Please Wait
کا
7316
7316
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2007/11/22
سوال کا خلاصہ
تازہ مسلمان ھوئے افراد ، جو علماء تک رسائی نہ رکھتے ھوں، کے لئے اعلم مرجع تقلید کو منتخب کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
سوال
مہربانی کرکے دو عادل گواھوں کی گواھی کے پیش نظر اعلم مرجع تقلید کو منتخب کرنے کے سلسلہ میں وضاحت فرمائیے؟ کیا اس کا مراد یہ ہے کہ گواھی دینے والے دو گواہ مجتہد ھونے چاہئیے؟
اگر کوئی فرد اسلام قبول کرہاھو اور فارسی زبان والےعلمائے اسلام تک رسائی نہ رکھتا ھو اور ذاتی طور پر کسی مجتہد کو نہیں پہچانتا ھو، وہ اعلم مرجع تقلید کو کیسے پہچان لے گا؟
اس کے علاوہ انگریزی زبان کے توضیح المسائل میں کیوں دو عادل گواہ کو ضروری قرار دے کر اس موضوع کو مشکل تر بنا یا گیا ہے ؟ انگریزی میں لفظ " عالم" ہر اس شخص پر اطلاق کرتا ہے جو کسی قسم کا علم رکھتاھو نہ صرف وہ لوگ جو اسلامی علوم میں مجتہد ھوں؟
ایک مختصر
تقلید کے معنی یہ ہیں کہ جو افراد فقہی مسائل میں مہارت نہیں رکھتے ہیں، وہ اپنے شرعی فرائض بجالانے میں ایک ایسے مجتہد کے فتوی پر عمل کریں جو علم فقہ میں مکمل مہارت رکھتا ھو اور دوسرے مجتہدوں سے زیادہ علم رکھتا ھو، یعنی اعلم ھو۔
اعلم مجتہد کو مندرجہ ذیل تین طریقوں میں سے ایک کے ذریعہ پہچانا جاسکتا ہے:
اولا: خود انسان یقین پیدا کرے۔
ثانیا: دو عالم، عادل اور اہل تشخیص افراد کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔
ثالثا: چند اہل علم افراد کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔
خوش قسمتی سے حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ کی ایک جماعت نے ضروری صلاحیت رکھنے والے چند افراد کو مرجع تقلید کے عنوان سے متعارف کرایا ہے، کہ ہر مسلمان ان میں سے کسی ایک کو اپنے مرجع تقلید کے عنوان سے منتخب کرسکتا ہے اور اپنے اعمال کو اس کی توضیح المسائل کے مطابق بجا لا سکتا ہے اور اس صورت میں اس نے مطمئن طورپر اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا ہے۔ اس طرح تازہ مسلمان ھوئے افراد ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مختلف زبانوں میں معلومات حاصل کرکے آسانی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔
اعلم مجتہد کو مندرجہ ذیل تین طریقوں میں سے ایک کے ذریعہ پہچانا جاسکتا ہے:
اولا: خود انسان یقین پیدا کرے۔
ثانیا: دو عالم، عادل اور اہل تشخیص افراد کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔
ثالثا: چند اہل علم افراد کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔
خوش قسمتی سے حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ کی ایک جماعت نے ضروری صلاحیت رکھنے والے چند افراد کو مرجع تقلید کے عنوان سے متعارف کرایا ہے، کہ ہر مسلمان ان میں سے کسی ایک کو اپنے مرجع تقلید کے عنوان سے منتخب کرسکتا ہے اور اپنے اعمال کو اس کی توضیح المسائل کے مطابق بجا لا سکتا ہے اور اس صورت میں اس نے مطمئن طورپر اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا ہے۔ اس طرح تازہ مسلمان ھوئے افراد ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مختلف زبانوں میں معلومات حاصل کرکے آسانی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔
تفصیلی جوابات
مہارت نہ رکھنے والے کسی فرد کا کسی ماہر کی طرف رجوع کرنا ایک عقلائی کام ہے اور پورا انسان معاشرہ اس کی تائید کرتا ہے۔ کیونکہ ایک شخص ہر شعبے میں ماہر نہیں بن سکتا ہے۔ اس بناء پر انسان جس شعبے میں مہارت نہیں رکھتا ہے، اس میں دوسرے ماہر کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اعلم کی تقلید کے فقہی اصطلاح میں یہ معنی ہیں کہ جو افراد فقہی مسائل میں مہارت نہیں رکھتے ہیں وہ ایک ایسے مجتہد کی طرف رجوع کریں، جو علم فقہ میں مکمل مہارت رکھتا ھو اور اس کا علم دوسرے تمام مجتہدوں سے زیادہ ھو یعنی اعلم ھو۔ اس طرح وہ اپنے شرعی فرائض کو اس اعلم کے فتوی کے مباطق انجام دے سکتے ہیں ۔
اعلم (سب سے بڑے عالم) کی پہچان کے لئے تین طریقے معین کئے گئے ہیں، تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ ان میں سے ایک طریقہ کے ذریعہ اپنے قابل اعتماد مرجع تقلید کو منتخب کرکے اس کے فتوے پر عمل کرسکیں۔
اولا: یہ کہ انسان خود یقین پیدا کرے، یعنی وہ خود اہل علم ھو اور مجتہد و اعلم کو خود پہچان سکے۔
ثانیا: یہ کہ دو عادل افراد جو مجتہد و اعلم کو تشخیص دینے کی صلاحیت رکھتے ھوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔ اس شرط پر کہ ایسے ہی دوسرے دو عادل افراد ان کے بیان سے اختلاف نہ رکھتے ھوں۔
ثالثا: یہ کہ چند اہل علم افراد، جو مجتہد یا اعلم کی تشخیص دے سکتے ھوں، اور ان کے کہنے پر اطمینان پیدا ھو جائے، کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔ [1]
آج کے زمانہ میں جبکہ ٹیکنالوجی نے زبردست ترقی کی ہے، دنیا کے کسی بھی کونے سے لوگ حوزہ علمیہ اور علماء سے رابطہ بر قرار کرکے تقلید کے مسئلہ میں آگاہی حاصل کرسکتے ہیں اور اس رابطہ کے ذریعہ اپنے مرجع تقلید کو منتخب کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر بات ہے کہ خوش قسمتی سے آج کل کے زمانہ میں حوزہ علمیہ قم کے کئی اساتذہ اور مجتہدین نے، ضروری صلاحیت رکھنے والے چند افراد کو مرجع تقلید کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ یہ افراد الف با کی ترتیب سے حسب ذیل ہیں:
۱۔ آیت اللہ العظمی سید کاظم حائری[مدظلہ العالی]
۲۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای[مدظلہ العالی]
۳۔ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی[مدظلہ العالی]
۴۔ آیت اللہ العظمی سید موسی شبیری زنجانی[مدظلہ العالی]
۵۔ آیت اللہ العظمی شیخ لطف اللہ صافی گلپائیگانی[مدظلہ العالی]
۶۔ آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی[مدظلہ العالی]
۷۔ آیت اللہ العظمی حسین وحید خراسانی[مدظلہ العالی]
جو بھی مسلمان ان میں سے کسی بھی ایک شخص کو اپنے مرجع تقلید کے عنوان سے منتخب کرکے اس کی توضیح المسائل کے مطابق اپنے شرعی اعمال بجالائے، اس نے مطمئن طور پر اپنے شرعی فریضہ کو انجام دیا ہے۔
بہرحال اس سوال کے سلسلہ میں حضرت آیت اللہ ہادوی تہرانی [دامت بر کاتہ ]کا جواب حسب ذیل ہے:
دو علماء، جن کی شہرت قابل اعتبار ھو، کی طرف رجوع کرکے، ہرقابل اعتماد و قابل یقین طریقہ سے اپنے مرجع تقلید کو معین کرسکتا ہے۔ استفتاآت کی سائیٹ سے لینک۔
اعلم (سب سے بڑے عالم) کی پہچان کے لئے تین طریقے معین کئے گئے ہیں، تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ ان میں سے ایک طریقہ کے ذریعہ اپنے قابل اعتماد مرجع تقلید کو منتخب کرکے اس کے فتوے پر عمل کرسکیں۔
اولا: یہ کہ انسان خود یقین پیدا کرے، یعنی وہ خود اہل علم ھو اور مجتہد و اعلم کو خود پہچان سکے۔
ثانیا: یہ کہ دو عادل افراد جو مجتہد و اعلم کو تشخیص دینے کی صلاحیت رکھتے ھوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔ اس شرط پر کہ ایسے ہی دوسرے دو عادل افراد ان کے بیان سے اختلاف نہ رکھتے ھوں۔
ثالثا: یہ کہ چند اہل علم افراد، جو مجتہد یا اعلم کی تشخیص دے سکتے ھوں، اور ان کے کہنے پر اطمینان پیدا ھو جائے، کسی کے مجتہد یا اعلم ھونے کی تصدیق کریں۔ [1]
آج کے زمانہ میں جبکہ ٹیکنالوجی نے زبردست ترقی کی ہے، دنیا کے کسی بھی کونے سے لوگ حوزہ علمیہ اور علماء سے رابطہ بر قرار کرکے تقلید کے مسئلہ میں آگاہی حاصل کرسکتے ہیں اور اس رابطہ کے ذریعہ اپنے مرجع تقلید کو منتخب کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر بات ہے کہ خوش قسمتی سے آج کل کے زمانہ میں حوزہ علمیہ قم کے کئی اساتذہ اور مجتہدین نے، ضروری صلاحیت رکھنے والے چند افراد کو مرجع تقلید کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ یہ افراد الف با کی ترتیب سے حسب ذیل ہیں:
۱۔ آیت اللہ العظمی سید کاظم حائری[مدظلہ العالی]
۲۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای[مدظلہ العالی]
۳۔ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی[مدظلہ العالی]
۴۔ آیت اللہ العظمی سید موسی شبیری زنجانی[مدظلہ العالی]
۵۔ آیت اللہ العظمی شیخ لطف اللہ صافی گلپائیگانی[مدظلہ العالی]
۶۔ آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی[مدظلہ العالی]
۷۔ آیت اللہ العظمی حسین وحید خراسانی[مدظلہ العالی]
جو بھی مسلمان ان میں سے کسی بھی ایک شخص کو اپنے مرجع تقلید کے عنوان سے منتخب کرکے اس کی توضیح المسائل کے مطابق اپنے شرعی اعمال بجالائے، اس نے مطمئن طور پر اپنے شرعی فریضہ کو انجام دیا ہے۔
بہرحال اس سوال کے سلسلہ میں حضرت آیت اللہ ہادوی تہرانی [دامت بر کاتہ ]کا جواب حسب ذیل ہے:
دو علماء، جن کی شہرت قابل اعتبار ھو، کی طرف رجوع کرکے، ہرقابل اعتماد و قابل یقین طریقہ سے اپنے مرجع تقلید کو معین کرسکتا ہے۔ استفتاآت کی سائیٹ سے لینک۔
[1] ۔ توضیح المسائل المحشی للامام الخمینی، ج ۱، ص: ۱۵ ظاہر ہے کہ ان عبارتوں میں اہل علم سے مراد علوم اسلامی کا عالم ہے۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے