Please Wait
17642
١- بعض اوقات "حدیث کساء" سے مراد احادیث کا وه مجموعه هےجواهل سنت اورشیعوں کی کتب احادیث میں آیه تطهیر کی شان نزول اور کساء کے نیچے اصحاب کساء کے جمع هونے کے بارے میں درج کیا گیا هے- اور بعض اوقات اس سے مراد وه حدیث هے جو بعض کتابوں میں ، جیسے "المنتخب" اور "مفاتیح الجنان" وغیره میں نقل کی گئی هے-
٢- حدیث و واقعه کساء حضرت ام سلمه(رض)کے گهر میں آیه تطهیر کے نازل هو نے کے بعد واقع هوا هے-اس واقعه میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے ایک ردا یا چادر کے نیچے علی، فاطمه،حسن اور حسین(علیهم السلام)کو اپنے ساتھـ ڈهانپا اور اس طرح اهل بیت(ع) کے مصادیق کو مشخص فر مایا هے – یه واقعه شیعه وسنی کے نزدیک مسلم اور قطعی هے اور بهت سے اصحا ب اور تابعین نے، حتی که امیرالمٶمنین اور امام حسن و امام حسین (علیهم السلام) ، حضرت ام سلمه اور حضرت عائشه وغیره نے بھی اسے نقل کیا هے-
٣- جوروایتیں اس حدیث کو بیان کرتی هیں، اس کے باوجود که بعض تفصیلات میں اختلاف رکھتی هیں، لیکن اصل واقعه کے رونما هونے کے سلسله میں مشترک هیں-
٤- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے رشته داروں ، اصحاب اور خادموں کی ایک تعداد، جو اس واقعه کے ناظر اور شاهد تهے ، نے کساء کے واقعه کو بیان کیا هے –
٥- حدیث کساء کے نام سے جوحدیث حضرت فاطمه زهرا( سلام الله علیها) سے نقل کر کے کتاب" عوالم العلوم" ، "المنتخب" اور " مفاتیح الجنان" میں درج کی گئی هے، معتبر نهیں هے-
٦- مذکوره حدیث میں سند کی کمزوری ، اور یه که کسی بھی معتبر و معروف احادیث کی کتابوں میں اسے نقل نهیں کیا گیا هے ، اورحتی که بعض افراد نےاس حدیث کے سلسله سند میں ذکر کئے گئے ناموں کو اپنی کتابوں میں درج نھیں کیا هے ، اور مرحوم شیخ عباس قمی نے بهی منتهی الآمال میں صراحت کے ساتھـ اس مطلب کا ذکر کیا هے، اس کے پیش نظرشاید یه کها جاسکتا هے که مفاتیح الجنان میں اس حدیث کو محدث قمی (رح) کے بعد اضافه کیاگیا هے-
٧-ائمه معصومین (علیهم السلام )کے مقامات الهی ونورانیت اور فضا ئل من ان جمله مطالب میں سے هیں جو قرآن مجید اور اسلامی روایات میں بیان هوئے هیں، ان کے بارے میں تالیف کی گئی کتابوں کی طرف رجوع کر کے اطلاعات حاصل کی جاسکتی هیں-
اس سوال کے جواب میں ،پهلے"حدیث کساء" کی مراد واضح هو نا چاھئے –کیا یه ان حدیثوں کا مجموعه هے، جنهیں سنی اور شیعه کی کتابوں میں آیه تطهیر کی شان نزول اور پنجتن پاک(ع) کے کساء کے نیچے اجتماع کر نے اور اصل واقعه کساء کے بارے میں نقل کیاگیا هے، یامراد وه حدیث هے جو بعض کتابوں ، جیسے "المنتخب"[1]،"عوالم العلوم"[2]...،"منتهی الآمال" [3]اور "مفاتیح الجنان" [4]وغیره میں "حدیث کساء" کے عنوان سے نقل کی گئی هے؟ سوال کر نے والے کے الفاظ سے ایسا لگتا هے که اس کی مراد وهی حدیث هے جس کو مفاتیح الجنان وغیر میں حضرت فاطمه زهرا (سلام الله علیها) سے "حدیث کساء" کے نام سے بیان کیا گیا هے- بهرحال هم دونوں صورتوں میں جواب دینے کی کوشش کریں گے-
الف) حدیث کساء سنی اور شیعه کی کتابوں میں: کساء کا واقعه جوآیه تطهیر :"انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا"[5] کے سلسله میں پغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے ذریعه واقع هوا هے، ایک مسلم اور قطعی امر هے – یه واقعه اهل سنت( صحابه و تابعین) اور تشیع(ائمه معصومین اور دوسرے) کی بهت سی کتابوں میں نقل هوا هے – یه واقعه من جمله واقعات میں سے هے جو اصحاب کساء کی شان اور عظمت کو بیان کرتے هیں- یه واقعه سنی وشیعه محدثین کے توسط سے ایسے متواتر طور پر نقل کیاگیا هے که اس کی تاریخ کے بهت سے شواهد وقرائن تائید کرتے هیں-
اس لحاظ سے، جس دن یه واقعه رونماهوا وه "روز کساء" کے نام سے اور جو پانچ افراد اس دن اس آیه شریفه کے مطابق خدا کے خاص لطف و عنایت میں قرار پائے هیں وه "اصحاب کساء "[6] کے نام سے معروف اور مشهور هیں- اصحاب (واهل) کساء عبارت هیں: پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم، امیرالمٶمنین علی، فاطمه زهراء، حسن اور حسین (علیهم السلام )
اس سلسله میں پائی جانے والی بهت سی روایتیں یکساں نهیں هیں بلکه ان کے کے درمیان کلمات اور الفاظ میں بعض اختلافات پائے جاتے هیں –ان میں سے بعض میں اصل قضیه بیان هوا هے ، اس کی خصوصیات ذکر نهیں کی گئی هیں، بعض میں اس واقعه کی تفصیلات اور جزئیات بھی بیان کی گئء هیں، لیکن ان میں سے هر ایک میں واقعه کے ایک حصه کی تشریح کی گئ هے-
اس لئے، آیه تطهیر اور اس سے متعلق روایتوں کی تفسیر وتحقیق اور یه که یه آیه کریمه اهل بیت (علیهم السلام ) اور اصحاب کساء سے مخصوص ھے اس کے بارے میںیهاں پر بحث کر نے کی گنجائش نهیں هے- اس سلسله میں اس موضوع سے متعلق تالیف کی گئ کتابوں ، تفسیر اور احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ، امید هے یه مطالعه قارئین کرام کو اس موضوع سے میں آگاهی حاصل کر نے میں مفید هو گا-[7]
شاید اس بات کا ذکر کرنا یهاں پر کافی هوگا که ایک دانشور نے ، آیه تطهیر کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی هے اور اس کی پهلی جلد میں قابل توجه صفحات پر حدیث کے متن کی بحث کی هے اور اس حدیث کو نقل کر نے والے اصحاب کی تعداد درج کی هے ، جن کی تعداد پچاس افراد سے زیاده بتائی هے-[8]
آیه تطهیر کے بارے میں نقل کی گئی احادیث کی تعداد ستر سے زیاده هے[9]- حنفی مذهب سے تعلق رکھنے والے قندوزی نے " مودت قربی" کے بارے میں کچھـ مطالب بیان کر نے کے بعد کها هے که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم اس آیت: وامر اهلک بالصلوه واصطبرعلیها-" کے نازل هونے کے بعد نومهینے تک حضرت فاطمه زهراء (ع) کے گهر پر تشریف لاتے تهے اور فر ماتے تھے: "انما یرید الله لیذ هب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا-" اس نے یوں کها هے که: یه حدیث تین سو اصحاب کے ذریعه روایت کی گئی هے-
قابل ذکر بات هے که قندوزی شخص نے فضائل اهل بیت علیهم السلام سے مربوط اکثراحادیث سے انکار کرنے کی کوشش کی هے ، لیکن حدیث کساء کے صحیح هونے کے بارے میں اعتراف کرتے هوئے کهتے هیں: "لیکن حدیث کساء صحیح هے[10]-"
