Please Wait
8103
صله رحم نسبی رشته داروں سے مهر بانی و احسان کے ساتھـ برتاٶ کے معنی میں هے، سبوں کی به نسبت ایک شرعی ذمه داری هے اور اس کے بهت آثار و فوائد ذکر کئے گئے هیں ، جیسے : طول عمر ، خوش اخلاقی اور رزق کی افزائش وغیره- تمام لوگوں (زن ومرد، باتقوی و بے تقوی، مسلمان وکافر اور ظالم وصالح) سے صله رحم انجام پانا چاهئے – حضرت علی علیه السلام سے نقل کیاگیا هے که آپ (ع) نے فر مایا: " اپنے رشته داروں کے ساتھـ رابطه اور رفت وآمد بر قرار رکهو، اگر چه انهوں نے آپ سے قطع رابطه کیا هو-"
البته صله رحم کے کچھـ درجات هیں ، اور یه درجات ، افراد اور حالات کے مطابق متفاوت هو تے هیں – بیشک اگر دنیوی یا دینی نقصان کا سبب بنے تو صله رحم میں اس حد تک تغییر اور کمی کرنی چاهئے که نقصان نه هو- مثلاً ایک ظالم اور گناه گار کے ساتھـ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے ضمن میں اس طرح صله رحم انجام پائے که یه رابطه اس کے برے اعمال کی تائید شمار نه هو جائے اور اگر کسی شخص کے بارے میں جانتا هے که اسے دیکھـ کر وه خوش نه هو جائے- تو اس کی بلاواسطه مدد،دعا اوراحوال پرسی کی جانی چاهئے اور بهر حال اس شخص کے بارے میں آپ اپنی مهر بانیوں کو مختلف طریقوں سے ظاهر کرسکتے هیں-
صله رحم کے لغوی اور فقهی معنی :
لغت اور عرف میں رحم، اعزّه اور رشته داروں[1] کے معنی میں هے ،فقهی اصطلاح میں بهی بعض فقها کے قول کے مطابق اس کے یهی لغوی معنی هیں ، یعنی مطلق اعزّه و رشته دار، اس قید کے ساتھـ که یه رشته دار نسبی هوں نه سببی، خواه مرد هو یاعورتیں، وارث هوں یا غیر وارث، محرم هوں یا نا محرم ، مسلمان هو ں یا کافر، باپ کی طرف سے هوں یا ماں کی طرف سے، یا دونوں کی طرف سے، لیکن ضروری هے که نسبی لحاظ سے بهی زیاده دور نه هوں تاکه عام لوگ انهیں ا س شخص کے رشته دار جان لیںورنه قابل ذکر بات هے که تمام انسان آپس میں رشته دار هیں- اس نظریه کی بناپر، ان تمام موارد میں معیار عرف هے[2]- اس قول کے ضمن میں بعض علماء رحم ان رشته داروں کو جانتے هیں جو وراثت کے زمرے میں آتے هیں جو تمام فرزندوں یهاں تک خاله، ماموں، چاچی اور چچا کی اولاد پر مشتمل هیں[3]-
لیکن لغت میں صله، احسان اور هدیه کے معنی میں هے[4]- اور اصطلاح میں محبت ومهر بانی کے ساتھـ رابطه برقرار کر نے کے معنی میں هے که اس کا برعکس دوری اختیار کر نا اور قطع رابطه هے – اس لئے صله رحم ، اپنے رشته داروں کے بارے میں خیال رکهنا، احسان اور حال واحوال پوچھنا وغیره هے اور اس کا برعکس قطع رحم هے-
آثار و نتائج :
معصومین علیهم السلام کے اقوال میں ، صله رحم کے بهت سے دنیوی واخروی فوائد بیان کئے گئے هیں هم ذیل میں ان میں سے صرف دو اقوال کو بیان کر نے پر اکتفا کرتے هیں:
حضرت امام محمد باقر علیه السلام نے فر مایا هے :" صله ارحام، اعمال کو پاک، اموال میں اضافه ، بلاٶوں کو دور اور حساب کو آسان کرتا هے اور موت کو تاخیر میں ڈالتا هے[5]-"
ملاحظه هو که ، مذکوره نتائج میں سے بعض دنیوی امور سے متعلق هیں اور بعض اس عمل کے اخروی نتائج سے مربوط هیں-
امام صادق علیه السلا م فر ماتے هیں :" صله رحم، اخلاق کو نیک، هاتھـ کو سخی اور دل وجان کو مسرور کرتا هے، رزق کو بڑهاتا هے اور اجل وموت میں تاخیر پیدا کرتا هے[6]-"
یه نیک اور ساده کام اس قدر تعمیری اور مفید هے اور اس قدر خداوند متعال کو پسند هے که بعض اوقات اس نیک کام کے لئے تقدیر الهی میں تبدیلی آتی هے اور خداوند متعال اس نیک کام کے صله میں انسان کی عمر میں اضافه کرتا هے-اس کے برعکس قطع روابط اور رشته داروں سے دوری، خدا کے هاں اس قدر منحوس اور نفرت انگیز اور ناپسند هے که خداوند ایسے انسان کی عمر میں کمی واقع کرتا هے-
مندرجه ذیل هلانے والی حدیث ملاحظه هو :
امام صادق علیه السلام نے فرمایا : " هم، صله رحم، کے علاوه کسی اور چیز کو نهیں جانتے هیں جو( براه راست) عمر میں اضافه کا سبب بنے،یهاں تک که بعض اوقات کسی شخص کی موت تک صرف تین سال باقی بچے هیں ، لیکن وه صله رحم کو انجام دیتا هے تو، خداوند متعال اس کی عمر مین تیس سال کا اضافه کرتا هے اور وه مزید تینتیس سال تک زنده رهتا هے – اور کبهی کسی کی موت تینتیس سال کے بعد واقع هو نے والی هوتی هے ، لیکن قطع رحم اور رشته داروں سے روابط توڑنے کے نتیجه میں اس کی عمر کم هو کر تین سال کے بعد اس کی موت واقع هوتی هے[7]-"
صله رحم کے حدود :
معاشرت کی یه تهذ یب، صرف پاک و باتقوی رشته داروں تک هی محدود نهیں هے، بلکه یه ایک اخلاقی فریضه هے ، که گناه گاروں بلکه کفار کے بارے میں بهی ثابت هے- ممکن هے صالح اور نیک رسته داروں کی رفت وآمد کی وجه سے ظالم لوگ بهی نیک راه کا انتخاب کریں اور متاثر هو جائیں – یهاں تک که اگر یه رابطه بد کار رشته داروں کے طرز عمل پر کوئی اثر بهی نه ڈالے پهر بهی هم پر فرض هے که ان کے ساتھـ رابطه کو نه توڑیں-
نقل کیاگیا هے که شیعوں میں سے ایک شخص نے امام صادق علیه السلام سے پوچها :" میرے بعض رشته دار میری فکر اور طرز عمل کے خلاف تفکر اور طرز عمل رکهتے هیں – کیا پهر بهی مجھـ پر ان کا کوئی حق هے؟ حضرت(ع) نے فر مایا :" بیشک، قرابت اور رشته داری کے حق کو کوئی چیز توڑ نهیں سکتی هے- اگر وه تیرے ساتھـ هم فکر اور هم عقیده هوں تو تجھـ پر دوحق هیں : ایک رشته داری کا حق اور دوسرا اسلام ومسلمانی کا حق[8]- "
حتی، اگر رشته دار ، انسان کے آزار کا سبب بهی بنیں ، پهر بهی همیں ان سے رابطه توڑنے کا حق نهیں هے- حدیث میں آیا هے که :" ایک شخص رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی خد مت میں حاضر هوا اور عرض کی : یا رسول الله(ص)! میرے کچھـ ایسے رشته دار هیں جن کے ساتھـ میں رابطه بر قرار کرتا هوں ، لیکن وه مجهے اذیت و آزار پهنچاتے هیں – میں نے ان کے ساتھـ رابطه منقطع کر نے کا فیصله کیا هے –" حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا: اس صورت میں ، خداوند متعال بھی تجهے ترک کرے گا!---" اس نے پوچھا : " پس مجهے کیا کر نا چاهئے ؟ " رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : " جس نے تجهے محروم کیا هے اسے عطا کر ، جس نے تجھـ سے رابطه توڑا هے اس کے ساتھـ رابطه بر قرار کر، جس نے تم پر ظلم کیا هے اس کو معاف کر- اگر تم نے ایسا کیا تو خداوند متعال تیرا مدد گار هو گا[9]-"
حضرت علی علیه السلام سے نقل کیاگیا هے که آپ (ع) نے فر مایا :" اپنے رشته داروں کے ساتھـ رابطه بر قرار رکهو اور ان کے هاں رفت وآمد جاری رکهو، اگر چه وه تمهارے ساتھـ رابطه توڑ چکے هوں[10]-"
یهاں تک اگر بعض رشته داروں کے ساتھـ همارا رابطه اور ان کے گهر میں رفت وامد ان کے لئے ناراضی کا سبب بنے یا هماری بے احترامی کا موجب بنے تو پهر بهی صله رحم کا فریضه ختم نهیں هوتا هے اور اس صورت مین ایسے طریقه کار اپنانے چاهئے جن کی وجه سے یه مشکل پیش نه آئے اور رابطه بهی بر قرار رهے ، مثال کے طور پر ان کے گهر جانے کے بغیر ٹیلفون کے ذریعه ان کاحال و احوال پوچها جائے اور حتی بالواسطه ان کی فکر و توجه کی جائے اور دوسروں سے ان کا حال و احوال پوچھـ لیں یا بالواسطه ان کی مدد کریں، خواه یه مدد مالی هو یا دوسروں کے مقابلے میں ان کی زبانی حمایت هو- بهر حال رشته داروں کے ساتھـ اجنبیوں کا جیسا سلوک اور برتاٶ نهیں کر نا چاهئے بلکه ان کی طرف سے هر قسم کی بے مروتی کا مظاهره کر نے کے باوجود هر ممکن صورت میں مختلف مواقع پر ان کے ساتھـ اپنے رابطه کو برقرار رکهنےکا مظاهره کر نا چاهئے[11]-"
بیشک، صله رحم کے دنیوی یا دینی نقصان کا سبب بننے کی صورت میں ، اس حد تک رابطه مین تبدیلی لانی چاهئے که نقصان نه پهنچے-
رابط کی کیفیت :
واضح هے که اظهار محبت و احسان کی کیفیت کا معیار عرف هے، کیونکه لوگوں کے عادات ورسوم کے مطابق ان کے نزدیک اور دور هو نے کی کیفیت میں فرق هو تا هے[12]- اس قسم کا رابطه لوگوں کی ضرورتوں سے بهی مربوط هوتا هے ، ممکن هے بعض لوگوں کی ضرورت مادی هو اور بعض لوگ مادی طور پر محتاج نه هوں بلکه کسی دوسری مدد کے محتاج هوں- مثال کے طور پر ایک بوڑها مرد یا بوڑهی عورت ان کی حفاظت اور نگران کے محتاج هوتے هیں اور بعض لوگ ممکن هے فکری طور پر مدد کے محتاج هوں- اور بعض لوگ کسی قسم کے محتاج نهیں هوتے هیں صرف ان کی احوال پرسی کی جانی چاهئے- بهر حال صله رحم کے مختلف درجات هیں که شخص کی توانائی، سماجی رسم ورواج، لوگوں کی ضرورت اور ان کے برتاٶ کے پیش نظر ان میں فرق هو تا هے اور یه درجات قابل تغییر هو تے هیں –بهرحال جس درجه تک بهی ممکن هو اس دینی پروگرام پر عمل کرنا چاهئے-
[1] - المنجد الرحم :ذورحم ای ذوقرابه-
[2] - جامع المسائل مرحوم آیت الله فاضل،ج١،ص٤٩٤،سوال ١٧٧٣(سایت بلاغ٠)
[3] - مرحوم تبریزی وخوئی صراط النجاۃ،ج١،ص٤٣٣-
[4] - المنجد :الصلۃ :العطیۃ والاحسان والجائزۃ-
[5] - " صلۃ الارحام تزکیی الاعمال وتنمیی الاموال وتد فع البلوی وتیسر الحساب وتنسیی ء فی الاجل" ،اصول کافی،ج٢،ص١٥٠-
[6] - " صلۃ الارحام تحسن الخلق وتسمح الکف وتطیب النفس وتزید فیی الرزق وتنسی ء الاجل" ایضاً ض١٥٠وص١٥١-
[7] - ایضاً ص١٥٢-
[8] - میزان الحکمۃ ،ج٤،ص٨٣-
[9] - بحارالانوار ،ج٧١،ص١٠٠-
[10] - " صلوا ارحامکم وان قطعو کم " ایضاً ،ص٩٢-
[11] - صراط النجاۃ مرحوم تبریزی و خوئی ج٣ص٢٩٤-
[12] - اطائب الکلم فی بیان صلۃ الرحم ، مرحوم کرکی ،ص٣٠-