اعلی درجے کی تلاش
کا
5602
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2011/05/21
 
سائٹ کے کوڈ fa4809 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 14163
سوال کا خلاصہ
کیا عقائد میں تقلید کے جائز نه هونے کا لازمه احکام میں تقلید کا جائز نه هونا نهیں هے؟
سوال
کها جاتا هے که عقائد میں تقلید نهیں کی جانی چاهئیے۔ میں عقائد سے متعلق روایتوں کا مطالعه کرتے هوئے کشمکش سے دوچار هوں اور اصولیوں اور اخباریوں کے مباحثه کے دور اور تسلسل کی طرف پلٹتا هوں، اگر اجتهاد کی ضرورت هے تاکه روایات کی طرف رجوع کروں، تو عقیده میں بھی اس کی ضرورت هے اور اگر ضرورت نهیں هے تو بدرجه اولیٰ اس میں بھی ضرورت نهیں هے، مگر افتا اور قضا میں {افتا اور قضا میں علم هونا} که اس میں کوئی مشکل نهیں هے- اس طرح جدید احکام کے بارے میں میرے لیے ثابت هے که علما کی طرف رجوع کرنا ضروری هے اور میں اس سلسله میں اخباریوں سے بحث کرتا هوں اور ان کو مسترد کرتا هوں۔
لیکن ثابت شده دور اور تسلسل یهاں پر هےکه مجھے مجتهد هونا چاهئیے تاکه اپنے رساله میں عقیده کے درد کی کوئی دوا پیدا کر سکوں، ورنه میرے لیے عقائد میں عقلی دلیل کے علاوه کوئی چیز نهیں هوگی، اور اس کو کوئی قبول نهیں کرتا هے، کیونکه روایات کا ایک حصه عقلی هے، پس اس قسم کی احادیث میں فقه کی طرف رجوع نه کرنا دور اور تسلسل هے، اگر همیں روایات کی طرف رجوع نهیں کرنا چاهئیے، تو همیں اجتهاد کے ادله اور مرجع وتقلید کی طرف رجوع کرنے کو قبول نهیں کرنا چاهئیے اور همیں صرف عقل کو قبول کرنا چاهئیے، یعنی جاهل کا عالم کی طرف رجوع کرنا، یه عقل کی سیرت هے، میرے خیال میں یه بھی قابل قبول نهیں هے، کیونکه مجتهد یا اعلم کی طرف رجوع کرنے میں مجھے اس قدر علم هونا چاهئیے که تاکه مجتهد اور اعلم کو پهچان سکوں- اسی طرح اگر میں شخص ثالث کی طرف رجوع کروں تو میں دور اور تسلسل سے دوچار هوتا هوں- پس اگر میں مجتهد نهیں هوں، تو کیا مجھے اس بات کی اجازت هے که اپنے اعتقادات کے بارے میں روایات کی طرف رجوع کروں؟
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا