Please Wait
12668
مصیبت پر صبر کر کے، اس کے نتائج پر توجہ کر کے، اور موت کے ہر ایک کے لیے واقع ہونے اور اس کے حق ہونے پر غور و فکر کر کے مصیبتوں کو اپنے لیے آسان بنایا جا سکتا ہے۔
میت کے لیے انجام دیے جانے والے اعمال میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
پہلی شب کو نماز وحشت پڑھنا، صدقہ دینا، دعا اور قرآن مجید پڑھنا، قابل بیان ہے کہ میت کی پہلی شب میں نماز شب پڑھنا مستحب ہے، نہ کہ ہر شب میں۔ اس کے بجائے بہتر ہے کہ میت کے لیے دوسرے مستحب اعمال انجام دئے جائیں۔
مصیبت زدہ انسان کی مصیبتوں کو آسان بنانے کے کچھ طریقے ہیں، ان میں سے اہم ترین طریقے حسب ذیل ہیں:
الف۔ مصیبت پر صبر کرنا:
صبر[1]، زندگی میں انسان کا بھروسا ہے۔ صبر کی قسموں میں سے ایک ، مصیبت پر صبر کرنا ہے[2]، اس کی قرآن مجید کی آیات اور احادیث کے مطابق قدر و منزلت اور ثواب ہے اور اس کے نتائج پر توجہ کرنا انسان کے لیے اپنے عزیز و اقارب کی موت سے پیدا ہوئے غم و آلام کو ہلکا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہاں پر ہم اس قسم کی چند آیات و روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ خداوندمتعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: " کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔[3]" " اور ہم یقیناً تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور {اے پیغمبر} ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیں ، جو مصیبت پڑنے کے بعد کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں، کہ ان کے لیے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔[4]"
۲۔ امام علی{ع} فرماتے ہیں: " سب سے بڑی دوراندیشی، مصیبتوں پر صبر کرنا ہے۔[5]"
"ایمان کے خزانوں میں سے ایک ،مصیبتوں پر صبر کرنا ہے۔[6]" " مصیبتوں پر صبر کرنا {انسان کو} کئی گنا شرافت و عظمت بخشتا ہے۔[7]"
ب۔ موت کو حقیقت سمجھنا اور اس پر فکر کرنا:
اس حقیقت کو سمجھنا چاہئیے اور اس پر غور و فکر کرنا چاہئیے کہ موت ہر ایک کے لیے ہےاور یہ ایک حقیقت ہے: " ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے، اس کے بعد تم سب ہماری بارگاہ میں پلٹا کر لائے جاو گے[8]" چونکہ تمام مخلوقات، خداوندمتعال کی تجلی ہیں اور اسی سے ہیں اور آخرکار اس کی طرف پلٹ کر جائیں گے: " ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں۔[9]"
انسان کے خدا پر ایمان کی نشانیوں میں سے ، قرآن مجید کا مذکورہ جملہ دہرانا ہے کہ یہ معاد کی یاد دلاتا ہے، دل کو تسکین و آرام بخشتا ہے، اور جس قدر اس کی تلقین کی جائے حقیقت کے قریب تر ہوگا، غم و اندوہ کو دور کر کے دل کو آرام و سکون بخشے گا۔
ج۔ مردوں کے لیے نیک اعمال بجا لانا:
احادیث میں مردوں کے لیے نیک اعمال بجا لانے کی فہمائش کی گئی ہے کہ ان میں بعض شرائط اور حالات کے مطابق واجب ہیں اور بعض مستحب۔ روایتوں میں ارشاد کیے گیے مستحب اعمال کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ صدقہ دینا: بنی صاعدہ کے ایک شخص کی ماں مر گئی تھی، اس نے رسول خدا{ص} کی خدمت میں عرض کی: میری عدم موجودگی میں میری ماں فوت ہو چکی ہے، اگر میں کوئی چیز صدقہ کے طور پر دیدوں تو کیا اسے کوئی فائدہ ملے گا؟ آنحضرت{ص} نے فرمایا: جی ہاں[10]۔
۲۔ قرآن مجید پڑھنا: پیغمبراکرم{ص} نے فرمایا ہے: " جو بھی قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ "قل ھو اللہ احد" {سورہ توحید } پڑھے اور اس کا ثواب مردوں کو بھیج دے ، تو مردوں کی تعداد میں اسے ثواب ملے گا۔[11]"
۳۔ نیک کام انجام دینا: امام صادق{ع} نے فرمایا ہے: " ۔ ۔ ۔ صدقہ، دعا اور نیکی مردوں کو پہنچتی ہے اور اس کا اجر یہ کام انجام دینے والے اور میت کو ملتا ہے[12]۔" اگر کوئی مسلمان مردوں کی نیابت میں کوئی نیک عمل انجام دے،خداوندمتعال تو اس کے اجر کو کئی گنا کرتا ہے اور اس سے مردوں کو بہرہ مند کرتا ہے۔[13]"
۴۔ نماز وحشت پڑھنا: شب اول قبر میں، میت کے لیے دو رکعت نماز وحشت {نماز ھدیہ میت شب دفن[14]} پڑھنا مستحب ہے اور اس کا طریقہ مراجع تقلید کی توضیع المسائل میں بیان کیا گیا ہے[15]۔ اس بنا پر نما زوحشت، شب اول قبر مستحب ہے ، نہ کہ ہر شب، اور دوسرے اوقات میں اپنی ماں کو ثواب بھیجنے کے لیے دوسرے مستحب اعمال بجا لا سکتے ہیں تاکہ آپ کی ماں کی روح کو آرام و سکون ملے۔
میت کے لیے واجب اعمال کے سلسلہ میں آپ مندرجہ ذیل عناوین کو ملاحظہ کر سکتے ہیں:
- «خمس اموال میت»، سؤال 3542 {سائٹ:3780}
- «قضای نماز و روزۀ پدر و مادر»، سؤال 13821{سائٹ: 1617}
[1]مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو «ازدیاد صبر»، سؤال 8418 (سایت: 9091).
[2]دیلمی، شیخ حسن، ارشاد القلوب الی الصواب، ج 1، ص 126، نشر شریف رضی، قم، طبع اول، 1412ھ.
[3]رعد، 24.
[4]بقره، 155 – 157.
[5]تميمى آمدى، عبدالواحد بن محمد،غررالحکمو درر الكلم، ص 283، ح 6299،انتشارات دفتر تبليغات اسلامى، قم، 1366 ھ ش.
[6]ایضاً، ص 282، ح 6298.
[7]ایضاً، ص 262، ح 6269.
[8]عنکبوت، 57:«كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنا تُرْجَعُون».
[9]بقره، 156:«إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ».
[10]ملاحويش آل غازى، عبدالقادر، بیان المعانی، ج 1، ص 203، مطبعة الترقى، دمشق، طبع اول، 1382ق؛ قرطبى، محمد بن احمد، الجامع لأحكام القرآن، انتشارات ناصر خسرو، تهران، طبع اول، 1364ھ ش.
[11]مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 10، ص 368، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ھ.
[12]عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعة، ج 8، ص 279، مؤسسه آل البیت (ع)، قم، 1409ھ.
[13]حلّی، ابن فهد، عدة الداعی، ص 146، دارالکتاب الاسلامی، قم، 1407ھ.
[14]عاملی (کفعمی)، ابراهیم بن علی، المصباح، ص 411، نشر دارالرضی، قم، طبع دوم، 1405ق؛ وسائل الشیعة، ج 8، ص 168.
[15]موسوی (امام خمینی)، سید روح الله، توضیح المسائل (محشی)، ج 1، ص 348، محقق/ مصحح: سيد محمد حسين بنى هاشمى خمينى، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع هشتم، 1424ھ.