Please Wait
8008
اگر چه امام زمان(عجل اللی تعالی فر جه الشریف) کے بیوی بچے هو نا ممکن هیں اور حضرت علیه السلام کی غیبت کا یه لازمه نهیں هے که ازدواج کی سنت الهی کو ترک کر نا چاهئے ،لیکن اس سلسله میں روایات میں کوئی اطمینان بخش دلیل نهیں ملتی هے –شاید یه کها جاسکتا هے: که جس طرح تقدیر الهی کا تقاضا یه هے که حضرت مهدی موعود(عجل الله تعالی فر جه الشریف) کا وجود نازنین پرده غیبت میں رهے ،ان سے متعلق یه مسئله بھی بعض مصلحتوں کی بناپر پرده ابهام میں رهے-
حضرت مهدی (عجل الله تعالی فر جه الشریف) کی زندگی ،ان مسائل سے مر بوط هے که،جن کے بارے میں آسانی کے ساتھـ علم ویقین حاصل نهیں کیا جاسکتا هے، لیکن روایات کی تحقیق پڑتال کر کے احتمال کو حقیقت کے قریب لایا جاسکتا هے –اس موضوع کے بارے میں که کیا امام زمان (عجل الله تعالی فرجه الشریف) کے بیوی بچے هیں؟ تین احتمال پائے جاتے هیں:
الف: امام (عجل الله تعالی فرجه الشریف) نے بنیادی طور پر شادی نهیں کی هے-
ب: آپ (عج) نے شادی کی هے لیکن صاحب فرزند نهیں هیں -
ج: آپ(عج) نے شادی کی هے اور صاحب اولاد بھی هیں-
پهلے احتمال کو قبول کر نے کا لازمه یه هے که حضرت مهدی موعود(عج) نے ایک سنت الهی کو ترک کیا هے اور اس قسم کا امر بعید لگتا هے-
البته کها گیا هے که امام زمان (عج) کی غیبت کا مسئله آپ (ع) کی شادی کی به نسبت زیاده اهمیت رکھتا هے –اس میں کوئی حرج نهیں هے که ایک اهم تر عمل کے لئے ایک اهم امر کو ترک کیا جائے، لیکن یه بات قابل قبول نهیں هے که، چونکه غیبت وازدواج کے در میان کسی قسم کی مزاحمت نهیں هے اس لئے یه دونوں جمع ھوسکتے هیں- لیکن دوسرے احتمال میں اگر چه پهلے احتمال کی مشکل موجود نهیں هے ،لیکن اس سوال کا جواب نهیں ملتا هے که کیا حضرت (ع) کی بیوی کی عمر بھی طولانی هے ؟ یا حضرت (عج) هر زمانه میں متعدد بیویاں منتخب فر ماتے هیں؟ اس سلسله میں کوئی دلیل موجود نهیں هے جو همارے لئے اس موضوع کو واضح کر تی ھو – لیکن یه کها جاسکتا هے که متعدد بیویوں سے شادی کرنا بعید نهیں هے امام علیه السلام کی غیبت کا یه تقاضا نهیں هے که آپ(ع) کی صرف ایک بیوی هونی چاهئے،تاکه وه آپ(ع) کی طرح طولانی عمر کی مالک هوں – بعض روایتوں سے معلوم هو تا هے که آپ(عج) کی غیبت ،ایک عنوانی غیبت هے نه که ذاتی-[1] اس لئے لوگوں کے ساتھـ سماجی تعلقات رکھـ سکتے هیں اور ان کے ساتھـ زندگی بسر کر سکتے هیں، لیکن کسی کو معلوم نه هو پائے که وه امام زمان (عجل اللی تعالی فر جه الشریف) هیں-
یه سوال تیسرے احتمال میںبھی پیش آتا هے- اس کے باوجود که بعض لوگوں نے اس احتمال کو بعید جانا هے ،کیونکه اگر امام زمان (عجل الله تعالی فرجه الشریف) کے کچھـ فر زند هو تے تو آخر کار وه ایک دن اپنی اصلیت کے بارے میں تلاش وکوشش کرین گے اور یه غیبت کے فلسفه کے ساز گار نهیں هے- روایتوں میں بھی کوئی ایسی با اعتبار دلیل نهیں پائی جاتی هے جو ان تین احتمالات میں سے کسی ایک کی تائید کرتی ھو –
شیخ طوسی (رح) نے امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت کی هے که: " لا یطلع علی موضعه احد من ولده ولا غیره" [2]لیکن اسی بات کونعمانی نے دوسری صورت میں نقل کیا هے : "لا یطلع علی موضعه احد من ولی وغیره"[3]
اس لئے، اس اختلاف کے پیش نظر ، شیخ کی نقل اطمینان بخش نهیں هے ، بلکه بعض جهات سے جیسے سند کے عالی اور لفظ حدیث کے بهتر هو نے کے ناطے ، نعمانی کی روایت معتبر تر لگتی هے – مثال کے طور پر ایک طرف سے شیخ طوسی (رح) کی حدیث میں ، جمع کے بجائے مفرد ضمیر استعمال هوئی هے ( ان کے فرزند اور دوسرے کے بجائے ان کے فرزند اور دوسرا آیا هے )مگر هم مندرجه ذیل تین احتمالات میں سے کسی ایک کو یوں قبول کریں که:
الف: "ولده" میں ضمیر"" کا استعمال نسخوں میں غلطی هو-
ب: روایت نے یه بیان کر نا چاهاهو که امام (ع) کا صرف ایک فرزند هے-
ج: لفظ "ولد" سے مراد اسم جنس هو-
لهذا بعض لو گوں نے کها هے که شیخ طوسی (رح) کی روایت بیان کے مقام پر ایک پوشیده مبالغه هے، نه یه که حضرت ولی عصر(عجل الله فرجه الشریف) کا کوئی فرزند هے، بلکه اس نکته کو بیان کر نا چاهتے هیں که فرضاً اگر حضرت (ع) کا کوئی فرزند بھی هوتا، تو آپ(عج) کی جگه اور اسرار کے بارے میں آپ (ع) کے فرزند بھی آگاه نهیں تھے-[4] دوسری جانب اگر هم اس سلسله میں موجود کتابوں میں سند کی مشکل کو نظر انداز کریں ،تو ان میں کوئی وضاحت دکھائی نهیں دیتی هے اور عصر ظهور میں قابل حمل هے- مثال کے طور پر ابن طاٶس امام رضا علیه السلام سے نقل کر تے هیں: " اللھم اعطه فی نفسه واهله وولده وذر یته-[5]" امام جعفر صادق علیه السلام سے بھی روایت کی گئی هے که :" کان اری نزول القائم فی مسجد السهله باهله و عیا له-" [6]
بعض لوگوں نے جزیره خضرا سے تمسک کر کے کها هے که امام زمان (عجل الله تعالی فرجه الشریف) کے کئی فرزند هیں ، جو مذکوره جزیره پر امام علیه السلام کی دیکھه ریکھه میں تحت نظر حکومت چلاتے هیں وغیره ، لیکن قابل ذکر بات هے که یه داستان ایک افسانه کے علاوه کچھـ نهیں هے [7]- اور یه داستان حقیقت کی نسبت تخیلی وافسانوی داستان سے زیاده مشابهت رکھتی هے-
علامه مجلسی (رح) اس سلسله میں فر ماتے هیں : " چونکه میں نے اس داستان کو قابل اعتبار کتابوں میں نهیں پایا هے ، اس لئے اسے ایک الگ باب میں ذکر کیا هے [8]– شیخ آقا بزرگ تهرانی نے اسے ایک افسانه شمار کیا هے[9]-
نتیجه : یه که اگرچه امام زمان (عج) کے بیوی بچے هو نے کا احتمال هے، لیکن اس سلسله میں کوئی قابل اعتبار دلیل نهیں پائی جاتی هے، جس سے استناد کیا جائے[10]- دوسری جانب سے امام زمان (عجل الله تعالی فرجه الشریف) کے ازدواج کے سنت الهی کو ترک کر نے کے سلسه میں بھی کوئی مستحکم دلیل نهیں پائی جاتی هے-
[1] - مثلاً امام جعفر صادق علیه السلام فر ماتے هیں : "صاحب الزمان (عجل الله تعالی فرجی الشریف) لو گوں کے در میان رفت وآمد کر تے هیں ،بازار میں چهل قدمی کرتے هیں اور کبھی دوستوں کے گهروں میں فرش پر تشریف رکھتے هیں ، لیکن لوگ انهیں نهیں پهچانتے هیں" کتب الغیبه ،نعمان ص ١٦٤-
[2] - شیخ طوسی، کتاب غیبت ،ص١٠٢-
[3] - نعمانی، غیبت،ص١٧٢، به نقل از ، امامت ومهدویت دس سوالات کا جواب ، زندگانی شخصی حضرت مهدی (عج) ،ص٥٤،الاخبار الدخیله ،ج١،ص١٥٠،تاریخ الغیبه الکبری ،ص٦٩، به نقل "جزیره خضرا تنقید کی ترازو پر "،ص ٢١٨،سید جعفر مرتضی عاملی-
[4] - محمد، صدر،تاریخ الغیبه الکبری ،ج٢،ص٦٥، مکتبه الامام امیرالمٶ منین(ع) العامه، اصفهان-
[5] - ابن طاووش ، جمال الا سبوع ،ص٥١٠به نقل از "جزیره خصرا تنقید کی ترازوپر " ص ٢١٩-
[6] - بحار الانوار ،ج٥٢،ص٣١٧-
[7] - مزید تفصیلات کے لئے ملاحظه هودراسه فی علامات الظهور و الجزیره الخضرا ، سید جعفر مرتضی عاملی، ص٢٦٣ ویا ترجمه ی این کتاب ،ص٢٢٥- ٢١٧-
[8] - بحار الانوار ،ج٥٢،ص٣١٧-
[9] - الذریه الی تصانیف الشیعه ،ج٥،ص١٠٨ ،دار الاضوا ،طبع بیروت ، طبقات اعلام الشیعه ، قرن هشتم ،١١٤٥-
[10] - مسعودی اثبات الوصیه ،ص ٢٠١ میں حضرت امام رضا علیه السلام سے ایک روایت نقل کرتے هیں که روایت هے که کوئی امام دنیا سے رحلت نهیں کرتا هے جب تک نه اپنے فرزند کو دیکھـ لے ،یه روایت حضرت قائم (عجل الله تعالی فرجه الشریف) سے مر بوط نهیں هے- ملا حظه هو : امامت و مهدویت ، صافی گلپایگانی ، پاسخ به ده پرسش ،ص٥٦- ٥٣، چشم به راه مهدی ، جمعی از نویسند گان مجله حوزه، ص٣٥٦- ٣٥١، جزیره خضرا در ترازو ی نقد ،ص٢٢١- ٢١٧-