الدین، ج ۱، صص ۵-۴، انتشارات بیدار-
[7] سوال ۲۳۷۸{ سایٹ: ۲۹۰۹}سے استفادہ کر کے-
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے