Please Wait
19185
«ولایت» کا معنی هے ایک چیز کا بغیر کسی فاصلے کے دوسری چیز کے پیچھے آنا. اگر دو چیزیں اس ترتیب سے هوں گی تو اس کا لازمه یهی هے که ایک دوسرے میں قربت اور نزدیکی رهے گی.
لهذا لفظ ولایت حب اور دوستی، نصرت اور مدد، متابعت اور پیروی اور اسی طرح سرپرستی اور رهبری کے معنی میں استعال هوا هے.
«ولایت تکوینی» یعنی که اس دنیا کے موجودات اور اس عالم کی سرپرستی کرنا اور ان میں تصرف عینی کرنا جو اصل میں بالذات الله تعالی کے لئے مختص هے لیکن ثانیاً اور بالعرض پیغمبروں اور ائمه معصومین (علیھم السلام) اور انسان کامل کی طرف منسوب کیا جاتا هے.
«ولایت» عربی زبان کا لفظ هے جو لفظ «ولی» سے لیا گیا هے. عربی زبان میں اس کا معنی هے ایک چیز کا دوسری چیز کے پیچھے پیچھے آنا ایسے که ان میں فاصله نه هو. اس ترتیب کا معنی یهی هے که وه دو چیزیں آپس میں بهت قرابت رکھتی هیں اور ایک دوسرے کے نزدیک هیں. اسی وجه سے اس لفظ کو مختلف صورتوں میں (یعنی واو کو فتحه یا کسره دے کر پڑھنے سے) محبت اور دوستی، نصرت اور مدد، متابعت اور پیروی اور اسی طرح سرپرستی اور رهبری کے معنی میں استعمال کیا گیا هے، البته مذکوره معانی میں سے جو ولایت تکوینی کے ساتھ جوڑ کھاتا هے وه آخری معنی یعنی سرپرستی اور رهبری هے.
«ولایت تکوینی»؛ یعنی اس دنیا کے موجودات اور اس عالم کی سرپرستی کرنا اور ان میں تصرف عینی کرنا جو اصل میں بالذات الله تعالی کے لئے مختص هے لیکن ثانیاً اور بالعرض پیغمبروں اور ائمه معصومین (علیھم السلام) اور انسان کامل کی طرف منسوب کیا جاتا هے. البته یه قاعده اور اصل ایک منظم برنامه کے طور پر مختلف قرآنی موضوعات جیسا که عزت، قوت اور شفاعت کے بارے میں بھی بالکل اسی طرح سے هے. (یعنی یه موضوعات بھی اصل میں الله تعالی کے لئے مختص هیں لیکن ثانیاً اور بالعرض غیر خدا سے منسوب کئے جاتے هیں).
ولایت کے بارے میں دیکھتے هیں که ایک جگه پر ارشاد هوتا هے: «فالله ھو الولی»[1]، الله هی انسان اور اس دنیا کا حقیقی ولی هے. لیکن دوسری جگهوں پر یوں ارشاد هوا هے: «النبی اولی بالمٶمنین من انفسھم و اموالھم»[2]؛ مٶمنوں کی جان اور مال پر حضرت پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم کی ولایت، خود ان کی ولایت سے زیاده اولویت رکھتی هے. یا یوں ارشاد هوا هے: «انما ولیکم الله و رسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة و یٶتون الزکوة و ھم راکعون»[3] اس آیت میں ولایت کو الله، رسول اور اهل بیت علیھم السلام کے لئے اثبات کیا گیا هے.
ان آیات کا مطلب یه هرگز نهیں که انسان کے متعدد ولی اور سرپرست هیں جن میں سب سے عالی اور برتر ولی، الله تعالی هے، بلکه پهلی آیت کو مد نظر رکھتے هوئے یعنی «فالله ھو الولی» جس میں ولایت کو صرف اور صرف الله تعالی کے لئے هی مختص کیا گیا هے، اس کا معنی یه هے که اصلی اور حقیقی ولی بالذات صرف الله هی هے. اور پیغمبر اکرم (ص) اور اهل بیت عصمت و طهارت (سلام الله علیھم) بالعرض «ولی» اور الله تعالی کی ولایت کے مظهر هیں، اور قرآن کریم کی زبان میں وه ولایت الهی کی آیت اور نشانیاں هیں.[4]
سوال کا دوسرا حصه یه تھا که ائمه معصومین کے بارے میں ولایت تکوینی کا کیا معنی هے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پهلے دو نکتوں کی طرف دھیان دینا ضروری هے:
۱. اس پوری دنیا کے موجودات میں سے، انسان کو خاص مقام اور موقعیت حاصل هے جس سے مقرب فرشتے بھی محروم هیں. انسان میں ایسی بالقوه استعدادیں اور طاقتیں پوشیده رکھی گئی هیں جن کو کشف کر کے ان کی پرورش کرنے سے وه خلیفة الله اور اشرف المخلوقات بن سکتا هے.