آیت تطهیر اور قضیه کساء کے بارے میں احادیث کی سند کے سلسله میں تحقیق کر نے سے معلوم هوتا هے که پیغمبر(ص)کےاصحاب میں سے تین سو سے زیاده افراد نے اس روایت کو نقل کیا هے: ان میں سے کچھـ یوں هیں: ١- امیرالمٶمنین علی (علیه السلام)٢-امام حسن بن علی (علیه السلام)٣- امام علی بن الحسین(ع)٤- امام صادق (ع)٥-امام رضا(ع) ٦- جابر بن عبدالله ٧- عبدالله بن عباس٨- عبدالله بن جعفر طیار٩-بریده الاسلمی١٠- عبدالله بن عمر١١-عمران بن حصین١٢- سلمه بن الاکوع١٣-ابوسعید الخدری١٤-انس بن مالک١٥-ابوذر١٦- ابولیلی١٧- ابوالاسود دوئلیً١٨- عمر وبن میمون اودی١٩- سعد بن ابی وقاص٢٠-ام سلمه٢١- عائشه٢٢- عمر بن ابی سلمه٢٣-ابوالحمراء٢٤- زینب بنت ابی سلمه٢٥- عامر بن سعد٢٦-البراء بن عازب٢٧-واثله بن الاسقع(الاصقع)٢٨- ثوبان غلام پیغمبر(ص)٢٩- عطاء بن سیار٣٠-ابوهریره وغیره [11]–البته جیسا که اس سے پهلے اشاره کیاگیا که حدیث کساء کی داستان اور آیه تطهیر کے نزول کے سلسله میں روایتوں کے الفاظ اور زمان و مکان کے حالات کے بارے میں ممکن هے کچھـ اختلافات پائے جائیں ، لیکن اصل حدیث کساء کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبهه نهیں هے – لیکن یه که ان اختلافات کا راز کیا هے ، ایک الگ اور اهم موضوع هےجس کی تشریح کر نے کی یهاں پر کوئی خاص ضرورت نهیں هے ، لیکن خلاصه کے طور پر کها جاسکتا هے که کساء کا واقعه ام سلمه کے گھر میں رونما هوا هے ، اگر چه بعض لوگوں نے احتمال دیا هے که یه واقعه آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی دوسری بیویوں کے گهر میں رونما هوا هے- اور یه امر نه صرف اس کی کمزوری کی علامت نهیں هے بلکه اس بات کے مزید شواهد وقرائن هیں که عائشه و زینب جیسے دوسرے افراد بھی اس واقعه کے شاهد تھے، اگر چه اس واقعه کا حضرت ام سلمه کے گهر میں رونما هو نا اس محترم خاتون کے مقام ومنزلت کی علامت هے-
یهاں تک که بعض لوگوں نے اس واقعه کو حضرت فاطمه زهراء (ع)کےگهرمیں رونما هونےکے احتمال کو قوی جاناهے [12]– بعض محد ثین نے اس واقعه کے متعدد بار رونما هو نے اور دهرائے جانے کا احتمال دیا هے لیکن بظاهر یه نظریه صحیح نهیں هے [13]اور کهاجاسکتا هے که : اصلی واقعه ام سلمه کے گهرمیں رونما هوا هےاور اسی جگه پر آیه تطهیر نازل هوئی هے ، لیکن اس کے بعد رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے مختلف مواقع پر مذکوره واقعه کو دهرا یا هے تاکه قضیه واضح هو جائے اور "اهل بیت" کے مصادیق معین هوجائیں اور بعد میں کوئی یه نه کهے که پیغمبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی بیویاں بھی اهل بیت کے مصادیق هیں یایه کهے که مذکوره داستان ایک عادی امر هے [14]یایه که کها جاسکتا هے که: کساء کی داستان کے سلسله میں رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے بعض رشته دار ،خادم اور رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے خاص اصحاب بھی شاهد اور ناظر تھے اور انهوں نے اس داستان کو مختلف مقامات پر نقل کیا هے ، جیسے : امام علی(ع) امام حسن(ع) ، ام سلمه ، عائشه ، ام سلمه کی بیٹی زینب ، پیغمبر(ص) کے آزاد کرده شده غلام ثوبان اور واثله اسقع[15] وغیره(تمام روایتوں کی سند کے صحیح هونے کو فرض کرلینے مطابق)
لهذا، علمائے شیعه کے در میان اس سلسله میں کسی قسم کا شک وشبهه نهیں هے که آیه تطهیر کے ام سلمه کے گهر میں نازل هو نے کے بعد پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے علی ،فاطمه، حسن اور حسین (علیهم السلام ) کو اپنے پاس بلایا اور اپنے دوش مبارک پر موجود ایک چادر کو ان کے سر پر رکهدیا اور فر مایا: " پروردگارا !یه میرے اهل بیت هیں ، ان سے هر قسم کی آلود گی اور پلیدی کو دور فر ما اور انھیں پاکیزه فر ما –" اور یقیناً ام سلمه وغیره اگر چه بلند مرتبه کی حامل تھیں،مگر اهل بیت میں داخل نهیں تھیں اور کساء کے نیچے قرار پائے گئےافراد میں شامل نهیں تھیں-[16]
ب) حدیث کساء حضرت فاطمه زهراء (ع) کی روایت میں : اس تحریر کے پهلےحصه سے یه نتیجه نکلتا هے که شیعه وسنی کا اس پر اتفاق هے که حدیث کساء ایک قطعی اور واضح ا مر هے اور اس کی سند اور متن میں کسی قسم کا شک وشبهه نهیں هے- لیکن" حدیث کساء" کے عنوان سے ایک حدیث پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی بیٹی حضرت فاطمه زهراء سلام الله علیها سے نقل کی گئی هے اور یه حدیث بعض کتابوں میں درج کی گئی هے-مثال کے طور پر محدث قمی کی "مفاتیح الجنان" کے آخر پر یه حدیث درج کی گئی هے[17]- لیکن اس حدیث کا مفاتیح الجنان میں درج هونا شیعه علماء، حتی که مرحوم محدث قمی کے نزدیک اس حدیث کے صحیح هو نے کی دلیل نهیں هے-
اس لئے کها جاسکتا هے که جو کچھـ "حدیث کساء" کے نام سے حضرت فاطمه زهراء سلام الله علیها سے نقل کیا گیا هے، قابل اعتماد نهیں هے اور اس کی سند معتبر نهیں هے ، کیونکه:
١)جیسا که محدث قمی نے فر مایا هے که شاید سب سے پهلے جس شخص نے اس حدیث کو سند کے بغیرنقل کیا هے، وه شیخ طریحی هیں جنھوں نے اپنی کتاب"المنتخب" میں اسےدرج کیا هے [18]– شیخ طریحی گیارهویں صدی هجری کے علماء میں سے هیں اور ایک هزار سال تک اس حدیث کا کهیں ذکر تک نهیں تھا- چنانچه مرحوم محدث قمی نے اس مطلب کے بارے میں وضاحت فر مائی هے –اور وه اس سلسله میں فر ماتے هیں : جو حدیث همارے زمانے میں اس صورت میں مشهور هوئی هے، وه احادیث کی کسی معتبر کتاب یا احادیث کے اصول اور محدثین قابل وثوق مجموعوں میں دیکھی نهیں گئی هے –اور اسے هم کتاب "المنتخب" سے مخصوص جان سکتے هیں-[19]
٢)باوجود اس کے که حدیث کساء "المنتخب" میں سند کے بغیر درج کی گئی هے ،لیکن کتاب "عوالم العلوم" کے حاشیه میں جو روایت نقل کی گئیً هے،وه سند کے ساتھـ ذکر هوئی هے،"[20] رایت بخط الشیخ الجلیل السید هاشم ، عن شیخه السید ماجد البحرانی ،عن ... عن علی بن ابراهیم بن هاشم ،عن احمد بن محمدبن ابی نصر البز نطی ،عن قاسم بن یحیی الجلاالکوفی،عن جابر بن عبدالله الانصاری ، عن فاطمه الزهراء (ع)،بنت رسول الله (ص)، قال :سمعت فاطمه، انها قالت: دخل علی ابی رسول الله (ص)،فقال: السلام علیک یا فاطمه ..."