۲. الله تعالی نے تمام انسانوں کے لئے اپنی ولایت تک پهونچنے کا راسته کھول رکھا هے جهاں فرمایا هے که «الا ان اولیاء الله لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون». اور اس راسته کو سب کے لئے بیان بھی فرمایا هے.
مذکوره دو نکتوں کو مد نظر رکھتے هوئے نتیجه نکالا جا سکتا هے که ائمه معصومین (علیھم السلام) نے اپنے اندر موجود ان قابلیتوں اور استعدادوں کی پرورش اور اعلی معرفت کو حاصل کرنے اور اعلی ایمان و یقین کے درجوں پر پهونچنے کے بعد «ولایت الهی» کی منزل کو پایا هے، جس کا مبارک نتیجه یه هوا هے که الله تعالی نے اپنی ولایت تکوینیه میں سے ان ذوات مقدسه کو افاضه فرمایا هے. معصومین علیھم السلام کی زندگی کا مطالعه کرنے سے بهت واضح طور پر معلوم هوتا هے که الله تعالی کی عبودیت اور بندگی اور مبداء کائنات سے مسلسل رابطه آپ کی زندگی کا اصلی مقصد رها هے. الله تعالی کی بندگی کے اکسیر کے ساتھ آپ حضرات کیمیاگری کیا کرتے تھے اور نظام وجود کو حیات کی روح عنایت فرمایا کرتے هیں اسی لیا آیا هے که «بکم یمسک السماء ن تقع علی الارض»[5]؛ آپ هی کی وجه سے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا گیا هے.
امام حسن مجتبی (علیه السلام) سے روایت کی گئی هے که: «من عبدالله عبّد الله له کل شئی»[6]. جو بھی الله تعالی کا بنده بن جائے گا، الله تعالی بھی هر چیز کو اس کا عبد اور غلام بنا دے گا.
ایک حدیث قدسی میں یوں ملتا هے: «عبدی اطعنی حتی اجعلک مثلی»[7]؛ اے میرے بندے! میری اطاعت کر، تا که تجھ کو اپنے جیسا بنا دوں.
«ابن آدم انا غنی لا افتقر اطعنی فیما امرتک اجعلک غنیاً لا تفتقر، یا ابن آدم انا حی لا اموت اطعنی فیما امرتک اجعلک حیا لاتموت، یا ابن آدم ان اقول للشیء کن فیکون، اطعنی فیما امرتک اجعلک تقول لشیء کن فیکون»[8]؛ اے ابن آدم! میں غنی هوں اور کبھی فقیر نهیں هوں گا، توں بھی میری اطاعت کر، تا که تجھ کو ایسا بے نیاز بنا دوں که کبھی فقیر نه هو، اور میں زنده هوں اور کبھی نهیں مروں گا، توں بھی میرے فرامین کی اطاعت کر تا که تجھ کو بھی دائمی حیات بخش دوں، ایسا که کبھی بھی نه مرے، میں کسی چیز کو بھی حکم دیتا هوں که هو جا، تو وه فوراً وجود میں آ جاتی هے، توں بھی میری اطاعت کر تا که تجھ کو ایسا بنا دوں که کسی چیز کو بھی جب کهے هو جا تو وه فوراً بن جائے».
ان روایات کے علاوه، اصول کافی میں بهت هی معروف روایت موجود هے جس کو «قرب نوافل» کے نام سے جانا جاتا هے، ان سب سے معصومین (علیھم السلام) کا ولایت تکوینیه کے مقام پر فائز هونے کا راز هم پر عیاں هو جاتا هے. یهاں تک که: «بیمنه رزق الوریٰ و بوجوده تثبت الارض و السماء»[9]؛ ان هی بزرگ هستیوں کے وجود کے طفیل دوسرے موجودات کو رزق مل رها هے اور آسمان اور زمین اپنی جگه پر مستحکم کھڑے هیں».
نتیجه:
معصومین (علیھم السلام) نے الله تعالی کی ولایت تکوینی حاصل کر کے تمام موجودات اور خلقت کے نظام کو اپنے زیر فرمان کر لیا هے اور سب موجودات کو آپ کے اس مقام کا احساس هے. اس ناقابل انکار حقیقت کی تائید ان ان گنت خارق العادة کرامات اور معجزات سے هوتی هے جو آپ حضرات نے کر کے دکھائے هیں.
[1] . شوریٰ/9
[2] . احزاب/6
[3] . مائده / 55
[4] . ولایت فقیه، جوادی آملی، عبدالله، ص 122-123-129
[5] . زیارت جامعه
[6] . تفسیر عسکری، ج 1، ص 327
[7] . اسرارالصلاة، ج 1، ص 4 (مقدمه). شرح دعای صباح، خوئی، ج 1، ص 11، مقدمه مصحح
[8] . بحارالانوار، ج 90، ص 376، باب 24، علة الابطاء فی الاجابة...؛ ارشاد القلوب، ج 1، ص 75، الباب الثامن عشر، وصایا و حکم بلیغة...؛ عدةالداعی، ص 310، فصل ... ص 307
[9] . مفاتیح الجنان، ص 85، دعای عدیله....ص 84