لیکن اس فرض پر بهی شیخ عبدالله بن نور الله بحرانی نے اس سند کو عوالم کے حاشیه میں لکها هوگا ، اس چیز کو کس معیار کی بنیاد مان لیا گیا هے که جوکچھـ دیکها گیا ، وه سید هاشم بحرانی کے ھاتھه کا نوشته ھے؟
ثانیاً ،سند (بعض راویوں ،جیسے قاسم بن یحیی و...کے لحاظ سے) مشکل اور ناقابل اعتبار هے-
ثالثاً ،باوجود اس کے که سید هاشم بحرانی نے "تفسیر البرهان" اور" غایه المرام" نامی اپنی دو کتابوں میں احادیث کو جمع کر نے کے سلسله میں (نه که صحیح کر نے میں )خاص اهتمام کیا هے ،اس حدیث کی دلیل کو وهاں پر کیوں ذکر نهیں کیا هے؟
رابعاً ،بڑے محدثین ، جیسے کلینی، شیخ طوسی ، شیخ مفید وغیره جواحادیث کی اسناد بیان کرتے هیں ،میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کتاب میں اس حدیث کا ذکر نهیں کیا هے!
٣-اهل سنت اور شیعوں کی احادیث کی کتابیں ،جو اهل بیت کی روایات سے منسوب هیں ،جیسے بحار الانوار وغیره میں بھی اس حدیث کا ذکر نهیں کیا گیا هے –
٤-ایک طرف سے کتاب منتهی الآمال میں محدث قمی کے اس حدیث کے بارے میں نظریه کے پیش نظر اور دوسری طرف سے مفاتیح الجنان کے ملحقات کے مقدمات میں بعض زیارتوں اور دعاٶں کے اضافه هونے کے بارے میں فکر مند هونے اور دوسری طرف سے عوام میں اس کتاب کی اهمیت کے پیش نظر اور قبلاً بیان شده اشکالات کو ضمیمه کر نے سے شاید کها جاسکتا هے که "حدیث کساء" کو کتاب عوالم کی سند سے مرحوم محدث قمی کی رحلت کے بعد اس میں اضافه کیاگیا هےیا...[21]
نتیجه کے طورپرجس حدیث کو بعض کتابوں میں حضرت فاطمه زهراء (ع) سے نسبت دی گئ هے، معتبر نهیں هوسکتی هے ،خاص کر جبکه حدیث کا متن دوسری تمام حدیثوں کے متن سے فرق رکهتا هے-
لیکن حدیث کے متن اور تعبیروں کے عجیب هونے کے بارے میں کها جاسکتا هے که، اس حدیث میں اهل بیت علیهم السلام کے مقام ومنزلت کے بارے میں ذکر کئے گئے بعض نکات سے صرف نظر کرتے هوئے وثوق کے ساتھـ کها جاسکتا هے که ، یه مطالب (اهل سنت وشیعه) کی دوسری تمام روایات ، بلکه قرآن مجید میں بھی پائے جاتے هیں-
اهل بیت اطهار علیهم السلام کے نورانی اور بلند مقامات، ایسے مقامات میں سے هیں که جن کے بارے میں اگاهی حاصل کر نے کے لئے احادیث کی جامع کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے- [22]یهاں پر هم " حدیث معرفتی با لنورانیه" نامی امیرالمٶمنیں حضرت علی علیه السلام کی ایک حدیث کے ایک حصه کو بیان کر نے پر اکتفا کرتے هیں :
" ابوذر غفاری نے سلمان فارسی (رضوان الله علیهما) سے پوچھا: اے ابا اعبدالله(سلمان فارسی کی کنیت) نورانیت کے بارے میں امیرالمٶمنین (ع) کی معرفت کیا هے؟ (سلمان فارسی نے جواب میں ) کها : اے جندب (ابوذر کا نام )آئیے چلتے هیں اور خود حضرت(ع) سے اس کے بارے میں پوچھتے هیں-پهر هم حضرت(ع) کے گهر چلے گئے، اور آپ(ع) وهاں پر تشریف نهیں رکھتے تھے – (ابوذرنے) کها:پهر هم نے انتظار کیا، یهاں تک که حضرت(ع) تشریف لائے- حضرت(ع) نے فر مایا : آپ کو کون چیز یهاں لے آئی هے ؟
ابوذر وسلمان نے کها : یا امیرالمٶمنین !هم آپ کی خدمت میں آگئے هیں تاکه نورانیت سے متعلق آپ کی معرفت کےً بارے میں سوال کریں – حضرت (ع) نے فر مایا: آفرین هو اپنے دین کے بارے میں آپ دو وفادار دوستوں پر که اس سلسله میں کوتاهی نهیں کرتے هیں... نورانیت کے بارے میں میری معرفت وهی خداوند متعال کی معرفت هے اور وه خالص دین هے که...جس شخص نے میری ولایت کو قبول کیا ، اس نے نماز بجالائی هے ... مجھے خدا کے برابر قرار نه دیجئے اس کے علاوه جوچاهتے هوں میری فضیلت میں کهدیجئے- مجھـ میں پائی جانے والی حقیقت تک آپ نهیں پهنچ سکتے هیں...میں آخری وصی هوں میں " صراط مستقیم" هوں میں "نباء عظیم "وں..." [23]
[1] - اس کتاب کے مٶلف شیخ مخر الدین محمد بن علی بن احمد ، معروف به" شیخ طریحی" هیں –وه نجف اشرف میں پیدا هوئے هیں اور ١٠٨٥ھ میں وفات پائی هے-
[2] - یه کتاب جس کانام "عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار" هے، دسویں صدی هجری کے علما، میں سے محدث عالیقدر شیخ عبدا لله بن نورالله بحرانی نے تا لیف کی هے-
[3] - کتاب " منتهی الآمال ،دراحوال نبی والآل" کے مٶلف شیخ عباس قمی هیں جنهوں نے ١٣٥٩ میں وفات پائی هے-وه عالم تشیع کے ایک عظیم محدث هیں -
[4] - شیخ عباس قمی کی مفاتیح الجنان کے آخری حصه میں حدیث کساء هے جو جابر بن عبدالله انصاری سے نقل کی گئی هے-
[5] - بس الله کا اراده یه هے اے اهلبیت که تم سے هر برائی کو دور رکهے اور اس طرح پاک و پاکیزه رکهے جو پاک و اکیزه رکھنے کا حق هے -
[6] - ملاحظه هو: علامه مجلسی ، بحار الانوار ،ج٢٢،ص٢٤٥و ٢٤٦وص٤٩٤و٤٩٥،ح٤٠-
[7] - ملاحظه هو: تفاسیر ذیل آیه ی ٣٣احزاب، المیزان،ج٦،ص٣٠٩-٣٢٠،آیه التطهیر فی احادیث الفریقین ، محمد علی موحد ابطحی ، تفسیر البرهان ، ج٣، ص ٣٠٩-٣٢٩،احقاق الحقں،ج٢،ص٥٠٢-٥٧٣،ج٣ ،ص٥١٣-٥٣١و...فضائل الخماسه من الصحاح السته،ج١،ص٢٢٤-٢٤٣،بحار الانوار،ج٢٢،ص٢٤٥-٢٤٦وج٣٥،ص٢٠٦-٢٣٧،تاویل الآیات الظاهره،ج٢،ص٤٥٧-٤٥٩،غایه امرام،سید هاشم بحرانی-اثبات الهداه، محمد بن حسن حر عاملی،الامام صادق والمذاهب الاربعھ ،اسد حیدر ،شواهد التنزیل ،ج٢،ص٥-١٤٠، سنن ترمذی ، ینابیع الموده ، سلیمان بن ابراهیم قندوزی، درالمنثورسیوطی و...، مسند احمد،ج٦،ص٢٩٨،عبقات الانوار ، میر حامد حسین، فصول المهمه فی معرفه احوال الائمه ، علی بن محمدبن احمد الما لکی ،بررسی مسائل کلی امامت ،ابراهیم امینی ،ص١٧٤-١٩٦، اهل بیت درآیه تطهیر ، سید جعفر مرتضی عاملی، اهل بیت فی الکتاب والسنه ، محمدی ری شهری ،ص٣٥-٧١-
[8] - سید علی محمد ابطحی ،آیه التطهیر فی احادیث الفریقین(آیه ی تطهیر در احادیث شیعه وسنی)
[9] - طباطبا ئی ، محمد حسین، تفسیر المیزان،ج١٦-،ص٣١١-
[10] - اهل بیت آیه تطهیر ،ص٢٧-
[11] -ایضاً، بحار الانوار ،ج٣٥- ص٢٣٦، امینی ، ابراهیم،بررسی مسایل کلی امامت ،ص١٧٨-١٨٠،بحرانی ، سید هاشم ، غایه المرام، میر حامدحسین ، عبقات الانوار ، سیوطی ، جلال الدین ، دار المنثور، ترمذی ، محمد بن عیسی سوره، سنن تر مذی، طبری، احمد بن عبدالله، ذخائر العقبی ،هیثمی ،احمد بن حجر،الصواعق المحرقه و...-
[12] - جوادی آملی ،عبدالله،تجلی ولایت درآیه تطهیر،ص٩٢-
[13] -ملاحظه هو: محمد ری شهری ،اهل البیت فی الکتاب والسنه ،ص٣٩،جوادی آملی،عبدالله،تجلی ولایت در آیه تطهیر،ص٩١-٩٢-
[14] - ملاحظه هو: بررسی مسایل کلی امامتءص١٧٩- ١٨٠-
[15] - امینی ابراهیم ، بررسی مسایل کلی امامت ،صص ١٧١-١٧٩،جوادی آملی، عبدالله،تجلی ولایت در آیه تطهیر،ص٩١،شریف مرتضی ،ابوالقاسم علی بن الحسین الموسوی، الفصول المختاره من العیون والمحاسن،ص٥٣-٥٤و...-
[16] - ینابیع الموده ،ص١٢٥،جامع الاصول،ج١٠،ص١٠١،ذخائر العقبه،ص٢١،دار المنثور،ج٥،ص١٩٨،شواهد التنزیل،ج٢،ص٦٥- ١٤٠، بحار الانوار،ج٥،ص٢٢٢،،مجمع البیان،ج٨،ص٣٥٧،مسند احمد،ج٦،ص٢٩٢ و٤٠٩٤-
[17] - مفاتیح الجنان،بخش آخر حدیث کساء-
[18] - منتهی الآمال ، ج١،ص٥٢٧به نقل از" اهل البیت فی الکتاب والسنه"،ص٣٩و٤٠-
[19] - ایضاً ،منتهی الآمال ،ج١،ص ٥٢٧ به نقل از "اهل بیت فی الکتا ب والسنه"،ص٣٩ و٤٠-
[20] - عوالم العلوم ،ج٢،ص ٩٣٠( نقل از اهل بیت فی الکتاب والسنه ،ص٤١،،تجلی ولایت در آیه تطهیر،ص٩٢)
[21] - ملاحظه هو: اهل البیت فی الکتاب والسنه،ص٤٢- ٣٤
[22] - شواهد التنزیل،حاکم حسکانی، ،ج١و٢،ینابیع الموده،قندوزی حنفی،،الغدیر،ج٦،ص٧٩-٨١،اصول کافی،ج١، کتاب الحجه ،بحار الانوار، ج٣٥-٢٦،به ویزه جلد٢٦ وج٤٠،اصبات الهداه، حر عاملًی ، غایه المرام ، سید هاشم بحرانی ،زیارت جامع وشروح آن، تحف العقول ، مرآه العقول، امالیصدوق، تاویل الآیات الظاهره ، علی حسینی استر آبادی ،عبقات الانوار، میر حامد حسین هندی...-
[23] - بحار الانوار،ج٢٦،ص١،این حدیث نورانی ، نیاز مند مطالعه وتعمق وشرح می باشد-